-
قیامت کے دن کے گواہ قیامت کا دن جس کا وقوع برحق ہے ، جس پر ایمان لانا جزو ایمان ہے، جس دن ذرہ برابر کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا ، عدل و انصاف کا عالم یہ ہوگا کہ انسان تو انسان اگر جانور نے بھی کسی پر ظلم کیا ہوگا تو ان کے مابین بھی عدل کیا جائے گا ، قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر اور پہلو شہادت وگواہی کا ہے چونکہ انسانی فطرت ایسی ہے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کا عادی نہیں ہے، قیامت کے دن بھی انسان یہی روش اختیار کرے گا چنانچہ اللہ اتنے گواہ کھڑے کردے گا کہ انسان کے پاس انکار کی کوئی راہ باقی نہ بچے گی ۔
پہلا گواہ: اللہ رب العالمین :
اللہ جو ایسا علیم ہے کہ علیم بذات الصدور ہے ، جو خبیر ہے اور ایسا خبیر ہے کہ جس کو ہماری ہر حرکت کی خبر ہے ، سب سے بڑا شہید تو خود اللہ تعالیٰ ہوگا اور بندوں کے حق میں یہ سب سے بڑی شہادت ہوگی جس کو قرآن حکیم نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے ۔
{ قُلْ أَيُّ شَيْئٍ أَكْبَرُ شَهٰدَةً قُلِ اللّٰهُ شَهِيْدُ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ…}
’’آپ کہہ دیجئے! گواہی دینے کے لیے سب سے بڑی چیز کون ہے آپ کہہ دیجیے اللہ ،وہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے‘‘۔
[الأنعام: ۱۹]
سورہ یونس میں فرمایا:
{ وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِيدٌ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ }
’’اور جس کا ان سے ہم وعدہ کر رہے ہیں اس میں سے کچھ تھوڑا سا اگر ہم آپ کو دکھلا دیں یا ہم آپ کو وفات دے دیں سو ہمارے پاس تو ان کو آنا ہی ہے پھر اللہ ان کے سب افعال پر گواہ ہے‘‘۔
[یونس:۴۶]
سورہ فصلت میں فرمایا :
{ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ شَهِيْدٌ }
’’کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے آگاہ ہونا کافی نہیں‘‘۔
[فصلت:۵۳]
مذکورہ آیات میں اللہ رب العالمین کی ایک صفت کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہے’’شَهِيْدٌ‘‘۔ جو کہ پورے قرآن میں بطور اسم ۵۶مرتبہ وارد ہوا ہے۔ اور یہ ان صفات میں سے ایک ہے جو بغیر کسی اور صفت کے اقتران کے ذکر کیے گیے ہیں ۔
اللہ رب العالمین کی صفت ’’شہید‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: اَلَّذِي لَا يَغِيْبُ عَنْهُ شَيْء ٌ، وَلَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَائِ، بَلْ هُوَ مُطَّلِعٌ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ مُشَاهِدٌ لَهُ، عَلِيمٌ بِتَفَاصِيْلِهِ‘‘۔’’جس سے کوئی چیز پردۂ خفا میں نہ ہو ، اور آسمان و زمین میں کوئی ذرہ اس سے پوشیدہ نہ ہو، بلکہ وہ ہر چیز پر مطلع ہے اس کو دیکھنے والا ہے اور اس کی تفصیلی معلومات سے واقف ہے‘‘ ۔(۱)
اور ایک دوسری جگہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’کہ اللہ کی شہادت سب سے سچی اور عدل و انصاف والی ہوگی ، اس لیے کہ اللہ کی شہادت مکمل علم کی بنیاد پر ہوگی‘‘۔(۲)
دوسرا گواہ: فرشتوں کی گواہی :
اللہ نے ہمارے اقوال، اعمال حتیٰ کہ حرکات کو قلم بند کرنے کے لیے کراماً کاتبین کو ہمارے کندھوں پر بیٹھا رکھا ہے جو ہمارے حسنات و سیئات اور نیکی و بدی لکھ رہے ہیں ، ارشاد ربانی ہے:
{ وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰـفِظِينَ۔ كِرَاماً كٰتِبِيْنَ۔ يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُونَ}
’’حالانکہ تم پر نگہبان مقرر ہیں باعزت لکھنے والے جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں‘‘۔
[الانفطار:۱۰۔۱۲]
اور قرآن کریم کی آیت{ وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ }’’جس دن گواہ کھڑے کیے جائیں گے ، امام مجاہد اور سدی کہتے ہیں کہ’’الْأَشْهَادُ‘‘سے مراد فرشتے ہیں ۔ (۳)
تیسرا گواہ: پیغمبر کی گواہی اپنی امت کے حق میں :
قیامت کے روز ہر نبی کی گواہی اپنی امت کے حق میں لی جائے گی، قرآن کہتا ہے کہ:{ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰـٰٓؤُلَآئِ شَهِيْداً }’’ پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے‘‘۔[النساء:۴۱]
ابو مظفر ثمانی کہتے ہیں:’’وَأَرَادَ بِا لشَّهِيْدِ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ نَبِيِّهَا، وَشَهِيْدٌ هٰذِهِ الأُمَّةِ: نَبِيِّنَا‘‘۔’’شہید گواہ سے مراد ہر امت کا نبی ہے اور اس امت کے شہید و گواہ ہمارے نبی ﷺہوں گے ‘‘۔(۴)
ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’یہاں شہید سے مراد رسول ہیں ، جو اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے رب کی رسالت کو پہنچا دیا تھا‘‘۔ (۵)
اور سورہ حج میں فرمایا:{ لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ…} ’’تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں‘‘۔[الحج:۷۸]
امام سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں یعنی تمہارے اچھے اور برے اعمال کے بارے میں۔(۶)
چوتھا گواہ: امت محمدیہ کی گواہی :
بروز قیامت حساب وکتاب کے وقت جب لوگوں سے سوال وجواب ہوگا تو اس موقع پر جہاں بہت سارے گواہ کھڑے کیے جائیں گے ان میں ایک گواہ امت محمدیہ بھی ہوگی، اسی بات کو قرآن حکیم نے اس انداز میں بیان فرمایا ہے :
{ وَكَذَالِكَ جَعَلْنٰكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآئَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْداً }
’’ہم نے اسی طرح تمہیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہو جائے‘‘۔
[البقرۃ:۱۴۳]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ آیت کریمہ کے ضمن میں ایک روایت نقل کرتے ہیں:
عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ: يُدْعٰي نُوْحٌ فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغْتَ؟ فَيَقُوْل: نَعَمْ، فَيُدْعٰي قَوْمُهُ فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغَكُمْ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: مَا أَتَانَا مِنْ نَذِيْرٍ وَمَا أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ، فَيُقَال: مَنْ شُهُوْدُكَ؟ فَيَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ، قَالَ: فَيُؤْتٰي بِكُمْ تَشْهَدُوْنَ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ، فَذَالِكَ قَوْلُ اللّٰهِﷺ وَكَذَالِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُوْنُوْا شُهَدَائَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوَلُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا۔(۷)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ نوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا ان سے کہا جائے گا کیا آپ نے (رب کی آیتوں کو ) پہنچا دیا تھا،نوح علیہ السلام اثبات میں جواب دیں گے،چنانچہ ان کی قوم کو بلایا جائے گا، کہا جائے گا کیا انہوں نے تم تک (رب کی آیتوں کو)پہنچا دیا تھا توقوم نوح نفی میں جواب دیتے ہوئے کہے گی ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا ، نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا آپ کی گواہی کون دے گا ، نوح علیہ السلام کہیں گے محمدﷺ اور ان کے امتی، نبی ﷺنے فرمایا کہ پھر تم کو پیش کیا جائے گا اور تم اس بات کی گواہی دو گے کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کو پہنچا دیا تھا مذکورہ آیت کا یہی مفہوم ہے ۔
پانچواں گواہ: زمین کی گواہی :
اس روئے زمین پر جہاں کہیں انسان نے جو بھی عمل کیا ہے قیامت کے دن زمین کا وہ حصہ گواہی دے گا ، اللہ کا ارشاد: { يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا }’’اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کر دے گی ‘‘۔[الزلزال:۴]
نوال العید کہتے ہیں :’’کہ اگر بندے کو اس بات کا حقیقی علم ہو جائے تو وہ اعضاء و جوارح کے ذریعے سے لائق اطاعت کرنے کا حارث ہوگا اور اس بات کا خواہاں ہوگا کہ وہ اللہ کی زمین پر معصیت نہ کرے‘‘ ۔ (۸)
اس تعلق سے ایک ضعیف حدیث بیان کی جاتی ہے، حدیث کچھ یوں ہے: عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ:قَرَأَ رَسُوْلُ اللّٰهِﷺ: يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُهَا؟ قَالُوْا:اَللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:فَإِنَّ أَخْبَارَهَا أَنْ تَشْهَدَ عَلٰي كُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلٰي ظَهْرِهَا، أَنْ تَقُوْلَ عَمِلَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا۔قَالَ: فَهٰذِهِ أَخْبَارُهَا (۹) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے آیت { يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا } کو پڑھا ، آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو زمین کی خبریں کیا ہوں گی؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: زمین کی خبریں یہ ہوں گی کہ زمین ہر بندے اور لونڈی کے عمل کے بارے میں گواہی دے گی جو اس کی پشت پر ہوا ہے۔ زمین کہے گی (فلاں نے) ایسا اور ایسا کام کیا ایسے اور ایسے دن میں کیا ، آپ نے فرمایا: یہی زمین کی خبریں ہوں گی۔
چھٹا گواہ : اعضاء و جوارح :
بروز حشر انسان کے اعضاء ہاتھ ، پیر ، زبان،کان ، آنکھ حتیٰ کہ چمڑی بھی انسان کے خلاف گواہی دیں گے ۔ جس کو قرآن مقدس نے کئی ایک مقامات پر بیان کیا ہے۔
{اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰي أَفْوَٰهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُوْنَ } ’’ہم آج کے دن ان کے منہ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے ان کاموں کی جو کرتے تھے‘‘۔[یٰس:۶۵]
{يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ }’’جس دن ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ‘‘۔[النور:۲۴]
حَتَّيٰٓ إِذَا مَا جَآئُ وهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصٰرُهُمْ وَجُلُوْدُهُم بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ} ’’یہاں تک کہ جب بالکل جہنم کے پاس آ جائیں گے ان پر ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے‘‘۔[فصلت:۲۰]
امام سعدی رحمہ اللہ مذکورہ آیت کے ضمن میں کہتے ہیں کہ خصوصی طور پر انہی تین اعضاء کا ذکر اس لیے کیا گیا کیونکہ اکثر و بیشتر گناہ میں واقع یہی ہوتے ہیں یا گناہ کا سبب ہوا کرتے ہیں ۔ (۱۰)
ساتواں گواہ: بعض عبادات کی گواہی:
اس دن بعض عبادتیں بھی گواہ بن کر آئیں گی۔ مثلاً:
تلاوتِ قرآن کی گواہی : ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’اِقْرَؤُا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِيْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيْعًا لِأَصْحَابِهِ‘‘۔’’اے لوگو تم قرآن پڑھو اس لیے کہ بروز قیامت قرآن حکیم اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارشی بن کر کے آئے گا‘‘۔ (۱۱)
روزہ کی گواہی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اَلصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ الصِّيَامُ: أَيْ رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِاالنَّهَارِ، فَشَفِّعْنِيْ فِيْهِ، وَيَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِااللَّيْلِ، فَشَفِّعْنِيْ فِيْهِ، قَال: فَيُشَفَّعَانِ ‘‘۔’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے شفاعت کریں گے ،روزہ کہے گا: اے میرے رب میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا تھا لہٰذا اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما لے ، اور قرآن کہے گا: میں نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا تھا لہٰذا اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما لے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی‘‘۔(۱۲)
آٹھواں گواہ: حجر اسود کی گواہی :
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’ إِنَّ لِهٰذَا الْحَجَرِ لِسَانًا وَشَفَتَيْنِ، يَشْهَدُ لِمَنِ اسْتَلَمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَقٍّ‘‘ ’’یقینا حجر اسود کی ایک زبان ہے اور دو ہونٹ ہیں کل قیامت کے دن حجر اسود پورے حق کے ساتھ اس شخص کے بارے میں شہادت دے گا جس نے استلام کیا ہوگا‘‘۔ (۱۳)
اور استلام کی چند ایک صورتیں ہیں : بغیر کسی حائل کے بوسہ لینا اگر کثرت ازدحام کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو تو ہاتھ سے چھونا ، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی چیز مثلا ًعصا وغیرہ سے چھونا اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اشارے پر اکتفا کرنا۔
اللہ ہم سب کو قیامت کے دن کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھے۔آمین
حوالہ جات :
۱۔ مدارج السالکین ۔ط الکتاب العربی: ۳؍۴۳۳ ،ابن القیم (ت ۷۵۱)
۲۔ التفسیر القیم ۔ تفسیر القرآن الکریم لابن القیم :۱؍۱۹۸ ،ابن القیم (ت ۷۵۱)
۳۔ الجامع لأحکام القرآن: ۱۵؍۳۲۲ ،القرطبی، شمس الدین (ت ۶۷۱)
۴۔ تفسیر السمعانی :۱؍۴۲۸ ،أبو المظفر السمعانی (ت ۴۸۹)
۵۔ تفسیر العثیمین: النساء : ۱؍۳۳۴ ،ابن عثیمین (ت ۱۴۲۱) الآیۃ (۴۱)
۶۔ تیسیر الکریم الرحمن :۱؍۵۴۶ ،عبد الرحمن السعدی (ت ۱۳۷۶)
۷۔ سنن الترمذی۔ ت بشار :۵؍۷۵،ابو عیسیٰ الترمذی (ت ۲۷۹) ، صحیح الترمذی للألبانی (۲۹۶۱) صحیح
۸۔ موسوعۃ شرح أسماء اللہ الحسنیٰ: ۱؍۵۸۳ نوال العید
۹۔ سنن الترمذی ۔ت بشار :۴؍۲۲۵ ،أبو عیسیٰ الترمذی (ت ۲۷۹)
۱۰۔ تیسیر الکریم الرحمن :۱؍۷۴۷ ،عبد الرحمن السعدی (ت ۱۳۷۶)
۱۱۔ صحیح مسلم ۔ ط الترکیۃ: ۲؍۱۹۷ مسلم (ت ۲۶۱)
۱۲۔ مسند أحمد ۔ ط الرسالۃ: ۱۱؍۱۹۹ ،أحمد بن حنبل (ت ۲۴۱) الألبانی، صحیح الترغیب :(۹۸۴) حسن صحیح۔
۱۳۔ مسند أحمد ۔ ط الرسالۃ: ۴؍۲۲۶ ،أحمد بن حنبل (ت ۲۴۱) صحیح الجامع (۲۱۸۴) صحیح