Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اسلام میں بیٹی کے حقوق اور اس کے فضائل (قسط اول)

    مذہب اسلام ایک کامل اور مکمّل دین ہے، جس میں روئے زمین پر رہنے والے تمام لوگوں کے لیے حقوق اور سب کی ذمہ داریاں مقرر کی گئی ہیں اور زندگی کے تمام شعبہ میں قرآنی تعلیمات وسنت رسول ﷺ ہماری رہنمائی کرتی ہیں ۔
    اسلام کی امتیازی خوبیوں میں سے ایک خوبی بیٹیوں کا احترام ہے جس سے آج کی نظریاتی دنیا محروم ہے ۔ اس کی پوری تفصیل زیر نظر مضمون میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے ۔ تاہم قابل غور ایک پہلو یہ کہ آج کی دنیا نے اس کے احترام کا استحصال کیا ہے اور ننگی آزادی کو اس کا متبادل قرار دیا ہے ۔ جس کے باعث اس کی عزتیں تار تار ہیں ، جنسی درندوں کی زد پر ہیں ، کھلی عریانیت نے اس کے ظاہری و باطنی حیا کو چھین لیا ہے ، وراثت سے محرومی نے اسے کلبوں اور بازاروں میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کردیا ہے ۔ غرض آج کی خاتون اس ننگی آزادی کے زعم باطل میں اسلام کی اصلی تعلیم سے غافل ہے ورنہ وہ حقیقی عفت اور حقیقی آزادی سے آشنا ہوتی ۔
    اورلڑکیوں کو زندگی کا حقوق صرف مذہب اسلام نے دیا ہے، اور مذہب اسلام سے قبل زمانہ ٔجاہلیت میں لوگ بیٹیوں کو ذلیل ، حقیر اور نیچ اس قدر سمجھتے تھے کہ کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی تو وہ مارے شرم کے منہ چھپائے پھرتا تھا ، اور زمانۂ جاہلیت میں کچھ ایسے ظالم انسان موجود تھے کہ وہ بیٹی کا باپ کہلوانے کے ڈر سے اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے یا تو اپنی بیٹیوں کو گلا دبا کر ہمیشہ کے لیے خاموش کردیتے تھے، یہی نہیں بلکہ زمانۂ جاہلیت میں بیٹی کو نجاست کا ڈھیر اور شیطان کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا ، اور کچھ لوگ لڑکی کی پیدائش کے بجائے اس کی وفات پر مبارکباد دیتے تھے ۔
    اور مذہب اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں جس کسی انسان کو لڑکی کی پیدائش کی اطلاع اور خبر دی جاتی تو بیٹی کی ولادت کی خبر سنتے ہی حقارت کی تیوریاں چہرے پر نمایاں ہوتی تھیں۔
    اور جس شخص کے گھر میں بیٹی پیدا ہوجاتی تو اس شخص کی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ اس کا چہرہ اسود ، سیاہ اور کالا ہوجاتا ، لوگوں سے چھپاتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کسی کو کیا منہ دکھائے ، سوچتا تھا کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رکھے یا مٹی میں دبادے؟
    اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
    {وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَيٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ، يَتَوَارَيٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوئِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلٰي هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَائَ مَا يَحْكُمُونَ}
    ترجمہ: ’’ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جاتی تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے، اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے، اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا۔ کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لیے ہوئے رہے یا مٹی میں دبادے، آہ کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں ‘‘۔
    [النحل:۵۸،۵۹]
    اسلام سے پہلے جزیرہ ٔعرب کے ریگستان میں کتنی لڑکیاں زندہ زمین میں دفن کر دی گئی ان کی صحیح تعداد صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، ایک جاہل باپ سمجھتا تھا کہ بیٹی ایک بوجھ ہے اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے، اور وہ قبیلے کا دفاع بھی نہیں کرسکتی، وہ اسے اپنی عار اور شرمندگی سمجھتا تھا۔
    مذہب اسلام نے زندہ گاڑی ہوئی لڑکیوں کو ایک مقام عطا کیا:
    جب نبی مکرم ﷺ مذہب اسلام لے کر آئے تو اللہ تعالیٰ نے اس جاہلی فعل کا خاتمہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
    {وَإِذَا الْمَوْء ُودَةُ سُئِلَتْ ، بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ}
    ترجمہ:’’اور جب زندگی گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا، کہ کس گناہ کی وجہ سے قتل کی گئی ‘‘۔
    [التکویر: ۸،۹]
    فائدہ: اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اسلام آجانے کے بعد اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں قیامت کے دن سوال کرے گا اور جس کسی نے لڑکی کو زندہ درگور کیا ہوگا ، تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو دردناک عذاب میں قیامت کے دن ڈالے گا ۔
    اور اسی طرح سے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو رحم مادر میں نہ قتل کرے کیونکہ یہ بھی ایک عظیم گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
    {وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا}
    ترجمہ:’’اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، ان کو اور تم ہم ہی رزق دیتے ہیں ۔ بے شک ان کا قتل کرنا کبیرہ گنا ہے ‘‘۔
    [بنی اسرائیل:۳۱]
    اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شرک کے بعد جس گناہ کو سب سے بڑا قرار دیا وہ یہی ہے : ’’أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ ، خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ‘‘۔ ’’ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گئی ‘‘۔
    [صحیح البخاری:۴۷۶۱]
    آج کل قتل اولاد کا گناہ عظیم نہایت منظم طریقے سے اور خاندانی منصوبہ بندی کے حسین عنوان سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے اور مرد حضرات بہتر تعلیم وتربیت کے نام پر اور خواتین اپنے حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اس جرم کا عام ارتکاب کر رہی ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ ۔
    (تفسیر احسن البیان:۷۸۱)
    مذہب اسلام نے بیٹیوں کو حق دیا:
    اسلام نے بیٹوں کو حق دیا ہے اور اسلام نے ہی بیٹی کو رحمت قرار دیا ہے ۔ اور اسلام سے قبل بیٹی کو وراثت سے محروم کردیتے تھے لیکن اسلام نے بیٹی کے حق میں وراثت کو فرض قرار دیا، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں ارشاد فرمایا:
    {يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَائً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِّنَ اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا}
    ترجمہ: ’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے، مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے، پھر اگر وہ دو سے زیادہ عورتیں (ہی) ہوں، تو ان کے لیے اس کا دوتہائی ہے جو اس نے چھوڑا اور اگر ایک عورت ہو تو اس کے لیے نصف ہے۔ اور اس کے ماں باپ کے لیے، ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے، جو اس نے چھوڑا، اگر اس کی کوئی اولاد ہو۔ پھر اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے، پھر اگر اس کے (ایک سے زیادہ) بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائے، یا قرض (کے بعد)۔ تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تم نہیں جانتے ان میں سے کون فائدہ پہنچانے میں تم سے زیادہ قریب ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ حصے ہیں، بے شک اللہ ہمیشہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے‘‘۔
    [النساء:۱۱]
    اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکا عطا کرتاہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
    {لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَائُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَائُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَائُ الذُّكُوْرَ}
    ترجمہ:’’آسمانوں اور زمین میں اللہ ہی کی بادشاہی ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے‘‘۔
    [الشوریٰ:۴۹]
    فائدہ: اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹی کا ذکر پہلے کیا ہے اور بیٹے کا بعد میں کیا ہے ، کیوں کہ بیٹی رحمت ہے اور بیٹا نعمت ہے اور رحمت کے بغیر نعمت کا مزہ نہیں ۔
    جس کسی نے بیٹی کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو بیٹیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی:
    عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَتِ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا تَسْأَلُ، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ فَأَعْطَيْتُهَا إِيَّاهَا، فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا، ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَيْنَا فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:’’مَنِ ابْتُلِيَ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ بِشَيْئٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ‘‘۔
    ترجمہ: حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے مانگتی ہوئی آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا اس وقت اور کچھ نہ تھا میں نے وہی دے دیا۔ وہ ایک کھجور اس نے اپنی دونوں بچیوں میں تقسیم کر دی اور خود نہیں کھائی۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا حال بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’کہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو بچیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی ‘‘۔
    [رواہ البخاری:۱۴۱۸، ۵۹۹۵]
    جس کے پاس بیٹیاں ہوں اور ان پر صبر کرے ، اپنی کمائی سے کھلائے اور پہنائے تو بیٹی قیامت کے دن ماں اور باپ کے لیے جہنم سے آڑ ہوں گی:
    عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:’’مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ، وَأَطْعَمَهُنَّ وَسَقَاهُنَّ، وَكَسَاهُنَّ مِنْ جِدَتِهِ، كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘۔
    ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺکو ارشاد فرماتے سنا:’’جس کے پاس تین لڑکیاں ہوں، اور وہ ان کے ہونے پر صبر کرے ، ان کو اپنی کمائی سے کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ اس شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم سے آڑ ہوں گی‘‘۔
    [اسنادہ صحیح: رواہ ابن ماجہ فی سننہ:۳۶۶۹، وأحمد فی مسندہ :۱۷۴۰۳، والألبانی فی سلسلۃ الصحیحۃ :۲۹۴]
    عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’مَنِ ابْتُلِيَ بِشَيْء ٍ مِنَ الْبَنَاتِ، فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ ؛ كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ ‘‘۔
    ترجمہ: حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:’’جوشخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہو، پھر ان کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پر صبرکرے تو یہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بنیں گی ‘‘۔
    [إسنادہ صحیح :رواہ الترمذی فی سننہ:۱۹۱۳]
    فائدہ: بڑے نادان ہیں وہ جو بیٹیاں زیادہ ہونے سے روتے اورشکوہ شکایت کرتے ہیں حالانکہ تجربہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ بیٹے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو اپنی بیوی اور اولاد کی محبت میں غرق ہو کر ماں باپ کو پوچھتے بھی نہیں ، شاذو نادر بیٹے ایسے ہوتے ہیں، جو صاحب اولاد ہوکر بھی اپنے ماں باپ سے محبت اور الفت رکھتے ہیں، برخلاف اس کے بیٹیاں زندگی تک اپنے ماں باپ کی محبت نہیں چھوڑ تیں اور ہمیشہ ان کی خدمت کرتی رہتی ہیں، مبارک ہے وہ بیٹا یا بیٹی جو ہمارا رب اورہمار ا مالک ہم کو عنایت فرمائے، اللہ تعالی سے یہ دعا ما نگنی چاہئے کہ بیٹا ہو یا بیٹی صالح اور نیک بخت ہو۔ اور اگر بیٹا ہوا لیکن نکما اورنافرمان تواس سے سو درجہ بیٹی بہترہے۔
    جس نے بیٹیوں کی کفالت کی وہ جنت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ داخل ہوں گے:
    عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ:’’مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ دَخَلْتُ أَنَا وَهُوَ الْجَنَّةَ كَهَاتَيْنِ وَأَشَارَ بِأُصْبُعَيْهِ‘‘۔
    ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا :’’جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی، جنت میں وہ اور میں(ایک ساتھ)ان دونوں انگلیوں کی طرح جنت میں داخل ہوں گے، آپ ﷺ نے دو انگلیوں جوڑ اشارہ فرمایا‘‘۔
    فائدہ: معلوم ہوا کہ جس کسی نے دولڑکیوں کی کفالت اور پرورش کی تو میں اوروہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے ، اور آپ نے کیفیت بتانے کے لیے اپنی دونوں انگلیوں (شہادت اور درمیانی) سے اشارہ کیا ۔
    [صحیح :رواہ مسلم : ۲۶۳۱]
    بیٹیوں کی پرورش پر جنت واجب ہے اور قیامت کے دن بیٹی ماں باپ کے لیے جہنم سے آڑ ہو گی:
    عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا ، أَنَّهَا قَالَتْ:’’جَاء َتْنِي مِسْكِينَةٌ تَحْمِلُ ابْنَتَيْنِ لَهَا، فَأَطْعَمْتُهَا ثَلَاثَ تَمَرَاتٍ، فَأَعْطَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا تَمْرَةً، وَرَفَعَتْ إِلَي فِيهَا تَمْرَةً لِتَأْكُلَهَا، فَاسْتَطْعَمَتْهَا ابْنَتَاهَا، فَشَقَّتِ التَّمْرَةَ الَّتِي كَانَتْ تُرِيدُ أَنْ تَأْكُلَهَا بَيْنَهُمَا، فَأَعْجَبَنِي شَأْنُهَا فَذَكَرْتُ الَّذِي صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللّٰهَ قَدْ أَوْجَبَ لَهَا بِهَا الْجَنَّةَ، أَوْ أَعْتَقَهَا بِهَا مِنَ النَّارِ‘‘۔
    ترجمہ: حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک فقیرنی میرے پاس آئی اپنی دونوں بیٹیوں کو لیے ہوئے، میں نے اس کو تین کھجوریں دیں۔اس نے ہر ایک بیٹی کو ایک ایک کھجور دی اور تیسری کھجور کھانے کے لیے منہ سے لگائی اتنے میں اس کی بیٹیوں نے (وہ کھجور بھی مانگی کھانے کو) اس نے اس کھجور کے جس کو خود کھانا چاہتی تھی دو ٹکڑے کیے ان دونوں کے لیے، مجھے یہ حال دیکھ کر تعجب ہوا، میں نے جو اس نے کیا تھا رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے اس سبب سے اس کے لیے جنت واجب کر دی یا اس کو جہنم سے آزاد کر دیا ‘‘۔
    [صحیح : رواہ مسلم :۲۶۳۰]
    فائدہ: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص بیٹیوں کی پرورش کرنے میں اور اپنی اولاد کے حق میں مساوات و برابری کرے گا تو اس پر جنت واجب ہے اور قیامت کے دن بیٹی ماں باپ کے لیے جہنم سے آڑ ہو گی۔
    بیٹے اور بیٹی سے پیار اور محبت میں مساوی برابری کرو:
    عن أنس بن مالك رضي اللّٰه عنه قال: كان مع رسولِ اللّٰهﷺرجلٌ فجاء َ ابنٌ لهُ فقَبَّلَهُ وأجلسهُ على فَخِذِهِ ثم جاء تْ بنتٌ لهُ فأَجْلَسَها إلى جنبِه قال:’’فهلّا عَدَلْتَ بينَهُما ‘‘۔
    ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ ایک آدمی تھا ، اس آدمی کے پاس اس کا بیٹا آیا ، اس آدمی نے اس کو بوسہ دیا (یعنی شفقت سے چوما) اور ران پر بٹھا لیا ، پھر اُس کی بیٹی آ گئی اُس آدمی نے اُس کو اپنے پہلو میں بٹھا لیا تو آپ رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی سے فرمایا کہ تم نے(بوسہ لینے میں) ان دونوں کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا ؟‘‘۔
    [إسنادہ صحیح :رواہ البزار:۶۳۶۱، والطحاوی فی شرح معانی الآثار:۳۸۴۴، وتمام فی الفوائد :۱۶۱۶، وابن عساکر فی التاریخ:۴؍۶۰۱،مصورۃ المدینۃ ، والبیہقی فی شعب الإیمان:۱۰۵۴۹، والألبانی فی سلسلۃ الصحیحۃ:۳۰۹۸]
    فائدہ: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کو بیٹے اور بیٹی میں شفقت اور پیار کا فرق کرنا سخت نا پسند گزرا، اس لیے تمام لوگوں کو چاہئے کہ اپنی اولاد کے درمیان مساوات وبرابری کو لازم پکڑے اور ان کے ساتھ انصاف کرے ۔
    جاری ہے ……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings