-
ہجرت دین اور دعوت دین کی سچی تڑپ تھی کہ پیارے نبی ﷺاور آ پ کے صحابہ کو اللہ کے حکم سے ہجرت کرنی پڑی ،بے مثال ہجرت!وقت گزرجانے کے بعد اسلامی تا ریخ کی جب بات نکلتی ہے تو صحابۂ کرام آپسی مشورے کے بعد اسلامی سنہ کا آغاز ہجرت والے واقعے سے کرتے ہیں یعنی سب کچھ لٹا دینے اور قربان کر دینے کی یاد!ہجرت مدینہ سے کہیں بڑے بڑے واقعات اس کائنات ارضی میں پیش آچکے تھے، رسول عربی کی پیدائش اورآپ کی تاریخ ِبعثت روشنی کی دو ایسی بڑی اور اہم بنیادیں ہیں جن کے بغیر انسان کا وجود سراپا ظلمت ہے ،بایں وصف صحابہ نے ہجرت کے واقعے کو اسلامی تاریخ کا سرنامہ مقرر فرمایا جو اپنی حقیقت میں بے بسی اور بے کسی کی قابل رحم تصویر ہے لیکن ہاں!اس واقعے نے صحابہ کا ابدی تزکیہ کردیا ۔ شاید صحابہ نے ہجرت کو تاریخ کی بنیاداس لیے قرار دیا کہ آنے والی نسلوں کو اگر کوئی پہاڑوں کی غاروں میں بند کردے یا پھر زمین میں دفن کردے توبھی یہ باہر نکل جانے اور نجات پانے کے عزم سے سرفراز رہیں ۔ یعنی پتھروں سے آب زمزم نچوڑنے کی دھن اور سیاہ کوئلے سے ہیرا نکال لانے کا عزم جوان اور تازہ رہے۔ جب ہوا مخالف ہو ،رات کا مہیب سناٹا دنیا کو اپنی بانہوں میں جکڑلے اور سمندر کی طغیانی کشتی حیات کو نگلنے کے لیے منہ پھاڑے دوڑ پڑی ہو تو تاریخ ِہجرت سے اپنے شب و روز شمار کرنے والے زندگی کی بہاروں سے نا امید نہ ہوں اللہ کے سہارے اللہ کے لیے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل پڑیں راستہ آسان کرنا اسی کا کام ہے ۔
ہجرت اصل میں بذات خود ایک قوت ہے آدمی اگر ساری متاعِ حیات کو ٹھوکر مار کر جان ہتھیلی پر لیے اشک بار آنکھوں سے ایک بارویران دالان پر نگاہ ڈال کر ’’اني وجهت وجهي ‘‘کا ورد کرتے ہوئے ارض اللہ کی طرف نکل پڑ ے تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس کے اندر کتنا طاقتور نفس بیدا ر ہوجائے گا، کیسا رشک ِ سلطان گدا اور گدا مزاج سلطان سینے کی لہروں سے اٹھ سکتا ہے۔ یقیناً یہی وہ اسباب تھے کہ صحابہ نے دنیا اور متاع ِدنیا کو ایسی حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا کہ دنیا کھسیا کے رہ گئی ۔ خود ہجرت کے بعد کا منظر نامہ ملاحظہ کیجئے مہاجرین مکہ انصار مدینہ پر بوجھ نہ بنے اور کارگاہ حیات میں اللہ کے سہارے ایسی محنت کی کہ دین و دنیا دونوں میں سرفراز رہے ۔
ہجرت محض دنیا کے لیے ہو تو بھی طاقت کا سر چشمہ ثابت ہوتی ہے، شدائد سے الجھنے اور مصائب کو جھیلنے کی ایک مجاہدانہ طبیعت جنم لیتی ہے یعنی ہجرت کی محض لفظی حقیقت بھی بڑی توانا ہوتی ہے پھر انداز ہ کیجئے کہ وہ ہجرت جو’’ اِني مهاجرٌ الي ربي‘‘ کے جمالِ سواد کی سمت ہو تو صورت کیا ہوگی ۔ اگر اس ہجرت کا ایک موہوم نقشہ بھی پاکستان کی مہاجر قوموں کو نصیب ہوا ہوتا تو آج عالم ہی دوسرا ہوتا لیکن یہ ہجرت تو ایک ہنگامی ہجرت تھی، مجبوریوں کی ہجرت ،متاعِ دنیا کی ہجرت، قومی تعصب کی ہجرت!اگر یہ ہجرت کسی خطۂ ارض کے لیے تھی اور واقعی اسی لیے تھی تو خطۂ ارضی ہندوستان میں بھی ہمیں نصیب تھی اور مفت میں سجدے کی اجازت بھی!پھر ہجرتِ پاکستان کا مطلب؟ یقیناً یہ ہجرت شرعی پیمانوں پر ایک ناکام ہجرت تھی، مہاجرین ِپاکستان کو اس کا محاسبہ کرنا چاہئے ۔