Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • فقہ اہل الحدیث، اصول وقواعد ،مراجع و مصادر (تیسری اور آخری قسط)

    اہل الحدیث نے جو اصول وقواعد کی کتابیں لکھیں وہ صرف کسی ایک صدی تک محدود نہیں تھیں بلکہ پانچویں صدی ہجری اور اس کے بعد بھی لوگ لکھتے رہے ،یہاں تک کہ شاہ ولی اللہ نے لکھی پھر علامہ شوکانی نے”ارشاد الفحول الى تحقيق الحق في علم الاصول”اس کے بعد “ارشاد الفحول کو مختصر کرکےنواب صدیق حسن خان نے “حصول المامول ” لکھی ۔پھر موجود ہ دورمیں کئ ایک کتابیں لکھی گئیں ،اگر ان کا نام گنائیں تو بیسویں کتابیں نکلیں گی ،ان میں سے مشہور د و تین کتابیں یہ ہیں ۔
    1-محمَّد بنْ حسَيْن بن حَسنْ الجيزاني ہیں ،یہ جامعہ اسلامیہ میں استاذ ہیں ،انہوں نے ایک کتا ب لکھی “معالم أصول الفقه عند أهل السنة والجماعة ‘اور اس میں انہوں نے کوشش یہ کی ہے کہ علامہ ابن تیمیہ اور ابن قیم اور ان کے مکتب فکر سے جو لوگ وابستہ ہیں جیسے ابن رجب وغیرہ انہوں نے اپنی کتابوں میں جو کچھ منتشر اصول وقواعد تھے ، امام شافعی ،امام ابو مظفرسمعانی ان لوگوں نے جو کچھ لکھا تھا،اس کی روشنی میں اصول وقواعد محرر انداز میں بیان کئے ہیں ۔اور متکلمین کا جو طریقہ تھا جوینی ،رازی ،غزالی ،آمدی وغیرہ نے اس کو چھو ڑ دیا۔اسی طرح فقہاء اہل الرائے کی جو کتابیں تھیں ،جیسے کرخی کی ،بزدوی کی اور سرخسی وغیرہ کی اوربعد میں پھر نسفی کی “منار الأنوار في أصول الفقه”ہے اور اس کی جو شروح ہیں اس کو انہوں نے چھوڑ دیا، تواصول فقہ جو اہل الحدیث کے تھے اس کو انہوں نے جمع کردیا ،اگرکسی شخص کو سارے اصول معلوم کرنے ہوں تو وہ بہترین کتاب ہے۔
    ہمارے ایک دوست حافظ ثناءاللہ زاہدی ہیں ، انہوں نے پوری زندگی ہی اصول فقہ کی خدمات اور اس کی کتابوں کی جمع و ترتیب اور اس کے مخطوطات کی چھان پھٹک میں لگادی (یہاں تک کہ پوری دنیا میں کوئ بھی مخطوطہ اصول فقہ کا معلوم کرنا ہوتوان سے رابطہ کیجئے ،وہ مخطوطہ چھپا ہے یا نہیں چھپا ہے،جتنی شرحیں ہیں ان کے پاس ہیں ،اہل مذہب اتنی شرحوں کو نہیں جانتے ہیں ) ۔
    انہوں نے دوکتابیں اصول فقہ میں درسی انداز کی لکھی ہیں ،تلخيص الأصول ،تیسیر الاصول ،اسی طرح شاہ اسماعیل نے اصول فقہ پر ایک کتاب لکھی ہے اس کتاب کے اندر انہوں نے لکھا ہے “تقلید الحی اولی من تقلید المیت” ،علامہ اسماعیل کی اس کتاب کی شرح حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے “بغیة الفحول فی شرح مختصر الاصول “کے نام سے کی ہے ،تو اصول فقہ پر یہ سب کتابیں موجود ہیں۔اب ہمار ا کام یہ ہے کہ ہم اس کتابوں کو پڑھیں اور ان میں اضافہ بھی کریں ،الحمد للہ یہ کام ہورہاہے ۔
    اصول فقہ کو مدون کرنے کاکام ایسا نہیں ہے کہ اہل الحدیث نے نہیں کیا ہے ،خود ابن تیمیہ کی کتابوں میں کتنے اصول فقہ کے اصول وضوابط بکھرے پڑے ہیں ، جیز انی صاحب نے اپنی کتاب کے اخیر میں ایک فہرست دے دی ہے جنہیں پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گاکہ ابن تیمیہ نے اس میدان میں کتنی تجدید کی او رابن تیمیہ کو اصول فقہ میں کس قدر مہارت تھی ،ایک مثال دیتا ہوں قیاس کے باب میں ،اہل الرائے کے نزدیک یہ کہ وہ نصوص یااحادیث کے خلاف ہوتی ہے،حدیث صحیح کے خلاف بھی وہ بہت سے قیاس کو مانتے ہیں،چونکہ حدیث صحیح ان کے نزدیک خبر واحد ہے اس لئے کہتے ہیں کہ قیاس راجح ہے ، زیادہ مدلل ہے اور عقلی طور پر زیادہ معقو ل ہے، تو اس لئے وہ خبر واحد کو چھوڑ دیتے ہیں ،اس طرح کی بہت سی مثالیں فقہ حنفی کی کتابوں میں موجود ہیں ،امام ابن تیمیہ کا ایک چھوٹا سا رسالہ ہے ،قاعدة في تقرير القياس في مسائل عدة ،علامہ ابن القیم نے اس رسالہ کو مکمل اعلام الموقعین میں نقل کردیاہے۔مجموع الفتاوی میں بھی یہ رسالہ موجودہے ۔اس میں انہوں نے دکھایا ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ قیاس صحیح حدیث صحیح کے خلاف ہو،کسی کے پا س ایسا قیاس ہے تو وہ لائے،یا تو وہ قیاس ہی غلط یا پھر حدیث صحیح نہیں ہے ۔جیسے انہوں نے عقل ونقل کےبارے میں دعوی کیا ہے ،کہ کوئ حدیث صحیح عقل صحیح کے خلاف ہو ہی نہیں سکتی ،ایسی صورت میں یا تووہ حدیث صحیح نہیں ہوگی یا تو وہ عقل صحیح نہیں ہوگی جس عقل کو ہم صحیح سمجھ رہے ہیں ،خیر یہ ایک مستقل محاضرہ کا عنوان ہے کہ امام ابن تیمیہ نے اصول فقہ کے باب میں کیا کیاتجدید کی ہے۔
    اصول فقہ کے بعد اب آئیے حدیث کی کتابوں کی روشنی میں فقہی مسائل کو مدون کرنے کا سلسلہ کیسے شروع ہوا وہ دیکھتے ہیں ؟جیسا کہ میں نے ذکر کیاتھا کہ شاہ ولی اللہ نے مصفی لکھ کرکے فقہ اہل الحدیث کی دعوت دی ،لیکن جس زمانہ میں وہ تھے اس زمانہ میں وہ کھل کرکے ان سب چیزوں کی طرف دعوت نہیں دے سکتے تھے ،اورنہ ہی کوئ ایسی تحریک چلاکرکے پورے ملک میں بیداری لاسکتے تھے ،یہ کام بعد میں جب تحریک شہیدین شروع ہوئ ہے تو وہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔شاہ اسماعیل شہید ،سیداحمد شہید اور ان کے ساتھ جو لوگ تھے وہ سب مل کرکے کئے ،توانہوں نے دو طریقہ اختیار کیا ،ایک طریقہ تووہ جس پرآج ہمارے محترم اقبال کیلانی صاحب ہیں ،حدیثیں منتخب کیں اوران سےمسائل مستنبط کرکے کتابیں لکھیں ، جیسے وضو سے متعلق ،طہارت سے متعلق ،زکوہ سےمتعلق حج سے متعلق ،ان کی ساری کتابیں اورعمران ایوب لاہوری کی کتابیں سب اسی منھج پر ہیں۔
    دوسرا یہ کہ فقہی مسائل فقہی ابواب پرمرتب کئے جائیں،مسائل ذکر کئے جائیں اور ان کے ساتھ دلائل ہوں ،یہ طریقہ تقریبا تیرہویں صدی ہجری کے آخر میں نواب صدیق حسن خان وغیرہ کی کتابوں میں ملتا ہے۔نواب صاحب نے اس طریقہ پر رہ کرکے چند اہم کتابیں لکھیں ،لیکن افسوس کہ یہ تمام کتابیں یا تو فارسی زبان میں یا اردو زبان میں جس کی طرف لوگ توجہ نہیں دیتے ہیں ،اسی وجہ سےایک بار چھپی اور ختم ہوگئ ، اس طرز پر صرف ایک کتاب ان کی عربی میں ایسی ہے جو بار بار چھپتی ہے اوربطور خاص علامہ البانی رحمہ اللہ جیسی عبقری شخصیت اپنے تلامذہ کو باربار پڑھاتے تھے۔وہ کتاب ہے “الروضة الندية شرح الدرر البهية ” اصلا یہ کتاب علامہ شوکانی کی کتاب ” الدرر البهية کی شرح ہے،یہ کتاب اہل الحدیث کے منھج مسلک پر لکھی گئ ہے ،اس کے اندر کسی مسلک کا التزام نہیں ہے ۔ خود علامہ شوکانی نے بھی اس کی شرح کی ہے ،الدراري المضية شرح الدرر البهية کے نام سے جسے وہ مقبولیت نہ مل سکی جتنی نواب صاحب کی الروضة الندية کو ملی،اس کا سب سے پہلا ایڈیشن 1290ھ میں ہندوستا ن سے چھپا ،روضہ الندیہ کے علاوہ خود انہوں نے الدرر البھیہ کا ترجمہ فتح المغی بفقہ الحدیث کے نام سے چھاپا تھا،اور اسی طرح سے ترجمہ درر البھیہ کے نام سے دوسرا ایڈیشن بھی اسی زمانہ میں چھپا تھا۔روضہ الندیہ کےبعد ان کی تین اہم ترین کتابیں فارسی میں ہیں ،ان میں سے ایک کتاب” دلیل الطالب علی ارجح المطالب ۔اس کا نصف اول صرف عربی ترجمہ ہوا ہے۔ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ نے اسےچھاپا ہے” ۔دوسری کتا ب”هدایة السائل الی ادلة المسائل”تیسری کتاب ہے “بذور الاہلة من ربط المسائل بالادلة” ،یہ سب کتابیں تیرہویں صدی ہجری کے اختتام سے پہلے کی لکھی ہوئ ہیں ۔ان سب کتابوں میں اس زمانہ کے جو نواز ل تھے ان تمام کاحل موجود ہے ،نوب صدیق حسن خان قنوجی کی کتابوں سے دلچسبی رکھنے والوں میں ایک ہیں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانوی رحمہ اللہ۔
    ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں دوبارہ شائع کیاجائے تاکہ ان سےاستفادہ آسان ہوسکے ۔دوسری بڑی شخصیت ہے نواب وحید الزماں صاحب(یہ لکھنؤ کے تھے ،پھر حیدرآباد منتقل ہوگئے ،ا س وجہ سے حیدرآبادی کہا جاتا ہے) یہ پہلے اپنے ابتدائ زندگی میں حنفی تھے ،جب میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے حدیث پڑھ کرکے گئے تو اہل حدیث ہوگئے،(ھ1338ھ)جب وہ حنفی تھی تو شرح وقایہ کی شرح یااس کاترجمہ بھی لکھا تھا ،اور وہ کتاب بھی مطبوع ہے ۔لیکن جب میاں صاحب سے حدیث پڑھ کرکے گئے تو انہوں نے فقہ اہل حدیث سے متعلق چار کتابیں لکھیں ۔
    1-المشرب الوردی من الفقہ المحمدی
    2-نزول الابرار من فقہ النبی المختار
    3-نورالخلائق فی حدیث خیر الخلائق ؟شک ہے ۔
    چوتھی کتاب کا نام نہیں ذکر کئے ۔
    ان میں سے دو عربی میں اور دو اردو میں ،ان کتابوں کا بھی ایک ایڈیشن چھپ گیا ہے،اس کے بعد یہ کتابیں دوبارہ چھپی یا نہیں ،کچھ علم نہیں۔
    تیسری جو کوشش ہوئ ہے فقہ اہل حدیث کے سلسلہ میں وہ ایک بہت بڑے ناشر اورصاحب مطبع آدمی تھے ،نو مسلم تھے ،محی الدین لاہوری ،انہوں نے ایک کتاب ” فقہ محمدیہ طریقہ احمدیہ” کے نام سے لکھی ہے ،یہ سات چھوٹے چھوٹے حصہ میں ہے ،اکٹھا بھی چھپی ہے ۔ اس کے اندر انہوں نے ابو اب کے ساتھ مسائل اور دلائل بھی ذکر کئے ہیں ۔یہ سلسلہ پھر اس کے بعد مزید اور بڑھا ، جدید اسلوب میں موجود ہ دور میں جن لوگوں نے کتابیں لکھیں ، ان میں مولانا عبد السلام صاحب بستوی تھے ،انہوں نے ایک کتاب لکھی” اسلامی تعلیم”کےنام سے ،یہ گیارہ حصہ میں ہے ۔جو دو یاتین جلدوں میں چھپتی ہے۔یہ کتاب بھی فقہی ابواب پر ہے ، اس طرح کی لوگوں نے چھوٹی بڑی پچاس سے زائد کتابیں چھوڑی ہیں ۔اس میں ایک چھوٹی سی کتاب کا نام بتاتا ہوں جو بہت مقبول ہے اورچھپتی بھی رہتی ہے” تعلیم الاسلام” کے نام سے مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کی ہے ۔یہ کتاب ہر جگہ بچوں خواتین اور دروس وغیرہ میں استعمال کی جاتی ہے۔جس طرح سے ہندوستان میں یہ سلسلہ چلا اسی طریقہ سے عرب ممالک میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔چنانچہ علامہ البانی کی بہت مشہور کتاب “الثمر المستطاب في فقه السنة والكتاب کے نام سے ہے ،لیکن صرف دو جلدیں اس کی چھپی ہیں اور سارے مسائل کو محیط نہیں ہیں ۔لیکن اس سلسلہ کو بعد میں بھی لوگوں نے جاری رکھا ،سید سابق کی فقہ السنہ کے نام سےبہت مشہور ومعروف کتاب ہے۔اور کئ زبانوں میں ا س کا ترجمہ بھی ہوچکاہے ،لیکن جو فقہ السنہ کے نام سے محمد عاصم حداد صاحب کی کتاب ہے وہ اس کا ترجمہ نہیں ہے ۔بلکہ وہ مستقل ان کی تالیف ہے۔اس میں انہوں نےبڑا اچھا اسلوب اپنایاہے ،افسوس کہ اس میں سے صرف عبادات کاحصہ چھپا ،بقیہ حصہ نہیں ،مرحوم رابطہ عالم اسلامی میں تھے ،ان سے ملاقات ہوتی تھی ،مکمل کرنے کا ارادہ تھا پر مکمل نہ کرسکے،اس کے بعد مصر میں ایک کتاب آئ”صحيح فقه السنة”اس کے مؤلف ہیں کمال السید سالم ابو مالک، یہ بھی اچھی کتاب ہے، یہ چار جلدوں میں ہے ۔اور ابھی ابھی جلد ہی ایک کتاب دار ابن الجوزی سے تسہیل الفقہ کے نام سے ابن جبرین کی چھپی ہے”،اس میں انہوں نے مسائل ذکر کئے راجح اورمستحب کے ساتھ ،پھر اس کی تفصیلات بھی انہوںنے ذکر کیاہے ۔ فقہ کی کوئ بھی کتاب ہو اس پر اعتراض کیاجاسکتا ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر شخص کی فقہ پر اعتراض کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن دلیل کے ذریعہ ۔اور میں نے جو فقہی کتابوں کی طرف اشارہ کیاہےیہ وہ کتابیں ہیں جن میں فقہ کے سارے یا اکثر ابواب بیان کئے گئے ہیں ،ورنہ فقہ کے الگ الگ موضوعات پر مثلا طہارت ،زکوہ وغیرہ یعنی انفرادی طور پر بے شمار کتابیں لکھی گئ ہیں ،اسی طرح مسلم پرسنل لا بورڈ سے متعلق جو موضوعات ہیں ،نکاح ،خلع ،طلاق وغیرہ ان سب پر تو بے شمار کتابیں لکھی گئ ہیں ، اس وقت ایک کام یہ کرنا چاہئے کہ اہل الحدیث کے متفرق ابواب پر جو فقہ ہیں ان کو ایک جگہ جمع کرکے لوگوں کودکھانا چاہئے کہ اہل الحدیث نے فقہ کے باب میں کتنا کام کیا ہے اور یہ کا م آج سے نہیں بہت زمانہ سے جاری ہے ،ایک شخص ہیں ابوعبید القاسم بن سلام انہوں نے الاموال یعنی مسلمانوں کاجو مالی نظام یا اقتصادی نظام ہے ، اس سے متعلق یہ کتاب لکھی ہے ،اس پر یہ بنیادی سورس کا کام کرتی ہے ۔اور اس سے زبردست اور جامع کتاب آج تک اس موضوع پر نہیں لکھی گئ ہے۔آج بھی جتنے ماہرین اقتصادیات ہیں سب اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں ،اس میں انہو ں نے بیان کیا ہے کس طریقہ سےمال جمع ہوتا ہے ،کون کون سے مصارف ہیں حکومت وغیرہ کے سب اس میں جمع کرکے رکھ دیا ہے۔اسی طرح سے دوسری ایک کتاب ماوردی نے لکھی ہے”الأحكام السلطانية ،اسی موضوع پر الأحكام السلطانية” ابویعلی کی بھی ہے ، یہ دونوں تقریبامعاصر تھے ،ایسے ہی کسی نے خراج پر لکھا اورکسی نے دوسر ےموضوعات پر۔
    ایک پہلو اور ہے وہ ہے نوازل کا ،جدید مسائل جو پیش آتے ہیں ان مسائل پر کتابیں ۔علامہ جبرین صاحب والی کتاب تسہیل الفقہ میں نوازل بھی پیش کئے گئے ہیں ، ایک صاحب ہیں محمد بن حسین الجیزانی کرکے انہوں نے کیا یہ ہے کہ موجود ہ دور کے فقہ النوازل جو تھے ان سب کو تین جلدوں میں جمع کردیاہے اور کئ ساری فقہ اکیڈمیوں اورکانفرنسوں کی روداد اس میں ملخص کرکے پیش کردیا ہے ،ہر ہر مسئلہ میں مخلتف فن کے ماہر علماء کی قراردادیں اس میں جمع کردی ہیں ۔اور یاد رکھیں اب تقلیدی رجحان چلنے والانہیں ہے ، اب کسی ایک فقہ پر گزارا نہیں ہوسکتاہے ،اس وجہ سے یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اجتھاد کا دروازہ نبی کے زمانہ سے تا قیامت کھلارہے گااسی طرح منھج صحابہ کی طرف رجو ع بھی کرنا ہوگا۔اب یہ دور در اصل فقہ السنہ اورفقہ اہل الحدیث کا ہے،اب جو یہ کوشش کی جاتی تھی او رکہا جاتا تھا کہ فقہ جو مدون ہے وہ چار اہل سنت کے یہاں اور چار غیر اہل سنت کے یہاں ،ظاہریہ کو اہل سنت سے خارج کر دیتے ہیں بہت سے لوگ تعصب میں آکر ،حنفی ،مالکی ،شافعی ،حنبلی اس کے بعد کہتے ہیں ،ظاہری ،زیدی ،جعفری او رابادی ۔ان سارے فقہوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے،لیکن فقہ اہل الحدیث کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔وہ صرف اس وجہ سے کہ لوگوں کے اندر ایک تعصب ہے اور یہ تعصب آج نہیں پیدا ہوا ہے ،بلکہ چھٹی ساتویںہجری میں جو متون تیار کئے گئے اور اس کے ارد گرد گھومنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ،وہی سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔اس وجہ سے کسی نے بھی ،یا ان اتباع مذاہب میں سے کسی نے خروج کی کوشش کی یا اجتھاد کیاجیسے عز بن عبد السلام ساتویں صدی کے تھے ،اسی طریقہ سے ابوشامہ وہ بھی ساتویں صدی کے تھے ،انہوں نے اپنی کتابوں میں ان مقلدین کی شکایت کی ہے ۔لیکن موجود ہ دور نے انہیں مجبور کیاکہ اب ان چند فقہی کتابوں پر اکتفاء نہ کریں بلکہ ایک ساتھ مل بیٹھ کام کریں ،چنانچہ فقہ اکیڈمیاں قائم کی گئیں اور وہاں مختلف مسائل پر گفتگو ہوتی ہے اورمختلف مسالک کے علماء جمع ہوتے ہیں ،اس میں اہل الحدیث بھی ہوتے ہیں ،غیر اہل حدیث بھی ،ماہرین بھی ہوتے ہیں جیسے طب ،اقتصادیا ت وغیرہ کے، تاکہ ان مسائل کو حل کریں ۔اسی طرح سے موجود ہ دور میں یہ ہوا کہ موسوعات الفقہیہ تیار ہوئ ہیں ،موسوعات کاسلسلہ پہلے مصر میں شروع ہواتھا ،اس کی پندرہ سولہ جلدیں چھپیں ،پھر وہ سلسلہ ختم ہوگیا، کیونکہ وہ بڑا لمبا خواب تھا ،آٹھ مذاہب کے فقہی مسائل اس میں بیان کئے گئے تھے ۔پھر اس کے بعد دمشق یونیورسٹی میں کوشش ہوئ اور کچھ حصہ انہوں نے اس کے شائع کئے،لیکن سب سے بڑی اور ممتاز جو کوشش ہوئ وہ کویت میں ہوئ۔چنانچ کویت” وزارة الاوقاف “کی طرف سے 45 جلدوں میں وہ مجموعہ ہے” الموسوعة الفقہیة الکویتیہ”کے شا ئع ہوا۔ا نہوں نے کئ مذاہب کے اقوال مع دلائل اور ساتھ میں نیچے حاشیہ میں حدیثوں کی تحقیق بھی درج کیاہے ۔
    مولانا عبد الغفار حسن رحمانی کے بارے میں میں نے پڑھا ہے کہ کہیں جاتے تو “بلوغ المرا م “ساتھ رکھ لیتے کہ کہیں کو ئ بھی مسئلہ پیش آیا تو اسی میں دیکھ لوں گا ۔اب میں یہ ذکر کروں گاکہ موجودہ دور فقہ السنہ کا ہے ،یا فقہ اہل الحدیث کا ہے۔اسی لئے لوگ موسوعات کی طرف بھاگ رہے ہیں ،دیکھئے ہمارے یہاں کے ایک عالم عبد الرحمان بن یحی المعلمی ہیں ، ان کامجموعہ 25 جلدوں شائع ہوا  ۔ اس کی قیمت 300ریا ل تھی ، پھر 250ریال ہوئ ،پھر 150ریال جب اس کی قیمت ہوئ تو ایک دن میں بلکہ ایک گھنٹہ میں ایک ہزار نسخہ اس کے فروخت ہوگئے ۔ یہ لوگوں کی رغبت کا حال ہے ۔معلمی یمانی بہت بڑے محدث تھے ،عالم جرح وتعدیل تھے ،فقہی مجموعہ تین جلد ،اصول فقہ پر ایک جلد ان کا شائع ہوا ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings