Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • فتنۂ الحاد کے اسباب وعلاج

    الحاد قصد و ارادہ سے ہٹ جانے کو کہتے ہیں، جبکہ علماء کرام نے اصطلاحاًکئی تعریف بیان کئے ہیں جن میں سب سے مشہور یہ ہے کہ وجودِ باری تعالیٰ کے انکار کرنے کو الحاد کہتے ہیں۔ (الحاد وسائل و خطرات اس سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر مترجم ڈاکٹر اجمل منظور مدنی:ص:۱۴)
    یہ قانونِ فطرت ہے کہ ہر دور میں شیطان اور شیطان کے پیروکار مذہب اسلام کے متبعین کو گمراہ کرنے کے لیے نئی نئی سبیل تلاش کرتا رہا ہے، وہ سبیل جس پر چل کراس کے ایمان کا سودا کرسکے، اس کے ایمان و یقین کی مضبوط دیوار کو پل بھر میں بھسم کرسکے، جو انہیں خالقِ حقیقی کے انکار پر آمادہ کرسکے، بتدریج وہ وقت آئے گا کہ وہ دین اسلام کے مسلمات کو جھٹلا کر الحاد کی راہ پر نکل کھڑا ہوگا، اپنی زبان و قلم سے عقائد کو بے مطلب کی باتیں بتائے گا، اللہ کے وجود کا انکار کرے گا، تقدیر، برزخ، جزاء وسزا کی تکذیب کرے گا، جنت و جہنم کا کھلے عام مذاق اڑائے گا، اس عمل پر شیطان روز اول سے مامور ہے جیسا کہ اس نے رب العالمین سے وعدہ کیا تھا:
    {وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ}
    ’’اور انہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا‘‘۔
    [النساء :۱۱۹]
    سترہویں صدی کے آواخر اور اٹھارویں صدی کے اوائل میں جب یورپ میں مذہب مخالف سوچ پنپنی شروع ہوئی اور بڑھتی ہی چلی گئی، یہاں تک اس سوچ نے سیاسی حلیہ اپنا کر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا لیا، چہار جانب سے مذہبی عداوت کھل کرسامنے آنے لگی، دھیرے دھیرے الحاد تناور درخت بنتا چلا گیا یہی وہ دور تھا کہ یورپ سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی ترقی کررہا تھا یہ ترقی مذہب مخالف سوچ کی اشاعت میں بے انتہا معاون ثابت ہوئی۔
    انیسویں صدی میں چارلس ڈارون نے( The Origin of Species) نامی کتاب لکھ کر نظریۂ ارتقاء کو پائدار بنانے کی کوشش کی، آج بھی یہ کتاب نظریۂ ارتقاء کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اس نے اس اصول کا مرجع بنانے کی کوشش کی کہ اس کائنات میں جو بھی زندہ ہے سب الگ الگ مستقل مخلوق نہیں، بلکہ اس کا ایک ہی اصل ہے، ایک بسیط خلیہ تھی، پھر یہ خلیہ حالات کی تبدیلی کے ساتھ اپنی شکل وصورت بدلتی رہی اور ترقی کرتے کرتے انسانی شکل اختیار کرلی، یہی حال کائنات کی بقیہ چیزوں کا بھی ہے۔(سابقہ حوالہ:۲۹)
    اس صدی میں الحادی نظریۂ ارتقاء کی خوب ترویج ہوئی، مذہب مخالف تخیلات سے مسلم معاشرے سمیت پوری دنیا کو متأثر کرنا شروع کیا، بڑے بڑے مفکرین اس فکر کے گرویدہ ہوئے اور اپنے افکار و خیالات کے ذریعہ الحادی افکار کی اشاعت میں تعاون کیے، ماہر معاشیات( Economists) کارل مارکس، ماہر فلسفہ( Philosopher) ٹنشے، ماہر عمرانیات( Sociologists) ڈرخم، اورماہر نفسیات( Psychologists) فرائڈ جیسی شخصیات نے سانئس اور فلسفوں کی مختلف شاخوں کے علم کو الحادی بنیادوں پر منظم کیا، ان علوم وفنون نے پوری یکجہتی کے ساتھ الہامی ادیان پر بالخصوص مذہب اسلام کی اساس اللہ رب العزت کے وجود، رسالت، آخرت کا تصور، تقدیر، جنت و جہنم پر حملہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے ۔ (سابقہ حوالہ:ص:۴)
    الحاد کا معاملہ اب صرف سائنس، علم معاشیات، سماجیات اور عمرانیات کے ماہرین تک نہیں رہا چونکہ چہار جانب مادہ پرستی کا دور دورہ تھا، ان ماہرین کے افکار ونظریات کو دنیا نے ہاتھوں ہاتھ لینا شروع کیا، اب ادباء و افسانہ نگاروں نے بھی الحاد کا اعلان کیا اور باطل نظریات کی حمایت میں مذہب اور وجودِ باری تعالیٰ کو موضوع بنانا شروع کیا، اور لفظوں کے سہارے یہاں تک لکھنے پر آمادہ ہوگئے کہ دین ہی نے انسان کو انسانیت سے دور کیا ہے، مذہب نے انسانوں پر ایسے قوانین نافذ کیا ہے جو انسانی حریت اور آزادی کے خلاف ہے، اسی وقت ماہر فلسفہ فریڈرِش ٹنشے (Friedrich Nietzsche) نے اپنا دو مقالہ بنام (خالق اعظم کی موت) اور (دین ایک بے مقصد نظریہ اور انسانی زندگی کے خلاف ایک جرم ہے)شائع کیا، آغاز میں کلیسا کی تعلیمات کو انسانی عقل کے متصادم باور کرایا گیا،مذہب مخالف سوچ کو اقبال دینے کے لیے چوطرفہ کوشش ہونے لگی، اسی وقت ماہر معاشیات کارل مارکس نے اپنے کفریہ نظریہ کا اعلان کیا کہ کوئی معبود نہیں ہے، اور زندگی محض ایک مادہ ہے، اس نے دین و ملت کو انسانیت کے لیے افیم قرار دیا، اس کا ماننا تھا کہ دین انسان کو سست و کاہل بنادیتا ہے نعوذ باللہ۔
    الحاد’’قصد و ارادہ‘‘سے ہٹ جانے کو کہتے ہیں جبکہ علماء کرام نے اصطلاحاً کئی تعریف بیان کئے ہیں جن میں سب سے مشہور یہ ہے کہ’’وجودِ باری تعالیٰ کے انکار کرنے کو الحاد کہتے ہیں‘‘۔(سابقہ حوالہ:ص:۱۴)
    الحادی فلسفہ کوئی نیا نہیں ہے، اس کی تاریخ تو بہت پرانی ہے اسی الحاد کا ارتکاب نمرود نے ابراہیم علیہ السلام کے سامنا کرتے ہوئے کہا تھا:
    {أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ}’’میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں‘‘۔ [البقرۃ:۲۵۴]
    مصر کی سرزمین پر فرعون کی رعونت و تکبر بھی اسی الحادی فکر کو تقویت دیتی نظر آتی ہے جب اس نے علی الاعلان کہا تھا :
    {أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلٰي}’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘۔[النازعات:۲۴]
    جب کفار مکہ کے عقائد کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہیں تو گرچہ انہوں نے وجود باری تعالیٰ کا انکار نہیں کیا تھا، اس کی ربوبیت پر دل و جان سے یقین رکھتا تھا، اس کی تخلیق کو تسلیم کرتا تھا، لیکن عبادت میں تنہا نہیں مانتا تھا، بلکہ کسی نہ کسی شکل میں عبادت ان کے یہاں بھی موجود تھی بس یہی کہ وہ اللہ کی عبادت چھوڑ کر غیر اللہ کی عبادت میں منہمک تھے، شیطان نے انہیں بھی بہکا یا اور بہت سے افرادکو دہریہ بنادیا، اور ان کی زبانی کہلوایا :
    {وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَالِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ}
    ’’انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہی ہے۔ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مار ڈالتا ہے (دراصل) انہیں اس کا کچھ علم ہی نہیں۔ یہ تو صرف (قیاس اور) اٹکل سے ہی کام لے رہے ہیں‘‘۔
    [الجاثیۃ:۲۴]
    اسلام کی آمد سے علم و حکمت کا چراغ روشن ہوا، تاہم چہار جانب ہدایات و ارشادات کی کھلی دلائل کے باوجود مسلمانوں نے الحادی راہ پر چلتے نظر آئے، مغربی افکار ونظریات سے متاثر ہونے لگے، کبھی انہوں نے اللہ کے اسماء وصفات کی تاویل و تحریف کر کے الحاد کے دروازے پر دستک دیتے دیتے دیکھے، جیساکہ قرآن مجید بیان کرتا ہے:
    {وَلِلّٰهِ الْأَسْمَاء الْحُسْنَي فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}
    ’’اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی‘‘۔
    [الأعراف:۱۸۰]
    آج جب کہ چہار جانب باطل افکار ونظریات کی افتاد آپڑی ہیں، ہر سو مذہب اسلام کے عقائد ونظریات کو کمزور ثابت کرنے کے لیے لامتناہی سلسلہ جاری ہے، تیزی سے مسلم معاشرے میں الحادی نظریات کی ترویج کی جارہی ہے، ایسے وقت میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس کے اسباب و علل ڈھونڈیں اور تدارک کی کوشش کریں ذیل میں چند اسباب و علل کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔
    پہلا سبب:
    تہذیبی شکست خوردگی کا احساس دلوں پر چھانا، اس احساس نے ہمیں اس لائق بنا چھوڑا کہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو حقیر سمجھنے لگے اور مغربی تہذیب کی وقتی ترقی و خوشحالی کو باعت سعادت جاننے لگے، یہی وجہ ہے آج مسلم نوجوان اسلامی تہذیب کے بالمقابل مغرب پر فریفتہ نظر آتے ہیں، مغربی ممالک کی ترقی و خوشحالی نے یہ سوچ پیدا کردیا کہ ہم اسلامی ثقافت کے سائے تلے جینے میں ترقی نہیں کرسکتے، سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے، مادیت پر تسلط قائم رکھنے کے لیے مذہب کا لبادہ اتار پھینکنا ضروری ہے ۔نعوذ باللہ
    دوسرا سبب :
    ایمان بالغیب پر کامل ایمان و یقین نہیں رکھنا، اللہ کے وجود، اس کی وحدانیت، عبودیت اور اسماء وصفات کے باب میں ناقص العلم ہونا، رسولوں، کتابوں، فرشتوں، برزخ ، میدان محشر اور جنت و جہنم کے بیانات کو اچھی طرح سے نہیں سمجھنا، اور بالخصوص تقدیر کے مسائل سے عدم واقفیت یہ وہ سبب ہے جس میں کمزوری کے باعث ملحدین اپنے افکار و خیالات بآسانی ہم تک پہنچا تے ہیں۔
    تیسرا سبب :
    ملحدین کے مکرو فریب میں مبتلا ہو جانا یہ ان لوگوں کے ساتھ بکثرت ہوتا ہے جو بطور حصول علم یا سیاحت یا کسی حکومتی مقصد کے تحت ملحدوں کے درمیان رہتے ہیں، ملحدین انہیں اپنی قربت اور اپنائیت کے جھانسے میںلے کر ان کے ایمان و اعتقادات میں شبہات ڈالنا شروع کرتا ہے، طرح طرح کے سوالات سامنے رکھ کر ایمان کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے کبھی پوچھتا ہے، کیا آپ نے اللہ کو دیکھا ہے ؟ نہیں تو پھر نماز، زکوٰۃ، صیام وقیام اور حج کی ادائیگی کس کے لیے ؟ تو کبھی میدان محشر اور جنت و جہنم کو مذہبی فرضی باتیں قرار دیتا ہے، کمزور ایمان و اعتقاد والے دھیرے دھیرے اپنی ذات کو ہزاروں سوالات سے گھیر لیتا ہے اور بالآخر مذہب بیزار شخص بن کر الحاد کی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے، نہیں تو کم از کم لا ادری فریق بن جاتا ہے جو الحاد ہی کا سگا بھائی ہے۔
    چوتھا سبب :
    مغربی افکار سے متأثر افراد کی وہ کتابیں جو ناول اور افسانوں، خاکوں کی شکل میں افکار و نظریات پروستے نظر آتے ہیں، عشق و محبت کے باب سے داخل ہوکر عقیدہ کے باب سے نکل جاتے ہیں، یہ اپنی کہانیوں اور خاکوں میں اعتقادی مسائل کو چھیڑتی نظر آتی ہیں، غیر اللہ کی قسم کھانے کو رواج دیتی ہیں، دین کے مسلمات میں شکوک وشبہات پیدا کرتی ہیں اور دنیا کو محض عیش وعشرت کا سامان سمجھتی ہیں، اور خالق ومالک کے انکار کی راہ کو ہموار کرتی ہیں۔
    اب جب ہم نے اسباب و علل ملاحظہ کرلیا ہے تو اب اس کے تدارک، احتیاطی تدابیر اور بچاؤ پر بھی چند باتیں جان لیتے ہیں :
    پہلی تدبیر
    نوجوانوں میں قرآن پڑھنے کا شعور پیدا کیا جائے، انہیں قرآن مجید میں بیان کردہ احکامات کی تفاصیل سے آگاہ کیا جائے اعتقادی آیات پر ٹھہر کر غور وفکر کے پہلو سامنے رکھے جائیں، تاکہ آسمانی کتابوں سمیت قرآن مجید کا من جانب اللہ ہونے پر کامل یقین و اعتماد ہو جائے اور پھر قرآن سے استدلال شدہ احکام کو صدق دل سے قبول کرسکے، قرآن مجید دلوں کو ایمان و یقین کے باب میں پختہ اطمینان بخشتا ہے اور قلق و اضطراب کی وادیوں سے نکال کر راحت و سکون کی زندگی مہیا کرتا ہے، جیسا کہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے :
    {وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنْتُمْ تُتْلٰي عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللّٰهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلٰي صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ}
    ’’اور تم کیسے کفر کر سکتے ہو؟ باوجود یہ کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں رسول اللہ (ﷺ) موجود ہیں، جو شخص اللہ تعالیٰ (کے دین) کو مضبوط تھام لے تو بلاشبہ اسے راہ راست دکھا دی گئی‘‘۔
    [آل عمران:۱۰۱]
    اور پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
    ’’تركتُ فيكم شيئَينِ ، لن تضِلوا بعدهما :كتابَ اللّٰهِ، و سُنَّتي‘‘۔
    ’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں گر اسے مضبوطی سے تھامے رہے تو ہر گز گمراہ نہیں ہوں گے وہ قرآن مجید اور میری احادیث ہیں‘‘۔
    [صحیح الجامع :۲۹۳۷]
    دوسری تدبیر :
    ایمان کی مٹھاس کا طالب ہونا، اس کے لیے عقیدہ اور سیرت النبی ﷺ پر سلفی علماء کرام کی کتابیں پڑھنا، راسخین فی العلم علماء کرام کے دروس و محاضرات کو حرز جاں بنانا ضروری ہے تاکہ رب پر ایمان، رسالت کی تصدیق اور اسلام کی حقانیت کی مٹھاس پاسکے جیساکہ پیارے نبی ﷺنے فرمایا:
    ’’ذاقَ طَعْمَ الإيمانِ مَن رَضِيَ باللّٰهِ رَبًّا، وبالإسْلامِ دِينًا، وبِمُحَمَّدٍ رَسولًا‘‘۔
    ’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کے رب، اسلام کو دین اور محمدﷺکے رسول ہونے پر (دل سے) راضی ہو گیا‘‘۔
    [صحیح مسلم:۱۵۱]
    ساتھ ہی انسان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت ہو جس کے سامنے دنیا کی ہر دولت کمتر لگے مادیت کا ہر پہاڑ ریت کا ٹیلہ نظر آئے، نیز اس کو اسلام کی دولت کا احساس ہو، کفر سے دل میں نفرت ہو تاکہ کسی بھی صورت میں دل کفر قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو، کیونکہ الحاد کفر سے کسی بھی صورت میں کم نہیں ہے، جیساکہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
    ’’ثَلاثٌ مَن كُنَّ فيه وجَدَ بهِنَّ حَلاوَةَ الإيمانِ:مَن كانَ اللّٰهُ ورَسولُهُ أحَبَّ إلَيْهِ ممَّا سِواهُما، وأَنْ يُحِبَّ المَرْئَ لَا يُحِبُّهُ إلَّا لِلّٰهِ، وأَنْ يَكْرَهَ أنْ يَعُودَ فى الكُفْرِ بَعْدَ أنْ أنْقَذَهُ اللّٰهُ منه، كما يَكْرَهُ أنْ يُقْذَفَ فى النَّارِ‘‘۔
    ’’ایمان کی حلاوت اسی کو نصیب ہوگی جس میں تین خوبیاں پائی جائیں گی، ایک یہ کہ اللہ و رسول ﷺ کی محبت اس میں تمام ماسوا سے زیادہ ہو، دوسرے یہ کہ جس آدمی سے بھی اس کو محبت ہو صرف اللہ ہی کے لیے ہو اور تیسرے یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹنے سے اس کو اتنی نفرت یا ایسی اذیت ہو جیسی کہ آگ میں ڈالے جانے سے ہوتی ہے‘‘ ۔
    [صحیح مسلم:۱۶۵]
    تیسری تدبیر :
    ثقافتی رہنمائی مسلم معاشرے کے ذمہ داروں کو اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ نوجوان کیا پڑھتے ہیں، کن شخصیات سے متأثر ہیں، کن کن ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہیں، ان معاملات میں والدین کو اپنی اولاد پر کڑی نگاہ رکھنی چاہیے، کیونکہ اس وقت ویب سائٹس اور سوشل میڈیا نوجوان طبقہ کو دین سے بیزار بنانے میں بنیادی کردار ادا کررہا ہے اور یہ شرح دن بدن بڑھتا جارہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بحیثیت والدین اور سماجی ذمہ دار کے نوجوان طبقہ پر کڑی نظر رکھیں، یاد رہے ہم الحاد و لادینیت کا مکمل بائیکاٹ اس وقت تک نہیں کرسکتے جب تک کہ ہمارے درمیان باپ، بیٹے، بھائی بھائی، ماں بیٹی، اور استاذ شاگرد کے درمیان دوستانہ تعلقات نہیں بنیں گے ، تاکہ وہ کھل کر اپنے شبہات اور اعتراضات سامنے رکھ سکیں، قبل اس کے کہ ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جاکر جوابات تلاش کریں دوستانہ ماحول بناکر الحاد کی آنے والی آفت سے خود کو اور اپنے سماج و معاشرہ کو محفوظ کرلیں۔
    اللہ رب العالمین ہم سب کو باطل افکار و خیالات سے محفوظ رکھے ۔آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings