Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • سانحۂ کربلا کا پس منظر

    ماہ محرم سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد تو رسول اللہ ﷺ کے واقعہء ہجرت پرہے لیکن اس کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ۱۷ھ سے ہوئی ۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کی فضیلت وحرمت مسلم ہے ، بعض لوگ سمجھتے ہیںکہ اس مہینے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ پیش آنے کی وجہ سے یہ مہینہ قابل احترام ہے جبکہ آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت سے اس کی حرمت وفضیلت کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ سانحہء شہادت آپ ﷺکی وفات کے پچاس سال بعد پیش آیا اور آپﷺکی وفات کے بعد دین میں کسی قسم کے اضافے کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں ہے۔ہاں البتہ شہادت حسین کو لوگوں نے ماتم و شیون،گریہ و زاری اور محافل ماتم منعقد کرنے اور تعزیہ داری سے جوڑ دیا ہے۔ یہ تعزیہ داری کیسے وجود میں آئی ؟ سانحہء کربلاکاپس منظر کیاہے ؟ زیر بحث مضمون میں اس کی مختصر وضاحت کی گئی ہے ۔
    سانحہء کربلا کاپس منظر : تاریخ اسلام شاہد ہے کہ حضرت عمر ، عثمان ، حضرت علی ، حضرت حسن ، اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کی شہادت میں شیعہ اور رافضہ کاپورا پورا ہاتھ ہے ۔ ۴۰ھ میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ تخت خلافت پر متمکن ہوئے لیکن آپسی اختلافات وخرافات اور وقت کی نزاکت کو مدّنظر رکھتے ہوئے خلافت کو حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو سونپ دی ۔ جسے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ۶۰ھ؁ تک بحسن و خوبی انجام دیا اور فتوحات کا سلسلہ کافی بلند رہا، لیکن جیسے ہی حضرت معاویہ نے اپنے بیٹے یزید بن معاویہ ؒکا نام خلافت کیلئے پیش کیا اختلافات نے سر اٹھانا شروع کیا ، بہرحال تمام صحابہ کرام نے یزید کے نام پر بیعت کر لی صرف چار صحابہ بشمول حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بیعت سے انکار کیا ۔
    یزید کی طرف سے مقرر گورنر ِمدینہ ولید بن عتبہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلاکر یزید سے بیعت کی بات کی تو حضرت حسین نے فرمایا ــــــــ’’مجھ جیسا شخص پوشیدہ بیعت نہیں کرتا اور میرے خیال سے تمہارے نزدیک بھی میری خفیہ بیعت کافی نہ ہوگی ‘‘ پھر حضرت حسین اپنے تمام اہل وعیال کے ساتھ مکہ روانہ ہوگئے ۔ حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما جب مکہ جارہے تھے تو ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما راستے میں ملے تو انہوں نے مدینہ سے مکہ آنے کی بات پوچھی تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت معاویہ کا انتقال ہوگیا ہے او ر یزید کے لئے بیعت لی جارہی ہے ۔ اس موقع پرابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں نے کہا اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ مت ڈالو۔[الطبری :۴؍۲۵۴]
    حضرت حسین کے مکہ میں قیام کے دوران اہل کوفہ کی طرف سے ہزاروں کی تعداد میں خطوط آئے جس کی تعداد ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب منہاج السنہ میں بارہ ہزار بتائی ہے ۔ ان خطوط کے ذریعہ کوفیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرنے کا عزم کیاتھا ۔ بہرحال خطوط کی کثرت اور کوفیوں کے مطالبے کو دیکھتے ہوئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ معلوم کریں کہ اہل کو فہ واقعی وہی چاہتے ہیں جس کا اظہار انہوں نے خطوط میں کیا ہے ۔ مسلم بن عقیل کوفہ پہونچ کر اپنے مشن کا آغاز کرتے ہیں ،ادھر یزید کی طرف سے مقرر کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر نے لوگوں کو تنبیہ کی اور یزید کی اطاعت کی اپیل کی ، البتہ خود مسلم بن عقیل کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے گریز کیا جس سے حامیان یزید میں تاثر پیدا ہوا کہ گورنر کی نرم پالیسی سے حالات خراب ہوسکتے ہیں چنانچہ لوگوں نے یزید کو خبر دی اور فوراًیزید نے کو فہ کا انتظام بھی عبیداللہ بن زیاد کو سونپ دیا جو بصرہ کا پہلے سے گورنر تھا ۔
    مسلم بن عقیل جب کوفہ آئے تو ہزاروں نے ان کے ہاتھ پر حسین رضی اللہ عنہ کیلئے بیعت کی، چناچہ مسلم بن عقیل نے حضرت حسین کو خط لکھا کہ زمین ہموار ہے اور فوراً کوفہ کیلئے روانہ ہوجائیں ۔ یہ خبر ملتے ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کسی کی بات پر کان نہ دھرتے ہوئے کوفہ کیلئے مع اہل وعیال واعوان روانہ ہوگئے ۔ حالانکہ صحابہ کرام نے بہت سمجھایا کہ انہوں نے آپ کے والد کو قتل کیا ، بھائی حسن کے ساتھ غداری کی، آپ کا کوفہ جانا بالکل مناسب نہیں ہے ، لیکن قدراللہ ماشاء آپ روانہ ہوگئے ۔
    دوسری طرف مسلم کی سرگرمیوں کے بارے میںابن زیاد کو پتہ چلا تو سخت اقدامات اختیار کئے جس کی وجہ سے وہ تمام لوگ منتشر ہوگئے جو مسلم بن عقیل کے گرد جمع ہوئے تھے اور حضرت حسین کا ساتھ دینے سے منکر ہوئے ۔ اب مسلم بن عقیل کو فکر ہوئی کہ حالات کا رنگ بدل گیا ہے ادھر حضرت حسین اور دوسرے لوگ کو فہ کیلئے روانہ ہوگئے ہوں گے لہٰذا انہوں نے ایک قاصد روانہ کیا کہ حضرت حسین ہرگز کوفہ نہ آئیں ، اہل کوفہ جھوٹے نکلے ، انہوں نے مجھے دھوکہ دیا ہے ، خط میںجو حالات میں نے یہاں ذکر کیا تھا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اور خط پہنچنے تک شاید میں بھی قتل کردیا جائوں ۔ بالآخر مسلم بن عقیل بھی قتل کردیئے گئے ۔
    قاصد نے پیغام حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دیا اور پتہ چلا کہ مسلم بن عقیل قتل کر دیئے گئے ہیں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ کرلیا لیکن قافلے میں موجود مسلم کے بھائی بولے واللہ ہم تو واپس نہیں جائیں گے۔اپنے بھائی کا انتقام لیں گے پھر حضرت حسین یہ سن کر سفر جاری رکھا ، تھوڑے ہی فاصلے پر عبیداللہ بن زیاد کی طرف سے روانہ کردہ لشکر وہاں آگیا جسے دیکھ کر حضرت حسین نے اپنارخ کوفہ کے بجائے کربلا( شام) کی طرف کرلیا۔ ابن زیاد کے اس لشکر کے قائد عمر بن سعد بن ابی وقاص تھے ۔ عمر اس معاملے کومصالحانہ انداز میں سلجھانا چاہتے تھے ۔ ابن زیاد کے لشکر نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرلیا ۔ اس موقع پر حضرت حسین نے تین باتیں رکھیں :
    ۱۔مجھے واپس مدینہ جانے دو
    ۲۔ مجھے کسی سرحد پر جانے کی اجازت دے دو
    ۳۔ یامجھے یزید کے پاس جانے دو تاکہ میں اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دوں ۔
    اس مطالبے کے بعد عمر بن سعد نے ان کی بات کو تسلیم کرکے ابن زیاد کو منظوری کے لیے بھیج دیا لیکن اس نے سخت رویہ اختیار کیا اور کہا کہ پہلے وہ میری بیعت کریں پھر میں انہیں یزید کے پاس جانے دوںگا ۔ حضرت حسین کی غیرت نے اس بات کا انکار کیا اور کہا ایسا کبھی نہیں ہوسکتا چنانچہ لشکر نے محاصرہ کر لیا ۔ حضرت حسین نے ان تمام قبائل کا نام لے کر پکارا جنہوں نے خطوط دے کر بیعت کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن سارے لوگوں نے بے وفائی کی اور نتیجتاً جنگ شروع ہوئی جس میں حضرت حسین اپنے بچوں اور اعوان وانصار سمیت مظلومانہ طور پر ۱۰محرم ۶۱ھ کو شہید کردیئے گئے ۔
    قارئین کرام : متعدد صحیح روایات کی رو سے واضح ہوتا ہے کہ یزید نے نہ تو حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا اور نہ ہی یہ بات اس کے پیش نظر تھی ، بلکہ وہ اپنے والد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق ان کی تعظیم وتکریم کرناچاہتے تھے البتہ ان کی خواہش تھی کہ آپ خلافت کے مدعی ہوکر خلافت کے خلاف خروج نہ کریں ۔ حضرت حسین جب کربلا پہنچے اورآپ رضی اللہ عنہ کو اہل کوفہ کی بے وفائی کا یقین ہوگیا تو دست بردار ہوگئے مگر مخالفوں نے انہیں واپس جانے نہیں دیا بلکہ قیدی بنانا چاہا جسے آپ رضی اللہ عنہ نے نامنظور کیا اور شہید ہوگئے ۔ یزید اور اس کے خاندان کو جب یہ خبر پہنچی کافی غمزدہ ہوئے بلکہ یزید نے تو یہاں تک کہا ’’ قبح اللّٰہ ابن مرجانۃ لو کانت بینہ و بینکم رحم او قرابۃ فافعل ھذا بکم ‘‘ ’’عبیداللہ بن زیاد پر اللہ کی پھٹکار ہو واللہ اگر وہ خود حسین کا رشتہ دار ہوتا تو ہر گز قتل نہ کرتا ‘‘[تاریخ الطبری ۔ ۴؍ ۳۵۳ ، والبدایۃ : ۸؍۱۹۳] پھر اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پسماندگان کی بڑی خاطر تواضع کی اور عزت کے ساتھ مدینہ واپس پہنچا دیا ۔ بہرحال حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت عظیم ترین گناہ ہے ۔ جنہوں نے یہ فعل کیا ، جنہوں نے اس جرم میں مدد کی اور جو اس سے خوش ہوا سب عتاب ِالہٰی کے سزاوار ہیں ۔
    یزید نے قاتلوں کا مواخذہ کیوں نہیں کیا ؟ یزید پر سب وشتم میں یقین رکھنے والے کہتے ہیں کہ اگر یزید کا ہاتھ حسین کے قتل میں نہیں تھا یا اسے علم نہیں تھا تو اس نے اپنے گورنر ، سپہ سالار کا مواخذہ کیوں نہیں کیا ؟
    جس طرح کچھ حکمرانوں کی سیاسی مجبوریاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے حکاّم کی بعض ایسی کاروائیوںسے بھی چشم پوشی کرنی پڑتی ہے جو سراسر غلط ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ہوسکتا ہے یزید کی کچھ سیاسی مجبوریاں رہی ہوں جس کو یزید نے زیادہ اہمیت دے دی ہو۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھئے ان کی خلافت کے مصالح نے انہیں نہ صرف قاتلینِ عثمان سے پردہ پوشی پر مجبور کردیا بلکہ بڑے بڑے اہم مناصب بھی عطا کردئے۔
    یزید پرسب وشتم کا مسئلہ : یہ ایک مسئلہ ہے جسے بدقسمتی سے رواج حاصل ہوگیا ہے اور اہل سنت کے بڑے علماء اس پر لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے اور اس کو حبّ حسین اور حبّ اہل بیت کا لازمی تقاضا سمجھتے ہیں ،حالانکہ یہ اہل سنت کے مسلک سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔ علماء کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں نہ یزید کا کوئی ہاتھ ہے ، نہ اس نے کوئی حکم دیا اور نہ ہی اس میں اس کی کوئی رضا مندی شامل تھی ۔
    امام غزالی فرماتے ہیں ’’حضرت حسین کو یزید کا قتل کرنا یا ان کے قتل کرنے کا حکم دینا ان کے فعل پر راضی ہونا تینوں باتیں درست نہیں ہیں اور جب یہ باتیں یزید کے متعلق ثابت ہی نہیں تو پھر یہ جائز ہی نہیں کہ ان کے متعلق ایسی بدگمانی رکھی جائے کیونکہ کسی مسلمان کے متعلق بدگمانی حرام ہے ۔[وفیات الاعیان : ۷؍۴۵۰ ۔طبع جدید ]
    اور مزید فرمایا کہ یزید کیلئے رحمت کی دعا کرنا (رحمۃاللہ علیہ ) کہنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب ہے ۔ اور وہ اس میں داخل ہے جو ہم کہا کرتے ہیں ’’اللھم اغفر للمئومنین والمئومنات‘‘ اس لیے کہ یزید مومن تھا۔اسی طرح حضرت حسین کے بڑے بھائی محمد بن حنفیہ کہتے ہیں ’’ تم ان کے متعلق جو کچھ کہتے ہو میں نے ان میں سے کوئی چیز نہیں دیکھی ، میں ان کے یہاں قیام کیا ، میں نے انہیں پکّا نمازی ، خیر کا متلاشی ، مسائل شریعت سے لگائو رکھنے والااور سنت کا پابند پایا۔ [البدایہ والنہایہ:ج:۸ ،ص:۲۳۳ ]
    ان تمام اقوال کے علاوہ وہ حدیث ہمارے سامنے ہونی چاہئے جس میں آپ ﷺ فرمایا:
    ’’أول جيش من امتی يغزون مدينة قيصر مغفورلهم ‘‘ ’’میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر ( قسطنطنیہ) میں حملہ کرے گا وہ بخشا ہوا ہے ‘‘ [ صحیح البخاری: ۲۹۲۴]
    اس حدیث میں آپ ﷺ نے معرکۂ قسطنطنیہ میں شرکت کرنے والوں کے متعلق مغفرت کی بشارت دی ہے اور یزیداس جنگ کے کمانڈر تھے ۔
    لہٰذا یزید کو مطعون کرنا درست نہیں ہے کیونکہ اس نے نہ ایسا کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی اس عمل کو پسند کیا ۔
    کیا معرکۂ کربلا حق و باطل کا معرکہ تھا ؟ معرکۂ کربلا کو حق و باطل کا نام دینا سرے سے بے بنیاد اور غلط ہے جو خالصتاً رافضی اندازِ فکر کا مظہر ہے ۔ اسے حق و باطل کا معرکہ نہ کہنے کے مختلف اسباب ہیں ـ:
    ۱ـ۔ اگر یہ حق وباطل کا معرکہ ہوتا تو اس معرکے میں تنہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کیوں صف ِ آراء ہوئے جبکہ اس وقت صحابہ ٔ کرام کی جماعت کے بہت سے لوگ موجود تھے ۔
    ۲۔ اگر کفر اسلام کی جنگ ہوتی تو صحابہ کرام خود بڑھ کر حملہ کرتے جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ کوچ کرنے سے روک رہے تھے ۔ کیا ایسا ممکن تھا ؟
    ۳۔ حضرت حسین جب کوفہ کوچ کرنے کے لیے تیار ہوئے تو ان کے رشتے داروں اور ہمدردوں نے انہیں روکنے کی پوری کو شش کی ۔ جس میں ابن عمر، ابن عباس ، جابر بن عبداللہ ، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم وغیرہ پیش پیش تھے ۔
    ۴۔ آپ رضی اللہ عنہ کوفہ کے راستے میں ہی تھے کہ خبر ملی کہ مسلم بن عقیل شہید کردئیے گئے ، اس وقت حضرت حسین نے واپسی کا عزم ظاہر کیا لیکن مسلم کے بھائیوں نے بدلے کی بات کہہ کر ان کو چلنے پر آمادہ کر دیا ۔ اگر کفر اسلام کا معرکہ ہوتا تو کسی کے قتل سے عزم میں فرق نہیں پڑتا ۔ غزوات میں صحابہ کرام شہید کر دئیے جاتے تھے لیکن جنگ جاری رہتی تھی ۔ راہِ حق میں کسی کی شہادت سے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ ساقط نہیں ہوجاتا ۔
    ۵۔ اگر حق و باطل کی جنگ ہو تی توبہر حال حضرت حسین رضی اللہ عنہ کسی بھی صورت میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دینے کے لیے تیار نہ ہوتے جیسا کہ تیار ہوگئے تھے ۔
    ان تمام اسباب پر نگاہ ڈالنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ معرکہ سیاسی نوعیت کا تھا ،حق وباطل کا معرکہ نہیں تھا ۔
    تعزیہ داری کی ایجاد : حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ( ۶۱ھ)کے تقریباً ۲۹۱ سال بعد معزالدین الدیلمی نے بغداد میں ۳۵۲ھ؁ ، ۱۰؍محرم کو حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں تمام دکانوں کو بند کرنے کا حکم صاد ر کیا ، بیع وشراء معطل کیا ، لوگوں کو حکم دیا کہ ماتمی لباس پہنیں ، نوحہ کریں، عورتیں چہرے سیاہ کرکے کپڑے پھاڑتے ہوئے مرثیہ خوانی اور سینہ پیٹتی ہوئی سڑکوں پر نکلیں ۔ شیعوں نے اس حکم کی تعمیل بخوشی کی لیکن اہل سنت خاموش رہے۔لیکن چونکہ شیعہ حکومت تھی لہٰذا آئندہ سال پھر اسی حکم کا اعادہ کیا لہٰذا شیعہ اور سنی میں فساد برپا ہوا ، بہت خوں ریزی ہوئی ، اس کے بعد شیعوں نے ہر سال اس رسم کو زیر عمل لانا شروع کردیا ۔
    اللہ تعالیٰ امّت مسلمہ کو ان تمام بدعات وخرافات سے محفوظ رہنے اور صحابہ کرام و سلف صالحین کے فضائل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی پر طعن وتشنیع کر نے سے گریز کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings