-
کیا صحیح مسلم میں مسنون رفع الیدین کے ترک کی دلیل ہے؟ نماز میں چارمقامات پررفع الیدین ثابت ہے لیکن بعض حضرات صحیح مسلم کی ایک غیرمتعلق حدیث پیش کرکے عوام کو یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ اس میں مسنون رفع الیدین سے منع کردیا گیا ہے:
سب سے پہلے صحیح مسلم کی یہ حدیث ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا:حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَرَآنَا حَلَقًا فَقَالَ: مَالِي أَرَاكُمْ عِزِينَ قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللّٰهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ ۔
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں، نماز میں سکون رکھا کرو ،فرماتے ہیں دوبارہ ایک دن تشریف لائے تو ہم کو حلقوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو متفرق طور پر بیٹھے ہوئے دیکھتا ہوں ،پھر ایک مرتبہ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا کیا تم صفیں نہیں بناتے جیسا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں بناتے ہیں؟ فرمایا کہ پہلی صف کو مکمل کیا کرو اور صف میں مل مل کر کھڑے ہوا کرو۔
[صحیح مسلم:۱؍۳۲۲،رقم:۴۳۰]
مذکورہ حدیث کا مسنون رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے کئی دلائل ہیں :
پہلی دلیل: اس میں ہاتھ اٹھانے کا موقع ومحل ذکرنہیں ہے۔
یعنی یہ صراحت نہیں ہے کہ اس حدیث میں قبل الرکوع وبعدہ یا بعدالقیام من الرکعتین والے رفع الیدین سے روکا جارہا ہے جبکہ ان مواقع پررفع الیدین صراحتاً ثابت ہے، لہٰذا یہ روایت ان مواقع کے علاوہ دیگرمواقع کے لیے ہے اوران مواقع پرہم بھی کسی طرح کا رفع الیدین نہیں کرتے۔
دوسری دلیل: رفع الیدین (ہاتھ اٹھانے)کی کیفیت مبہم ہے۔
اورہاتھ اٹھا نا کئی طرح کا ہوتا ہے، مثلاً:
الف: دعا کے لیے رفع الیدین یعنی ہاتھ اٹھانا، چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:
وَقَالَ أَبُو مُوسَي الأَشْعَرِيُّ: دَعَا النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَقَال: اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ۔
[صحیح البخاری:۸؍۷۴]
نیزصحیح بخاری حدیث نمبر(۴۳۲۳)کے تحت ایک ایک روایت کا ٹکڑا ہے:
فَدَعَا بِمَاء ٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ۔
[صحیح البخاری:۵؍۱۵۶، رقم:۴۳۲۳]
ب: سلام کے لیے ہاتھ اٹھانا ، امام طبرانی فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللّٰهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: مَا بَالُ هَؤُلَائِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَي فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَي أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ۔
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے تو ہم کہتے السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ اورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے ۔
[المعجم الکبیر للطبرانی: ۲؍۲۰۵، رقم: ۱۸۳۶،واسنادہ صحیح]
اس حدیث سے معلوم ہوا بوقت سلام ہاتھ اٹھانے پر بھی رفع الیدین کے الفاظ حدیث میں مستعمل ہیں ۔
تیسری دلیل: قرآن، قرآن کی تفسیر ہے اسی طرح حدیث، حدیث کی تفسیرہے ۔
اورصحیح مسلم کی زیربحث روایت کی تشریح درج ذیل روایت سے ہوجاتی ہے کہ اس کا تعلق بوقت سلام والے رفع الیدین سے ہے:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللّٰهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا:السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: مَا بَالُ هَؤُلَائِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَي فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَي أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ ۔
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے توہم کہتے السَّلَامُ عَلَیْکُمْ ،السَّلَامُ عَلَیْکُمْ اورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔
[المعجم الکبیر للطبرانی:۲؍۲۰۵، رقم:۱۸۳۶،واسنادہ صحیح]
تنبیہ بلیغ:
یہی حدیث صحیح مسلم میں اسی سند متن کے ساتھ ہے، لیکن اس میں مَا بَالُ هَؤُلَاء ِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ کی جگہ عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ کے الفاظ ہیں اورجب ہم زیربحث روایت کی تشریح میں مسلم کی اس دوسری روایت کو پیش کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو صحیح مسلم ہی میں اس دوسری حدیث کی تشریح موجود ہے کہ اس سے مراد بوقت سلام والا رفع الیدین ہے۔
تو حنفی حضرات چیخنے لگتے ہیں کہ نہیں مسلم کی اس اگلی حدیث میں توعَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ کے الفاظ ہیں اورپہلی حدیث میں مَا بَالُ هَؤُلَاء ِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، کے الفاظ ہیں، یہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ پہلی روایت میں رفع الیدین کی بات ہے اوردوسری روایت میں اشارہ کی بات ہے۔
اسی لیے ہم نے مسلم والی دوسری حدیث کے الفاظ نہ نقل کرکے طبرانی کے الفاظ نقل کئے ہیں جس میں رفع الیدین ( يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ ) کی صراحت ہے اوریہ روایت بعینہٖ اس سند متن سے ہے جو مسلم میں آگے موجودہے۔
اورطبرانی کی یہ روایت اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ مسلم کی اگلی روایت میں: عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ کے الفاظ اورپہلی روایت میں مَا بَالُ هَؤُلَاء ِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ کے الفاظ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
طبرانی کی اس روایت اورمسلم میں اگلی والی روایت دونوں کی سند یکساں ہے:
مسلم کی اگلی والی روایت کی سند یہ ہے:
وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللّٰهِ بْنُ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَال:كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا۔۔۔۔۔۔۔الخ
اورطبرانی والی روایت کی سند یہ ہے:
وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللّٰهِ بْنُ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَال: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا۔۔۔۔۔۔۔الخ
چوتھی دلیل : الفاظ حدیث كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ کی دلالت:
اس حدیث میں جس رفع الیدین کا ذکرہے اسے سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے ، اوریہ مسنون رفع الیدین سے ایک الگ شکل ہے کیونکہ اس صورت میں ہاتھ دائیں بائیں ہلے گا جیساکہ درج ذیل حدیث اس کی دلیل ہے:
عَنْ عُبَيْدِ اللّٰهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: مَا بَالُ هَؤُلَائِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَي فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَي أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ۔
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے تو ہم کہتے: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ اورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم ،تم میں سے ہر ایک کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔
[المعجم الکبیر للطبرانی: ۲؍۲۰۵،رقم:۱۸۳۶،واسنادہ صحیح]
اس حدیث میں غورکریں یہاں یہ بات مسلم ہے کہ اس میں بوقت سلام والے رفع الیدین کا تذکرہ ہے ، اورہاتھ کو دائیں بائیں اٹھانے کی بھی صراحت ہے ، اوریہاں اس صورت کو كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ کہا گیا ہے۔
اس سے ثابت ہواکہ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ کی صورت جس رفع الیدین میں پائی جاتی ہے اس کا مسنون رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پانچویں دلیل: یہ ممنوع عمل صرف صحابہ کی طرف منسوب ہواہے۔
مسلم کی زیربحث حدیث میں مَا لِی أَرَاکُمْ رَافِعِی أَیْدِیکُمْ کے الفاظ پرغور کریں، اس میں جس رفع الیدین پرعمل سے روکا گیا ہے اس عمل کو صرف صحابہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق مسنون رفع الیدین سے نہیں ہے، کیونکہ ایسا ہوتا تویہ عمل صرف صحابہ کی طرف منسوب نہ کیا جاتا، اس لیے کہ یہ توآپ ﷺکا بھی عمل تھا جیسا کہ فریق دوم کو بھی یہ بات تسلیم ہے۔
ایسی صورت میں جمع’’ منكم‘‘ کا صیغہ استعمال ہونا چاہئے یعنی اس طرح ’’ما لنا نرفع ايدينا‘‘۔ اورحدیث میں ایسا نہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ ممنوعہ رفع الیدین صرف صحابہ کا اپنا عمل تھا اورمسنون رفع الیدین جس پرآپ ﷺ اورصحابۂ کرام سب عمل کرتے تھے اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
چھٹی دلیل: نبی ﷺ کے ٹوکنے پرصحابۂ کرام نے آپﷺ کا حوالہ نہ دیا:
زیربحث مسلم کی حدیث میں جب اللہ کے نبی ﷺ نے صحابہ سے رفع الیدین کی وجہ پوچھی تو صحابۂ کرام نے آپ ﷺ کا حوالہ نہ دیا ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق مسنون رفع الیدین سے نہ تھا کیونکہ ایسا ہوتا تو یہ آپ ﷺ کا بھی عمل تھا اورایسی صورت میں صحابہ آپ کا حوالہ فوراً دیتے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم نے آپ کو رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا اس لیے ہم نے بھی کیا ، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتاہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَال: بَيْنَمَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عَنْ يَسَارِهِ، فَلَمَّا رَأَي ذَلِكَ الْقَوْمُ أَلْقَوْا نِعَالَهُمْ، فَلَمَّا قَضَي رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ: مَا حَمَلَكُمْ عَلَي إِلْقَائِ نِعَالِكُمْ ، قَالُوا:رَأَيْنَاكَ أَلْقَيْتَ نَعْلَيْكَ فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ جِبْرِيلَ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا ۔أَوْ قَالَ: أَذًي – وَقَالَ: إِذَا جَاء َ أَحَدُكُمْ إِلَي الْمَسْجِدِ فَلْيَنْظُرْ:فَإِنْ رَأَي فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا أَوْ أَذًي فَلْيَمْسَحْهُ وَلْيُصَلِّ فِيهِمَا ۔
صحابیِٔ رسول ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے آپ ﷺ نے اپنے جوتے اتارے اور اپنی بائیں طرف رکھ لیے، جب لوگوں نے آپﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے نکال ڈالے۔ جب رسول اللہ ﷺنماز پڑھ چکے تو آپ ﷺ نے پوچھا تم نے اپنے جوتے کیوں اتارے؟ لوگوں نے جواب دیا ہم نے آپ کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اتار دیئے، آپ ﷺنے فرمایا: کہ جبرائیل میرے پاس آئے اور بتایا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہے، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو دیکھ لے۔ اگر جوتوں میں گندگی یا نجاست لگی ہو تو ان کو زمین پر رگڑ دے اس کے بعد (ان کو پہن کر) نماز پڑھے۔
[سنن أبی داؤد :۱؍۱۷۵،رقم :۶۵۰]
اس حدیث میں غورکریں کہ صحابۂ کرام نے آپ ﷺکے عمل کو دیکھ کر عمل کیا اورجب آپ ﷺنے ٹوکا توفوراآپ کا حوالہ دے دیا کہ آپ نے ایسا کیا اس لیے ہم نے بھی ایسا کیا۔
معلوم ہوا کہ اگرزیربحث حدیث میں مسنون رفع الیدین پر صحابۂ کرام کو ٹوکا گیا ہوتا تو صحابہ یہاں بھی فوراً آپ ﷺ کا حوالہ دیتے ، اس سے ثابت ہوا کہ اس حدیث میں مسنون رفع الیدین سے نہیں روکا گیا ہے۔
ساتویں دلیل: اس عمل کو سرکش گھوڑوں کی دم کی حرکت سے تشبیہ دینا:
اس حدیث میں ممنوعہ رفع الیدین کوسرکش گھوڑوں کی دم کی حرکت سے تشبیہ دی گئی ہے ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کا اس کا تعلق ایسے عمل سے نہیں ہوسکتا جسے آپ نے کبھی بھی انجام دیاہو، اورمسنون رفع الیدین تو آپ کا عمل رہا ہے ، کیا آپ ﷺ ایک پل کے لیے بھی ایسے عمل کوانجام دے سکتے جس کی اتنی بری مثال ہو؟
آٹھویں دلیل: محدثین کا اجماع:
محدثین کا اس بات پراجماع ہے کہ زیربحث روایت میں ممنوعہ رفع الیدین کا تعلق تشہد کے وقت ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے باب قائم کیا:
بَابُ الْأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ، وَالنَّهْيِ عَنِ الْإِشَارَةِ بِالْيَدِ، وَرَفْعِهَا عِنْدَ السَّلَامِ، وَإتْمَامِ الصُّفُوفِ الْأُوَلِ وَالتَّرَاصِّ فِيهَا وَالْأَمْرِ بِالِاجْتِمَاعِ۔
[صحیح مسلم:۱؍۳۲۲]
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے باب قائم کیا:
’’بَابٌ فِي السَّلَامِ‘‘۔
[سنن أبی داؤد:۱؍۲۶۱]
امام نسائی رحمہ اللہ نے باب قائم کیا:
بَابُ السَّلَامِ بِالْأَیْدِء فِی الصَّلَاۃِ ۔
[سنن النسائی:۳؍۴]
امام ابونعیم نے باب قائم کیا:
بَابُ الْكَرَاهِيَةِ أَنْ يَضْرِبَ الرَّجُلُ بِيَدَيْهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ فِي الصَّلاةِ ۔
[المسند المستخرج علی صحیح مسلم لأبی نعیم:۲؍۵۳]
صحیح ابن حبان میں ہے:
ذِكْرُ الْخَبَرِ الْمُقْتَضِي لِلَّفْظَةِ الْمُخْتَصَرَةِ الَّتِي تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا بِأَنَّ الْقَوْمَ إِنَّمَا أُمِرُوا بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ الْإِشَارَةِ بِالتَّسْلِيمِ دُونَ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ۔
[صحیح ابن حبان:۵؍۱۹۹]
امام ابن ابی شیبہ نے باب قائم کیا:
مَنْ كَرِهَ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاء۔
[مصنف ابن أبی شیبۃ:۲؍۲۳۰]
امام ابن حجرنے فرمایا:
وَلَا دَلِيلَ فِيهِ عَلَي مَنْعِ الرَّفْعِ عَلَي الْهَيْئَةِ الْمَخْصُوصَةِ فِي الْمَوْضِعِ الْمَخْصُوصِ وَهُوَ الرُّكُوعُ وَالرَّفْعُ مِنْهُ لِأَنَّهُ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَبَيَانُ ذَلِكَ أَنَّ مُسْلِمًا رَوَاهُ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ۔
[التلخیص الحبیر ط العلمیۃ :۱؍۵۴۴]
امام نووی نے فرمایا:
وَأَمَّا حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ فَاحْتِجَاجُهُمْ بِهِ مِنْ أَعْجَبِ الْأَشْيَائِ وَأَقْبَحِ أَنْوَاعِ الْجَهَالَةِ بِالسُّنَّةِ لِأَنَّ الْحَدِيثَ لَمْ يَرِدْ فِي رَفْعِ الْأَيْدِي فى الركوع والرفع منه لكنهم كَانُوا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي حَالَةِ السَّلَامِ مِنْ الصلاة ويشيرون بها الي الجانبين ويريدون بِذَلِكَ السَّلَامَ عَلَي مَنْ عَنْ الْجَانِبَيْنِ وَهَذَا لَا خِلَافَ فِيهِ بَيْنَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَمَنْ لَهُ أَدْنَي اخْتِلَاطٍ بِأَهْلِ الْحَدِيثِ وَيُبَيِّنُهُ أَنَّ مُسْلِمَ بْنَ الْحَجَّاجِ رَوَاهُ فِي صَحِيحِهِ مِنْ طَرِيقِينَ المجموع ۔
[شرح المہذب:۳؍۴۰۳]
امام بخاری نے فرمایا:
وَأَمَّا احْتِجَاجُ بَعْضِ مَنْ لَا يَعْلَمُ بِحَدِيثِ وَكِيعٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالََ:دَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،وَنَحْنُ رَافِعِي أَيْدِينَا فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ:مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ، فَإِنَّمَا كَانَ هَذَا فِي التَّشَهُّدِ لَا فِي الْقِيَامِ كَانَ يُسَلِّمُ بَعْضُهُمْ عَلَي بَعْضٍ فَنَهَي النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَفْعِ الْأَيْدِي فِي التَّشَهُّدِ ،وَلَا يَحْتَجُّ بِمِثْلِ هَذَا مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْعِلْمِ، هَذَا مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ لَا اخْتِلَافَ فِيهِ ،وَلَوْ كَانَ كَمَا ذَهَبَ إِلَيْهِ لَكَانَ رَفْعُ الْأَيْدِي فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرَةِ، وَأَيْضًا تَكْبِيرَاتُ صَلَاةِ الْعِيدِ مَنْهِيًّا عَنْهَا، لِأَنَّهُ لَمْ يَسْتَثْنِ رَفْعًا دُونَ رَفْعٍ۔
[قرۃ العینین برفع الیدین فی الصلاۃ: ص:۳۱]
امام ابن الملقن نے فرمایا:
(أما) الحَدِيث الأول، وَهُوَ حَدِيث (جَابر بن) سَمُرَة فجعْله مُعَارضا لما قدمْنَاهُ من أقبح الجهالات لسنة سيدنَا رَسُول اللّٰه صَلَّي الله عَلَيْهِ وَسلم ؛ لِأَنَّهُ لم يرد فِي رفع الْأَيْدِي فِي الرُّكُوع وَالرَّفْع مِنْهُ، وَإِنَّمَا كَانُوا يرفعون أَيْديهم فِي حَالَة السَّلَام من الصَّلَاة، ويشيرون بهَا إِلَي (الْجَانِبَيْنِ) يُرِيدُونَ بذلك السَّلَام عَلَي من (عَلَي) الْجَانِبَيْنِ، وَهَذَا لَا (اخْتِلَاف)فِيهِ بَين أهل الحَدِيث وَمن لَهُ أدنَي اخْتِلَاط بأَهْله۔
[البدر المنیر:۳؍۴۸۵]
تلك عشرة كامله۔ موخرالذکرحوالوں میں عدم اختلاف یعنی اجماع کی صراحت ہے۔
نویں دلیل: عموم مان لیں تو مسنون رفع الیدین کا استثناء ثابت ہے:
جس طرح اس حدیث کے ہوتے ہوئے احناف تکبیرات عیدین میں اوروترمیں اورتکبیرتحریمہ میں دیگردلائل کی بنا پررفع الیدین کرتے ہیں اسی طرح مسنون رفع الیدین کے بھی دلائل موجود ہیں۔
امام بخاری فرماتے ہیں:
وَلَا يَحْتَجُّ بِمِثْلِ هَذَا مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْعِلْمِ، هَذَا مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ لَا اخْتِلَافَ فِيهِ ،وَلَوْ كَانَ كَمَا ذَهَبَ إِلَيْهِ لَكَانَ رَفْعُ الْأَيْدِي فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرَةِ ،وَأَيْضًا تَكْبِيرَاتُ صَلَاةِ الْعِيدِ مَنْهِيًّا عَنْهَا، لِأَنَّهُ لَمْ يَسْتَثْنِ رَفْعًا دُونَ رَفْعٍ ۔
[قرۃ العینین برفع الیدین فی الصلاۃ: ص:۳۱]
دسویں دلیل: خود علمائے احناف کا اعتراف:
محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باقی رہا اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں ، کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے، کہ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم بوقت سلام نمازمیں اشارہ بالید کرتے تھے،آپ ﷺ نے اس کومنع فرمادیا ۔
[الورد الشذی: ص:۶۵]
مولانا محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:
لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اورکمزورہے۔ (درس ترمذی:ج:۲،ص:۳۶)
تلك عشرة كامله
٭ ٭٭