-
سوز بندگی جب یہ شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہوگا تو رمضان ختم ہو چکا ہوگا یا ختم ہونے کے قریب ہوگا۔ یہ مہینہ ارادوں اور اعمال کا خوبصورت مظہر ہے۔ارادے دراصل وہ داخلی فضا تیار کرتے جو کسی عمل کا اصل رخ طے کرتے ہیں ۔ فصل زندگی کے لیے جس طرح خارج کی فضاء ،ہوا اور موسم انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اسی طرح اندر سے مٹی کی قوت انجذاب ،زرخیزی اور اس کی تمام تر مخفی صلاحیتیں انتہائی ضروری ہوتی ہیں ۔
اب روح انسانی کو دیکھتے ہیں کہ روح کے اندر پیدا ہونے والا موسم ،اس کے داخل سے اٹھنے والے جذبوں کا فشار ، تخیلات کا کیف وکم بہت بامعنیٰ ہوتا ہے بلکہ یہی جذبات بدن سے پھوٹ پڑنے والے اعمال کی صحت طے کرتے ہیں۔
فرمایا :’’انماالاعمال بالنیات‘‘۔
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ ۔
یہ ایک قیمتی ،ضروری اور اصولی بات ہے۔ فرمایا:’’وانما لکل امرء مانوی‘‘۔
’’ اور ہر شخص کے لیے وہ ہے جو اس نے ارادہ کیا‘‘ ۔
یہ بہت بڑی بات ہے اور انسانی امکانات کے حق میں بہت بڑا موقع ہے۔موقع یہ کہ بس ایک سکے میں کروڑوں کی کڑکڑاہٹ ،حرارت اور چمک ،قطرے میں دریا کی موجوں کا جوش و خروش، ذرہ میں ستاروں کی نورانیت اور تابانی ،بس کہ یہ ارادے کی متاع ہے اس کے دامن کی ایک ڈھیلی گرہ میں بھی چمنستان کائنات کی بہاریں باندھی جاسکتی ہیں ۔ایک ہی پھول میں سرخ تاب جلوے بھی ہیں اور اودی ،نرگسی بہاریں بھی ،ذرا ذرا سی پنکھڑیوں میں بہار چمن کی نوع بہ نوع مہک بیزیوں کی تقدیر بن سکتی ہے ۔
تویہ جذبوں کی آنچ ہے اس میں کچی اور ناخستہ چیزوں کی بھی رونق دوبالا ہوجاتی ہے، کچھ بھی مگر جلتا نہیں ،مشام جاں تک دھوئیں کی ایک بھی موج باریاب نہیں سکتی کیونکہ دل کے پانی سے سلگائی ہوئی یہ آگ ہر آگ سے جدا ہے ۔
یہی ارادہ اور جذبات کی یہی وہ تپش تھی جس نے کتے کو پلائے گئے چند گھونٹ پانی کی تاثیر ہی بدل دی تھی۔
ایک طوائف جس کے لیے جہنم کے شعلے ،سانپوں کا زہر ، خون اور پیپ کی بساند انسانی وجود کو ٹکڑا ٹکڑا اور سلگتا ہوا کردینے کے منتظر تھے ۔ بجھ گئے ،تریاق ہوگئے اور گل زعفران کی خوشبو میں بدل گئے ۔پاک پروردگار کی رحمتوں نے دامن تر کی ایک ایک بوند کو مشک وعنبر کے قطروں میں بدل دیا ۔
یہی جذبہ بیتاب ہے جو آنکھوں میں بسی نیند کو تحفہ قدرت بنادیتا ہے ،انسان سو رہا ہے مگر اس کی ہر سانس عبادت کی فہرست میں درج ہورہی ہے اس کی آرام دہ کروٹوں پر مشقتوں کا صلہ دیا جارہا ہے کیونکہ ارادے کی جوت نے نیند کی تاریکی کو بھی اجیارا کردیا ہے ۔
عام سے پانی میں ارادے کا پانی شامل ہوتے ہی غسل نظافت غسل عبادت بن جاتا ہے اور شئے اباحت سے گزر کر مقام اجر وثواب تک بلند ہو جاتی ہے ،یہی جذبہ بیتاب کی برکتیں ہی تو تھیں کہ صحابہ رسولﷺ کی مد دو مد بھر کھجوریں میرے تیرے پہاڑ برابر سونا چاندی سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہوگئیں وہ کیف جو چہرہ رسول کو دیکھتے ہوئے دربار رسالت میں نذر کرنے سے آیا ۔دل میں جو قوس قزح وحی آسمانی کے تصور سے ہویدا ہوا ،نور کی جو شعائیں ہر گوشہ وجود تک رسول گرامی کی بشارتوں کے سبب پہنچیں ، حضور پاک کے حضور کچھ دیتے ہویے ساکنان جنت میں نام شمار ہونے کی جو مسرتیں ان کے وجدان وشعور کو لالہ ونسترن کرگئیں وہ ہم کو کہاں سے نصیب!
تو ارادہ ،جذبہ اور اس کا کیف ایک الگ ہی معنویت کے حامل ہیں آئیے عزم کرتے ہیں اب ہمارے لیے احتساب کی گھڑی ہے کہ رمضان جو سراپا خزانہ تھا اس سے ہم نے کیا حاصل کیا۔
نیتوں کا فساد اور اعمال کا بگاڑ تو نہیں در آیا اگر ایسا کچھ ہے تو رجوع کرنے والوں کے لیے کبھی مایوسی کی بات نہیں ہے۔مولائے کریم کا دربار عنایتوں کا دربار ہے اس درگاہ پر بیٹھ جائیے اس سے عرض گزار ہوجائیے وہ داتا ہے وہی سب کچھ بخشتا ہے وہی غوث اعظم اور وہی ساری کائنات کا دستگیر ہے اس کے در سے ہی جھولی بھرے گی وہاں سے سچا منگتا کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا وہ داتا ہے اور مالک بھی ہے قادر بھی ہے اور کرم نواز بھی ہے۔
آئیے اس کی جناب میں حمد کے نذرانے پیش کرتے ہیں اس کی اسماء وصفات کے وسیلے لگاتے ہیں اس کے سامنے آنسو بہاتے ہیں اس کے حبیب پر درود سلام کی ڈالیاں نچھاور کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺکی دعاؤں کے ساتھ اپنی کہانی اپنی زبانی بھی پیش کرتے ہیں کہ :
الٰہی ہماری خاک آلود پیشانیوں کے سجدے قبول فرما لے…
الٰہی ہم خوش صرف اس لیے ہیں کہ تیرے حبیب نے خوشیاں منائی تھیں ورنہ ان ساعتوں کے جانے پر ہم عاجز وحقیر گنہگار بندے کیسے خوش ہوسکتے جن میں تونے ہمارے آنسوؤں کو حوض کوثر کے پیالوں کے برابر تول دیا ہے…
ہاں وہ ساعتیں جن کی آہوں کو تونے نغمہ طوبی سے بھی بہتر مقام دے دیا…
ہاں وہ ساعتیں جن میں ہمارے منہ کی بو کو تونے جنت کی خوشبو سے جوڑ دیا…
الٰہی ہم خوش اس لیے ہیں کہ ہمارے خیالات تیری رضا کا طواف کرتے رہے ہماری سوچ میں ہماری فکر میں تیرے ذکر کی پھوار پڑتی رہی…
ہماری سرکش پیشانیوں نے تیرے سامنے جھکنے کا لطف اٹھایا…
تیری رضا کے لیے پیاس ہمارے لیے سامان لذت بن گئی…
الٰہی آج پھر تیرے حضور عرض گزار ہیں کہ تو ہماری بھوک پیاس قبول فرمالے…
الٰہی ہمارے دل صاف کردے ہمارے سینے روشن کردے ہمیں سلیقہ عطا فرمادے…
اس عید کو تمام مسلمانوں کے لیے بابرکت بنادے…
اے دلوں کے مالک خیر کا ذخیرہ جو تونے عطا فرمایا ہے اسے ہماری زندگی سے جوڑ دے…
رمضان بعد بھی حصول رحمت کا شوق طاری رہے…
تیرا بندہ ہونے کا شعور جاگتا رہے…
تیری آیتوں کا نور ہونٹوں سے پھوٹتا رہے…
اور…اور…اور…میرے مولیٰ، میرے پروردگار، میرے کرم گستر، میرے اللہ…آہ… آہ…
ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم وتب علينا انك انت التواب الرحيم۔
٭٭٭