Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) کے احکام و مسائل

    اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، اس عبادت کا سب سے اہم اور بنیادی حصہ نماز ہے، نماز اسلام کا دوسرا ستون ہے اور اصل ایمان کی نشانی ہے، یہی قربت الٰہی کا ذریعہ ہے اور یہی دل کی پاکیزگی واصلاح اخلاق کا سبب ہے، اسی نماز سے دنیوی واخروی فلاح وکامرانی مربوط ہے۔
    شریعت نے عبادات میں جہاں فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا ہے وہیں سنن ونوافل کی بھی رغبت دلائی ہے تاکہ انسان کا اللہ رب العالمین سے تعلق مضبوط رہے، جن میں نماز کے سنن ونوافل کے بھی کئی فضائل شریعت میں وارد ہیں۔
    انہی سنن ونوافل میں سے چاشت کی نماز بھی ہے، جس کے کئی فضائل احادیث صحیحہ میں مروی ہیں، اور اکثر لوگ اس نماز سے اور اس کے فضائل سے نا آشنا ہیں، یہ ایسی سنت ہے جس پر سابقہ امتوں کے نیکوکار لوگ بھی عامل رہے ہیں، اور نبی کریم ﷺ نے بھی اس کو ادا کرنے کے ساتھ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی اس کے ادا کرنے پر ابھارا ہے۔
    ابو ہریرہ اور ابو درداء رضی اللہ عنہما سے مروی روایت کے مطابق کہ نبی کریم ﷺنے انہیں تین چیزوں کی وصیت فرمائی تھی کہ ان پر وہ زندگی بھر عمل کرتے رہیں، جس میں ایام بیض کے تین روزے، چاشت کے وقت کی نماز اور رات میں وتر کی نماز پر مداومت تھی۔
    چنانچہ ایام بیض کے روزوں کے حوالہ سے کچھ ماہ قبل ہی ایک مکمل مضمون آپ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا جاچکا ہے اور ابھی اسی حدیث کے دوسرے ٹکڑے ’’صلاۃ الضحی‘‘کے احکام ومسائل پر مضمون حاضر خدمت ہے :
    (۱) صلاۃ الضحیٰ کا مفہوم :
    لغت میں’’ضُحیٰ‘‘کا مطلب ہوتا ہے چاشت کا وقت (ظرف زمان)
    یعنی ایسا وقت جب سورج مکمل طلوع ہوکر روشن ہوجائے اور پھر گرمی کا احساس ہونے لگے۔
    شرعاً اس سے مراد وہ نماز ہے جو صلاۃ الضحیٰ کی نیت سے دن کے اس خاص وقت میں ادا کی جاتی ہے جب سورج بلند ہوجائے۔
    [إعانۃ الطالبین للدمیاطی :۱؍۲۹۳]
    یعنی دن کے آغاز اور اول وقت میں سورج مکمل طلوع ہوکر روشن ہونے کے بعد دو یا دو سے زیادہ رکعتوں کی نفلی نماز ادا کرنا، اور اس اول وقت میں نماز ادا کرنے کو نماز اشراق کہتے ہیں، یا پھر سورج کے مکمل اونچا ہوکر گرمی کی شدت پیدا ہونے کے بعد اور ظہر کی نماز سے کچھ دیر پہلے تک دو یا دو سے زیادہ رکعتوں کی نفل نماز ادا کرنے کو صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز)کہتے ہیں۔
    صلاۃ الضحیٰ کو فقہی ابواب میں’’صلاۃ الإشراق‘‘اور’’صلاۃ الأوابین‘‘کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔
    (۲) صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) کی مشروعیت اور اس کا حکم:
    صلاۃ الضحیٰ کی مشروعیت کے سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے :
    پہلا قول: یہ مطلقاً مستحب ہے، اور یہ جمہور فقہاء و ائمہ کا مذہب ہے۔
    [حاشیۃ ابن عابدین (۲۲۲)، التاج والإکلیل (۲) (۳۷۱) ، روضۃ الطالبین (۱؍۳۳۲)، الإنصاف ( ۲؍۱۹۰)، وعزاء للجمہور النووی فی المجموع (۴؍۴۰)، وأبو العباس القرطبی فی المفہم(۶؍۱۴۱)( نیل الأوطار (۳؍۷۶)]
    دوسرا قول: یہ مشروع نہیں ہے، اور یہ بعض صحابہ مثلاً: ابن عمر، ابن مسعود، عبدالرحمن بن عوف، انس بن مالک، اور ابی بکرہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔[رواہ ابن أبی شیبۃ (۷۷۸۲) وعبد الرزاق (۴۸۷۴) (۴۸۷۶) وأحمد (۲۰۴۶۰) شرح ابن بطال (۳؍۱۶۸)]
    بلکہ بعض نے اسے بدعت قرار دیا ہے، جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے لوگوں کو یہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ یہ بدعت ہے۔[رواہ البخاری (۱۱۷۵)، ویحتمل أنہ أراد إنکار التسمیۃ لأنہا توقیف من الشارع ولیس إباحۃ الصلاۃ، وقد جاء ذلک صریحًا عنہ قال وللضحی صلاۃ مصنف ابن أبی شیبۃ ۷۷۸)]
    تیسرا قول: یہ کبھی پڑھی جائے اور کبھی چھوڑ دی جائے، جیسا کہ فقہاء کہتے ہیں: کبھی کبھی پڑھی جائے، یعنی ایک دفعہ پڑھی جائے اور دوسری دفعہ چھوڑ دی جائے، اور یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما، سعید بن جبیر، منصور اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ جمیعاً۔
    [رواہ ابن أبی شیبۃ ۷۷۸۳،۷۷۹۳،۷۷۹۴]
    اور بعض دیگر علماء سے یہی منقول ہے۔[شرح ابن بطال: ۳؍۱۶۹، إکمال المعلم:۳؍۵۳]
    چوتھا قول: یہ کسی خاص سبب کی بنا پر جیسے سفر سے واپسی یا رات کی نماز قضاہونے کی صورت میں مستحب ہے، اسے ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔[الفتاویٰ الکبریٰ :۲؍۱۲۷، زاد المعاد:۱؍۳۴۵]
    پانچواں قول: اسے چھوڑنا مکروہ ہے، اور اسے قرافی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔[البحر المحیط :۱؍۴۰۰]
    راجح قول: مطلقاً مشروع ہے، کیونکہ اس کی فضیلت کے بارے میں بہت سی صحیح اور متواتر احادیث وارد ہوئی ہیں، جیسا کہ محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ احادیث تواتر کی حد تک پہنچ گئی ہیں۔
    [المواہب اللدنیۃ وشرحہا للزرقانی:۱۱؍۲۳]
    قرآن مجید سے صلاۃ الضحیٰ کی مشروعیت کی دلیل :
    {إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ}
    ترجمہ:’’ہم نے پہاڑوں کو ان (داود علیہ السلام) کے تابع کر رکھا تھا کہ ان کے ساتھ شام کو اور صبح کو تسبیح خوانی کریں‘‘۔
    [ص:۱۸]
    اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں اس آیت ( يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ) کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے، یہاں تک کہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا کہ:’’فتح مکہ کے دن نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، آپ ﷺنے وضو کیا اور پھر صلاۃ الضحیٰ ادا کی، اور فرمایا:’’اے ام ہانی!یہی نماز اشراق ہے‘‘۔
    عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا صلاۃ الضحیٰ کی مشروعیت کے سلسلے میں اس آیت سے استدلال کرنا تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر بغوی اور موسوعۃ تفسیر المأثور وغیرہ میں مذکور ہے۔
    نیز حدیث میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
    ’’أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّي أَمُوتَ: صَوْمِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَصَلَاةِ الضُّحَي، وَنَوْمٍ عَلَي وِتْرٍ‘‘۔
    ’’مجھے میرے جانی دوست (نبی کریمﷺ)نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت تک ان کو ترک نہ کروں:ہر مہینہ میں تین دن (ایام بیض) کے روزے، چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا‘‘۔
    [ صحیح البخاری:۱۱۷۸، صحیح مسلم :۷۲۱]
    شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
    ’’نبی ﷺ نے خود بھی یہ نماز پڑھی ہے، اور صحابۂ کرام کو بھی اس کی ترغیب دلائی ہے ‘‘۔
    [مجموع الفتاویٰ :۱۱؍۳۸۹ بتصرف]
    صلاۃ الضحیٰ کا حکم :
    صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز)سنت مؤکدہ ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ خود بھی اسے پڑھتے رہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ :’’رسول اللہ ﷺ چاشت کی نماز چار رکعت پڑھا کرتے تھے، اور بسا اوقات جتنی اللہ تعالیٰ توفیق دیتا تو آپ اس سے زیادہ بھی ادا کرتے تھے‘‘۔
    [صحیح مسلم :۷۱۹]
    اور آپ نے اپنے بعض صحابۂ کرام کو بھی اس کا تاکیدی حکم دیا، اور کسی شخص کو شارع کا تاکیدی حکم پوری امت کے لیے تاکیدی حکم ہوتا ہے، الا یہ کہ کسی شخص کے لیے اس کے خاص ہونے کی دلیل ثابت ہو، اس کی دلیل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، انہوں نے فرمایا:
    ’’أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّي أَمُوت:صَوْمِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَصَلَاةِ الضُّحَي، وَنَوْمٍ عَلَي وِتْرٍ‘‘۔
    ’’مجھے میرے جانی دوست (نبی کریم ﷺ)نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت تک ان کو ترک نہ کروں:ہر مہینہ میں تین دن روزے، چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا‘‘۔
    [ صحیح البخاری :۱۱۷۸، صحیح مسلم :۷۲۱]
    (۳) صلاۃ الضحیٰ کے فضائل :
    صلاۃ الضحیٰ کی فضیلت کے سلسلے میں کئی احادیث وارد ہیں، جن میں سے چند صحیح احادیث درج ذیل ہیں:
    ۱۔ یہ وصیت نبوی ﷺہے:
    ’’أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّي أَمُوت:صَوْمِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَصَلَاةِ الضُّحَي، وَنَوْمٍ عَلَي وِتْرٍ‘‘۔
    ’’مجھے میرے جانی دوست (نبی کریم ﷺ)نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت تک ان کو ترک نہ کروں:ر مہینہ میں تین دن روزے، چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا‘‘۔
    [ صحیح البخاری :۱۱۷۸، صحیح مسلم :۷۲۱]
    ۲۔ عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ ، قَالَ:’’أَوْصَانِي حَبِيبِي صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ، لَنْ أَدَعَهُنَّ مَا عِشْتُ، بِصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَصَلَاةِ الضُّحَي، وَبِأَنْ لَا أَنَامَ حَتَّي أُوتِرَ‘‘۔
    ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:’’میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی تلقین فرمائی ہے، جب تک میں زندہ رہوں گا ان کو کبھی ترک نہیں کروں گا، ہر ماہ تین دنوں کے روزے، چاشت کی نماز اور یہ کہ جب تک وتر نہ پڑھ لوں نہ سوؤں‘‘۔
    [صحیح مسلم:۷۲۲]
    امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’نبی کریم ﷺ کا ابو درداء اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کو وصیت کرنا صلاۃ الضحیٰ کی فضیلت، اس کے کثرت ثواب اور تاکیدی عمل پر دلالت کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس پر محافظت برتی اور اسے کبھی نہیں چھوڑا‘‘۔
    [المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم للقرطبی ط دار ابن کثیر:۲؍۳۵۹]
    ۳۔ یہ نماز ہر دن کے صدقہ کا متبادل ہے :
    عن أبي ذر رضي اللّٰه عنه عن النبى ﷺ أنه قال:’’يُصْبِحُ عَلَي كُلِّ سُلَامَي مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحَي‘‘۔
    حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا:’’صبح کو تم میں سے ہر ایک شخص کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہوتا ہے، پس ہر ایک تسبیح (ایک دفعہ سبحان اللہ کہنا) صدقہ ہے، ہر ایک تحمید (الحمد للہ کہنا) صدقہ ہے، ہر ایک تہلیل (لا الہ الا اللہ کہنا) صدقہ ہے، ہر ایک تکبیر (اللہ اکبر کہنا) بھی صدقہ ہے، (کسی کو) نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور (کسی کو) برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے، اور ان تمام امور کی جگہ دو رکعتیں جو انسان چاشت کے وقت پڑھتا ہے کفایت کرجاتی ہیں‘‘۔
    [صحیح مسلم:۷۲۰]
    امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
    ’’وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحَي‘‘میں’’وَيَجْزِئُ‘‘کو پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ یاء پر ضمہ پڑھا جائے، ایسی صورت میں اس کا مطلب ہوگا:قائم مقام ہونا(یعنی یہ دو رکعتیں صدقہ کے قائم مقام ہو جائیں گے) یا پھر اس پر فتحہ پڑھا جائے، ایسی صورت میں اس کا مطلب ہوگا:کافی ہونا، اور اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ صلاۃ الضحیٰ کی بہت فضیلت ہے اور اس کا بڑا مقام ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ (کم از کم) صلاۃ الضحیٰ دو رکعتیں پڑھنا صحیح ہے‘‘۔
    [المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج:ط دار احیاء التراث العربی:۵؍۲۳۴]
    ۴۔ عن أبي بريدة قال: سمعت رسول اللّٰه ﷺ يقول:’’فِي الْإِنْسَانِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ مَفْصِلًا، فَعَلَيْهِ أَنْ يَتَصَدَّقَ عَنْ كُلِّ مَفْصِلٍ مِنْهُ بِصَدَقَةٍ، قَالُوا: وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ؟ قَالَ:’’النُّخَاعَةُ فِي الْمَسْجِدِ تَدْفِنُهَا، وَالشَّيْء ُ تُنَحِّيهِ عَنِ الطَّرِيقِ، فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فَرَكْعَتَا الضُّحَي تُجْزِئُكَ‘‘۔
    بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:’’انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور انسان کو چاہئے کہ ہر جوڑ کی طرف سے کچھ نہ کچھ صدقہ دے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی ﷺ! اتنی طاقت کس کو ہے؟ آپ نے فرمایا:مسجد میں تھوک اور رینٹ کو چھپا دینا اور (موذی) چیز کو راستے سے ہٹا دینا بھی صدقہ ہے، اور اگر ایسا اتفاق نہ ہو تو چاشت کی دو رکعتیں ہی تمہارے لیے کافی ہیں‘‘۔
    [سنن أبی داؤد:۵۲۴۲، وصححہ الألبانی]
    ۵۔ اس نماز کا اجر حج و عمرے کے ثواب کے برابر ہے :
    عن أنس بن مالك رضي اللّٰه عنه، قَال: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:’’مَنْ صَلَّي الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللّٰهَ حَتَّي تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّي رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ ‘‘۔قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :’’تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ‘‘۔
    انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے نماز فجر جماعت سے پڑھی پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج نکل گیا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو اسے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملے گا‘‘۔وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’پورا، پورا، پورا،( یعنی حج و عمرے کا پورا ثواب)‘‘۔
    ۶۔ عن أبي أمامة رضي اللّٰه عنه أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال:’’مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا إِلَي صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ، وَمَنْ خَرَجَ إِلَي تَسْبِيحِ الضُّحَي لَا يَنْصِبُهُ إِلَّا إِيَّاهُ فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ، وَصَلَاةٌ عَلَي أَثَرِ صَلَاةٍ لَا لَغْوَ بَيْنَهُمَا كِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ‘‘۔
    ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو اپنے گھر سے وضو کرکے فرض نماز کے لیے نکلے، تو اس کا ثواب احرام باندھنے والے حاجی کے ثواب کی طرح ہے، اور جو چاشت کی نماز کے لیے نکلے اور اسی کی خاطر تکلیف برداشت کرتا ہو تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے ثواب کی طرح ہے، اور ایک نماز سے لے کر دوسری نماز کے بیچ میں کوئی لغو کام نہ ہو تو وہ علیین میں لکھی جاتی ہے‘‘۔
    [سنن أبی داؤد:۵۵۸، حسنہ الألبانی]
    ۷۔ اس نماز کو کثرت سے استغفار اور توبہ کرنے والے ہی ادا کرتے ہیں:
    عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه قال، قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:’’لا يُحافِظُ علٰي صلاةِ الضُّحي إلا أَوّابٌ وهى صلاةُ الأَوّابِينَ‘‘۔
    ’’صلاۃ الضحیٰ کی پابندی صرف وہی کرتا ہے جو اللہ کی طرف بار بار رجوع کرنے والا ہو۔ اور یہ’’ صلاۃ الأوابین‘‘ ہے‘‘۔
    [صحیح الجامع:۷۶۲۸، حسنہ الألبانی]
    ۸۔ خَرَجَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَي أَهْلِ قُبَاء َ وَهُمْ يُصَلُّونَ، فَقَال:’’صَلَاةُ الأَوَّابِينَ إِذَا رَمِضَتِ الْفِصَالُ‘‘۔
    رسول اللہ ﷺ اہل قبا کے پاس تشریف لائے، وہ لوگ (اس وقت) نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا:’’اوابین کی نماز اونٹ کے دودھ چھڑائے جانے والے بچوں کے پاؤں جلنے کے وقت (پر ہوتی) ہے‘‘۔
    [صحیح مسلم :۷۸۴]
    ۹۔ یہ نماز نصرت الٰہی کا سبب ہے:
    عَنْ نُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ، قَال: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:’’يَقُولُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا ابْنَ آدَمَ، لَا تُعْجِزْنِي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ فِي أَوَّلِ نَهَارِكَ أَكْفِكَ آخِرَه‘‘۔
    نعیم بن ہمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اے ابن آدم! اپنے دن کے شروع کی چار رکعتیں ترک نہ کر کہ میں دن کے آخر تک تجھ کو کافی ہوں گا یعنی تیرا محافظ رہوں گا‘‘۔
    [سنن أبی داؤد :۱۲۸۹، صححہ الألبانی]
    ۱۰۔ اس نماز کے فرشتے گواہ ہوتے ہیں :
    عن عمرو بن عبسة رضي اللّٰه عنه قال: قلت يا رسول اللّٰه أخبرني عن الصلاة، قال:’’صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ، عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّي تَطْلُعَ الشَّمْسُ، حَتَّي تَرْتَفِعَ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، ثُمَّ صَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ، حَتَّي يَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ‘‘۔
    عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کہا کہ :’’مجھے نماز کے بارے میں بتائیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل کر بلند ہوجائے کیونکہ وہ جب طلوع ہوتا ہے تو شیطان (اپنے سینگوں کو آگے کرکے یوں دیکھتا ہے جیسے وہ اُس) کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس (سورج)کو سجدہ کرتے ہیں، اس کے بعد نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس میں (فرشتے) حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے ساتھ لگ جائے (سورج بالکل سر پر آجائے)۔
    [صحیح مسلم:۸۳۲]
    (۴) صلاۃ الضحیٰ کا وقت :
    چونکہ صلاۃ الضحیٰ یعنی چاشت کی نماز کے مختلف نام ہیں جیسے کہ صلاۃ الإشراق اور صلاۃ الأوابین وغیرہ، تو اس نماز کو اول وقت میں ادا کرنے کو صلاۃ الإشراق کہا جاتا ہے اور آخر وقت میں ادا کرنے کو صلاۃ الضحیٰ کہا جاتا ہے، اور اس نماز کا صفتی نام’’ اوابین ‘‘بیان کیا گیا ہے۔
    ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’اول وقت میں چاشت کی نماز ادا کرنا ہی اشراق کی نماز کہلاتا ہے‘‘۔
    [مجموع الفتاویٰ ابن باز:۱۱؍۴۰۱]
    نیز ایک اور مقام پر ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’سورج کے نیزے کے برابر بلند ہونے کے بعد سے سورج کے زائل ہونے سے پہلے تک صلاۃ الضحی (نماز چاشت)کا وقت ہوتا ہے اور گرمی کی شدت کے بعد (یعنی زوال سے پہلے آخری وقت میں) پڑھنا افضل ہے‘‘۔
    [مجموع الفتاویٰ :۱۱؍۳۹۶]
    اسی طرح ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’صلاۃ الضحی کا وقت سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہونے یعنی تقریبا سورج نکلنے کے پندرہ یا بیس منٹ کے بعد سے زوال کے تھوڑا پہلے یعنی دس پندرہ منٹ پہلے تک ہوتا ہے‘‘۔
    [مجموع الفتاویٰ :۱۴؍۳۰۶]
    (۵) صلاۃ الضحیٰ کی رکعتوں کی تعداد :
    صلاۃ الضحیٰ کی رکعتوں کی تعداد کم از کم دو ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے:
    عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه، قال :’’أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ: صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَي، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ‘‘۔
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :’’میرے خلیل ﷺ نے مجھے ہر مہینے کی تین تاریخوں میں روزہ رکھنے کی وصیت فرمائی تھی، اسی طرح چاشت کی دو رکعتوں کی بھی وصیت فرمائی تھی اور اس کی بھی کہ سونے سے پہلے ہی میں وتر پڑھ لیا کروں‘‘۔
    [صحیح بخاری:۱۹۸۱]
    ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صلاۃ الضحیٰ مستحب ہے اور یہ کہ صلاۃ الضحیٰ دو رکعات ہیں، ممکن ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کم سے کم رکعات کا ذکر کیا ہے جو آپ ﷺ کے فعل کی تاکید کو واضح کرتا ہے۔
    [احکام الاحکام شرح عمدۃ الاحکام لابن دقیق العید: ۲؍۳۳]
    لیکن صلاۃ الضحیٰ زیادہ سے زیادہ کتنی رکعتیں ہیں اس سلسلہ میں علماء کے کئی اقوال ہیں :
    ۱۔ صلاۃ الضحیٰ کی زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعتیں ہیں۔
    ۲۔ صلاۃ الضحیٰ کی زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں۔
    ۳۔ صلاۃ الضحیٰ کی رکعات کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔
    اس سلسلہ میں تیسرا قول (یعنی صلاۃ الضحیٰ کی زیادہ سے زیادہ کوئی حد متعین نہیں ہے) اکثر علماء کے اقوال سے موافقت رکھتا ہے، اور اس قول کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے:
    عَنْ عَائِشَةَ، قَالَت: ’’كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَي أَرْبَعًا، وَيَزِيدُ مَا شَاء اللّٰهُ‘‘۔
    عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’رسول اللہ ﷺ صلاۃ الضحیٰ چار رکعتیں پڑھتے تھے، اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہتا زیادہ (بھی) پڑھ لیتے تھے‘‘۔
    [صحیح مسلم:۷۱۹]
    شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’ صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز)کم سے کم دو رکعت اور زیادہ کی کوئی تحدید نہیں ہے، آدمی اپنے حساب سے جتنی مرضی پڑھ لے‘‘۔
    [مجموع الفتاویٰ :۱۴؍۳۰۵]
    اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’ صلاۃ الضحیٰ کم سے کم دو رکعت ہے، اور اگر کوئی آدمی حسب سہولت چار، چھ، آٹھ یا اس سے زیادہ رکعتیں پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے، اس کی کوئی حد نہیں ہے‘‘۔
    [مجموع الفتاویٰ : ۱۱؍۳۹۹]
    یعنی صلاۃ الضحیٰ کم سے کم دو رکعت اور زیادہ کی کوئی تحدید نہیں ہے، اور دو رکعت سے زیادہ پڑھنے کی صورت میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جائے۔
    (۶) صلاۃ الضحیٰ کی حکمت:
    صلاۃ الضحیٰ کی مشروعیت کی حکمت کے سلسلہ میں علماء سے کئی اقوال مذکور ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
    ۱۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :
    ’’اور چاشت کی نماز کے اس وقت مسنون ہونے کا راز یہ ہے کہ چونکہ دن چار پہر کا ہوتا ہے تو حکمت الہٰی کا تقاضہ یہ ہوا کہ دن کا کوئی بھی چوتھائی پہر نماز سے خالی نہ رہے اور بندہ اللہ کے ذکر سے جو غافل ہو رہا ہو اس کو ذکر الٰہی یاد رہے، کیونکہ دن کا ایک چوتھائی حصہ تین گھنٹے کا ہوتا ہے، (دن چار پہروں میں منقسم ہے، اور ہر پہر تین گھنٹوں کا ہوتا ہے) اور عرب وعجم کے نزدیک دن کے اجزاء میں سے جو مقدار کثرت کے لیے مستعمل ہے، ان میں تین گھنٹے، کثرت کی ابتدائی مقدار ہیں، اور اسی وجہ سے چاشت کی نماز نبی کریم ﷺ سے قبل کے سلف صالحین کی سنت رہی ہے، اور اس کے علاوہ دن کا ابتدائی حصہ رزق کی تلاش اور معاش کے لیے جد و جہد کا وقت ہوتا ہے، اس لیے اس وقت نماز کو مشروع قرار دیا گیا ہے تاکہ یہ دنیوی مشغلوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی غفلت کا تریاق بن سکے‘‘۔
    [حجۃ اللّٰہ البالغۃ ۲؍۲۹]
    ۲۔ امام مناوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
    ’’اس وقت کی نماز کو اوابین کی نماز کہا گیا ہے کیونکہ اس وقت انسان کا نفس آرام اور سکون کی طرف مائل ہوتا ہے، لہٰذا اس وقت اپنے آپ کو عبادت اور نماز میں مشغول کرنا نفس کی اپنی خواہشات سے رب کی رضا کی طرف رجوع کرنا ہے‘‘۔
    [فیض القدیر :۴؍۲۱۶]
    ۳۔ ابن رفعہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’بعض علماء کا کہنا ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان صلاۃ الضحیٰ پڑھنے کے لیے قوت حاصل کرسکے‘‘۔
    [کفایۃ النبیہ ۳؍۵۰۷]
    (۷) لوگوں کا صلاۃ الضحیٰ کی سنت سے دوری کے اسباب :
    ۱۔ سنت نبوی ﷺ سے ناواقفیت، یا رسول اللہ ﷺکی عدم پیروی اور لوگوں کے دلوں میں سنت کی عظمت کی کمی کا ہونا۔
    ۲۔ فضائل اعمال اور سلف صالحین کی زندگیوں میں ان اعمال کی اہمیت سے ناواقف ہونا۔
    ۳۔ بعض لوگوں میں ایمان کی کمزوری اور ہمت کی کمی کا ہونا۔
    ۴۔ عبادت میں کاہلی اور سستی کا شکار ہونا، نیز سنتوں اور مستحب اعمال کو اہمیت نہ دینا۔
    ۵۔ گناہوں میں کثرت سے ملوث ہونا، کیونکہ کثرت گناہ کی وجہ سے بہت سے لوگ رات کی نماز، ذکر الٰہی اور صبح کی نماز سے غافل رہ جاتے ہیں۔
    ۶۔ یہ لوگوں کے لیے آرام اور نیند کا وقت ہے، یعنی اس وقت کو سونے اور آرام کرنے کا وقت سمجھنا۔
    ۷۔ دنیا کی زینت اور لذتوں میں غرق ہونا، کیونکہ بہت سی عیش و عشرت نیک اعمال کرنے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
    ۸۔ اخروی زندگی اور اس کے لیے تیاری کرنے سے غافل رہنا۔
    خلاصہ یہ ہے کہ چاشت کی نماز مسلمانوں کے لیے ایک عظیم نعمت ہے، یہ نہ صرف انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب لاتی ہے بلکہ ان کے دل کو سکون اور اطمینان بھی عطا کرتی ہے، چاشت کی نماز کے بارے میں خاص طور پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کی فضیلت کثرت سے احادیث صحیحہ میں بیان کی گئی ہیں، یہ نماز نہ صرف گناہوں کی بخشش کا باعث بنتی ہے بلکہ انسان کو دنیاوی و اخروی دونوں کامیابیوں سے بھی نوازتی ہے۔
    لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس نماز کو اور دیگر سنن نوافل کو بھی اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں، خاص طور پر چاشت کی نماز کو اہمیت دیں اور اسے ادا کرنے کی کوشش کریں، اس کے علاوہ ہم دوسرے مسلمانوں کو بھی نماز نفل کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کریں تاکہ وہ بھی اس کا حصہ بن سکیں۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings