Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • العبد التقی الغنی الخفی (سانحہ ارتحال والدگرامی مولانا فضل حق مدنی مبارکپوری رحمہ اللہ) (پہلی قسط)

    گیارہ فروری ۲۰۲۵ء کی شب بڑی کربناک تھی، تقریباً ساڑھے دس بجے عزیز م حافظ حمید حسن سلفی سلمہ اللہ نے(دہلی سے) کال کرکے آگاہ کیا کہ ابو جان(مولانا فضل حق مدنی مبارکپوری) کی طبیعت زیادہ خراب ہورہی ہے، آپ گھر پہنچ کر ویڈیو پہ بات کیجئے، میں اس وقت مدرسہ انوار العلوم املو مبارکپور کے جلسہ دستار بندی میں بحیثیت مقرر شریک تھا، ابو کی طبیعت کو لے کر میں ذہنی طور پہ مضطرب اور پریشاں خاطر تھا، اس لیے تقریر کرنے کے بعد فوراً نکل پڑا،وہاں کے علماء کی ٹیم نے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا، گھر پہنچ کر بات ہوئی، ابو جان سفر آخرت کی تیاری میں مصروف تھے (دل محیط گریہ ولب آشنائے خندہ ہے)،نمناک آنکھوں سے اک آخری دیدار ہوا، کلمہ لا الٰہ الا اللہ ورد زباں تھا، یہ منظر اس قدر روح فرسا تھا کہ جیسے وقت ٹھہر سا گیا ہو اور اس خانوادے کے افلاک پرنالہ وشیون نے خیمہ زنی کی ساری تیاریاں مکمل کررکھی ہوں، کچھ دیر کے بعد گھنٹی بجی، لرزتے ہاتھوں سے رسیو کرتے ہی وہی خبر آئی جسے سوچ کر روح کانپ جاتی تھی، بھانجے ڈاکٹر آصف ظفر وہیں موجود تھے، انہوں نے کہا کہ نانا کی نبض نہیں چل رہی ہے!!یہ جملہ میرے لیے نیا نہیں تھا، اس جملہ کی کربناکی میں اس سے قبل کئی بار سن کر لرز چکا تھا، ایک بار پھر زندگی میں اس جملہ نے میرے پورے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، لیکن قضا وقدر یہی ہے اور اس پر ایمان رکھنا مومن کا شیوہ ودستورہے، سو ہم سب افراد خانہ نے صبر وشکیب کے ساتھ ابو رحمہ اللہ کو الوداع کہا، چھوٹے بھائی عزیزم حافظ حمود حسن سلمہ اللہ نے عین بعالم احتضار وفراق انتہائی ثبات قدمی اور اعتماد کے لہجے میں یہ آیت کریمہ پڑھی:{ياأيتها النفسُ المطمئنَّة، اِرجعي إلى ربك راضيةً مرضية} امی جان نے سنت کے مطابق ابو محترم کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا جائیں، اللہ کے فیصلے پر راضی رہیں، ہمارا ساتھ یہیں تک تھا اور ابو کی روح مؤمنانہ شان سے باطمئنان وعافیت قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ زندگی بھر صبر وثبات قدمی کادرس دینے والا اب خاموش اور پرسکون تھا، جیسے پُرمشقت سفر میں برسوں کی تھکن دور ہوگئی ہو، وارثین وحاضرین نے اسی ثبات قدمی اور ضبط کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کی ریت نبھائی، یوں کہ آنکھیں اشکبار تھیں، مگر زبانوں پہ کوئی شکوہ نہ تھا، سب رب کی تقدیر پر راضی برضا تھے، یہ دراصل سامنے رکھی نعش کا اعزاز تھا، اعزاز کا یہ رویہ سرزمین دہلی نے مدتوں بعد دیکھا ہوگا، ہر چند کہ دہلی نے نہ جانے کتنے بڑوں کو بعالم مرگ دیکھا ہوگا، الوداع کہا ہوگا اور حوالہ خاک کیا ہوگا، کہ نسبت ہماری خاک سے جڑی ہے اور
    خاک کے پیرہن کوایک دن = زیب تن کرنا ہی ہے
    برخیز کہ خاک را غنیمت دانیم = کز خاک ہمہ خلق بہ ہم یکسانیم ع
    (اٹھو! آؤ کہ مٹی کو غنیمت جانیں، کہ آخر کار مٹی میں سما کر تمام مخلوق یکساں ہوجاتی ہے)
    تاہم اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے نصف صدی تک کوہسارووادی نیپال میں کتاب وسنت کی شمع کرنے والی ذات گرامی، زہد واتقا اور اخلاص وللہیت کا استعارہ، شانِ استغنا سے معمور، سادگی، کسر نفسی، تواضع اور قناعت پسندی کے پیکر، شہرت ، مادہ پرستی اور دنیاداری سے کنارہ کش شخصیت ہم سب کو داغ مفارقت دے گئی۔
    إنا للّٰه وإنا إليه راجعون، إنَّا بفراقك لمحزونون يا أبانا الحنون، العالم الرباني التقي الوقور، إنّ العين لتدمع والقلب ليحزن، ولانقول إلا ما يُرضي ربَّنا۔
    ایں خانہ ہمہ آفتاب است:
    والدگرامی مولانا فضل حق مدنی مبارکپوری رحمہ اللہ علمی گھرانے کے گل سرسبد تھے،یہ علمی گھرانہ تحریک شہیدین سے بھی ملتا ہے کہ آپ کے اجداد میں سے ایک بزرگ عالی مقام اس تحریک میں حضرات شہیدین سید احمد بریلوی اور شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہما اللہ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ اور علمی استناد اس طرح حاصل تھا کہ آپ کے والد حاجی عبدالرقیب مرحوم علامہ عبدالسلام مبارکپوری رحمہ اللہ (مؤلف سیرت البخاری) کے سگے پوتے تھے، علامہ مبارکپوری کی علمی عظمت سے کون واقف نہیں، کہ آپ ہندوستان کے معتبر اہل علم کے صف اول میں تھے، حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے أخص تلامذہ میں سے تھے، نیز علامہ شمس الحق محدث عظیم آبادی اور علامہ ثناء اللہ امرتسری رحمہما اللہ کے خاص دوستوں میں سے تھے۔ والد رحمہ اللہ کے دادا ڈاکٹر عزیر رحمانی رحمہ اللہ حضرت شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ کے بڑے بھائی تھے، گویا حضرت شیخ الحدیث آپ کے بڑے دادا تھے، آپ کی پرورش وپرداخت میں دراصل شیخ الحدیث مرحوم کا اصل کردار تھا، شیخ الحدیث کے بیٹے فضل حق مرحوم کی جب وفات بمرض کالرا ہوئی تو اس وقت والد رحمہ اللہ کی ولادت ہوئی، چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے کے نام پر والد مرحوم کانام رکھا، جو بعد میں صحیح معنوں میں حق کا فضل ثابت ہوئے، شیخ الحدیث اپنے اس پوتے سے غیر معمولی لگاؤ اور محبت رکھتے تھے، جس کا اظہار زندگی کی آخری سانسوں تک رہا، شیخ الحدیث نے اپنی وفات سے پہلے والد رحمہ اللہ کو یاد کیا، آپ اس وقت جھنڈا نگر میں تدریسی فرائض انجام دے رہے تھے، وہاں سے آئے اور آخری ملاقات بھی ہوئی، والد رحمہ اللہ کے نام نہ جانے کتنے خطوط ہوں گے جو تلف ہوگئے، آپ کا جب بھی ذکر کرتے کبھی نام نہ لیتے، صرف ’’بڑے دادا‘‘ہی کہتے، اکثر ذکر پر آبدیدہ ہوجاتے، ہر فتویٰ ہر مسئلہ میں’’بڑے دادا‘‘کا حوالہ دیتے، علم وعمل کی مثال دینی ہوتی تو آپ کی دیتے، بچپن میں ہم نے نہ جانا کہ یہ کون شخصیت ہے، لیکن مرور وقت کے ساتھ جب ہم جامعہ سلفیہ بنارس گئے تو اس نام کا حوالہ عقیدت ومحبت کے کشکول میں بار بار اساتذہ گرامی سے سنا تو عہد گزشتہ کی یہ دھندلی تصویر مزید صاف ہوئی ، اس عظمت کا اندازہ ہوا اور پتہ چلا کہ یہ شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی ذات گرامی ہے۔
    والد رحمہ اللہ کے دادا ڈاکٹر عزیر رحمانی رحمہ اللہ نے الگ الگ اوقات میں چار شادیاں کیں، پہلی دادی اماں سے ہمارے دادا حاجی عبد الرقیب رحمہ اللہ پیدا ہوئے، اماں کا انتقال ہوگیا تو آپ کے خالو مبارکپور کے رئیس ترین تاجر اور نیک خصلت شخصیت جناب حاجی عبدالقیوم رحمہ اللہ نے آپ کو گود لے لیا، اس طرح دادا مرحوم کی پرورش ایک انتہائی متمول گھرانے میں ہوئی، اسی کی برکت سے ابو رحمہ اللہ کی شادی مبارکپور کے مشہور تاجر گھرانے حاجی علی احمد مرحوم دلہن پورہ میں ہوئی۔
    توانا بود ہر کہ دانا بود:
    والد رحمہ اللہ کی پروش وپرداخت بھی بڑے آب وتاب اور شاہانہ انداز سے ہوئی، ابتدائی تعلیم جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارکپور میں ہوئی، اس کے بعد حضرت شیخ الحدیث نے آپ کو اور اپنے چھوٹے فرزند محترم ڈاکٹر عبدالعزیز رحمانی حفظہ اللہ کو جامعہ سلفیہ بنارس میں داخل کرادیا، حضرت علامہ محمد رئیس ندوی رحمہ اللہ سے جو شیخ الحدیث رحمہ اللہ سے انتہائی قرب رکھتے تھے کہا:ان دونوں بچوں کو اپنی تربیت میں رکھیے، ایک میرا بیٹا ہے اور دوسرا میرے بھائی کا پوتا، دونوں میں کوئی فرق نہ کیجیے گا!اس طرح آپ دونوں علامہ ندوی کے کمرے میں ہی رہے، علامہ مرحوم جب کبھی مبارکپور آتے ہمارے گھرقیام فرماتے، یہ تعلق ہمیشہ باقی رہا، والد محترم جب مجھے جامعہ سلفیہ داخلہ کے لیے لے گئے تو سب سے پہلے علامہ مرحوم سے ملاقات کرائی اور دعائیں لیں۔
    والد محترم کی عا لمیت جامعہ سلفیہ میں مکمل ہوئی، وہ جامعہ سلفیہ کا سنہرا دور تھا، ہم سبق دوستوں میں شیخ عزیر شمس، شیخ أحسن جمیل مدنی(سابق شیخ الجامعہ جامعہ سلفیہ بنارس)، شیخ عبدالمعید مدنی، شیخ مفتی جمیل احمد مدنی (مرکزی جمعیت دہلی)، شیخ نعیم الدین مدنی رحمہ اللہ (سابق استاد جامعہ سلفیہ) وغیرہم تھے، جبکہ ایک سال آگے ڈاکٹر رضاء اللہ مدنی مبارکپوری رحمہ اللہ، شیخ عبد اللہ سعود سلفی (ناظم جامعہ سلفیہ) ، شیخ صلاح الدین مقبول احمد (کویت)، شیخ رفیع احمد مدنی (فیجی)وغیرہم تھے۔ اور ان سے آگے شیخ شاہد جنید سلفی (صدر جامعہ سلفیہ)، ڈاکٹر عبدالعزیز مبارکپوری، شیخ ابوالقاسم فاروقی (سابق ایڈیٹر محدث بنارس)، شیخ عبید اللہ طیب مکی رحمہ اللہ وغیرہم تھے۔ یہ سب اس عہد میں آفتاب وماہتاب بن کر علمی دنیا میں چمکے، فضل وکمال کی بارش بن کربرسے اور نہ جانے کتنی سوکھی کھیتیاں سیراب کیں، کچھ سفر آخرت پہ روانہ ہوگئے، کچھ چراغ سحری ہیں اور کچھ بصحت وعافیت… فمنهم مَن قضَي نحبَه ومنهم مَنْ ينتظر۔
    جامعہ سلفیہ بنارس میں آپ متوسط طلبہ میں ہونے کے باوجود انتہائی عزت کی نگا سے دیکھے جاتے تھے، اس کی بنیادی وجہ آپ کی شرافت نفسی، نیک طبعی، خوش مزاجی اورشیخ الحدیث مرحوم سے نسبت تھی، زمانۂ طالب علمی ہی سے مزاج میں دین داری، خداترسی اور اخلاص وللہیت کے آثار نمایاں تھے۔
    جامعہ سلفیہ میں ابھی فضیلت مکمل نہیں ہوئی تھی کہ حضرت شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی کے علامہ ابن باز رحمہم اللہ کے نام ایک مکتوب گرامی سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ مل گیا، مزاج داعیانہ بن چکا تھا، کلیۃ الدعوۃ میں داخلہ لیا، لیسانس مکمل ہوا، شیخ ابن باز رحمہ اللہ انتہائی عزیز رکھتے تھے، شیخ کے پاس گئے، شیخ نے استفسار کیا، کیا کرنا چاہتے ہو؟آپ نے کہا سردست یہیں رہ کر کوئی نوکری کرنا چاہتا ہوں، شیخ نے ایک رقعہ لکھا اور ائیرپورٹ پر ایک معزز نوکری مل گئی، لیکن اس سے کوئی طبعی مناسبت نہ بن سکی، چند ماہ کے بعد پھر واپس آئے، کہا دعوت وتدریس سے جڑنا چاہتا ہوں، زمانہ سادگی اور دینی اخوت ومودت کا تھا، احترام وتکریم کا تھا، ایک دوسرے کے حقوق کے تحفظ کا تھا، شیخ نے کہا:تمہارے سامنے دو راستے ہیں، یا جامعہ سلفیہ چلے جاؤ یا مولانا عبدالرؤف (رحمانی) کے ادارے جھنڈا نگر جاؤ، والد محترم نے شیخ الحدیث کے مشورہ پر جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال کو منتخب کیا، ایک تو وہاں اچھے مدرسین کی ضرورت تھی، دوسرے مولانا جھنڈا نگری شیخ الحدیث کے ارشد تلامذہ میں سے تھے، تو اس تعلق خاطر اور وجہ عقیدت کو وہ مزید مضبوط رکھنا چاہتے تھے، چنانچہ والد رحمہ اللہ نے بعد میں (میرے سوال – آپ نے دور دراز خطہ جھنڈا نگر کو کیوں منتخب کیا ؟کے جواب میں) مجھ سے خود بتایا کہ دعوت کا جو کام وہاں ہوسکتا تھا کہیں اور مشکل تھا کہ وہاں انتہائی ضرورت تھی۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اس مجلس میں ایک بات اور پوچھی کس کے تابع رہ کر کام کرنا چاہتے ہو!رابطۃ العالم الإسلامی مکہ کے یا وزراۃ الأوقاف والشؤون الإسلامیۃ ریاض کے؟ اس وقت رابطہ کا غلغلہ تھا، اس لیے والد رحمہ اللہ نے رابطہ کو منتخب کیا۔ اس طرح آپ وہاں سے نیپال کی وادیوں میں داعی ومدرس کے کار نبوت کی انجام دہی کے لیے بھیجے گئے۔
    زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر:
    ۱۹۸۱؁ء کی بات ہے، آپ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں قدم رنجہ ہوئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے، تینتالیس برس تعلیم وتربیت، دعوت وتبلیغ ، اصلاح ورفع نزاع وجہل، فروغ اخوت ومودت باہمی، وجذبہ تعاون وغم گساری میں گزار دئیے، آپ کی ذات گرامی سے نہ جانے کتنوں کی اصلاح ہوئی، نہ جانے کتنوں نے بدعات وخرافات ترک کی، نہ جانے کتنے راہ یاب ہوئے، نہ جانے کتنوں کی اسلامی خطوط وانداز پر تربیت ہوئی، نہ جانے کتنے بے نمازی نمازی بن گئے، نہ جانے کتنے سیہ کار وفریب کار صحیح سمت کی طرف گامزن ہوگئے، نہ جانے کتنوں نے آداب تعیش زیست سیکھا، سلیقہ وشائستگی کو چلتے پھرتے دیکھا، رکھ رکھاؤ اور دین سے گہرا تمسک متحرک محسوس کیا، تہذیب وکمال کے گر سیکھے، غیر دینی ماحول کو دینی چہک مہک نصیب ہوئی، غیر علمی ماحول میں علمی خوشبو دیکھی گئی، دیکھا گیا کہ اخلاص وللہیت کا پیکر کیسا ہوتا ہے، تعلق باللہ، تقویٰ شعاری اور دین داری کا چشمہ کیسے ابلتا ہے، قناعت پسندی، دنیا سے قطعی بے رغبتی، لہو وملذات فانی سے کنارہ کشی وبے رخی، عبادت وریاضت میں ہمہ تن مصروفیت اور مصاف زندگی کے ہر پہلو ہر گوشہ میں دین کی رسی سے خود کو باندھے رکھنا، رضائے رب کے سوا بقیہ تمام سے بے غرضی کے مظاہر اور ان کی برکات کھلی آنکھوں نے دیکھے، ستھرے دل نے محسوس کیے، اور بے غرض طبیعتوں نے اظہار کیا اور بہتوں نے بے لوث محبت کے یاسمین ونسترن نچھاور کیے۔ آپ کی تربیت واصلاح اور نیک نفسی وللہیت کے خوبصورت اثرات صرف طلبہ پر نہیں بلکہ عوام پر بہت گہرے تھے، اس عہدمیں جب آپ میں ہمت وطاقت تھی، حوصلہ وشوق تھا، عزم مستحکم تھا، تو تدریس ودعوت ہر دو میدانوں میں یکساں توجہ تھی، بعد میں چراغ جلتے گئے اور اندھیاری کم ہوتی گئی، تینتالیس برس میں ہزاروں طلبہ ومستفیدین وفیض یافتگان تیار ہوئے، جو آپ کے لیے ان شاء اللہ ذخیرہ آخرت ہوں گے اور وہ ہمیشہ سے آپ سے محض دینی بنیادوں پرمحبت وعقیدت رکھتے ہیں، بارگاہ الٰہی میں دعاگو ہیں، اللہ قبول کرے۔
    یک چراغ است درایں خانہ کہ از پَرتوِ آں ہر کجا می نگرم، انجمنِ ساختہ اند (صائب تبریزی)
    (اس گھر میں ایک ہی چراغ ہے، لیکن جہاں بھی نظر دوڑاتا ہوں اس کی روشنی سے ایک بزم سجی ہوئی نظر آتی ہے)
    رُزِئنا ’’أَبَا حسن‘‘وَلَا حَيَّ مثله:
    (اے’’ابو حسن‘‘تیری موت ہم پر انتہائی گراں گزری، بھلا:ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے)
    والد گرامی رحمہ اللہ نے علم وعمل سے معمور بھرپور زندگی گزاری، ایسی کی بہت کم مثال مل سکے گی، جہاں رہے وہاں بیک وقت پورے زمانہ نے گواہی دی، بے عملی کی ویران کھیتوں میں عملی شادابی کی گواہی، آپ کی زندگی کے بعض پہلو اتنے اجلے اور تابناک ہیں کہ بسا اوقات یقین کرنا مشکل ہوجائے، کہ دنیا ایسے خوبصورت لوگوں سے خالی نہیں، جن کے دم سے تابندگی اور رخشندگی قائم ہے، زندگی انتہائی سادہ، بے تکلف اور کسر نفسی کی اعلیٰ مثال، زندگی کے بہت سے رویے، عبادات، تعلقات، مواقف اور طرز تعامل سب کچھ مثالی، عملی زندگی میں تدریس وإفادہ، دعوت وارشاد، تربیت وتزکیہ، صالحیت وللہیت، سادگی، تواضع، اخلاص اور رقت قلبی وغیرہ جیسے کچھ اوصاف ایسے ہیں جن کی کوئی مثال بحیثیت مجموعی ہمیں نہیں ملتی، آپ سے بڑے علماء ہیں، اصحاب جبہ ودستار ہیں، واعظانِ شریں بیان ہیں، اشتہارات وایڈورٹائزنگ کی انڈسٹری کے بے تاج بادشاہ ہیں، اصحاب محاضرات وشہادات ہیں، اہل تالیف وتراجم وتحقیق ہیں، بڑے مدارس کے نظما اور مدیران ہیں،زمین وآسمان کے قلابے ملادینے والے مشروعات کے مالکان ہیں، لیکن کوئی وہ نہیں یا وہ کم یاب ہیں جو شریعت اسلام کے مطلوبہ معیار کے مطابق صاف شفاف زندگی کے حامل ہوں، اسلام کے روحانی پہلووں کے محافظ ہوں، اخلاص وللہیت کی ہچکولے کھاتی کشتی کی ناخدائی کریں، تربیت ودعوت کے سوختہ کشت زاروں کوتعبدی قطرہائے انفعال سے سیراب وشاداب کریں، اگر آپ بہ دیدہ عبرت نگاہ دیکھیں گے تو سوائے ’’ولاحی مثلہ‘‘کی صدائے مسلسل کے شاید کچھ ہاتھ نہ آئے ۔ عجب نہیں کہ ہاتھ بھی آئے تو بکھری وشکستہ صورت میں۔
    سَبوح لها منها عليها شواهد:
    (پورا شعر اس طرح ہے:وتُسعدني فى غَمرةٍ بعد غَمرةٍ = سَبوحٌ لها منها عليها شواهدُ (تیز اور پھرتیلا گھوڑا سخت عالم جنگ میں میرا سہارا بن جاتا ہے، اس کے اندر ایسی علامات وخصائل ہیں جو خود اس کی عمدگی طبع وخصلت ہونے کی غمازی کرتے ہیں)۔
    اب آپ کی زندگی کے امتیازات کی طرف آتے ہیں:
    راہ ِدعوت:
    آپ کی زندگی سراپا داعیانہ تھی، دعوتی مزاج رگ وپئے میں رچا بسا تھا، چلتے پھرتے دعوت اور اصلاح کا کام کرتے ہوتے، ایسا طلبہ کے ساتھ، افراد خانہ کے ساتھ، اقربا واعزا کے ساتھ، بلکہ نامعلوم لوگوں کے ساتھ کرتے، اسلامی شریعت پر عمل کرنے پر ابھارتے، مخالف شرع امور سے قطعی منع کرتے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور اصلاحی رویہ آپ کی فطرت ثانیہ بن گیا تھا۔ یہی وجہ کی جب جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں جب آپ تشریف لے گئے تو وہاں دعوتی حوالے سے ویرانی تھی، آپ نے اس جانب توجہ کی اور دعوت وارشاد کا کام مختلف انداز سے شروع کیا، آس پاس جو دیہی خطے تھے وہاں جاکر مساجد میں جمعہ اور نمازوں کا آغاز کیا، سیکڑوں مساجد میں آپ کے ذریعہ جمعہ کا آغاز ہوا، چنروٹا، بجوا، روپ گنج اور نہ جانے کتنے گاؤں ہیں جہاں آپ جاتے یا کسی طالب علم کو بھیجتے تو جمعہ قائم ہوتا، کبھی درس وارشاد کے لیے شام کو بھی نکل پڑتے، وسائل کی قلت تھی، طریقہ کار انتہائی سادہ رکھتے، ایک سائیکل تھی جس کے ذریعہ یہ دعوتی دورے ہوتے، جمعہ کو گھر سے دو روٹی کے ساتھ سبزی یا بھیلی وغیرہ لپیٹ کر رکھ لیتے جو دوپہر کے لیے کھانا ہوجاتا، اس وقت دیہاتوں میں کھانا کون پوچھتا تھا، کہ غربت عام تھی اور ابھی شہروں سے رابطے بھی نہیں بڑھے تھے، نہ سوشل میڈیا کادور تھا، آپ بھی اس سادہ دیہاتی زندگی کا حصہ ہوگئے، دیکھ کر کوئی نہ بتاسکے کہ یہ مبارکپور جیسے ترقی یافتہ قصبہ کے باشندہ اور وہاں کے مشہور ومتمول گھرانے کے معزز فرد ہیں۔ بعد میں طلبہ اور اساتذہ کی بھی ایک ٹیم تیار ہوگئی جو اس دعوت کے تسلسل میں شریک ہوگئی، یہ سلسلہ مسلسل تینتالیس برسوں تک چلتا رہا، جس میں کسی ایک دن کے لیے بھی سستی نہ ہوئی، اس راہ میں کبھی آپ نے نہ ایک روپیہ لیا، نہ ہی اسے درست سمجھا، بلکہ جو طلبہ جاتے انہیں خود اپنی طرف سے دیتے، دعوت کا یہ معمول ہر جگہ جاری رہا، حتیٰ کہ آپ سفر میں ہوتے، نماز یا جمعہ کا وقت ہوتا، جس مسجد میں نماز پڑھتے اس میں بھی مختصر درس کا اہتمام کرتے، کوئی غلط یا خلاف شریعت رویہ دیکھتے تو فوراً اس پر نکیر کرتے۔
    ایک بار گورکھپور سول مسجد میں ہم نے نماز جمعہ اداکی، امام صاحب بزرگوں کے کشف وکرامات کی بے بنیاد کہانیاں بتائے جارہے تھے، شرکیات وخرافات کی ان بے سمت باتوں کو ابو رحمہ اللہ برداشت نہ کرسکے، دوران خطبہ کھڑے ہوئے،کہا، مولانا!ذرا اللہ کا خوف کیجیے، خودساختہ کہانیاں بتائے جارہے ہیں، جن کا شریعت سے کوئی تعلق ہی نہیں، کچھ قرآن وحدیث سے بھی بیان کیجیے، یہ سننا تھا کہ لوگ بپھر گئے اور ابو کی طرف لپکنا چاہا، امام صاحب سمجھ چکے تھے، انہوں نے لوگوں کو یہ کہہ کر بٹھا دیا کہ مولانا درست کہہ رہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی فیصلہ کن موقف تھا جو آپ نے تمام خطرات واندیشوں سے بے خوف ہوکر اختیار کیا، یہ ایک تو قرآن وسنت سے حددرجہ محبت تھی، دوسرے اخلاص وتقویٰ کا اثر تھا کہ امام صاحب بھی قبول کیے بغیر نہ رہ سکے۔
    خطباتِ جمعہ کے ذریعہ آپ کے ہاتھوں ہزاروں لوگوں کی اصلاح ہوئی، بہت سے گاؤں جو شریعت سے قطعی ناواقف تھے، اس سے نسبت وتعلق پیدا ہوا، جامعہ سراج العلوم کے ایک معزز استاد محترم ڈاکٹر عبدالغنی القوفی حفظہ اللہ جنازہ سے فراغ کے بعد کہنے لگے:’’مضافات کے کسی بھی قریہ چلے جائیں وہاں شیخ کے دعوتی اثرات واضح طور پر ملتے ہیں، ہزاروں لوگوں کو راہ یابی کی دولت ملی، لوگوں میں دینی بیداری پیدا ہوئی، یہ سب کچھ ایسے دور میں کیا جب نہ تو مشروعات کی ہماہمی تھی، نہ ہی سوشل میڈیا اور ٹرانسپوٹیشن کی آسانی، واقعی یہ سب کچھ آپ کی دعوتی راہ میں اخلاص وللہیت اور دنیا سے نفور وبے غرضی پر دلالت کنا ں ہے‘‘۔
    ایک طریقہ دعوت اور آپ نے شروع کیا، نیپال کے پہاڑی خطوں میں دین اسلام سے روشناسی کا شوق پیدا کرنے کی خاطر یہ سلسلہ آپ کے ذریعہ شروع ہوا، پہاڑوں کی آبادیوں میں جاتے، وہاں مسلمانوں میں خصوصاً دینی بیداری پیدا کرتے، ابو کہتے:بہت سے ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو کلمہ تک پڑھنا نہیں جانتے تھے، انہیں کلمہ یاد کراتے، دین کی بنیادی باتیں سمجھاتے، اس طرح بہتوں کو دین کی طرف واپس آنے کی توفیق ملی، پہاڑوں اور غاروں میں زندگی گزارنے والے بہت سے بچوں کو تعلیم کے لیے آمادہ کرکے لائے، بعد میں انہوں نے تعلیم مکمل کی اور اچھے عالم بنے، ہمیشہ ابو مرحوم کے اس رویہ کی عظمت کے احساس سے گراں بار واحسان مند رہے۔ میدان دعوت میں کبھی ایسے مقامات پہ بھی گئے جہاں شیر کی رہائش گاہ اور گندگی ملی، اللہ نے محفوظ رکھا، جب ان مقامات سے گزر کر آبادی کی طرف آئے تو لوگوں نے تعجب خیز نظروں سے دیکھا اور کہا ادھر سے کوئی بچ کر نہیں آتا، یہ اللہ تعالیٰ کی کھلی نصرت وتائید تھی۔ بعد یہ سلسلہ بھی چل پڑا، بحمدہ تعالی جامعہ سے وفود بھی گئے، مجھے پتہ نہیں کہ بعد میں یہ سلسلہ جاری رہا یا نہیں۔
    آپ کی زندگی دعوت وارشاد اور اصلاح وتربیت سے بھرپور رہی، یہ سب کچھ محض اللہ رب العزت کی توفیق سے ہی ممکن ہوا، زندگی کے ہر موڑ پر آپ کی شخصیت بحیثیت داعی ابھر کر سامنے آتی، محلہ، علاقے اور آس پاس کے لوگوں میں کوئی نامناسب بات دیکھتے یا خلاف شرع امر نظر آتا فوراً انتہائی شفقت اور محبت بھرے انداز میں تنبیہ کرتے۔ سچ یہ ہے کہ آپ کے معاصرین واقران میں کوئی اس کی مثال نہیں ملتی، اس کاتعلق انسان اپنی کوششوں سے زیادہ توفیق الٰہی سے ہے۔
    محترم ڈاکٹر عبدا لصبور مدنی (استاد ونائب شیخ الجامعہ جامعہ سلفیہ بنارس) اس حوالے اپنے تعزیتی مکتوب میں رقم طراز ہیں:
    ’’إن وفاة الشيخ فضل حق المدني، الأستاذ فى جامعة سراج العلوم جندا نغر، نيبال خسارة عظيمة للأمة الإسلامية۔ للشيخ جهود عظيمة فى تعليم أبناء المسلمين، ورفع الجهل ونبذ البدع والخرافات، ونشر المنهج السلفي، فتقبل اللّٰه مساعيه وأعلي درجته فى الجنة‘‘۔
    ’’شیخ فضل حق مدنی (استاد جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال) کی وفات امت اسلام کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے، نسل نو کی تعلیم وتربیت، رفع جہالت، رد بدعات وخرافات اور سلفی منہج کے نشر واحیاء کے حوالے سے شیخ کی خدمات بڑی عظیم ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی کو شرف قبولیت سے نوازے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے‘‘۔
    جاری ………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings