-
تنہائی کے گناہ کی ہولناکی اور سنگینی عَنْ ثَوْبَانَ ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، اَنَّهُ قَالَ:’’لَاَعْلَمَنَّ اَقْوَامًا مِنْ اُمَّتِي يَاْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ اَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ، بِيضًا، فَيَجْعَلُهَا اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَائً مَنْثُورًا‘‘قَالَ ثَوْبَانُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ ، صِفْهُمْ لَنَا ، جَلِّهِمْ لَنَا اَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ ، قَال:’’اَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ، وَيَاْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَاْخُذُونَ، وَلَكِنَّهُمْ اَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللّٰهِ انْتَهَكُوهَا‘‘۔
[صحیح :سنن ابن ماجۃ:۴۲۴۵]
راوی حدیث کاتعارف : ثوبان (باء پر فتحہ او رواو پر سکون)بجدد(باء پر ضمہ ،جیم پر سکون او رپہلے دال پر ضمہ)یعنی ثوبان بن بجدد ہاشمی رضی اللہ عنہ جو کہ نبی ﷺ کے خادم تھے ۔کہاجاتاہے کہ اصلاً یہ یمن کے تھے اور آپ قیدی تھے پیارے نبی ﷺ نے آپ کو خرید کر آزاد کیا اور اختیار دیتے ہوئے فرمایا :اگر تم چاہو تو ان لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ جن سے تمہارا تعلق ہے اور اگر چاہو تو ہمارے اہلِ بیت میں سے ہوجاؤ ، آپ نے رسول اللہ ﷺکے قرب و تعلق کو ترجیح دی اور ساری زندگی آپ ﷺکے ساتھ ساتھ رہے۔نبی کی وفات کے بعد حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ شام کے شہر رَمْلَہ چلے آئے پھر وہاں سے حِمْص تشریف لے آئے۔۵۴ھ میں ان کا انتقال ہوا۔۱۲۷حدیثیں ان سے مروی ہیں۔
[مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:۲؍۱۲]
ترجمہ: ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرے کی طرح بنا دے گا، ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اللہ کے رسولﷺ! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمایئے تاکہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہو جائیں، آپ ﷺنے فرمایا:جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہی ہیں، اور تمہاری قوم میں سے ہیں، وہ بھی راتوں کو اسی طرح عبادت کریں گے، جیسے تم عبادت کرتے ہو، لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب تنہائی میں ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے۔
فوائد حدیث:
۱۔ بہت سے گناہ نیکیوں کو ضائع کردیتے ہیں۔
۲۔ تہجد پڑھنا نیکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ ضروری تنہائی میں تقویٰ پر قائم رہنا ہے۔
۳۔اصل تقویٰ یہی ہے کہ انسان اس وقت بھی گناہ سے باز رہے جب اسے دیکھنے والا کوئی نہ ہو۔
۴۔نیکیوں کو غبار میں تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول نہیں فرمائے گا۔اس لیے وہ بے وزن ہوجائیں گی اگرچہ دیکھنے میں وہ پہاڑوں جیسی عظیم اور سفید ہوں۔
(مولانا عطا اللہ ساجد حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجہ، تحت الحدیث:۴۲۴۵)
۵۔ کبیرہ یا صغیرہ گناہ کے سبب بھی ایمانی اخوت براقرار رہتی ہے۔