Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تصویر سازی کی شرعی حیثیت (نصوص شرعیہ واقوال سلف کی روشنی میں) (پہلی قسط)

    دین اسلام انسانیت کے لیے مکمل منہج حیات ہے، جس پر عمل پیرا ہوکر ایک مسلمان دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتا ہے، کیونکہ شریعت کی تعلیمات تمام شعبہ ہائے زندگی پر محیط ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ :
    {يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ اِنَّه لَـكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ}
    [البقرۃ :۲۰۸]
    ترجمہ:’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
    مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ایسے لوگوں کو مکمل طور پر اسلام میں داخل ہونے کا حکم دیا ہے جو از قبل اہل ایمان ہیں، اور انہیں یہ تنبیہ فرمائی کہ شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کریں، کیونکہ وہ انسانیت کا کھلا دشمن ہے۔
    آیت کی تفسیر اور مضمون کے تقاضے کے اعتبار سے اس پس منظر کا جان لینا بھی ضروری ہے کہ تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت انکار سجدہ کی صورت میں جب ابلیس لعین کو قیامت تک کے لیے رجیم ومردود قرار دیا گیا تو اس نے بارگاہ الہٰی میں اسی رب العالمین کی عزت کی قسم کھا کر کہا تھا کہ وہ انسانیت کو ضرور راہ راست سے بھٹکانے کی کوشش کرے گا اور اس کے ہتھکنڈوں میں ہر وہ شخص پھنس جائے گا جو مخلص نہ ہو۔
    نصوص وآثار سے پتہ چلتا ہے کہ ہبوط آدم علیہ السلام کے بعد تقریباً آدم علیہ السلام کی دس نسلوں تک یا دس صدیوں تک انسانیت شرک سے پاک رہی پھر نوح علیہ السلام کے زمانہ میں پانچ نیک وصالحین لوگوں کی وفات کے بعد شیطان نے لوگوں میں ان کے عواطف کا استعمال کرتے ہوئے بذریعہ تصویر شرک کا آغاز کروایا، جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (۶۸ھ) سے مروی ہے کہ:’’جو بت نوح علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے، بعد میں وہی جزیرہ عرب میں پوجے جانے لگے، ’’ود‘‘دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا، ’’سُواع‘‘بنی ہُذیل کا، ’’یغوث‘‘بنی مُراد کا اور اسی بنی مراد کی شاخ بنی غُطیف کا بھی بت تھا جو وادی اجوف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے، ’’یعوق‘‘بنی ہمدان کا بت تھا،’’نسر‘‘حِمْیَر کا بت تھا جو ذو الکلاع کی آل میں سے تھے، یہ پانچوں نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے، جب ان کی موت ہوگئی تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ (نیک لوگ) بیٹھتے تھے ان کے بت قائم کرلیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مرگئے جنہوں نے بت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو پھر ان کی پوجا ہونے لگی‘‘۔[صحیح البخاری:۴۹۲۰]
    اس طرح شیطان رجیم نے لوگوں کے عواطف کے ساتھ کھیلتے ہوئے بطور یادگار صالحین کی تصویر سازی کا ذہن بنایا، پھر جب ان صالحین کی تعظیم غلو کی صورت اختیار کی تو شرک کا آغاز ہوا۔
    سو معلوم ہوا کہ تصویر ہی دنیا میں وجود شرک کا محرک بنا، نیز یہ کہ یہ شرک کے وسائل میں سے ایک بنیادی وسیلہ ہے، یہی وجہ ہے کہ تصویر کی حرمت عقائد کے ابواب میں مذکور ہے، کیونکہ اس کی اباحت سیدھے شرک تک پہنچا دیتی ہے، خواہ وہ شرک اکبر ہو یا شرک اصغر۔
    تصویر کے سلسلہ میں اصل یہی ہے کہ وہ حرام ہے خواہ اس کی کوئی بھی صورت ہو، گرچہ فی الحال کئی لوگ ڈیجیٹل تصویر کو حرام نہیں سمجھتے، جس کی اباحت میں وہ منطقی طور پر پانی جیسی عکاسی پر قیاس کرتے ہوئے جائز کہتے ہیں جبکہ یہ قیاس مع الفارق کی صورت ہے، اور قائلین جواز کا بھی علماء کرام نے جواب دے دیا ہے جس کو زیر نظر مضمون میں قارئین ملاحظہ کرسکتے ہیں، چنانچہ یہی تصویر کا فتنہ ہے جس کی زد میں آج کیا بچے کیا بوڑھے، کیا مرد کیا عورتیں، کیا طلاب علم، کیا علماء ، سب اس میں ملوث ہیں الا ما شاء اللہ، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، یاد کریں کہ بیسویں صدی کے اوائل میں جب ڈیجیٹل تصویر کا آغاز ہوا تھا، اس وقت کے علماء عرب کو چھوڑیں، صرف برصغیر ہی کے علماء کے فتاوے پڑھیں، خواہ مقلدین حنفی علماء ہوں یا سلفی علماء کرام، پتہ چلے گا کہ آغاز میں ایک دو کو چھوڑ کر سب کا نظریہ حرمت ہی کا تھا، پھر جیسے جیسے دن، ماہ اور سال گزرتے گئے ویسے ویسے حرمت سے مکروہ، پھر مکروہ سے مباح ہوگیا، اب جبکہ سوشل میڈیا عام ہوچکا ہے تو ہر کوئی سوشل میڈیا پر بذریعہ تصاویر زندہ رہنے کا ثبوت دیتے رہنے کو اپنا فطری فریضہ سمجھنے لگا ہے، اب صورت یہ بن چکی ہے یہی تصویر عبادات میں بھی جزء لا ینفک بن چکی ہے، عام لوگ اگر انجام دیں تو عذر بالجہل کہا جاسکتا ہے لیکن طلاب علم اور ائمہ کرام ہی اس محرم امر کو انجام دیں تو کیا کہا جائے، بیانات کے اشتہارات ہوں یا کسی شرعی فریضہ کی ادائیگی، عمرہ ہو یا حج ، کسی سے ملاقات ہو یا خوشی کا موقع، ہر چند حالات میں بذریعہ تصویر وسیلفی سوشل میڈیا پر نشر کرتے ہیں، تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب جامعہ اسلامیہ کے طلبہ ہی اس محرم امر میں کثرت سے ملوث نظر آتے ہیں، ویسے عورتیں بھی کہاں اس میدان سے پیچھے رہتیں، افسوس تو تب ہوتا ہے جب اپنے آپ کو معلمہ وداعیہ کہنے والیاں بھی اس میں پیش پیش نظر آتی ہیں، عمرہ کی ادائیگی ہو یا حج کی، اپنی شادی کی تقریب ہو یا شادی کی سالگرہ، بچہ کی پیدائش ہو یا کہیں سفر کررہی ہوں، تذکار ویادگار کے طور پر ہر لمحات کی اپنی تصاویر کھینچ کر اپنے واٹس اپ و فیس بک پر نشر کرتی ہیں، الغرض کہ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق تصویر کی اباحت پسندی کا زبان حال سے قائل ہوچکا ہے، جبکہ اس تصویر کی حرمت پر متعدد دلائل موجود ہیں جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ مانے جاتے ہیں۔
    عصرِ حاضر میں جب کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر پہلو کو متأثر کیا ہے اور اکثر اشیاء میں ڈیجیٹلائز ہوچکا ہے، انہی میں تصویر سازی اور ویڈیو گرافی بھی ہے، اس پیش رفت نے جہاں بہت سی آسانیوں کو جنم دیا ہے، وہیں لوگوں کے لیے یہ عموماً اور مسلمانوں کے لیے خصوصاً ایک فتنہ بن کر ابھرا ہے، زیرِ نظر بحث کا مقصد نصوص شرعیہ اور سلفِ صالحین کے اقوال کی روشنی میں تصویر کی حرمت پر ایک تفصیلی بحث پیش کرنا ہے، تاکہ اس فتنہ کے مضمرات سے آگاہی حاصل کی جاسکے اور شریعت کی رو سے درست موقف واضح ہوسکے۔
    چنانچہ زیر نظر بحث اسی تصویر سازی کی شرعی حیثیت کے طور پر آپ قارئین کرام کے حضور پیش خدمت ہے جس کی پہلی قسط میں قدرے تمہید کے ساتھ نصوص شرعیہ سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ تصویر اصلاً حرام ہے اور تصویر سازی کے حرام ہونے پر ہی شرعی نصوص دلالت کرتے ہیں جس میں ہر طرح کی تصویر شامل ہے، جبکہ اگلی قسط میں ان شاء اللہ اقوال سلف اور معاصرین علماء کے فتاووں کی روشنی میں خلاصہ وخاتمہ بیان کیا جائے گا۔
    اولاً : تصویر کی حرمت پر نصوص نبویہ ﷺ ملاحظہ فرمائیں :
    (۱) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (۳۲ھ) سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ :
    ’’إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللّٰهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمُصَوِّرُونَ‘‘۔
    ’’اللہ کے پاس قیامت کے دن تصویر بنانے والوں کو سخت سے سخت تر عذاب ہوگا‘‘۔
    [صحیح البخاری:۵۹۵۰، وصحیح مسلم :۲۱۰۹]
    (۲) عون بن ابی جحیفہ رحمہ اللہ (۱۱۶ھ) نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد کو ایک پچھنا لگانے والا غلام خریدتے دیکھا، میں نے یہ دیکھ کر ان سے اس کے متعلق پوچھا ( یعنی کہ غلام خریدنے کی ضرورت کیا ہے جبکہ سیدھا پچھنا لگوا کر اسی کو اجرت دے دیتے)، تو انہوں نے جواب دیا کہ :
    ’’نبی کریم ﷺنے کتے کی (خرید وفروخت کی) قیمت لینے اور خون (پچھنا لگانے) کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح آپ ﷺنے گودنے والی اور گدوانے والی کو (گودنا لگوانے سے) سود لینے والے اور سود دینے والے کو (سود لینے یا دینے سے بھی) منع فرمایا اور تصویر بنانے والے پر لعنت بھیجی ہے‘‘۔
    [صحیح البخاری :۲۰۸۶]
    (۳) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (۵۸ھ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
    ’’يَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهَا عَيْنَانِ تُبْصِرَانِ، وَأُذُنَانِ تَسْمَعَانِ، وَلِسَانٌ يَنْطِقُ، يَقُولُ: إِنِّي وُكِّلْتُ بِثَلَاثَةٍ: بِكُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ، وَبِكُلِّ مَنْ دَعَا مَعَ اللّٰهِ إِلَهًا آخَرَ، وَبِالْمُصَوِّرِينَ‘‘۔
    ’’قیامت کے دن جہنم سے ایک گردن نکلے گی اس کی دو آنکھیں ہوں گی جو دیکھیں گی، دو کان ہوں گے جو سنیں گے اور ایک زبان ہوگی جو بولے گی، وہ کہے گی:مجھے تین لوگوں پر مقرر کیا گیا ہے:ہر سرکش ظالم پر، ہر اس آدمی پر جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارتا ہو، اور تصویر بنانے والوں پر‘‘۔
    [سنن الترمذی:۲۵۷۴ – السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی :۵۱۲]
    (۴) سعید بن ابو حسن رحمہ اللہ (۱۰۹ھ) سے مروی ہے کہ ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہما (۶۸ھ) کے پاس آیا اس نے کہا:میں یہ یہ (جانداروں کی) تصویریں بناتا ہوں، آپ مجھے ان کے متعلق فتویٰ دیں، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:میرے قریب آؤ، وہ قریب ہوا، انہوں نے پھر فرمایا:میرے قریب آؤ، وہ مزید قریب آیا، آپ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:
    ’’میں تم کو وہ بات بتاتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺسے سنی، میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا، آپ فرما رہے تھے:
    ’’كُلُّ مُصَوِّرٍ فِي النَّارِ يَجْعَلُ لَهُ بِكُلِّ صُورَةٍ صَوَّرَهَا نَفْسًا فَتُعَذِّبُهُ فِي جَهَنَّمَ‘‘۔
    ’’کہ ہر تصویر بنانے والا جہنمی ہے، اور اس کی ہر تصویر کو ایک زندہ جان بنا کر اس کے ذریعہ جہنم میں عذاب دیا جائے گا‘‘۔
    پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
    ’’اگر تمہیں یہی کام کرنا ہے تو درختوں کی اور جن چیزوں میں جان نہیں ہوتی ان کی تصویر بنا لیا کرو‘‘۔
    [صحیح مسلم: ۲۱۱۰]
    (۵) عائشہ رضی اللہ عنہا (۵۸ھ) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
    ’’أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللّٰهِ‘‘۔
    ’’قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ لوگ گرفتار ہوں گے جو اللہ کی تخلیق کی نقالی کرتے ہیں‘‘۔
    [صحیح البخاری:۵۹۵۴]
    (۶) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (۵۸ھ) کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ، اللہ رب العزت فرماتا ہے :
    ’’وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي، فَلْيَخْلُقُوا حَبَّةً وَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً ‘‘۔
    ’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو میری مخلوق کی طرح پیدا کرنے چلا ہے، اگر اسے یہی گھمنڈ ہے تو اسے چاہیے کہ ایک دانہ پیدا کرکے دکھائے، یا ایک چھوٹا سا ذرہ ہی پیدا کرکے دکھائے‘‘۔
    [صحیح البخاری :۵۹۵۳، صحیح مسلم : ۲۱۱۱]
    (۷) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (۷۳ھ) سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :
    ’’إِنَّ الَّذِينَ يَصْنَعُونَ هَذِهِ الصُّوَرَ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُقَالُ لَهُم:أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ‘‘۔
    ’’جو لوگ یہ تصاویر بناتے ہیں انہیں قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تصویر تم نے بنائی ہے اب اس میں جان بھی ڈالو‘‘۔
    [صحیح البخاری:۵۹۵۱]
    (۸) ابو طلحہ رضی اللہ عنہ (۳۲ھ) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپﷺنے فرمایا :
    ’’لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ، وَلَا صُورَةُ تَمَاثِيلَ‘‘۔
    ’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتے ہوں اور اس میں بھی نہیں جس میں جاندار کی تصویر ہو‘‘۔
    [صحیح البخاری: ۳۲۲۵]
    (۹) عائشہ رضی اللہ عنہا (۵۸ ھ) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے نبی کریم ﷺکے لیے ایک تکیہ بنایا، جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں، وہ ایسا ہوگیا جیسے تکیہ پر نقش ونگار ہوتا ہے، پھر نبی کریم ﷺتشریف لائے تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اور آپ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! ہم سے کیا غلطی ہوئی؟ نبی کریمﷺنے فرمایا :
    ’’یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا، یہ تو میں نے آپ کے لیے بنایا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا سکیں، اس پر آپ ﷺنے فرمایا :
    ’’أَمَا عَلِمْتِ أَنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَأَنَّ مَنْ صَنَعَ الصُّورَةَ يُعَذَّبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ:أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ‘‘۔
    ’’کیا تمہیں نہیں معلوم کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہوتی ہے اور یہ کہ جو شخص بھی تصویر بنائے گا، قیامت کے دن اسے اس پر عذاب دیا جائے گا، اس سے کہا جائے گا کہ جس کی مورت تو نے بنائی، اب اسے زندہ بھی کر کے دکھا‘‘۔
    [صحیح البخاری :۳۲۲۴، صحیح مسلم :۲۱۰۷]
    (۱۰) عائشہ رضی اللہ عنہا (۵۸ھ) سے مروی ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺسے وعدہ کیا کہ وہ ایک خاص گھڑی میں ان کے پاس آئیں گے، چنانچہ جب وہ گھڑی آگئی لیکن جبرئیل علیہ السلام نہیں آئے، (اس وقت) آپ کے دست مبارک میں ایک لاٹھی تھی، آپ نے اسے نیچے پھینکا اور فرمایا:’’نہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے نہ رسول (خلاف ورزی کرتے ہیں)، پھر آپ نے دھیان دیا تو ایک چار پائی کے نیچے کتے کا ایک بچہ تھا، آپﷺنے فرمایا:’’عائشہ !یہ کتا یہاں کب گھسا؟ ‘‘انھوں نے کہا:واللہ!مجھے بالکل پتہ نہیں چلا، آپﷺنے حکم دیا تو اس (کتے کے بچہ) کو نکال دیا گیا، پھر جبریل علیہ السلام تشریف لے آئے تو رسول اللہ ﷺ فرمایا:’’آپ نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا میں آپ کی خاطر بیٹھا رہا لیکن آپ نہیں آئے‘‘۔
    انہوں نے کہا:’’آپ کے گھر میں جو کتا تھا، مجھے اس نے روک لیا ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا اور تصویر ہو‘‘۔
    [صحیح البخاری:۳۲۲۷، صحیح مسلم :۲۱۰۴]
    (۱۱) ابو الہیاج اسدی رحمہ اللہ (۸۰ھ) سے مروی ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا:
    ’’کیا میں تمہیں اس (مُہم) پر روانہ نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺنے مجھے روانہ کیا تھا؟ (وہ یہ ہے) کہ تم جو بھی تصویر یا مجسمہ کو دیکھو تو اسے مٹا دینا اور کسی بھی بلند قبر کو دیکھو تو اسے (زمین کے) برابر کردینا‘‘۔[صحیح مسلم :۹۶۹]
    (۱۲) جابر رضی اللہ عنہ (۷۸ھ) سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فتح مکہ کے وقت جب آپ بطحاء میں تھے تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ کعبہ میں جائیں اور جتنی تصویریں ہوں سب کو مٹا ڈالیں، آپ اس وقت تک کعبہ کے اندر تشریف نہیں لے گئے جب تک سبھی تصویریں نہ مٹا دی گئیں‘‘۔[سنن ابی داؤد :۴۱۵۶، حسن صحیح]
    (۱۳) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (۶۸ھ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
    ’’الصُّورَةُ الرأْسُ، فإذا قُطِعَ الرأسُ فلا صُورَةَ‘‘۔
    ’’تصویر کا اطلاق سر پر ہوتا ہے، اگر سر کاٹ دیا جائے تو تصویر کا حکم نہیں رہتا‘‘۔
    [السلسلۃ الصحیحۃ: ۵۵۴؍۴]
    (۱۴) عائشہ رضی اللہ عنہا (۵۸ھ) بیان کرتی ہیں کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، تو اس میں مورتیاں (تصویریں) تھیں، انہوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے بھی کیا، تو آپﷺنے فرمایا کہ :
    ’’إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَي قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، فَأُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘۔
    ’’ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار (نیک) شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی مورتیں (تصویریں) بنا دیتے پس یہ لوگ اللہ کی درگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے‘‘۔
    [صحیح البخاری :۴۲۷]
    (۱۵) جابر رضی اللہ عنہ (۷۸ھ) کہتے ہیں کہ:
    ’’رسول اللہﷺنے گھر میں تصویر رکھنے سے منع فرمایا اور آپ نے اس کو بنانے سے بھی منع فرمایا‘‘۔
    [سنن ترمذی :۱۷۴۹، وصححہ الألبانی]
    بالجملہ، اس عاجزانہ کاوش میں، جو کہ ’’تصویر سازی کی شرعی حیثیت‘‘کے عنوان سے موسوم ہے، اس میں ہم نے بحمد اللہ تعالیٰ تقریباً پندرہ ایسے نصوص شرعیہ وصحیحہ کو یکجا کرنے کی سعی کی ہے، جو بظاہر اس امر پر دلالت کناں ہیں کہ تصویر خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو، شرعاً ممنوع اور ناجائز ہے، ان نصوص کے مطالعہ سے یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ خالقِ کائنات کی تخلیق میں کسی بھی نوع کی مشابہت اختیار کرنا، جس میں روح پائی جاتی ہو، ایک سنگین فعل اور کبیرہ گناہ ہے، جس کی شریعتِ مطہرہ میں قطعی اجازت نہیں ہے۔
    لہٰذا، ان ادلہ و براہین کی روشنی میں جو اس پہلی قسط میں پیش کئے گئے ہیں، یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ تصویر سازی اپنی تمام تر اشکال و انواع کے ساتھ شرعی نقطۂ نظر سے حرمت کا درجہ رکھتی ہے۔
    ان شاء اللہ العزیز اس تحقیق کی اگلی قسط میں ہم ان مذکورہ بالا نصوص کی روشنی میں اس مسئلہ میں وارد سلف صالحین کے آثار اور عصر حاضر کے کبار سلفی علماء کرام کے اقوال و فتاویٰ جات بھی بالتفصیل پیش کریں گے، تاکہ اس نازک مسئلہ کی مزید وضاحت ہوسکے ۔
    اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صراطِ مستقیم پر قائم رکھے اور اپنی رضا نصیب فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
    جاری ……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings