-
تم ایک مومنہ ہو، تم شرقی ہو نہ غربی الحمد للّٰه كفي وسلام علٰي عباده الذين اصطفي أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
{وَمَن يَّقْنُتْ مِنكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيْمًا}
’’اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی اور نیک عمل کرے گی اسے ہم اس کا اجر دو بار دیں گے اور ہم نے اس کے لیے با عزت رزق تیار کر رکھا ہے‘‘۔
[سورۃ الاحزاب :۳۱]
محترم قارئین! انسانوں کی ایک جنس عورت ہوا کرتی ہے، جس کو اسلام سے قبل معاشرے میں کسی قسم کی کوئی حیثیت حاصل نہیں تھی جو بڑی حقیر وذلیل مخلوق تصور کی جاتی تھی، جس کا احترام انسانیت کے توہین کے مترادف اور تذلیل پیدائشی اور معاشرتی حق مانا جاتا، جس کا وجود باعث عار اور قتل افتخار وراحت کا ذریعہ تصور کیا جاتا۔
الغرض عورت نامی مخلوق اپنا انسانی حق کھونے کے دہانے کو پہنچ چکی تھی۔
ایسے پر آشوب ماحول میں رسول اللہ ﷺدنیا والوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں۔
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَيٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ}
’’اے لوگو!بے شک ہم نے تمہیں ایک نر اور ایک مادہ سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے‘‘۔
[الحجرات:۱۳]
یعنی اے انسان تمہاری تخلیق بغیر عورت کے ممکن ہی نہیں بلکہ پوری کائنات اس کے بنا ادھوری ہے۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ درُوں
لہٰذا تـاریخِ انسانی میں پیغمبر اسلام، محسـنِ انسانیت محمد ﷺہی وہ پہلی اور آخری شخصیت ہیں، جنہوں نے کائنات کی مظلوم ترین مخلوق عـورت کو بے رحم، ظالم و جابر جنسی درندوں کے چنگل سے نکال کر دنیائے انسانیت سے متعارف کرایا، عورت کے حقوق متعین کیے اور ان کا تحفظ فرمایا۔
حق بات یہ ہے کہ عورت تا قیامت محسنِ انسانیت محمدﷺکے احسانات کے بار گراں سے سبکدوش ہونا چاہے بھی تو نہیں ہوسکتی۔
اسلام کے ذریعے اس قدر عزتوں سے نوازی جانے والی اور پستیوں کے عمیق گڑھوں سے بلندیوں پر بٹھائی جانے والی عورت اگر خود کو اسی احکام شریعہ کی قید میں مقید سمجھے، اس سے خلاصی کو اپنا حق جانے، یا کسی اور کلچر کی اتباع میں اپنا تحفظ تصور کرے یا پھر آزادیٔ نسواں کے نام پر خود کو نیلام کرے تو اس کا واضح مطلب یہی ہوا کہ اس نے اپنا مقام پہچانا ہی نہیں۔
قارئین عظام! اب ہم دور حاضر کا جائزہ لیتے ہیں جہاں مغربی کلچر کا دور دورہ ہے، اس میں ایک مسلمان خاتون کہاں تک اپنے اس مقام کی شناسا اور قدرداں ہے۔
یہ بات جان لیجیے کہ دنیاوی راحت اور اخروی نجات کا راز صرف دین اسلام کی پیروی میںمضمر ہے۔ جب تک ایک خاتونِ اسلام خود کو اس کی تابعہ بنائے رکھے گی وہ نہ صرف خود دنیا کے ہر شر و فتن سے محفوظ ومامون رہے گی بلکہ مَردوں کے دین وایمان کی سلامتی کی بھی ضامن بنے گی اور آخرت بھی اس کی کامیاب ہوگی۔
اس کے برعکس اس کی ادنیٰ سی بھی چوک اس کی تباہی اور مَردوں کی آزمائش کا سبب بنے گی۔
افسوس کہ مسلمان عورتوں کی ایک کثیر تعداد (الا ماشاء ﷲ) اس مغربی تہذیب کی وبا کا شکار ہوچکی ہے۔
