Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • بچوں کی ایمانی نشو و نما میں ماں کا کردار

    عورت جب ماں بنتی ہے تو اس دوران سہے گئے درد اور تکلیف کے عوض ’’ماں‘‘ کا اعزاز پاتی ہے، یہ لفظِ’’ ماں‘‘ ایک ایسا مقام ہے کہ اس مقام پر اولاد کا اُف کہنا بھی نافرمانی ٹھہرتا ہے۔
    ایک ماں جب اپنے لخت جگر کو گود میں لیتی ہے، اسے دل کا ٹکڑا سمجھتی ہے اور اس کی ہر پریشانی اپنی پریشانی خیال کرتی ہے توایسے وقت میں شریعت اسلامیہ اسے چند اصول و ضوابط سے نوازتی ہے کہ اب وہ معاشرے کی عام لڑکی نہیں رہی بلکہ اس کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے، اب اس کی مسئولیت دوگنی ہوگئی ہے، اس کے کندھے پر اولاد کی پرورش کے ساتھ ساتھ ان کے تعلیم و تربیت کی ذمہ داری عائد کردی گئی ہے، یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے کسی بھی ماں کو جائے فرار نہیں۔
    یہ اولاد اللہ کی نعمت کے ساتھ ساتھ بہت بڑی امانت ہے، اس کی پرورش اور بہترین تربیت کرنا اللہ کا عہد و میثاق ہے اور اسے کماحقہ نبھانا اہل ایمان کی علامت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ المؤمنون میں کامیاب مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
    {وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُون۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَي صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ۔ أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ۔ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ}
    [المومنون:۸ – ۱۱]
    ’’جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں، جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں، یہی وارث ہیں، جو فردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
    ایک دوسری آیت میں اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ}
    [الأنفال:۲۷]
    ’’اے ایمان والو!تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں خیانت مت کرو‘‘۔
    آپ کی اولاد خواہ بیٹا ہو یا بیٹی اللہ کی عظیم نعمت ہے، دنیا میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ اس نعمت سے تاحیات محروم رکھتا ہے، ان کی آنکھیں اولاد جیسی نعمت کے لیے ترستی ہیں۔
    جیسا کہ اللہ ربّ العزّت کا ارشاد ہے:
    {لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاء ُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاء ُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاء ُ الذُّكُورَ۔أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاء ُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ}
    [ الشوریٰ:۴۹- ۵۰]
    ’’آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے، یا انہیں جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے، وہ بڑے علم والااور کامل قدرت والاہے‘‘۔
    ایک مثالی ماں اللہ کی ہر نعمت کی قدر کرتی ہے، بیٹی ہو یا بیٹا اسے برابر کی تربیت دیتی ہے، اللہ کی امانت سمجھتی ہے، ہر وقت اسے اللہ کے یہاں جواب دہی کا احساس رہتا ہے، کیونکہ ایک ماں اپنی اولاد کی ذمہ دار ہے اس سے اس کی ذمہ داری کے تئیں بروز قیامت استفسار ہوگا، نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ‘‘۔[صحیح البخاری:۵۲۰۰، صحیح مسلم:۴۷۲۴]
    ’’تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا‘‘۔
    ایک مثالی ماں ہر وقت اولاد کے تئیں مسئولیت کو ملحوظِ خاطر رکھتی ہے اور تربیت کے تمام پہلوؤں پر غور و خوض کرتی ہے۔
    یوں تو ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے، توحید اس کے دل میں بستی ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اس نے توحید کا اقرار اور شرک سے براء ت کا اعلان عالمِ ارواح میں کیا ہے، لہٰذا جب وہ دنیا میں آتا ہے تو اسی توحید اور دین فطرت پر آتا ہے، اس دین فطرت کی حفاظت کرنا، اسے مزید سنوارنااور اس میں راسخیت لانا ایک مثالی ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی توحید کی حفاظت کرے، جیسا کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَي الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ‘‘۔[صحیح البخاری:۶۵۵۹، صحیح مسلم:۶۷۶۰]
    ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘۔
    اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج ہمارے والدین گرچہ اپنی اولاد کو یہود ونصاریٰ نہیں بناتے ہیں لیکن وہ توحید پرست بھی نہیں رہنے دیتے، فسق و فجور کے نوع بنوع اقسام میں اپنی اولاد کو ملوث کردیتے ہیں، انہیں اتنا بھی خیال نہیں رہتا کہ یہ اولاد جہاں رحمت ہیں وہیں زحمت بھی ہیں۔
    اگر ہم اپنی اولاد کی تربیت میں واقعتًا حساس ہیں تو سب سے پہلے ہمیں انہیں توحید کا درس دینا ہوگا، شرک کی خطرناکی سے آگاہ کرنا ہوگا، بدعات وخرافات سے اجتناب کرانا ہوگا، کلمۂ توحید کے ارکان و شروط سمجھانا ہوگا تبھی جاکر ہم انہیں کفر و عصیان کی راہ سے نکال پائیں گے، جیسا کہ پیارے نبی ﷺ نے کم عمر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّه‘‘۔[جامع الترمذی:۲۵۱۶، و صححہ الالبانی فی المشکاۃ :۵۳۰۲]
    ’’تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاو گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو‘‘۔
    اس حدیث کی روشنی میں ہر ماں کی اولین ذمہ داری کہ اپنی اولاد کو اِن جیسے توحید کے کلمات ازبر کرائیں، اسے ان کے قلب ودماغ میں راسخ کرائیں کیونکہ اسی پر پوری زندگی کی کامیابی کا انحصار ہے۔
    مثالی ماں کے لیے ضروری ہے کہ بچپن سے ہی اپنی اولاد کی تعلیم پر زور دے، خود شریعت کو جاننے والی ہو تو توحید کے اقسام، کلمۂ توحید کے معانی و مطالب، چھوٹی چھوٹی سورتیں سکھائے، اگر عالمہ نہ ہو تو وہ اپنے بچوں کے لئے اچھے اساتذہ کاانتخاب کرے، کیونکہ دین کی بنیادی تعلیمات ہر شخص پر واجب ہے، اسلامی شعائر سے واقفیت ہر شخص پر فرض ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَي كُلِّ مُسْلِم‘‘۔
    [سنن ابن ماجہ:۲۲۴، وصححہ الالبانی]
    ’’علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔
    اولاد کی شرعی بنیادوں پر تربیت سب سے بڑھ کر او رشاندار صدقۂ جاریہ ہے، ہر ماں کو اس کا حریص ہونا چاہیے، جیسا کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
    ’’إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ، إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ‘‘۔
    [صحیح مسلم:۴۲۲۳]
    ’’جب انسان فوت ہوجائے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے) صدقۂ جاریہ، یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے‘‘۔
    اس حدیث سے اولاد کی تربیت کی اہمیت کھل کر سامنے آجاتی ہے، جب ہماری اولاد نیک ہوگی، صالح ہوگی، برائیوں سے لت پت نہیں ہوگی، تبھی ہماری اولاد ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنے گی۔
    یہ اولاد ہماری آخرت کی تیاری ہے ہم جس قدر اس کی تربیت پر توجہ دیں گے اسی قدر ہم امانت کی ادائیگی میں کامیاب سمجھے جائیں گے ورنہ بروز قیامت ذلت ورسوائی کا سامنا ہوگا، کبھی وہ دنیا میں فتنہ وفساد کے باعث بنیں گے تو کبھی ہماری آخرت برباد کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے، چناچہ اللہ ربّ العالمین نے اسے فتنہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
    {إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ}
    [ التغابن:۱۵]
    ’’تمہارے مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمائش ہیں اور بہت بڑا اجر اللہ کے پاس ہے‘‘۔
    اگر ہم خود کو ،اپنی اولاد کواور اپنے اہل خانہ کو فتنہ وفساد سے محفوظ رکھنا چاہتے تو انہیں نماز کا پابند بنانا چاہیے کیونکہ یہ نماز ہمارے بچوں کو تقویٰ کا عادی بنائے گی، معصیت سے بیزار بنائے گی، جیسا کہ اللہ ربّ العالمین کا ارشاد ہے:
    {وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَي}
    [طہ:۱۳۲]
    ’’اپنے گھرانے کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ، ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، آخر میں بول بالاپرہیزگاری ہی کا ہے‘‘
    اسی لیے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
    ’’مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاء ُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاء ُ عَشْرٍ سِنِينَ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِع‘‘۔
    [سنن أبی داؤد:۴۹۵ وقال الالبانی رحمہ اللہ:حسن صحیح فی المشکاۃ:۵۷۲]
    ’’جب تمہاری اولاد سات سال کی ہوجائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو‘‘۔
    پیارے نبی ﷺنے اللہ سے محبت ، اس سے امید، اس سے خوف کے جملہ صفات پیدا کرنے کے لیئے کم عمری ہی سے نماز کا عادی بنانے کا حکم دیا، مثالی ماں شرعی نصوص کو سامنے رکھ کر اپنی اولاد کی تربیت کرتی ہے، اپنے بچوں میں نیک کام کرنے پر اللہ سے ملاقات کی امید دلاتی ہے جبکہ گناہ و معصیت کے کام پر اللہ کا خوف دلاتی ہے، ان کے سامنے دھوکے سے بھی جھوٹ نہیں بولتی، جو بھی بولتی ہے تول کر بولتی ہے تاکہ اپنی اولاد کو غلط الفاظ و جملوں کے ساتھ ساتھ غلط کاموں سے بھی دور رکھ سکے۔
    جب ایک ماں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتی تو دراصل وہ جنت کے لئے اپنی زاد آخرت تیار کررہی ہوتی ہے، لیکن اگر وہ اپنی اولاد کی تربیت میں سستی و کاہلی سے کام لیتی تو تو دراصل وہ جہنم کے لئے زاد سفر تیار کررہی ہے، چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ}
    [التحریم:۶]
    ’’ اے ایمان والو!تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘۔
    جب مثالی مائیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں گی تو ان کے حسنِ تربیت کی وجہ سے ایسی نسلیں پیدا ہوں گی جو سماج و معاشرہ کے لئے علم و عرفان، حق و صداقت، عدالت و شجاعت اور اخلاص و للہیت کے باب میں مثالی ہوں گی۔
    ٭ ٭ ٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings