-
دینی علم کی اہمیت وضرورت الحمد للہ والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللہ أما بعد:
محترم قارئین!
اسلام علم کا دین ہے،اسلام کو نازل فرمانے والا اللہ خودہر ظاہر و پوشیدہ چیزوں کا جانکار اور علام الغیوب ہے،وہ اللہ دلوں کے پوشیدہ رازوں کو بھی جانتا ہے،انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو عزت ورفعت علم کے ذریعہ ہی عطا کیا گیا،اور فرشتوں کوساجد بنایا گیا،اللہ نے تمام انبیاء کرام کو علم و حکمت کی نعمت اور عزت دے کر مبعوث فرمایا، قرآن کریم کی پہلی وحی جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی اس میں پڑھنے،لکھنے اور سیکھنے کا ہی پیغام دیا گیا،گویا اس امت کی بنیاد ہی علم پر رکھی گئی ہے،جہالت کا اسلام سے وہی رشتہ ہے جو رات کو دن سے اور روشنی کو اندھیرے سے،کہ یہ کبھی بھی یکجا نہیں ہو سکتے ہیں اسی طرح ایمان اور جہالت یکجا نہیں ہوسکتے ہیں،اسلام کا معجزہ قرآن کریم ایک علمی معجزہ ہے،رسول اکرم ﷺ کا منصب نبوت ورسالت آیات بینات کی تلاوت اور تعلیم ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ}
ترجمہ:’’وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔ یقینا یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘[الجمعہ: ۲]
اللہ نے اپنے نبی پر سب سے عظیم فضل یہ کیا کہ آپ کو علم عطا فرمایا:
{وَأَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا}
ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب وحکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے‘‘[النساء:۱۱۳]
علم کا حاصل کرنا تمام مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلٰي كُلِّ مُسْلِمٍ‘‘
ترجمہ’’علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘[ابن ماجۃ:۲۲۴]
اللہ تعالیٰ نے عالم اور بے علم کے درمیان برابری کی نفی کی ہے کہ یہ دونوں کسی بھی طور پر برابر نہیں ہوسکتے ہیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ عالم کو عام مومن پرفضیلت اور بلندی عطا فرما دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ}
ترجمہ’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا‘‘ [المجادلۃ:۱۱]
علم ایک ایسی عزت اور ایسا شرف ہے جسے ہر آدمی پسند کرتا ہے،کسی جاہل کو بھی آپ اگر علم کی طرف منسوب کردیں تو اسے خوشی محسوس ہوتی ہے،اس سے نفس انسانی میں موجود علم کے مقام کا اندازہ ہوتا ہے،اور اگر کسی جاہل کو جاہل کہہ کر پکار دیں تو اسے ذلت کا احساس ہوتا ہے اور لڑنے پر آمادہ ہوجاتا ہے،اس سے جہالت کی ذلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔علم شریعت کی خیر وبرکت لامحدود ہے،کیونکہ علم کا طلبگار جنت کا مسافر بن جاتا ہے،پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
’’مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللّٰهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَي الْجَنَّةِ‘‘
ترجمہ’’جو شخص حصول علم کی راہ پر چلے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ سہل کر دے گا‘‘[صحیح مسلم:۶۸۵۳]
اتنا ہی نہیں بلکہ کتاب وسنت کی تعلیم کیلئے مساجد میں منعقد کی جانے والی مجالس کو سکینت،رحمت،نزول ملائکہ،ملأ اعلیٰ میں ذکر خیر،جیسی عظیم بشارت سے نوازا گیا ہے،تاکہ اہل علم اور طالبان علوم نبوت کے مقام ومرتبہ کو نمایاں کیا جائے،اس میں لوگوں کیلئے زبردست ترغیب ہے،یہ انمول نعمتیں اللہ نے اہل علم اور طالبان علوم قرآنی کے ساتھ خاص فرمادی ہیں ،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللّٰهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللّٰهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللّٰهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ‘‘
ترجمہ’’اور جو لوگ جمع ہوں اللہ کے کسی گھر میں اللہ کی کتاب پڑھیں اور ایک دوسرے کو پڑھائیں تو ان پر اللہ کی رحمت اترے گی اور رحمت ان کو ڈھانپ لے گی اور فرشتے ان کو گھیر لیں گے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کرے گا اپنے پاس رہنے والوں میں (یعنی فرشتوں میں)‘‘[صحیح مسلم:۶۸۵۳]
دینی علم کی ضرورت: ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی جنت کا حق دار بن جائے،اللہ کو خوش کرلے،پاکیزہ زندگی حاصل کرلے،اپنے مقصد حیات کو اعلیٰ طریقے سے انجام دے،اسے دنیا وآخرت کی سعادت مل جائے،پرسکون اور بابرکت زندگی حاصل ہوجائے،لیکن یہ ساری نعمتیں بغیر دینی علم حاصل کئے ممکن نہیں ہیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ زندگی اور آخرت کی کامیابی کو ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ جوڑ دیا ہے،اور ایمان وعمل صالح کی بنیاد ہی علم نافع پر رکھی گئی ہے،امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے’’باب العلم قبل القول والعمل‘‘کہ اس بات کا بیان کہ کہنے اور کرنے سے پہلے علم حاصل کرنا ضروری ہے،کیونکہ بغیر کتاب وسنت کا علم حاصل کئے نہ عقیدہ و ایمان صحیح ہوسکتا ہے اور نہ ہی اعمال،اسی طرح حلال وحرام،اللہ کے حقوق،بندوں کے حقوق،فرائض وواجبات،عبادات ومعاملات کا جب تک علم نہیں ہوگا تب تک یہ سارے معاملات درست نہیں ہوسکتے ہیں،اسی لئے ایک اچھا مسلمان بننے کیلئے دین کا ضروری اور بنیادی علم حاصل کرنا فرض ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ}
ترجمہ’’سو (اے نبی!)آپ یقین کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی‘‘[سورہ محمد:۱۹]
اسی لئے صحابہ کرام نے علم کے حصول میں جی جان لگا دیا،رات رات بھر علم حاصل کرتے تھے،لمبے لمبے سفر کرکے علم حاصل کرتے تھے،فقر وفاقہ کی زندگی کے باجود علم حاصل کرنے سے باز نہیں آتے تھے،موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر رسول نے بھی سفر کیا تاکہ وہ علم حاصل کریں جس کا انہیں علم نہیں ہے،صحابہ کرام وسلف صالحین پوری بصیرت اور دل کی گہرائی سے اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ دین کا علم سیکھے بغیر پاکیزہ زندگی اور آخرت کی کامیابی مل ہی نہیں سکتی ہے،علم کی ضرورت پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ قول منقول ہے:
’’الناس الي العلم أحوج منهم الي الطعام والشراب لأن الرجل يحتاج الطعام فى اليوم مرة أو مرتين ، وحاجته الي العلم بعدد أنفاسه‘‘
ترجمہ’’لوگوں کو کھانے اور پینے سے زیادہ علم دین کی ضرورت ہے،کیونکہ آدمی کو دن میں ایک یا دو بار کھانے پینے کی ضرورت پڑتی ہے،اور علم دین کی ضرورت اتنی ہے جتنی (زندگی)کیلئے سانسوں کی ضرورت ہے‘‘
ہدایت،اتباع رسول ﷺ ،عبادت الہٰی،پاک وصاف دل،تقویٰ،خشیت الہٰی، یہ سب اللہ کی عظیم ترین نعمتیں ہیں،ان کا حصول، علم نافع کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے،علم کی اسی ضرورت واہمیت کی وجہ سے ہی رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ ’’صفہ کلاسیز‘‘کاآغازفرمایا،اور یہ مدرسہ علم کی روشنی کو پورے سماج میں عام کرنے کا کام کرتا رہا،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جیسی علمی شخصیت کی تعلیم وتربیت اسی صفہ نامی مدرسہ میں ہی ہوئی تھی جس کے نگراں ومنتظم خود رسول اللہﷺ تھے۔آج بھی سماج کے بگاڑ وفساد کو دور کرنے کا سب سے اعلیٰ،افضل،مضبوط،کامیاب ذریعہ’’کتاب وسنت کی تعلیم اور اللہ ورسول ﷺ کی اطاعت واتباع‘‘ہی ہے۔
اور ہاں اس راہ کی کچھ فرضی رکاوٹیں ہیں،ان کو اپنے آپ سے دور کرو،علم حاصل کرنے میں شرم کرنا حماقت بھی ہے،محرومی بھی ہے،صحابہ کرام اور ان کی بیویاں اس دنیا کی سب سے زیادہ پاکیزہ اخلاق اور شرم وحیا والی تھیں لیکن علم کے طلب میں انہوں نے شرم کو آڑے نہیں آنے دیا،اسی لئے تو ام المومنین صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما نے انصار کی عورتوں کی اس خوبی پر تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
’’نِعْمَ النِّسَاءُ، نِسَاءُ الأَنْصَارِ، لَمْ يَكُنْ يَمْنَعُهُنَّ الْحَيَائُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِي الدِّينِ ‘‘
ترجمہ:’’انصار کی عورتیں بھی کیا عمدہ عورتیں تھیں۔ وہ دین کی بات پوچھنے میں شرم نہیں کرتی تھیں(شرم، گناہ اور معصیت میں ہے اور دین کی بات پوچھنا ثواب اور اجر ہے)‘‘[صحیح مسلم:۷۵۰]
اسی طرح حصول علم میں چھوٹی بڑی عمر کو بہانہ نہیں بنانا چاہئے،بعض لوگ پچاس،ساٹھ کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں،اور انہیں اپنی جہالت اور علم سے محرومی کا احساس بھی ہوجاتا ہے لیکن صرف اس لئے علم حاصل نہیں کرتے کیونکہ ان کی عمر بہت بڑی ہوگئی ہے،اب کیسے علم سیکھیں،حالانکہ ان بوڑھوں کے پاس ضرورت کے ساتھ ساتھ وقت بھی ہوتا ہے، دیکھئے عمر کی قید کس نے لگائی ہے؟خود ہم نے اور ہمارے سماج نے،کیونکہ صحابہ کرام بڑی عمر میں بھی علم حاصل کرتے تھے، امام بخاری نے اس کا ذکر اپنی صحیح میں نقل فرمایا:
’’وَقَالَ عُمَرُ بن الخطاب رضي اللّٰه عنه تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا)، ثم قَالَ الإمامُ البخاري رحمه اللّٰه (وَبَعْدَ أَنْ تُسَوَّدُوا، وَقَدْ تَعَلَّمَ أَصْحَابُ النَّبِيّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كِبَرِ سِنِّهِمْ‘‘’’عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا سرداری ملنے سے پہلے ہی علم وفہم حاصل کرلو اور امام بخاری نے فرمایا’’اورسردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے بڑھاپے میں بھی دین سیکھا‘‘ [صحیح البخاری:کتاب العلم:بَابُ الِاغْتِبَاطِ فِی العِلْمِ وَالحِکْمَۃِ]
دینی علم سے عالم وطالب علم دونوں کو بے شمار خیر وبھلائی ملتی ہے،اللہ کسی کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کا علم وسمجھ عطا فرمادیتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاء ُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ}[ البقرۃ:۲۶۹]
ترجمہ:’’وہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں‘‘
اور رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’مَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ‘‘
ترجمہ’’جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے‘‘[صحیح البخاری: ۷۱]
واقعی علم ایک ایسی نعمت ہے جو انسان کی محرومی کو بھی نفع بخش بنادیتی ہے،اور جاہل نعمت پاکر بھی محروم رہتا ہے،ایک مالدار جاہل کیلئے اس کا مال اس کیلئے عذاب کا سبب بن جاتا ہے،کیونکہ اسے مال خرچ کرنے کا علم ہی نہیں ہوتا ہے،اور مال جیسی اہم نعمت کو گناہوں میں خرچ کرتا رہتا ہے،رشتہ داروں کے حقوق ادا نہیں کرتا ہے،فضول خرچی کرتا ہے،اور اپنے آپ کو اللہ کے غضب کا حق دار بنالیتا ہے،ایسے ہی جاہل غریب بھی جاہل مالداروں کا ساتھ دے کر جہالت کی وجہ سے بدترین انجام کو پہنچ جاتا ہے،لیکن جسے اللہ نے مال بھی دیا اور علم سے بھی نوازا ہے وہ علم کی وجہ سے اعلیٰ مقام حاصل کرلیتا ہے کیونکہ وہ مال کا صحیح استعمال کرتا ہے،مستحقین کے حقوق ادا کرتا ہے،اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اور غریب علم والا اپنے ارادے اور نیت کی وجہ سے صاحب مال عالم کے مقام کو پالیتا ہے۔اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ:عَبْدٍ رَزَقَهُ اللّٰهُ مَالًا وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلّٰهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللّٰهُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالًا فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ، يَقُولُ:لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَأَجْرُهُمَا سَوَاء ٌ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللّٰهُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَلَا يَعْلَمُ لِلّٰهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللّٰهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا، فَهُوَ يَقُولُ:لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَاء ٌ‘‘
’’یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے:ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتا ہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہتر ہے۔ اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا، لیکن مال و دولت سے اسے محروم رکھا پھر بھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہٰذا اسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا (یعنی:برے کاموں میں مال خرچ کرتا)تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہو گا‘‘[سنن الترمذی: ۲۳۲۵،صحیح]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علم سب کیلئے بے حد اہم ہے،اور جہالت کی وجہ سے نعمت بھی مصیبت بن جاتی ہے، اور علم نافع سے انسان نعمت پر نعمت حاصل کرتا جاتا ہے،اور ایک آسودہ حال زندگی گزارتا ہے،دین کا علم ہمیشہ انسان کے ساتھ رہتا ہے،اسے کوئی چھین نہیں سکتا ہے،بلکہ یہ علم قبر میں بھی ساتھ ساتھ ہوگا اور سوالوں کے جواب میں مددگار ہوگا لیکن جاہل وہاں بھی تنہا اور پریشان ہوگا، ہائے افسوس مجھے کچھ نہیں معلوم کہہ کر کبیدہ خاطر ہوگا۔
اس لئے میرے بھائیو اور بہنو! زندگی کو غنیمت سمجھو اور علم حاصل کرنا شروع کردو،یہ مت دیکھو کہ اب کیسے سیکھوں، لوگ کیا کہیں گے،بلکہ جو زندگی بچی ہے اس میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرو،اور اس پر عمل کرو،آپ خود ہی اس کی برکتیں محسوس کروگے،عبادتوں میں لذت کا احساس ہوگا،دل میں اطمینان اور سکون کا نزول ہوگا،زندگی آسان ہوجائے گی،علماء کے پاس بیٹھ کر قرآن وسنت کا سیکھنا عزت ورفعت کا اہم ذریعہ ہے۔وہ شخص کتنا خوش نصیب ہے جسے اللہ نے قرآن وسنت کا علم سیکھنے کی توفیق بخشی ہے،علم اور علماء کی محبت عطا فرمائی ہے،جسے علمی و دینی مجلسوں سے سکون اور خوشی ملتی ہے۔
کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے پیروں تلے فرشتے اپنا بازو بچھاتے ہیں،جن کیلئے اللہ جنت کی راہ آسان فرمادیتا ہے؟
علماء سے جڑیں،طالب علم بنیں،اپنے اوقات کا ایک حصہ تعلیم و تعلم کیلئے وقف کریں، دنیا وآخرت کی نعمتیں حاصل کریں۔اور کتاب وسنت کی روشنی میں اپنی زندگی گزاریں،رب کی رحمت کے حق دار بنیں۔
دعا ہے اللہ ہم سب کو نفع بخش علم اور مقبول عمل کی نعمت عطا فرمائے۔ آمین