-
مشتبہ چیزوں کے قریب نا جانا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنَ الإِثْمِ، كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ، وَمَنِ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيهِ مِنَ الإِثْمِ، أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ، وَالمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ۔
(صحیح البخاری :2051)
ترجمہ:نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال بھی کھلا ہوا ہے اور حرام بھی ظاہر ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ پس جو شخص ان چیزوں کو چھوڑے جن کے گناہ ہونے یا نہ ہونے میں شبہ ہے وہ ان چیزوں کو تو ضروری ہی چھوڑ دے گا جن کا گناہ ہونا ظاہر ہے لیکن جو شخص شبہ کی چیزوں کے کرنے کی جرات کرے گا تو قریب ہے کہ وہ ان گناہوں میں مبتلا ہو جائے جو بالکل واضح طور پر گناہ ہیں (لوگو یاد رکھو) گناہ اللہ تعالیٰ کی چراگاہ ہے جو (جانور بھی) چراگاہ کے اردگرد چرے گا اس کا چراگاہ کے اندر چلا جانا غیر ممکن نہیں۔
راوی کاتعارف:
راوی حدیث کا نام نعمان بن بشیر بن ثعلبہ ہے ،ان کی والدہ کا نام عمرہ بنت رواحہ ہے ،ان کی ولادت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے آٹھ سال سات مہینہ پہلے ہوئ تھی ۔
ابن زبیر کہتے ہیں “نعمان مجھ سے چھ مہینہ بڑے تھے ۔(أسد الغابة ط العلمية (5/ 310)
کوفہ میں سکونت پذیر تھے ،امیر معاویہ نے انہیں وہاں کاوالی بنایاتھا ، کوفہ کے بعد وہ ملک شام چلے جاتے ہیں اور وہاں سکونت پذیر ہوتے ہیں ۔(مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار – محمد بن حبان، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ).
صحیح بخاری میں ان سے چھ حدیثیں مروی ہیں ۔( شرح القسطلاني = إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري (1/ 143)
حدیث سےمستنبط مسائل
1-ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں”سن تمیز کو پہنچ جانے والا بچہ اگر کوئ حدیث روایت کرتا ہے تو اس کی روایت قابل قبول ہے ،کیونکہ جس وقت نبی اکرم کا انتقال ہوا اس وقت نعمان رضی اللہ عنہ کی عمر آٹھ سال تھی ۔(فتح الباري لابن حجر (1/ 126)
2-علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں “یہ حدیث ان چار عظیم احادیث میں سے ہے جن پر اسلام کا مدار ہے ۔
3-اس حدیث میں احکام کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں:
٭ جس کے کرنے پر نص اور ترک پر وعید ہو۔
اس کا تعلق حلال بین سے ہے۔
٭جس کے ترک کرنے پر نص اور کرنے پر وعید ہو۔
یہ حرام بین سے متعلق ہے۔
٭جس کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی نص یا وعید نہ ہو۔
اس قسم کو مشتبہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔یعنی اس کا حلال یا حرام ہونا معلوم نہیں ہوتا۔
4-باتوں کو سمجھانے کےلئے مثالوں کا سہارا لینا نبوی طریقہ ہے۔
5-اس حدیث کے اندر شکوک وشبہات والی چیزوں سے بچنے کی ترغیب دی گئ ہے۔
6-سارےانسانوں کا علم یکساں نہیں ہے ، ممکن ہے کسی کے یہاں کوئ چیز مشتبہ ہو لیکن دوسرے کے یہاں وہی چیز واضح ہو۔
7-محاسن شریعت میں سے ہے کہ اس نے حلال و حرام ساری چیزوں کی وضاحت کردی ہے ۔
8-اس حدیث سےیہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حلال چیزوں کا دائرہ حرمت والی چیزوں سے زیادہ وسیع ہے۔