Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اسلام میں تزکیہء نفس کی اہمیت و ضرورت

    زندگی کو خوبصورت بنانا ہر انسان کا بنیادی فرض ہے لیکن اس کے لئے اگر کچھ بنیادی باتوں کا خیال رکھا جائے تو معاملہ نہایت ہی آسان ہو جاتا ہے، انہی میں ایک نفس پر غور و فکر ہے، اس مضمون میں ہم ان شاء اللہ اسی نفس اور اس کی تربیت و تزکیہ کی اہمیت و ضرورت کے حوالے سے کچھ باتیں پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
    نفس کے احوال اور اس کا محاسبہ:
    نفس کے اعتبار سے لوگوں کی دو قسمیں ہیں:
    ۱۔ ایک قسم یہ کہ نفس نے ان پر غلبہ پا لیا ہو اور ان کو اپنے قابو میں کر کے انہیں تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہو، اور پھر ایسی صورت میں وہ بس نفس ہی کے غلام اور اسی کے مطیع و فرمانبردار بن کر رہ گئے ہوں۔
    ۲۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے نفس کو اپنے قابو میں کر کے خود کو اس کی غلامی سے آزاد کر لیا ہو، جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
    { فَأَمَّا مَنْ طَغَي،وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا،فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَي، وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَي النَّفْسَ عَنِ الْهَوَي،فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَي}
    ’’پس جس نے سرکشی کی اور دنیوی زندگی کو ترجیح دیا تو جہنم اس کا ٹھکانہ ہے ، اور جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور نفس کو خواہشات سے بچا لیا تو جنت اس کا ٹھکانہ ہے‘‘
    [ النازعات:۳۷۔۴۱]
    اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت بہت ہی عظیم اور فائدے والی صفت ہے ۔ اور اس صفت کا اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ بندہ صرف اور صرف اللہ سے ڈرتا ہو ۔ جب اس کے آس پاس اللہ کے بندوں میں سے کوئی نہ ہو، اور وہ اللہ کو بن دیکھے اس یقین کے ساتھ اپنے اندر اللہ کی خشیت پاتا ہوکہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے تو ایسے شخص کے لئے اللہ کی طرف سے بڑے اجر کا وعدہ ہے ۔
    جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا:
    ’’إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ‘‘
    ’’ بیشک آپ تو اسے ہی ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرنے والا ہو اور رحمن سے بِن دیکھے ڈرتا ہو پس آپ ایسے شخص کو بخشش اور عزت والے اجر کی خوشخبری سنا دیجیے ‘‘
    [یٰس:۱۱]
    نفس کے اقسام :
    اوراسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نفس کے تین اقسام بتائے ہیں اور وہ یہ ہیں:
    ۱۔نفس مطمئنہ : اگر نفس کو اللہ کی اطاعت سے سکون واطمینان حاصل ہو ، اس کی طرف انابت سے خوشی ہو، اس کی ملاقات کا آرزو مند اور مشتاق ہو اور اس کو اس کے قرب حاصل کرنے میں انس میسر ہوتو یہ نفس مطمئنہ ہے ۔اور اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
    {يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُارْجِعِي إِلَي رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً}
    ’’اے اطمینان والی روح تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے خوش‘‘
    [الفجر:۲۷۔۲۸]
    ۲۔نفس لوّامہ: یہ نفس کبھی ایک حال پر باقی اور قائم نہیں رہتا ہے ۔بلکہ اس میں بہت تغیر ، تبدیلی اور تلون پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ کبھی ذکر سے سرشار رہتا ہے تو کبھی غفلت ولا پرواہی میں مبتلا ہوجاتا ہے ، کبھی احکام الٰہی کے قبول کرنے میں قبول کرنے میں سعادت ابدی سمجھتا ہے ، تو کبھی ان سے اعراض بھی کرتا ہے ، تو کبھی محبت کا برتائو کرتا ہے اور کبھی بغض رکھتا ہے تو کبھی خوش اور کبھی رنجیدہ رہتا ہے ۔ اور کبھی راضی اور کبھی غصہ ہوتا ہے اور کبھی انتہائی مطیع فرمانبردار اور ڈرنے والا ہوجاتا ہے ۔’’وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ‘‘’’اور میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی‘‘ [القیامہ :۲]
    مفسرین کا کہنا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے ایسے نفس کی قسم کھائی ہے جو واجبات میں کمی اور کچھ حرام کاموں کے ارتکاب پر بھی اپنے آپ کو اتنا ملامت کرتا ہے کہ نفس سیدھا ہوجاتا ہے ۔
    نفس لوامہ کی دو قسمیں ہیں : لوامہ ملومہ اور لوامہ غیر ملومہ
    لوامہ ملومہ : جاہل، ظالم اور حد سے تجاوز کرنے والا نفس ہے جس پر اللہ اور فرشتوں کی طرف سے ملامت نازل ہوتی ہے ۔
    لوامہ غیر ملومہ : یہ نفس بندے کو اللہ کی عبادت وطاعت کے باب میں اس کی تقصیر اور کوتاہی کرنے پر ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے ، درحقیقت سب سے شریف نفس وہی ہے جو نفس کو عبادت اور طاعت کے سلسلے میں سرزنش و فہمائش کرتا رہے ، اور اللہ کی رضا کی خاطر ہر ملامت کرنے والے کی ملامت کو برداشت کرے اور نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اس کو پکڑے ، اور یقینا ایسے نفس کو اللہ کی ملامت سے نجات اور خلاصی حاصل ہوتی ہے ، رہا وہ نفس جو اعمال پر راضی اور مطمئن رہتا ہے اور نہ اپنے نفس کی ملامت کرتا ہے اور نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو برداشت کرتا ہے ، پس ایسے نفس پر اللہ تعالیٰ کی ملامت نازل ہوتی ہے ۔
    ۳۔نفس امارہ : یہ نفس ہر بری اور خراب چیزوں کا حکم دیتا ہے ، شر اور برائی اس کی سرشت اور فطرت میں ہے ۔ اس کے شر اور برائی سے خلاصی اور نجات محض اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مہربانی سے ہوسکتی ہے ۔جیسا کہ اللہ عزوجل نے عزیر مصرکی بیوی کے قول کو قرآن مجید میں نقل فرمایا ہے:
    {وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوئِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ}
    ’’میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتی بے شک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہے مگر جس پر میرے رب نے رحم کردیا ۔ بے شک میرا رب بخشنے والا اور مہربان ہے ‘‘
    [یوسف :۵۳]
    محاسبہ نفس یعنی نفس کی حساب رسی کرنا ، انسان اپنے نفس کا حساب وکتاب کرنے کے لئے روز وشب میں سے کسی ایک وقت کا تعین کرلے کہ آج اس نے کیسے اعمال انجام دئیے ہیں اور اپنی فرمانبرداری اور نافرمانی کا موازنہ کرے ، اگر اس دن اللہ کی نافرمانی یا معصیت کا مرتکب ہوا ہو تو چاہئے کہ اپنے نفس کو ملامت کرے ۔ اور واجبات انجام دیئے ہوں یا معصیت کا مرتکب نہ ہوا ہو تو اللہ کا شکر بجالائے ۔
    نفس کا تزکیہ کیسے کریں ؟
    ایک لمحہ کا حساب وکتاب پوری زندگی کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے ۔
    لیکن کیا یہ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ ایک لمحہ کا حساب بھی بہت آسان ہے اور انسان بہت آسانی سے اپنے نفس کو چنگل میں لے کر اسے دین کے آہنی اصول وضوابط اور اللہ کے فرمان پر واقعی چلا سکتا ہے ؟ نہیں ۔۔۔۔! بلکہ اپنے نفس پر کنٹرول حاصل کرنا میدان کار زار میں دشمنوں سے مقابلہ کرنے سے کہیں زیادہ مشکل اور دشوار ہے ۔ اسی لیے ہر شخص کو چاہئے کہ فرض نماز کی پابندی کرے ، قرآن مجید کی تلاوت اکثر وبیشتر اوقات میں کرے ، کثرت سے صدقہ و خیرات کرے ، پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھے ،اور اپنے نفس کو اسی بات پر مطمئن رکھے کہ یہ سب اس نے اللہ کی رضا کی خاطر کیا یا کرتا رہے گا اس میں کسی بھی قسم کی ریا کاری شامل نہیں کرے گا ۔ یہ اس لئے کہ مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے ، اور دل میں آنے والے شکوک وشبہات کا مقابلہ کرے ، اس لئے کہ خیر ہویا شر ان کی ابتداء دل میں آنے والے خیالات سے ہوتی ہے ۔ چنانچہ اگر مسلمان دل میں آنے والے برے خیالات پر قابو پالے ، اور اچھے خیالات پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے عملی جامہ پہنائے تو وہ فوز و فلاح پاتا ہے ، اور اگر شیطانی وسوسوں اور مسترد کرتے ہوئے شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ چاہے تو گناہوں سے سلامت رہ کر نجات پاتا ہے ۔ اور اگر شیطانی وسوسوں سے غافل رہے ، اور انہیں قبول کرلے تو یہ وسوسوے اسے گناہوں میں ملوث کردیتے ہیں ۔
    جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ}
    ’’اوراگر شیطان کی طرف سے آپ کو کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگو ، بے شک وہی سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘
    [فصلت :۳۶]
    تزکیۂ نفس کے فوائد :
    جو شخص اپنے نفس کے عیوب پر مطلع اور واقف نہ ہو سکا تو اس کے لئے اپنے عیبوں کو دور کرنا ممکن نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کے حق کی معرفت بندے کے اندر اس کے نفس سے بغض اور حقارت کا ذریعہ بنتی ہے ، اور یہ معرفت حق اس کو خودپسندی اور ریا کاری سے نجات دیتی ہے اور اس کے پروردگار کے آگے اس کے لئے تواضع، خاکساری اور انکساری کے دروازے کو کھول دیتی ہے ، اور نفس سے بالکل مایوس بنادیتی ہے ، اور بندے کو نجات محض اللہ کے عفو ، اس کی مغفرت اور اس کی رحمت ہی سے حاصل ہوتی ہے ۔ پس اللہ کا حق یہ ہے کہ بندہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرے ، نافرمانی نہ کرے ، اس کو یاد کرے ، اس کو بھولے نہیں اور اس کا شکر ادا کرے اس کی ناشکری نہ کرے ۔ متقیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
    {إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ }
    ’’بے شک متقی لوگوں کو جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ لاحق ہوتا ہے تو اللہ کو یاد کرتے ہیں ، پھر وہ حقیقت سے آگاہ ہوجاتے ہیں ‘‘
    [الاعراف :۲۰۱]
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر خشیت الٰہی کا بہت غلبہ تھا اور وہ خوف ِآخرت سے ہر وقت لرزاں و ترساں رہتے تھے ۔
    شُفَی ْالاصبحی رحمۃاللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں مدینہ منورہ آیا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص کے ارد گرد بہت سے لوگ جمع ہیں میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں ؟لوگوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔۔۔۔ میں بھی ان کے پاس جاکر ادب سے بیٹھ گیا، اس وقت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لوگوں سے رسول اللہﷺ کی احادیث بیان کررہے تھے ، جب وہ احادیث سنا چکے اور لوگ اٹھ کر چلے گئے تو میں نے عرض کیا : اے صاحب ِرسول اللہ ﷺ مجھے بھی کوئی حدیث سنا یئے جس کو آپ نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو، سمجھا ہو ، اور جانا ہو ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا : میں تمہیں ایسی ہی حدیث سنائوں گا ۔ یہ کہا اور چیخ مارکر بے ہوش ہوگئے کچھ دیر کے بعد ہوش آیا تو کہا میں تم کو ایسی حدیث سنائوں گا جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی جب میرے سوا کوئی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ تھا ! یہ کہہ کر پھر چیخ ماری اور غش کھا کر منہ کے بل گر پڑے ، میں بہت دیر تک ان کو سہارا دے کر بیٹھا رہا ۔ جب ہوش آیا تو کہا ، مجھ سے رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلے کرے گا تو سب سے پہلے اس کے سامنے تین آدمی پیش کئے جائیں گے ۔ ایک قرآن کا عالم ، دوسرا میدانِ جہاد میں لڑکر مارا جانے والا ، تیسرا مالدار ۔ اللہ تعالیٰ عالم سے پوچھے گا ! کیا میں نے تجھے قرآن کی تعلیم کی توفیق نہیں دی تھی ؟وہ کہے گا ! ’’ ہاں میرے اللہ ‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے اس پر عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں دن رات اس کی تلاوت کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تلاوت اس لئے کرتا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں ، سو ایسا ہی ہوا اور تونے لوگوں سے قاری کا خطاب حاصل کرلیا ۔پھر اللہ تعالیٰ میدان ِجہاد کے مقتول سے پوچھے گا کہ تو کیوں قتل ہوا ؟ وہ کہے گا ، اے اللہ تونے اپنی راہ میں جہاد کا حکم دیا تھا ، پس میں نے جہاد کیا اور مارا گیا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ کہتا ہے تونے میری راہ میں جہاد اس لئے کیا کہ لوگ تجھے بہادر کہیں اور یہ خطاب تو لوگوں سے پاچکا ۔ پھر اللہ تعالیٰ مالدار سے سوال کرے گا ، کیا میں نے تجھے مال ودولت دے کر لوگوں کی احتیاج سے بے نیاز نہیں کردیا تھا ؟ وہ کہے گا بے شک میرے اللہ !اللہ تعالیٰ فرمائے گاتونے اس مال کا کیا کیا ؟ وہ کہے گا ، صلہ رحمی کرتا تھا ، صدقہ و خیرات کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تیرا مقصد تو اس مال کے خرچ کرنے سے یہ تھا کہ لوگ تجھے بڑا سخی اور فیاض کہیں اور تیری آرزو کے مطابق لوگوں نے تجھے ایسا کہا ۔ یہ حدیث بیان فرما کر رسول ﷺ نے میرے زانوں پر ہاتھ مارکر فرمایا ، ابوہریرہ ! سب سے پہلے ان تینوں کے لئے جہنم کی آگ دہکا ئی جائے گی۔
    [سنن ترمذی:۲۳۸۲،صحیح]
    اللہ اکبر ! یہ وہ صحابی ہیں جن کے بارے میں دنیا میں جنت کی بشارت دے دی گئی اس کے باوجود جہنم سے اتنا خوف تھا کہ روتے روتے غش آجاتا ـــ۔۔۔۔۔’’اللهم اجرنا من النار ‘‘
    نفس کی اصلاح اور اس کی درستی کے بغیر جہنم اور اس کی ہولناکیوں سے نجات نہیں مل سکتی ۔ نیز اصلاح نفس کا عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت محبوب ہے اللہ رب العزت نے نفس کو پاک رکھنے او رتوبہ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا :
    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَي اللّٰهِ تَوْبَةً نَصُوحًا}
    ’’اے ایمان والو! اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو‘‘
    [ التحریم : ۸]
    نبی کریم ﷺ کو دنیا میں بھیجنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ہمارے نفس کو پاکیزگی مل سکے ۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    {هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ}
    ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے ، اور انہیں کتاب و حکمت کا علم عطا فرماتا ہے ، اور بے شک وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘
    [ الجمعہ :۲]
    وہ نبی جسے پوری کائنات کے اصلاح کے لئے بھیجا گیا اور جس کے بارے میںخود اللہ رب العزت نے فرمایا:
    {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيرًا}
    ’’تحقیق کہ تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ بہترین نمونہ ہیں اس کے لئے جو اللہ اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے‘‘
    [الاحزاب : ۲۱]
    جس نبی ﷺ کی قرآن مجید میں جگہ جگہ تعریفیں بیان کی گئی وہ نبی دنیا والوں کے مقابلے میں اللہ سے بہت ڈرنے والے تھے اور اپنے نفس کو ہر برائی سے پاک رکھتے تھے جبکہ ہمارا زیادہ حق ہے کہ ہم اپنے نفس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
    {كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ}
    ’’ آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب ( اپنے نامۂ اعمال کے مطابق ) اپنے اپنے پورے اجر پانے والے ہو ، کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش ِدوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے ، رہی یہ دنیا ( جس کے پیچھے ہم سب دیوانوں کی طرح بھاگ رہے ہیں ) تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے ‘‘
    [آل عمران : ۱۸۵]
    سو معلوم ہوا کہ اصل کامیابی کا راستہ یہی ہے کہ انسان آخرت میں جہنم سے نجات اور جنت تک پہنچنے کی فکر کرلے اور اسی چیز کو حضور اکرم ﷺ نے عقل مندی و دانش مندی قرار دیا ۔
    فرمایا : ’’الكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِِ‘‘
    ’’عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا مستقل محاسبہ کرتا رہے اور موت کے بعد والی زندگی کی خاطر عمل کرے‘‘
    [سنن ترمذی :۲۴۵۹ :۴؍۲۱۹،مسند امام احمد :۱۷۱۲۳،۲۸؍۳۵۰،المستدرک للحاکم :۱۹۱،۱؍۱۲۵]
    حدیث کی سند میں اگرچہ ضعف ہے لیکن سابقہ آیت کریمہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معنی با لکل درست ہے ، اس لئے متعدد محدثین نے اسے روایت کیا ہے ۔
    نفس کے شر سے پناہ : حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : انہوں نے کہا میں تمہیں اسی طرح بتاتا ہوں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ، آپ ﷺ فرماتے تھے : اے اللہ !اللہ!میں پناہ مانگتا ہوں تیزی عاجزی اور سستی اور نامردی اور بخیلی اور بڑھاپے سے اور قبر کے عذاب سے، یا اللہ! میرے نفس کو تقویٰ دے اور پاک کر دے اس کو، تو اس کا بہتر پاک کرنے والا ہے، تو اس کا آقا اور مولیٰ ہے، یا اللہ!میں پناہ مانگتا ہوں تیری اس علم سے جو فائدہ نہ دے اور اس دل سے جو تیرے سامنے نہ جھکے اور اس جی سے جو آسودہ نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو۔
    [صحیح مسلم:۲۲۲۷]
    اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دور حاضر میں سارے مسلمانوں کے ذہنوں میں رائج مفہوم کی اصطلاح کی جائے۔ اور وہ یہ ہے کہ گناہ فقط منکرات کا ارتکاب ہے۔ مثلاً چوری ، زنا کاری ، غیبت اور اس جیسے دیگر معاصی ہیں حالانکہ یہ مفہوم غلط ہے کیونکہ یہ بات بھی گناہ و معصیت ہے کہ شرعی واجبات کو بجا نہ لایا جائے یا ان میں کوتاہی برتی جائے اور کامل طریقہ ادا نہ کیا جائے مثلاً نماز کی اس کے اوقات میں ادائیگی میں غفلت برتنا ، یا جماعت کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے میں سستی کرنا ، یا خشوع و خضوع میں کمزوری دکھانا ، یاامر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، بجانہ لانا ، یا دعوت الی اللہ میں اہمال،سستی برتنا ، یا معاملات اور احوال المسلین کا اہتمام نہ کرنا وغیرہ ، فرائض و واجبات جنہیں اکثر بھلا دیا جاتا ہے ۔
    اللہ کے بندو ۔۔۔۔یہ بات ذہن نشین کرلو ! انسان کی فلاح وکامیابی اپنے نفس کو قابو رکھنے میں ہے چنانچہ محاسبہ نفس ، اور ہر قول و فعل پر مشتمل چھوٹے بڑے کام میں مکمل نگرانی ضروری ہے۔ لہٰذا جس شخص نے محاسبہ نفس ، اور اپنے قول و فعل پر رضائے الٰہی کے مطابق مکمل قابو رکھا تو وہ بڑی کامیابی پاگیا ۔
    اب ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تقویٰ اختیار کریں ، اللہ کے پسندیدہ اعمال کے ذریعے قرب الٰہی تلاش کریں۔ غضبِ الٰہی کا موجب بننے والے اعمال سے دور رہیں ، اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں متقی کامیاب و کامران ہونگے اور خواہشاتِ نفس کے پیروکار نامراد ہونگے ۔
    اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اعمال میں اخلاص اور تقویٰ پیدا کرے (آمین ) ۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings