Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • توفیق الہٰی کے اسباب و شرائط

    کوئی بھی نیک عمل اللہ کی توفیق کے بنا ناممکن ہے، کیونکہ ہر کام میں اللہ کی جانب سے بندے کو توفیق ملنا گویا اب اس کا یہ عمل قبولیت کے درجہ کو پہنچتا ہے۔
    نیک اعمال ایک مسلمان کا رَأس المال ہیں، انہی کے لیے وہ پیدا ہوا، انہی کا حساب ہوگا اور انہی پر اس کی دنیوی اور اخروی زندگی کا دارومدار ہے، اللہ اور رسول اللہ ﷺنے نیک اعمال کی طرف رغبت دلائی ہے، اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے نیک اعمال قبول کرنے اور ان پر دنیا و آخرت میں بہترین اجر و ثواب دینے کا وعدہ کیا ہے، فرمانِ الٰہی ہے:
    {وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَيٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا}
    ’’اور جو بھی نیک کام کرے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ صاحب ایمان بھی ہو، ان سب کو جنّت میں داخل کیا جائے گا اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا‘‘۔
    [النساء :۱۲۴]
    ہر مسلمان نیک اعمال کرنا چاہتا ہے لیکن ہر کسی کو اس کی توفیق نہیں ہوتی کیونکہ توفیق تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملتی ہے، نیک عمل کی توفیق بعض شرائط پوری کرنے پر ہی ملتی ہے، پھر نیک عمل انجام دینے کے بعد اس کی قبولیت اور حفاظت کے بھی بعض شروط ہیں ان سب کا جاننا ایک مسلمان کے لیے بے حد ضروری ہے۔
    نیک عمل کی توفیق اور اس کی قبولیت کے لیے چند شروط :
    (۱) ایمان (۲)اخلاص (۳) محبت الہٰی (۴) خشیت الہٰی (۵) اتباع سنت
    (۱) پہلی شرط: ایمان باللہ :
    امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ایمان قول اور عمل ہے، قول دل (کا اعتقاد) اور زبان (کا اقرار) اور عمل دل، زبان اور اعضائے جسمانی کا، اور یہ کہ ایمان اطاعت سے بڑھتا اور زیادہ ہوتا ہے اور معصیت سے اس میں کمی واقع ہوتی ہے۔
    [مجموع الفتاویٰ :۳؍۱۲،۱۵۱۔۴۷۱]
    ایمان باللہ نیک اعمال کی توفیق، اس کی قبولیت اور اس پر اجر ملنے کی پہلی سیڑھی ہے، ایمان کے بغیر کوئی بھی عمل قبول نہیں ہو سکتا، فرمانِ الٰہی ہے:
    {مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَيٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}
    ’’جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ) (ایمان والا) (ہو تو ہم اسے (دنیا) میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے‘‘۔
    [سورۃ النحل:۹۷]
    بنابریں اللہ تعالیٰ نے عمل کرنے والوں کے لیے دنیاوی اور اخروی ثواب کا ذکر فرمایا: ’’مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَيٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ‘‘۔ ’’جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت وہ مومن ہو’’ اس لیے کہ ایمان‘‘، عمل صالح کی صحت اور اس کی قبولیت کے لیے شرط ہے بلکہ عمل صالح کو ایمان کے بغیر عمل صالح کہا ہی نہیں جاسکتا، ایمان عمل صالح کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ ایمان تصدیق جازم کا نام ہے، واجبات و مستحبات پر مشتمل اعمال جوارح ایمان کا ثمرہ ہیں۔
    پس جو کوئی ایمان اور عمل صالح کو جمع کرلیتا ہے’’فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً‘‘۔ ’’تو ہم اس کو زندگی دیں گے اچھی زندگی‘‘ یہ زندگی اطمینان قلب، سکون نفس اور ان امور کی طرف عدم التفات پر مشتمل ہے جو قلب کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح رزق حلال سے نوازتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ’’وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ ‘‘’ ’اور ہم بدلے میں دیں گے ان کو‘‘ یعنی آخرت میں ’’أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ‘‘ ’’ان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ‘‘یعنی اللہ تعالیٰ انہیں مختلف قسم کی لذات سے نوازے گا جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال گزرا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی بھلائی سے نوازے گا اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کرے گا۔
    (تفسیر تیسیر الرحمٰن ،تفسیر ابن کثیر ،تفسیر السعدی ،سورۃ النحل:۱۶؍۹۷ )
    اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عمل صالح کی قبولیت کو ایمان کے ساتھ مشروط کیا ہے۔
    (۲) دوسری شرط : اخلاص
    اخلاص یہ ہے کہ نیک عمل خالصتاً اللہ کے لیے ہو اور اس کا مقصود دنیا کا حصول، ریاکاری یا غیر اللہ کی خوشنودی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰـ کا فرمان ہے:
    {فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء َ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا}
    ’’ پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے‘‘۔
    [سورۃ الکہف :۱۱۰]
    حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ کے نزدیک عمل مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں :
    ایک تو یہ کہ وہ شریعت محمدیہ کے مطابق ہو، اور دوسری یہ کہ اس سے مقصود صرف اللہ کی خوشنودی ہو، شہرت، نام و نمود، ریاکاری یا کوئی اور دنیاوی غرض مقصود نہ ہو۔
    (تفسیر ابن کثیر :۱۸؍۱۱۰)
    اسی طرح حدیث میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا گیا تو انہوں نے بارگاہِ رسالت مآبﷺمیں عرض کیا :یا رسول اللہ!مجھے نصیحت فرمائیں، آپ ﷺنے فرمایا:دین میں اخلاص پیدا کر، تجھے تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا۔
    [أخرجہ الحاکم فی المستدرک: ۴؍ ۳۴۱]
    حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا:’’لوگوں کی خاطر عمل ترک کر دینا ریا ہے، اور لوگوں کی خاطر عمل کرنا شرک ہے اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ان دونوں باتوں سے محفوظ رکھے‘‘۔
    [وابن قیم الجوزیۃ فی مدارج السالکین، ۲؍ ۶۹]
    (۳،۴)تیسری و چوتھی شرط: محبت الٰہی و خشیت الٰہی:
    یہ دونوں شرائط بھی ضروری ہیں، کیونکہ ہر وہ عمل جو خشیتِ الٰہی اور محبتِ الٰہی پر مبنی نہ ہو، وہ عبادت نہیں ہے، اللہ کو غایت درجے کی محبت جو عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہو وہ مطلوب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّٰـهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَٰـهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ}
    ’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں‘‘۔
    [سورۃ البقرہ : ۱۶۵]
    آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایماندار اللہ تعالیٰ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں، ان کے دل عظمت الٰہی اور توحید ربانی سے معمور ہوتے ہیں، وہ اللہ کے سوا دوسرے سے ایسی محبت نہیں کرتے، نہ کسی اور سے التجا کرتے ہیں نہ دوسروں کی طرف جھکتے ہیں اور نہ اس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔
    اور حقیقتاً یہی محبت الٰہی و خشیتِ الٰہی ہے۔جیسا کہ حدیث میں وارد ہے:
    عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺسے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے؟ فرمایا :یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔
    [صحیح بخاری: ۷۵۲۰]
    اسی طرح یہ جاننابھی ضروری ہے کہ اہل ایمان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا خوف کس درجہ کا ہونا چاہیے؟
    اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
    جیسا کہ نبیﷺکا فرمان ہے :
    ’’جہاں بھی رہواللہ سے ڈرو، برائی کے بعد (جوتم سے ہوجائے) بھلائی کروجو برائی کومٹادیاورلوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ‘‘۔
    [جامع الترمذی:۱۹۸۷،حسن صحیح، وحسنہ الألبانی ]
    غور طلب:
    ’’اتَّقِ اللّٰهِ حيثُ ما كنتَ‘‘بہت ہی جامع کلمہ ہے، ہم تنہائی میں ہوتے ہیں ساتھ میں نٹ والاموبائل ہوتا ہے، اس میں خواہشات نفس کا ہرسامان موجود ہے، اللہ کا خوف نہیں ہوگا تو یہاں برائی کرنے سے نہیں رک سکتے، کسی کے ذمہ کمپنی کا حساب وکتاب ہو تو اس معاملے میں وہی امین ہوگا جو اللہ سے ڈرنے والا ہوگا لیکن اکثر لوگ اللہ سے نڈر ہیں، آج برائی کا زمانہ ہے، معمولی پیسوں میں زنا کرنے کا موقع مل جاتا ہے، شیطان بہکاکر شیطانی کام کرواتا ہے، بچتا وہی ہے جو اللہ کا خوف کھاتا ہے۔
    غور کیا جائے تو آج ہمارے پاس ہرقسم کا خوف ہے ، غربت کا خوف ہے، دشمن کا خوف ہے ، نوکری چلے جانے کا خوف ہے ، تنخواہ کٹ جانے کا خوف ہے ، بیماری کا خوف ہے، ۔ناکامی کا خوف ہے، اگر خوف نہیں تو اللہ کا خوف نہیں ہے جبکہ صرف اور صرف اللہ کا خوف ہونا چاہئے۔
    (۵) پانچویں شرط : اتباع سنت
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول اللہ ﷺ کی اتباع اور اطاعت کا حکم دیا ہے، رسول اللہ ﷺ سے محبت اور تعلقات مضبوط کرنے کا حکم دیا ہے، یہ بھی کہ اللہ اور اس کا رسول ہمارے ہاں کسی بھی دیگر چیز سے زیادہ محبوب ہونے چاہیے، پھر آپ ﷺ نے اپنی اطاعت اور محبت کے عوض اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزت افزائی کی ضمانت بھی دی ہے‘‘۔
    [مجموع الفتاویٰ:۱ ؍۳۳۴]
    عمل اگر سنت کے مطابق نہ ہو تو وہ کھوٹا سکہ یا گھٹیا مال ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں، قرآن و حدیث کی دلیلیں اتباع سنت کے احکام سے بھری پڑی ہیں، اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ نبی ﷺکی اتباع کریں، فرمان باری تعالیٰ ہے :
    {قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ}
    ’’(آپﷺ) فرما دیں: اگر تم اﷲسے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تب اﷲتمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔
    [آل عمران:۳۱]
    اسی طرح حدیث کے الفاظ ہیں:
    رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
    ’’مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ‘‘۔
    ’’جو شخص ایسا کام کرے جس کے لیے ہمارا حکم نہ ہو (یعنی دین میں ایسا عمل نکالے)تو وہ مردود ہے‘‘۔
    [صحیح مسلم:۱۷۱۸، صحیح بخاری: ۲۶۹۷]
    اس حدیث کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
    ’’یہ حدیث اسلام کے قواعد میں سے ایک عظیم قاعدہ ہے اور یہ نبی ﷺکے جامع الکلم میں سے ہے اور یہ بدعات و نئی ایجادات کی تردید میں صریح حدیث ہے‘‘۔
    [شرح مسلم للنووی:۲؍۱۵ ح ۱۷۱۸]
    خلاصۂ کلام:
    مذکورہ اسباب و شرائط پر تدبر و غور و فکر اختیار کرتے ہوئے بندہ اللہ کے احسان وفضل کو ہمہ وقت یاد رکھے کہ اللہ نے انہیں ہدایت سے سرفراز کیا، اس کی مدد ونصرت فرمائی اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشی اور دنیا میں بہترین خوش حال و اطمینان بخش زندگی عطا فرمائی اور ہر طرح کی خیر و بھلائی عطا فرمائی۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings