-
شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللّٰہ: مختصر تعارف نام ونسب : ابو علی محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان بن علی بن محمد بن احمد بن راشد بن بُرید بن محمد بن بریدبن مشرّف۔
ولادت : ۱۱۱۵ھ میں نجد کے مشہور شہر عُیَیْنۃ(عیینۃ ریاض کے شمال میں ہے، ریاض سے ۳۵کیلومیٹر دور ہے ) میں پیدا ہوئے ۔آپ کا خاندان آل مشرف ہے جو اُشیقر نامی شہر میں آباد تھا ،لیکن متعدد شہروں میں آپ کے خاندان کے افراد ہجرت کرتے رہے ،ہجرت کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
(۱) شیخ محمد بن عبد الوہاب کے دادا شیخ سلیمان شہر اُشیقر میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے اور علم حاصل کیا یہاں تک کہ کبار مشائخ میں آپ کا شمار ہوگیا ،تو روضۃ سدیر کے لوگوں نے آپ کو منصب قضاء عطاء کیا اور آپ بحیثیت قاضی روضۃ سدیر منتقل ہوگئے ،پھر آپ نے عیینہ کا سفر کیا اور وہاں بھی قاضی بن گئے اور عیینہ کو مستقل وطن بنا لیااور شیخ أحمد بن محمد بن بسام کی بیٹی فاطمہ سے آپ نے شادی کرلیا اور یہیں آپ نے آخری سانس لی اور عیینہ کی مٹی میں مدفون ہوئے۔
(۲) شیخ محمد بن عبد الوہاب کے والد مکرم یعنی عبد الوہاب رحمہ اللہ کی ولادت عیینہ میں ہوئی ،اور آپ کی نشو ونما یہیں ہوئی ،یہیں علم حاصل کیا اور فضل وکمال کے اعلیٰ درجہ تک پہنچے یہاں تک کہ عیینہ کے قاضی بن گئے،محمدبن عزّازالمشرفی کی دختر سے آپ کا نکاح ہوا اور اس کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے ایک محمد دوسرے سلیمان ،پھر آپ قاضی بن کرحریملاء منتقل ہوگئے اور نزیل حریملاء ودفینہ کے مستحق ہوئے،یہیں آپ کی وفات ۱۱۵۳ھ میں ہوئی ۔
(۳) شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے حریملاء سے عیینہ ہجرت کیا ،اورحاکم عیینہ کی پھوپھی جوہرۃ بنت عبداللہ بن معمر سے شادی کرلیا ، اور کچھ مدت یہاں گزار کر آپ نے درعیہ کا رخ کیا اور وہاں مستقل سکونت اختیار کیا یہاں تک کہ آپ کی روح پرواز کرگئی ۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب کے ۶بیٹے تھے علی ،عبداللہ ،حسن ،حسین ،ابراہیم ،عبدالعزیز ، اور آپ کی بیٹیاں بھی تھیں ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے:[ الدرر السنیۃ فی الأجوبۃ النجدیۃ:۱۲؍۶وترجمۃ إمام الدعوۃ الشیخ محمد بن عبدالوہاب التمیمی ص:۱۱۔۱۵]
نشونما وتعلیم وتربیت :
شیخ محمد بن عبد الوہاب کی پیدائش شہر عیینہ میں ایک نیک ،صالح علم وفضل والے خاندان میں ہوئی ،(آپ کے والد ایک بڑے عالم و فقیہ مفتی وقاضی تھے ،شہر عیینہ اور اس کے ارد گرد کے لوگ آپ سے فتویٰ پوچھتے تھے اور مرجع خلائق تھے ،عیینہ میں ۱۴سال اور حریملاء میں۱۴سال تک قاضی رہے ، شیخ محمد بن عبد الوہاب کے دادا سلیمان بھی عالم کبیر بلکہ رئیس العلماء ،علم غزیر اور صاحب کثیر التصانیف اور مفتیٔ نجد وقاضیٔ روضۃ سدیر وعیینۃ تھے ۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب پاکیزہ ماحول میں پروان چڑھے، ابتدائی عمر میں قرآن پڑھا اور اپنے والد عبد الوہاب بن سلیمان کے پاس فہم دین اور علوم شرعیہ کے حصول کے لیے جدو جہد میں لگ گئے۔اور انتھک محنت کی ، سن بلوغت کے بعد فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ الحرام کا قصد کیا اور حرم شریف کے بعض شیوخ سے علم حاصل کیا۔ پھر مدینہ طیبہ کا رخ کیا اور وہاں کے علماء سے ملتے رہے۔دو مہینہ تک وہاں قیام کیا اور اس وقت مدینہ کے مشہور علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ان میں سے ایک شیخ ومحدث عبداللہ بن ابراہیم بن سیف نجدی تھے (جو کہ اصلاً مَجْمعہ کے تھے اور شیخ ابراہیم بن عبداللہ صاحب ’’العذب الفائض فی علم الفرائض ‘‘کے والد تھے)اور دوسرے محدث الحرمین شیخ محمد حیات بن محمد ابراہیم سندھی تھے۔ اور تیسرے محدث وشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الدمشقی ، اور چوتھے محدث علی افندی بن صادق الداغستانی ثم الدمشقی تھے، شیخ کے مدینہ کے اساتذہ میں یہ چار زیادہ مشہور ہیں۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب بلوغت سے قبل سن مبکر (ابتدائی عمر )سے ہی تحصیل علم کے لیے جد وجہد اورکدوکاوش کرنے لگے ۔ اپنی جائے پیدائش عیینہ کے مشائخ سے علم حاصل کیا ،اورطلب علم کے لیے مکہ، مدینہ، بصرہ اوراحساء وغیرہ کا بار بار سفر کیا ۔ نجدوحجاز کی وادیوں کی خاک چھانا ،اپنے والد بزرگوار سے خوب خوب استفادہ کیا ، وقت کو منظم کیا ، نظام الاوقات ترتیب دے کر کتب تفسیر ،حدیث اوراصول کا مطالعہ کیا ، خصوصاً شیخ الاسلام ابن تیمیہ وابن القیم کی تصانیف کو بڑی عرق ریزی وباریک بینی کے ساتھ پڑھا ، اپنے ہاتھ سے صحیح بخاری وزاد المعاد لکھا ۔ الفیہ ابن مالک وغیرہ حفظ کیا ،شیخ رحمہ اللہ کے علمی اسفار ایک اندازہ کے مطابق بیس ہزار کیلومیٹر سے زائد ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے شیخ رحمہ اللہ کو ذہن ثاقب وفہم قوی عطا کیا تھا، سریع الحفظ و قوی الادراک اور فرط ذکاوت سے مالامال تھے ، دس سال کی عمر سے قبل ہی قرآن حفظ کرلیا ، اور بہت ساری احادیث ازبر کرلیا۔
۱۲سال کی عمر ہی میں ان کے والد انہیں امامت کے لیے آگے بڑھاتے تھے ،۱۲سال کی عمر ہی میں انہوں نے اپنے والد اور چچا سے مناظرہ ومباحثہ کرنا شروع کر دیا تھا، امام احمد سے مروی بعض مسائل میں دلائل کے ساتھ اپنے والد اور چچا سے مناظرہ کیا ،بعض ان مسائل کے سلسلے میں جس کو انہوں نے ’’الشرح الکبیر ‘‘اور’’ المغنی ‘‘اور’’ الانصاف‘‘ میں پڑھا تھا کہ یہ مخالف ہیں ’’المنتہی ‘‘اور’’ الاقناع‘‘ کے متن سے ۔ آپ کے والد اور گھر والے متحیر ہوتے آپ کے علم کثیر ،قوت استدلال ،فہم وفراست ،ذہانت و فطانت سے ۔ بلکہ آپ کے والد آپ سے مستفید ہوتے تھے،سچ ہے ، ہونْہار بِرْوا کے چِکنے چِکنے پات ۔ بحوالہ:[ ترجمۃ إمام الدعوۃ الشیخ محمد بن عبدالوہاب التمیمی :ص:۳۰]
سیرت وکردار :
شیخ محمد بن عبد الوہاب حسن اخلاق کے مجسم پیکر تھے ، بلکہ قرآن وسنت کے اخلاق سے مزین تھے ۔ حلیم وحکیم ، متواضع ومنکسر المزاج ،عفو ودرگذر کرنے والے ، فحش وہذیان سے دور ، محب عفیف متصدق اورسلیم الصدر تھے ۔
شیخ رحمہ اللہ کے بلند اخلاق وحسن سیرت وکردار کی چند مثالیں درج ذیل ہیں ۔شیخ رحمہ اللہ عفو وصفح ، معاف کرنے اور اگنور کرنے کو پسند کرتے تھے ۔ شیخ رحمہ اللہ کے دادا شیخ سلیمان رحمہ اللہ کا دو باغ اُشیقر میں تھا ،چنانچہ کچھ بدطینت لوگوں نے ان دونوں باغوں پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ۔ جب عرصہ بعد شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کا امر ظاہر ہوا ، اور نجد و حجاز میں آپ کو شہرت ہوئی اور محمد بن سعود کے تعاون سے جب حکومت قائم ہوئی تو وہ غاصب وظالم آئے اور شیخ سے کہا ’’اے شیخ! ہمارے پاس آپ کے دادا کا باغ ہے ،اور ہم چاہتے ہیں کہ اس باغ کو ہمارے قبضے میں باقی رکھیں اور آپ یہ لکھ دیں کہ یہ ہمارا ہی باغ ہے تو شیخ نے جواب دیا، کہا کہ تم نے ناجائز قبضہ کرتے وقت ہم سے اجازت نہیں لیا تھا ، ہم تمہارے ناجائز قبضہ کرلینے کے بعد تم سے چھیننے نہیں آئیں گے‘‘۔
شیخ رحمہ اللہ ایک دوسرے کے جذبات واحساسات کا خیال کرتے تھے ،اور کسی کو زک دینے یا دکھی کرنے سے دور رہتے اور کوشش کرتے کہ قول و فعل سے کسی سے بھی شخص کو تکلیف نہ ہو ، کوئی شیخ سے بدخلقی ونالائقی کرتا تو آپ جیسا کو تیساوالا معاملہ نہیں کرتے بلکہ شر کا جواب خیر سے، عنف کاجواب لین و نرمی سے دیتے ،آپ نیک زاہد و عابد وپارسا وشب زندہ دار تھے ،رات کے اکثر حصے میں نماز پڑھتے ،رات کے اندھیرے میں تلاوت قرآن کرتے اور ذکر ،تسبیح وتحلیل سے اپنے لسان کو تر رکھتے تھے ۔ ہمیشہ سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر، کہتے رہتے تھے ۔
آپ بڑے وفاداربھی تھے،دوسرے کااحسان یاد رکھتے تھے ،چنانچہ امیر عیینہ عثمان بن معمر نے جب شیخ کو بے یارومددگار تنہا چھوڑ دیا اور شیخ کو عیینہ سے نکلنے کا حکم دیا تو آپ رحمہ اللہ نے درعیہ کا قصد کیا تو درعیہ میں امام محمد بن سعود نے شیخ کا پرتپاک استقبال کیا اور مدد کیا ،یہاں تک کہ جب شیخ رحمہ اللہ میدان دعوت وتبلیغ میں کامیاب ہو گئے اور غلبہ حاصل ہوا اور اسلامی ریاست قائم کرلیا تو عیینہ کے امیر عثمان بن معمرنادم و پشیمان ہوا اور شیخ کو درعیہ آنے کی دعوت دی تو شیخ نے کہا کہ یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے میں ایسا نہیں کرپاؤں گا ،محمد بن سعود کے اختیار میں ہے ، اگر وہ چاہے کہ میں تمہارے پاس چلا جاؤں تو چلا جاؤں گا ورنہ نہیں ، مجھے جس نے عزت وتکریم کے ساتھ اپنے یہاں رکھا اور مجھے قبول کیا اس کے بدلے میں کسی کے پاس نہیں جاؤں گا۔
شیخ رحمہ اللہ انتہائی زیادہ متواضع تھے ، ابن بشر رحمہ اللہ نے کہا میں نہیں جانتا ہوں شیخ محمد بن عبد الوہاب جیسا کوئی ہے جو طالب علم ،یا سائل ،یا کسی ضرورتمند یا کسی فائدہ حاصل کرنے والے کے لیے اتنے نرم ورفق ومحبت سے پیش آتا ہوں۔
شیخ رحمہ اللہ حقد وحسد اوربغض وشحناء سے کوسوں دور پاک دل انسان تھے ،کسی کو کسی بات سے ٹھیس پہنچے ،برا لگے اس سے بھی ڈرتے اور ناپ تول کر ضرورت کے مطابق گفت وشنید کرتے تھے ،کسی کو نہ تنگ کرتے نہ چھیڑتے نہ کھلی اڑاتے ،کوئی شیخ کو تنبیہ کرے نصیحت کرے اس کو پسند کرے، اور شکریہ ادا کرتے تھے ، اور کوشش کرتے کہ کسی کو تکلیف ناپہنچے، ایک دوسرے کا احترام کرتے اور حسن گفتار و کردار کے ساتھ زندگی بسر کرتے ۔ دیکھیے تفصیل کے لیے:[عنوان المجد فی تاریخ نجد :۱؍۱۸۱،الرسائل الشخصیۃ:۳۱۸]
اساتذہ وشیوخ : شیخ رحمہ اللہ کے اساتذہ وشیوخ کی کثیر تعداد ہے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں ۔
(۱) شیخ کے والد ۔ عبد الوہاب بن سلیمان ، (۲) شیخ کے چچا ابراہیم بن سلیمان ، (۳) شیخ محمد المجموعی البصری، (۴) شیخ عبداللطیف العفالقی الأحسایی، (۵) شیخ عبداللہ بن ابراہیم بن سیف النجدی ۔وغیرہ وغیرہ ۔
تلامذہ: شیخ کے بے شمار تلامذہ ہیں ۔
( ۱) شیخ کے بیٹے ۔ علی بن محمد بن عبد الوہاب ۔عبداللہ بن محمد بن عبد الوہاب ،حسین بن محمد بن عبد الوہاب ، عبد العزیز بن محمد بن عبد الوہاب ، شیخ کے پوتے عبد الرحمن بن حسن ۔
(۲) احمد بن ناصر بن معمر ، (۳) عبد العزیز الحصین ، ( ۴) سعید بن حجی ۔ وغیرہ ۔
تصانیف:
شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب نے جوکتابیں تحریرکی ہیں وہ متعدد فنون میں ہیں ، چونکہ آپ غزیر علم والے متبحر عالم، علوم و فنون کے اندر گہری بصیرت ،ژرف نگاہی ،مفسر ،محدث اور محقق ومفکر بلکہ آیۃ من آیات اللہ تھے اس لیے آپ کے متنوع مصنفات مختلف فنون میں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے شیخ رحمہ اللہ کو حسن تصنیف ،سرعۃ الکتابۃ ،جودۃ التعبیر کا ملکہ دیا تھا ، اس لیے آپ کی تصنیفات مقبول خاص وعوام ہے اور لوگوں کو آپ کی تحریروں سے بڑا فائدہ ہوا ۔ آپ کی کتابوں کا امتیاز یہ ہے کہ نصوص کتاب وسنت وآثار سے مزین ہے ، اور کثیر تعداد میں قرآن وحدیث واقوال سلف سے استدلال واستنباط موجود ہیں ۔ آپ کے مولفات میں گنجلک وپیچیدہ عبارتیں نہیں ہیں ،بالکل واضح سہل وآسان عبارتیں ہیں ، آپ کی تالیفات سے عوام وعلماء سب مستفید ہوسکتے ہیں ، آپ کی کتابوں میں غلطی مفقود ہے ،عیب ونقص نہیں ہے علماء عاجز رہ گئے آپ کے مصنفات میں عیوب تلاش کرتے کرتے ، آپ کے مؤلفات کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ تعلیم حاصل کرنے کی نصیحت کرتے ہیں اور طالب کے لیے دعا کرتے ہوئے شروعات کرتے ہیں ۔ جیسے کہیں گے:اعلم رحمک اللّٰہ ، اعلم أرشدک اللّٰہ ، اعلم أرشدک اللّٰہ لطاعتہ ،وأحاطک بحیاطتہ وتولاک فی الدنیا والآخرۃ، اعلم وفقنااللّٰہ وإیاک للإیمان باللّٰہ ورسولہ ۔۔۔۔۔
الغرض کہ آپ کی کتابیں انتہائی مفید و اہم ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے آپ کی کتابیں پڑھنے کی وصیت کی اور تاکیدی حکم دیا ہے، جیساکہ شیخ عبد الرحمن بن حسن رحمہ اللہ نے کہا:’’أوصیک بالاشتغال والمطالعۃ فی کتبہ ،وتأمل ما فیہا من الأدلۃ‘‘ ،’’میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی کتابیں پڑھو ،مطالعہ کرو اور اس میں مشغول ہو جاؤ اور جو دلائل ان کتابوں میں ہیں ان پر تدبر وتفکر کرو‘‘۔بحوالہ:[ المطلب الحمید فی بیان مقاصد التوحید :ص:۲۹۰]
آپ کی مولفات کے اسماء :
(۱) تفسیر میں آپ کی مولفات ۔ جیسے ۔ تفسیر سورۃ فاتحہ ، مختصر تفسیر سورۃ انفال وثجرات ،تفسیر سورہ فلق،ناس، وتفسیر آیات میں القرآن الکریم ،وغیرہ
(۲) علوم القرآن میں آپ نے ’’فضائل القرآن ‘‘کے نام سے لکھا ہے ۔
(۳) حدیث میں آپ کی مولفات ۔’’ مجموع الحدیث علی أبواب الفقہ ، و مختصر فتح الباری ‘‘۔
(۴) عقیدہ میں آپ کی مولفات ۔ ’’نواقض الإسلام ، القواعد الأربع ،الأصول الثلاثۃ ، کتاب التوحید ،کشف الشبہات ،مسائل الجاہلیۃ ، أصول الإیمان ،مختصر الصواعق ،مختصر العقل والنقل ، مختصر الإیمان ‘‘۔
(۵) فقہ میں آپ کی مولفات ۔’’ شروط الصلاۃ أرکانہا وواجباتہا ، کتاب العبادات. المشہور ب آداب المشی إلی الصلاۃ ، مختصر الإنصاف ، مختصر الشرح الکبیر ،مختصر زادالمعاد‘‘۔
(۶) سیرت میں’’مختصر السیارۃ النبویۃ‘‘۔ (۷) آداب وسلوک میں ۔ ’’مختصر المنہاج ‘‘۔
(۸) وعظ ونصیحت میں ۔ ’’کتاب الکبائر ‘‘۔اور دیگر متعدد رسائل وغیرہ ۔
کتاب التوحید کی خصوصیات و امتیازات :
شیخ کی کتابیں اہل علم و طلبۂ علم میں متداول ہیں ،خصوصاً کتاب التوحید انتہائی زیادہ مشہور ہے اور مدارس و جامعات میں داخل نصاب ہے ۔یہ کتاب ’’کتاب التوحید الذی ہو حق اللہ علی العبید‘‘کے عنوان سے موجود ہے ، اور تاریخی مصادر بتاتے ہیں کہ یہ شیخ کی اول تالیف میں سے ہے ۔
اس کتاب کو علماء اور طلبہ میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ انہوں نے اس سے اعتناء کیا۔ اور اس کی خدمت کی۔ ان میں اولین تو مؤلف کے معاصر ہی تھے۔ جنہوں نے رغبت اور شوق کے ساتھ آپ سے کتاب کا درس لیا۔ اس کے ابواب پڑھے، اور انہیں یاد کیا، اور براہ راست آپ سے اس کی شرح اور تقریر سنی، پھر یہ توجہ آج تک بر قرار ہے۔ لوگوں نے اسے نقل کیا۔ اورباربار چھپوایا۔ آج دنیامیں اس کے اس قدر نسخے پھیلے ہوئے ہیں کہ کثرت کے سبب شمار میں نہیں آسکتے۔ علماء نے اس کی بہترین تعریف کی ہے۔
ابن بشر کہتے ہیں : مصنفین نے اس فن میں اس سے بہتر کتاب تالیف نہیں کی۔ آپ نے اسے بہت خوب اور بہت عمدہ لکھا۔ اور غایت و مراد کو پہنچ گئے ،شیخ سلیمان بن حمدان نے اس کا وصف یوں بیان کیا ہے: نادر انداز اور عظیم نفع کی کتاب ہے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے اس جیسی کتاب آپ سے پہلے لکھی ہو ۔
چنانچہ اس کا ہر باب ایک قاعدہ ہے جس پر بہت سے فوائد مبنی ہیں۔ آپ کے بیشتر ہم زمانہ شرک اکبر اور اصغر میں واقع تھے۔ اور اسی کو دین سمجھ رکھا تھا۔ لہٰذا نہ اس سے توبہ کی جارہی تھی، نہ مغفرت مانگی جارہی تھی۔ چنانچہ آپ نے صورت حال جان اور دیکھ کر یہ کتاب تالیف کی۔ اس لیے یہ اس بیماری کی دوائے نافع ہوئی ۔
اس کی بہت سی شرحیں اور حواشی لکھی گئی ہیں۔ ایک شرح تیسیر العزیز الحمید ہے ، یہ شیخ سلیمان بن شیخ عبداللہ بن شیخ محمدبن عبد الوہاب کی تالیف ہے ۔ مگر مکمل نہیں ہے ۔ لہٰذا اس کی تکمیل شیخ عبدالرحمن بن حسن کی تہذیب سے کی گئی ہے۔ جو ’’باب ماجاء فی المصورین ‘‘سے شروع ہو کر اخیر کتاب تک جاتی ہے۔ ایک اور شرح ’’فتح المجید شرح کتاب التوحید‘‘ہے۔ یہ ’’تیسیر العزیز الحمید ‘‘کی تہذیب و تقریب اور تکمیل ہے۔ تکمیل فائدہ کے لیے اس میں بعض عمدہ نقول کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اسے عبدالرحمن بن حسن بن الشیخ نے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی شروح و حواشی ہیں جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
اس کتاب ، کتاب التوحید کا مخطوطہ ، المکتبۃ السعودیہ ریاض میں ۸۶؍۴۶۵نمبر کے تحت پایا جاتا ہے۔ اسی طرح شیخ عبد اللہ بن رشید بن فرج کا تحریر کردہ ایک اور مخطوطہ ، بریدہ میں شیخ عبد اللہ ابراہیم التویجری کے ذاتی کتب خانے میں ، ایک مجموعہ کے ضمن میں موجود ہے۔ اور ایک اور مخطوطہ مسجد ام خمار عنیزہ کے المکتبۃ العلمیۃ الصالحیۃ میں موجود ہے۔ ناسخ محمد بن منصور ہیں۔
شیخ بسام بتلاتے ہیں کہ اس کی شرح فتح المجید کا ایک مخطوطہ عبد العزیز بن صالح صیرامی کے قلم سے موجود ہے ، جس کی کتابت سے ۱۲۸۴ ھ میں فراغت ہوئی۔ یعنی یہ مؤلف کی زندگی ہی میں لکھا گیا ہے۔ اس کاخط عمدہ اور واضح ہے۔ یہ غلطیوں سے خالی ہے۔ اور اس پر امام فیصل بن ترکی کی اہلیہ کی طرف سے وقف لکھا ہوا ہے۔ جس میں یہ عبارت بھی ہے ، اس کا وکیل ، ان کا نام محمد بن فیصل ہے۔ یہ (وقف)جمادی الاولی ۱۲۸۷ھ میں ہوا ۔ بحوالہ:( شیخ محمد بن عبد الوہاب کا سلفی عقیدہ اور دنیائے اسلام پر اس کااثر ۔جلداول صفحہ نمبر:۱۳۰۔۱۳۱)
اس کتاب کی چند خصوصیات ہم ذکر کرتے ہیں ۔
(۱) یہ اپنے موضوع پر پہلی مستقل کتاب ہے ۔
(۲) اس کتاب کا موضوع یہ ہے: ’’فی بیان ما بعث بہ اللّٰہ رسلہ من الوحید العبادۃ ،وبیانہ بالأدلۃ من الکتاب والسنۃ ،وذکر ما ینافیہ من الشرک الأکبر أو ینافی کمالہ الواجب من الشرک الأصغر ونحوہ ،وما یقرب من ذالک أو یوصل إلیہ ‘‘۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو چیزیں دے کر بھیجا ہے ان کا بیان ۔یعنی توحید العبادۃ وغیرہ کا ذکر کتاب وسنت کی دلائل کی روشنی میں اور جو چیزیں توحید الوہیت یا توحید العبادۃ کے خلاف ہیں یا اس کے کامل ہونے کے منافی جیسے شرک اکبر و اصغر وغیرہ ۔ اور اسی سے متعلق دیگر چیزوں کا تفصیلی بیان ہے قرآن وحدیث واقوال سلف کی روشنی میں ۔
(۳) کتاب التوحید بہترین ترتیب ومنظم و مرتب انداز میں ہے ،قوت استدلال ہے ،بالکل صحیح بخاری کے طرز پر۔ بلکہ بخاری کا حصہ محسوس ہوتا ہے ۔
(۴) کتاب التوحید کے ہر باب میں دین کا ایک عظیم قاعدہ بیان کردیا گیا ہے ۔
(۵) کتاب التوحید کے مولف شیخ محمد بن عبد الوہاب خود اس کتاب کی شرح کرتے تھے ۔
(۶) علماء وطلباء اس کتاب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،اس کتاب کو یاد کرتے ہیں ، شرح کرتے ہیں، اور لوگوں میں پھیلاتے ہیں ۔
(۷) کتاب التوحید کو علماء نے درس وتدریس تعلیق و تشریح کے لیے منتخب کیا ،مساجد وجوامع میں شرح کی جاتی ہے ،عوام وخواص سبھی حضرات کو پڑھایا اور سمجھایا جاتاہے ۔ علماء نے کثرت سے کتاب التوحید کی شروحات لکھیں ، شروحات کی تعداد تقریباً۱۷۵ہے ۔
(۸) جس نے کتاب التوحید کو اچھی طرح سمجھ کر پڑھا اور یاد رکھا اسے دوسری کتاب کی ضرورت نہیں ہے توحید کی تشریح وبیان میں ۔
(۹) بڑے بڑے علماء نے ولاۃ امر وحکام کو ابھارا اور مشورہ دیا ہے کہ اس کتاب کو لازمی طور پر عوام کو پڑھانے کا حکم دئے ۔
وفات حسرت آیات :
شیخ محمدبن عبدالوھاب کی وفات بروز سوموار اواخر شوال سن۱۲۰۶ہجری بمطابق۱۷۹۱ء عیسوی کو ہوئی ،شہر دِرْعِیَّہ میں آپ کی صلاۃ جنازہ ہوئی ،کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت فرمائی اور نمناک آنکھوں سے سپرد خاک کیا ۔ رحم اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ ۔ آپ کے وفات کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے شیخ محمد بن عبد الوہاب سے کہا:’’ مرحبا باللذی دل عبادی علی عبادتی ‘‘۔’’خوش آمدید!آپ نے میرے بندوں کو میری عبادت وبندگی کی طرف رہنمائی کیا ‘‘۔
حرف اخیر :
شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب بارہویں صدی ہجری کے مجددین میں شمار کیے جاتے ہیں۔جنہوں نے پوری محنت اور جانفشانی کے ساتھ سر زمین حجاز میں اس وقت احیاء اسلام کے لیے کوششیں کیں جب سرزمین حجازجاہلیت کے اندھیرے میں ڈوب چکی تھی اور شرک وبدعت کی وہی کیفیت پیدا ہوچکی تھی جورسول اللہﷺکے زمانہ میں تھی،توحید وسنت کی معرفت لوگوں میں نا کہ برابر ،غیراللہ سے مدد طلب کی جاتی تھی ،صوفیاء کا حلولی عقیدہ زور وشور سے پھیل رہا تھا، بعث بعد الموت کے منکرین کی تعداد بڑھ گئی تھی، بتوں کی پرستش ہورہی تھی، لوگ مرتد ہورہے تھے،اور پورے قرآن مجید کا ہی انکار کر بیٹھے تھے، چنانچہ شیخ صالح بن عبد اللہ العبود نے اس زمانے کی کیا خوب تصویر کشی کی ہے فرماتے ہیں:’’چنانچہ وہ اللہ وحدہ کی عبادت سے منحرف ہو کر مردہ اور زندہ اولیاء و صالحین کی عبادت کر رہے تھے۔ آفات و مصائب میں ان ہی سے فریاد کرتے تھے ۔ اور حاجات ورغبات میں ان ہی کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اور جمادات مثلاً پتھروں اور درختوں سے نفع اور نقصان پہنچنے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ اہل قبور کی پوجا کرتے تھے ۔ اور خوشحالی و بد حالی دونوں حالتوں میں ان ہی کی طرف دعا و نذر پھیرتے تھے۔ یوں یہ لوگ جاہلیت اولیٰ کے مشرکین سے بڑھے ہوئے تھے۔ کیونکہ یہ مشرکین جب ضرر سے دوچار ہوتے تو دین کو خالص اللہ کے لیے کرتے ہوئے سے پکارتے تھے۔ البتہ جب اللہ انہیں نجات دے د یتا تو وہ مشرک ہو جاتے۔ لیکن یہ لوگ اللہ کے ماسوا اپنے بتوں (یعنی درگاہ و مزارات ) کی محبت اللہ کی محبت سے کہیں بڑھ کر کرتے تھے۔ جو دل کی گہرائیوں میں سرایت کئے ہوئے تھی۔ اور چہرے اور زبان اور جوارح پر ظاہر ہوتی تھی۔ انہوں نے اپنی عمریں اور زندگیاں حق اور اسے ظاہر کرنے والے کو دفع کرنے میں صرف کر دی تھیں۔ اور یہ حال کسی ایک ہی ملک کا نہ تھا کہ دوسرے میں ایسا نہ ہو ، بلکہ بیشتر ممالک کا یہی حال تھا۔ اسی طرح یہ بات صرف شیخ کے اول عہد میں نہ تھی۔ بلکہ اس کا آغاز پرانے دور سے تھا ،جبکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد اور آپ کے بعد قرون فاضلہ کے عہد کے بعد ہی تغییر و ابتداع اور اختلاف شروع ہو گیا ۔پھرزمانوں پر زمانے بیتے ،برسوں پر برس گزرے۔ مگر گمراہی بڑھتی ہی گئی۔ اور ضلال پھیلتا ہی گیا۔ یہاں تک کہ ایسے لوگ آئے جنہوں نے سمجھا کہ یہ گمراہی و بدعات ہی دین ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے آباء واجداد اور اسلاف کو اسی پر پایا تھا ، اس لیے کہا کہ ہم بھی انہی کے نقش ہائے قدم کے پیروکار ہیں ۔
نجد کے شہروں میں اس کا بہت بڑا معاملہ تھا۔ لوگ جبیلہ میں زید بن خطاب کی قبر کے پاس آتے ، اورانہیں مشکل کشائی اور ازالہء مصیبت کے لیے پکارتے تھے۔ وہ لوگوں میں اس کام کے لیے مشہور تھے۔ اور حاجت روائی کے لیے ان کا چرچا تھا۔
لوگوں کا خیال تھا کہ درعیہ میں قریوہ کے اندر بعض صحابہ کی قبریں ہیں۔ چنانچہ لوگ ان کی عبادت پر جمے ہوئے تھے۔ اور یہ تربت والے ان کے سینوں میں اللہ سے بڑھ کر تھے۔
غبیراء کی گھاٹی میں لوگ سمجھتے تھے کہ ضرار بن ازور کی قبر ہے۔ حالانکہ یہ جھوٹی بات ہے۔ پھر وہاں ایسی منکر حرکتیں کرتے تھے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ الفدا کے شہر چہ میں ایک نر کھجور کا درخت تھا۔ جس کے پاس مرد اور عور تیں اگر وہاں نہایت بد ترین حرکتیں کرتے تھے۔ اس کھجور سے برکت حاصل کرتے تھے ۔ اور اس پر عقیدہ رکھتے تھے ۔ جب عورت کی شادی میں دیر ہوتی تو وہ وہاں آکر دونوں ہاتھ سے اسے چمٹا لیتی۔ اور امید رکھتی کہ وہ اس کی مشکل دور کر دے گا۔ چنانچہ کہتی’’یا فحل الفحول ، أرید زوجاً قبل الحول ‘‘۔’’اے نروں کے نرا !میں سال بیتنے سے پہلے شوہر چاہتی ہوں‘‘۔بحوالہ: (شیخ محمد بن عبد الوہاب کا سلفی عقیدہ اور دنیائے اسلام پر اس کا اثر:۱؍۴۳)
چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے اس کیفیت کو دیکھا تو تلملاگئے۔اوراپنی پوری قوت و توانائی ،وصلاحیت وقابلیت کو احیاء اسلام کے لیے وقف کر دیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دست مبارک پر لاکھوں انسانوں نے توبہ کیا اور فساق و فجار داخل اسلام ہوکر اسلام کے سچے خادم بن گئے نجد کے مختلف علاقوں میں آپ کی مساعی سے بفضل اللہ وعونہ مسجدیں آباد ہوگئیں ،مزاریں قبے ومشاہد منہدم ہوئیں ، اور لوگ کتاب و سنت کے علوم کی تحصیل میں منہمک ہوگئے۔ اور صحیح دین پر چلنے لگے۔
٭٭٭