پھر نتیجہ یہ ہوا کہ اس تہذیب نے اس کی نظروں میں احکامِ اسلام کو معیوب بنا کر پیش کیا، اس کے لیے متعین کردہ حدود کو اسیری سے تعبیر کروایا اور اس کی ذہنیت کو اس قدر خستہ حال کردیا کہ وہ اپنی آزادی کا سامان خود تیار کرنے لگی۔
حقیقت سے نابلد انسان کیا جانے کہ اسلام کے دائرے میں ہی انسان آزاد ہے اس سے باہر نکلنا گویا اپنی آزادی کو اختتامی راہ پر لے جانا ہے۔
ایک جرمنی مسلمان عورت نے بجا کہا کہ مغرب کے فلسفے اور فیشن سے دھوکا مت کھاؤ، یہ سب شاطرانہ چالیں ہیں جو دھیرے دھیرے ہمیں اپنے دین سے ہٹانے اور ہماری دولت پر قبضہ کرنے کے لیے ہیں۔
اسلام اور اس کا خاندانی نظام ہی ایسا ہے جو صنف نازک کے لیے نہایت موزوں ہے کیونکہ عورت اپنی فطرت کے لحاظ سے گھر میں پروقار انداز سے رہنے ہی کے لیے ہے، کیونکہ اللہ نے مرد کو عورتوں کے مقابلے میں جسمانی قوت، عقل اور طاقت کے لحاظ سے قوی بنایا ہے اور عورت کو نہایت نازک، حساس اور جذباتی بنایا ہے۔عورتوں کو ایسی جسمانی قوت حاصل نہیں جو مردوں کے پاس ہے۔ ایک حد تک عورت مرد کے مقابلے میں متلون مزاج کی حامل ہے، اس لیے اس کا صحیح مقام گھر ہی ہے، شوہر اور بچوں سے محبت کرنے والی عورت بلا وجہ گھر کو نہیں چھوڑتی اور نہ غیر مردوں کے ساتھ اختلاط کرتی ہے، ننانوے فیصد مغربی عورتیں زوال کی اس پستی کو پہنچ چکی ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا اور ان کے دلوں میں خوف الٰہی نام کی کوئی چیز نہیں۔ (نسأل السلامۃ والعافیۃ)
جب کہ ایک مسلمان عورت ہمیشہ رضا الٰہی کی کوشاں اور سخطِ الٰہی سے کوسوں دور رہتی ہے، وہ جانتی ہے کہ اسلام کی طرف محض نسبت، نجات کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے ایک ایک حکم کوحزر جاں بنانا ہوگا۔ اور اس کے علاوہ دیگر تمام باطل تہذیبوں اور اوہام سے اپنے آپ کو بری کرنا ہوگا۔
صحابیات رضی اللہ عنہن اور دیگر خواتین سلف کی مبارک زندگیاں شاہد ہیں کہ انہوں نے اسلام سے نسبتاً وعملاً مربوط ہو کر ہی بام عروج پایا، پھر کسی کو آسمان سے رب العالمین کا سلام آیا تو کبھی جنت کے محل کا مژدہ سنایا گیا، کسی کی پاکدامنی پر آسمان سے وحی نازل ہوئی، کسی کو بیماری پر صبر کی بنا پر لسان رسالت ﷺسے جنت کی بشارت ملی تو کسی کی خدماتِ مسجد نے اس کو اس قدر تکریم سے نوازا کہ موت وتدفین ہوجانے کے باوجود بھی نبی ﷺنے نماز جنازہ پڑھ کر بارگاہِ الٰہ میں بخشش کی دعا کی۔
اس کے علاوہ کئی ایسی خواتین گزری ہیں جن کے اعلیٰ کارنامے اور واقعات، تاریخ کے اوراق کی زینت بن گئے اور قیامت کی صبح تک چمکتے رہیں گے۔
معزز قارئین! راہ اسلام روشن وتابناک ہے اس میں چلنے والا کبھی بھٹک نہیں سکتا بلکہ منزل تک ضرور رسائی حاصل کرے گا۔
ایک مسلمان عورت جب اس راہ پر چلنے کا عزم مصمم کرلیتی ہے تو پھر دنیا کی کوئی بھی باطل تہذیب اس کو اس راہ سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی شرط ہے کہ وہ اسلام سے اپنا تعلق مضبوط کرے اور اسی پر حیات وممات کا انحصار کرے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ خواتین اسلام کو صحیح معنوں میں اسلام کی پابند بنائے ۔آمین
٭٭٭