Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • غزوات نبویہ اقدامی یا دفاعی

    الخبر :سعودی عرب

    بعثت نبوی ﷺ سے لے کر دور حاضر تک ہر زمانہ میں غیر اقوام کی اسلام کو بدنام کرنے، عوام الناس میں اس کی شبیہ بگاڑنے اور اسلامی تعلیمات کے تعلق سے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی مسلسل کوشش رہی ہے۔اور دشمنان اسلام نے اسلام کی بنیادوں کو اپنا ہدف بنانے کے ساتھ ساتھ رحمۃ للعالمین رسول اکرم ﷺ کی ذات مقدسہ اور حیات نبوت کو ٹارگٹ کیا ہے اور جدوجہد کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ اسلام زورزبردستی سے پھیلا اور دشمنان اسلام یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام کے غزوات و سرایا کا سہارا لے کر عوام پر ظلم وتشدد کرکے اسلام کو قبول کرنے پر مجبور کیا۔ یہ نقطہ اٹھا کر عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں اور ذہن سازی کی جاتی ہے کہ تمام غزوات اقدامی تھے۔ اہل مکہ کے خلاف معرکہ آرائی کرکے ان کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ،اور دور حاضر میں اسلام مخالف طاقتیں عوام کو  Love Jihad،دھرم واپسی ، یا ’’مسجد توڑومندر بناؤ‘‘کے نعروں سے ان کو تردد میں مبتلا کرکے یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کرتی ہیں کہ مسلم امراء اور حکمرانوں نے عوام کو مذہب بدلنے پر مجبور کیا تھا اور مندروں کو توڑ کر مسجدیں بنوائی تھیں۔

    قارئین کرام !  آئیے غزوات کے اسبابِ وقوع پر نظر ڈالتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ غزواتِ نبویہ ﷺ دفاعی تھے یا اقدامی ؟

    رسول اللہ ﷺ نے پوری حیات مبارکہ میں ۱۹ غزوات میں شرکت فرمائی، تمام غزوات کے اسباب کا تجزیہ کرنا یہاں مشکل ہے لہٰذا ہم انہی غزوات کے اسباب پر تبصرہ کریں گے جو تاریخی پس منظر سے بہت اہم ہیں ، غزوات کے حالات ، پس منظر ، حکمت عملی اور اسباب و نتائج پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ سارے معرکوں کی ابتداء مشرکین مکہ یا یہودیوں نے ہی کی تھی، انہوں نے امن و امان کو چیلنج کیا ۔چنانچہ بطور دفاع آپ اور صحابہ کرام نے سامنے آکر مقابلہ کیا ، فتنے کی آگ بجھائی اور غدروخیانت کا قلع قمع کیا۔

    غزوۂ بدر:  یہ غزوہ    ۲؁ھ رمضان کے مہینے میں وقوع پذیر ہوا اور یہ اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ تھا، کفار مکہ نے تیرہ سالہ مکی زندگی میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام پر دنیا تنگ کررکھی تھی اور مسلمانوں کے لئے آزادی کی سانس لینا مشکل ہوگیا تھا ، مشرکین مکہ کی زیادتیوں کا سلسلہ اس قدر طول پکڑلیا تھا کہ نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے پر متفق ہوکر مختلف قبیلوں کے نوجوانوں کو مامور کردیا تھا۔

    چنانچہ جب اشاعت اسلام کے تمام راستے مسدود نظر آنے لگے، جان و مال مصائب میں گھر گئے تو نبی ﷺ اور صحابہ کرام و طن عزیز کو تر ک کرنے پر مجبور ہوگئے حالانکہ ترک وطن فی نفسہٖ ایک بڑی آزمائش تھی ۔ لہٰذا صحابہ کرام نے اپنا سارا مال و متاع ،دولت و ثروت ،کنبہ قبیلہ ،تجارت وصناعت اور کھیتی و کھلیان کو تیاگ کر ایمان و توحید کو فوقیت دیتے ہوئے مدینہ ہجرت کرگئے اور کفار مکہ نے مسلمانوں کے تمام ثروات پر قبضہ کرلیا۔

    ہجرت کے بعد بھی کفار و مشرکین کے ظلم و جور کا سلسلہ بند نہیں ہوا جب دیکھا کہ انصار مدینہ نے اپنے مال و جان کو مہاجرین پر نچھاور کردیا ، مہاجرین و انصار شیر و شکر ہوگئے، مسلمانوں کا دعوتی سلسلہ بند نہیں ہورہا ہے تو انصار مدینہ کو طرح طرح کی دھمکیاں دینا شروع کردیا ، یہاں تک کہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا عزم کرلیا بالآخر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی بقاء کی سلامتی کی خاطر پنجہ آزمائی کا حکم دیا ۔

    چنانچہ مسلمانوں نے مکہ کے تجارتی قافلوں کا پیچھا کرنا شروع کیا ، قریش کا ایک تجارتی قافلہ دولت و ثروت سے لدا ہوا شام سے واپس ہورہا تھا آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو نکلنے کا حکم دیا کہ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ بطور غنیمت اور بطور تعویض (جن اموال پر کفار نے قبضہ کرلیاتھا )ہمیں نواز ے۔

    عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ابوسفیان کے قافلے کے بارے میں سنا تو فرمایا :

    ’’هذه عير قريش فيها اموالهم فأخرجوا اليها لعل اللّٰه ينفلكموها‘‘

    ’’یہ قریش کا قافلہ مال سے لدا ہواآرہا ہے نکل پڑو ہوسکتااللہ تعالیٰ بطور غنیمت تمہیں نوازے‘‘ [رواہ ابن اسحاق فی السیرۃ:۲/۲۹۵، وعبد الرزاق فی المصنف :۵/۳۴۸، وصححہ الشیخ الالبانی ]

    لہٰذا مسلمانوں نے اپنا کھویا ہوا مال ومتاع واپس حاصل کرنے کی غرض سے تجارتی قافلہ کا تعاقب کیا لیکن قافلہ بچ نکلا۔ چونکہ مکہ خبر پہنچ چکی تھی لہٰذا مقابلہ آرائی کے لئے ہزاروں کا لشکر جرّار امڈپڑا لیکن مسلمانوں کی مڈبھیڑ قافلے سے نہ ہونے کی وجہ سے لشکر نے واپس مکہ کا رخ کیا ، ابوجہل نے نخوت و تکبر کی بنیاد پر سارے لیڈران کو ابھارا اور جنگ کے لئے ورغلایا اور لشکر کو اکٹھا کرکے میدان جنگ میں اتار دیا۔

    یہاں مسلمانوں کا مقصد جنگ و جدال نہیں تھا بلکہ قافلے کو روک کر اپنا مال و متاع واپس لینا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے کسی صحابی کو بھی اس وقت نکلنے پر مجبورنہیں کیا تھاجس کی وجہ سے بہت سارے صحابہ کرام مدینہ ہی میں رہ گئے تھے۔

    ’’إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عِيرَ قُرَيْشٍ، حَتّٰي جَمَعَ اللّٰهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلٰي غَيْرِ مِيعَادٍ‘‘

     ’’رسول اللہ ﷺ قافلے کی تلاش میں نکلے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور ان کے دشمن کو ایک غیر متعین جنگ کے لئے اکٹھا کردیا‘‘ [رواہ البخاری فی صحیحہ:کتاب المغازی:باب قصۃ بدر:۳۹۵۱]

    خلاصۂ کلام یہ کہ مسلمانوں کا مقصد اور ارادہ جنگی نہیں تھا لیکن جب ابوجہل نے حالات کو سنگین بنا دیا اور لشکر کو مسلمانوں کے مدمقابل میں لا کھڑا کردیا تو پھر مسلمانوں نے ایمانی قوت کا مظاہرہ کیا اور نتیجۃً یہ معرکہ رونما ہوا۔لہٰذا یہ غزوہ مسلمانوں کی طرف سے دفاعی تھا نہ کہ اقدامی۔

    غزوۂ احد:  یہ غزوہ۳ھ شوال کے مہینے میں رونما ہوا ، یہ غزوہ اسلامی غزوات کا ایک اہم غزوہ ہے ، چونکہ مشرکین جنگ بدر میں بری طرح شکست خوردہ ہوئے تھے ،ان کے بڑے بڑے لیڈران اور رؤسا اس غزوہ میں بری طرح قتل کردیئے گئے تھے لہٰذا مشرکین غیظ و غضب سے بھڑک رہے تھے ، یہاں تک کہ مقتولین پر آہ و فغاں کرنے سے روک رکھا تھا اور قیدیوں کی رہائی کے تعلق سے رغبت کا اظہار نہیں کررہے تھے تاکہ مسلمانوں کو ان کی تکالیف کا اندازہ نہ ہو سکے۔

    چنانچہ غیظ و غضب کی تسکین کے خاطر غزوۂ احد کی تیاری کے پیش نظر تمام مال و متاع جوابوسفیان کے بچ نکلے ہوئے قافلے سے حاصل ہوا تھا اسے جنگ کی تیاری میں صرف کردیا اور اپنے ساتھ احابیش ، اہل تمامہ اور کنانہ کو ایک جھنڈا تلے جمع کرلیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ابو سفیان کی قیادت میں تین ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر چڑھائی کردیا ۔ ان کی تیاریوں اور مال و دولت کے خرچ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوںنقشہ کھینچاہے :

    {إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللّٰهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ}

    ’’کفار اپنی دولت کو اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے خرچ کریں گے یہ صَرف توکریں گے لیکن یہ خرچ کرنا ان کے لئے باعثِ افسوس ہوگا ،پھر یہ لوگ شکست خوردہ ہوجائیں گے ‘‘ [الانفال:۳۶]

    بہر حال اس غزوے میں اہل اسلام کی طرف سے کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی تمام کی تمام اقدامات اور شروعات کفارمکہ کی طرف سے ہوئیں۔لہٰذا مسلمانوں نے دفاعی طور پر لشکرتیار کیا اور کفارمکہ سے پنجہ آزمائی کی ۔

    غزوۂ خندق:   یہ غزوہ شوال ۵ھ میں پیش آیا اس غزوہ میں اہل قریش اور تمام اہل عرب مسلمانوں کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوکر مدینہ پر چڑھائی کی تھی اس لئے اس غزوہ کو غزوۂ احزاب بھی کہا جاتا ہے ۔

    چونکہ دسیسہ کاری،خیانت اور بدعہدی یہودیوں کی فطرت میں پیوست تھی لہٰذا جب یہودیوں کو رسو ل اللہ ﷺ کے عہد و پیمان کی بد عہدی اور آپ کو قتل کرنے کی گھناؤنی سازش کے بدولت مدینہ سے شہر بدر کردیا گیا تو وہ تمام خیبر منتقل ہوگئے ، وہ منتقل ہونے کے بعد بھی اپنی خباثتوں سے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی سازش کرتے رہتے تھے، لہٰذا بنو نضیر کے رؤسا نے قریش مکہ کے پاس جا کر مسلمانوں کے خلاف آمادۂ جنگ کیا ، اپنی مدد کا بھرپور یقین دلایا ، اس کے بعد بنو غطفان کو بھی مسلمانوں کے خلاف ورغلایا اور رفتہ رفتہ بقیہ تمام قبائل عرب کو جنگ کی ترغیب دے کر سب کو ایک جگہ اکٹھا کرکے مسلمانوں کے خلاف کھڑا کردیا ، لہٰذا مکہ سے ابو سفیان چار ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوا،راستے میں مر الظہران پہنچاتو دیگر قبائل بھی شامل ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام غطفانی قبائل ، اشجع ، بنو اسداور دیگر قبائل شامل ہوگئے ، اور مسلمانوں کے خلاف اسلامی سلطنت کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے دس ہزار کا ایک جم غفیر اسلام کے خلاف آکھڑا ہوگیا۔

    جب رسول اللہ ﷺ کو معاندین اسلام کی سازشوں اور تیاریوں کی خبر ملی تو فوراً ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی تجویز پر عمل پیرا ہو کر خندق کی کھدوائی کی گئی اور مسلمانوں نے پوری قوت ایمانی کا مظاہرہ کرکے اہل کفر کا مقابلہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے :

    {وَلَمَّا رَأَي الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا}

    ’’جب مومنوں نے جتھے کو دیکھا توکہا یہ تو وہی ہے جس کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول نے کیا تھا ، اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا تھا ،لہٰذا اس کیفیت نے ان کے ایمان اور جذبۂ اطاعت کو چار چاند لگادیا‘‘ [الاحزاب:۲۲]

    غزوۂ بنو المصطلق:   یہ غزوہ ۵ھ یا ۶ھ میں پیش آیا ۔ دراصل نبی کریم ﷺ کو خبر ملی کی بنو المصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار دیگر قبائل کو ملا کر مدینہ پر حملہ کرنے والا ہے ۔آپ نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ کو بھیجا چنانچہ جب حقیقت کا پتہ چلا گیا تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ بنو المصطلق کی طرف کوچ کیا ، ابتدائً عرب کے دیگر قبائل جو بنو المصطلق سے آملے تھے سب بکھر گئے لیکن چشمہ مریسیع تک پہنچے تو بنو المصطلق نے جنگ کی ٹھان لی اور مڈ بھیڑ ہوگئی ،لہٰذا مسلمانوں نے حملہ کرکے ان کی عورتوں اور مویشیوں پر قبضہ کرلیا۔

    بہر حال دیگر غزوات کی طرح یہ غزوہ بھی دفاعی ہی رہا ابتداء اہل کفر ہی کی طرف سے ہوئی ۔

    غزوۂ خبیر:  غزوۂ احزاب کے ضمن میں ہم بتا چکے ہیں کہ خیبر کے یہودیوں نے ہی قریش اور دیگر قبائل عرب کو مسلمانو ںکے خلاف بھڑکاکے جنگ پر آماد ہ کیا تھا ، بنو قریظہ کو بد عہدی اور خیانت پر ابھار ا تھا اور آپ ﷺ کے قتل کا پروگرام تک بنا لیا تھا ۔ اپنی تمام تر دسیسہ کاریوں اور خباثتوں کی بدولت مسلمانوں پر یلغار کرتے رہتے تھے، چنانچہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین مکہ سے اگلے دس سال جنگ نہ کرنے کی مصالحت ہوگئی اور ماحول پر سکون ہوگیا تو مسلمانوں نے انتقام لینے کی خاطر دفاعی طور پر یہودیوں کی سرکوبی کے لئے خیبر کا رخ کیا ۔

    غزوۂ موتہ :   یہ غزوہ ۸ھ جمادی الاولیٰ میں پیش آیا ۔ اس غزوہ کے وجوہات پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت حارث بن عمیر ازدی رضی اللہ عنہ کو اپنا خط دے کر بُصریٰ کے حاکم کے پاس بھیجا تھا لیکن انہیں شرجیل غسانی نے گرفتار کرلیا اور گردن ماردی ۔

    قارئین کرام :  سفیر کا قتل کرنا بڑا بھیانک جرم سمجھا جاتا تھا ۔ قاصد کا قتل اعلان جنگ یا اس سے بھی سنگین سمجھا جاتا تھا ۔ حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کا قتل کردیا جانا آپ ﷺ پر بہت گراں گزرا اور آپ ﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ لشکر تیار کی اور حملہ کردیا ، یہ بہت ہی خوں ریز معرکہ تھا جو مسلمانوں کو نبی کریم ﷺ کی زندگی میں پیش آیا۔(الرحیق المختوم)

    قارئین کرام :  اسباب جنگ پر نگاہ ڈالنے اور تجزیہ کرنے سے پتہ چلا کہ مخالفین اسلام نے مسلمانوں کو جنگ کے لئے للکارا جس کے نتیجے میں مسلمانوں نے ان کا سامنا کیا ۔

    غزوۂ تبوک :  یہ غزوہ ۹ھ رجب میں وقوع پذیر ہوا ۔ یہ غزوہ آپ ﷺ کی زندگی کا آخری غزوہ تھا ۔ یہ غزوہ کسی حد تک غزوۂ موتہ سے مربوط تھا۔ چونکہ قیصر روم کے گورنرنے اسلامی قاصد کو قتل کردیا تھا جس کے نتیجے میں غزوۂ موتہ پیش آیا۔ لیکن جب قیصر روم نے دیکھا کہ دن بدن مسلمانوںکی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور اسلامی حدود کا دائرہ رفتہ رفتہ ان کے حدود تک پہنچ رہا ہے تو اسے خطرہ محسوس ہوا اور رومیوں اور آل عثمان پر مشتمل فوج تیار کی اور دھیرے دھیرے عیسائی قبائل لخم وجذام سب جمع ہوگئے اور مدینہ پر چڑھائی کی غرض سے بلقاء تک آ پہنچے ۔ چونکہ یہ سخت گرمی کا موسم تھا وسائل آمد ورفت کی قلت تھی،لہٰذا مسلمان فوراً کوچ نہیں کرناچاہتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے وقت کی نزاکت کو سمجھا اور سوچا کہ اگر سستی برتی گئی اور رومی فوجیںکہیں اسلامی حدود میں گھس گئیں اور مدینہ تک آپہنچیں تو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہتر نہ ہوگا۔

    چنانچہ آپ ﷺ کا اعلان کرنا تھا کہ صحابۂ کرام صدقہ و خیرات میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے جذبہ سے اپنے اثاثے اور مال و دولت اللہ کے راستے میں بے دریغ خرچ کرکے جنگ کی تیاری مکمل کی ۔ اس موقع سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کاسارا اثاثہ فی سبیل اللہ خرچ کردیا تھا اور کہا تھا :

    ’’أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ‘‘ ’’اپنے اہل وعیال کیلئے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کرآیا ہوں‘‘[سنن الترمذی:۳۶۷۵، سنن ابی داؤد:۱۶۸۰،حسن]

    بہر حال یہ غزوہ بھی مسلمانوں نے اپنی دفاع اور اپنی شان و شوکت اور اسلام کی بقاء کے لئے لڑی تھی۔

    قارئین کرام:  ان غزوات کے علاوہ دیگر غزوات ( جن کا تذکرہ یہاں نہیں آیا ہے )کے اسباب ونتائج کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم رحمۃ للعالمین ﷺ کی حیات مبارکہ میں پیش آنے والے تمام غزوات دفاعی تھے نہ کہ اقدامی۔

    وہ نبی ﷺ جو رحمۃ للمسلمین نہیں بلکہ رحمۃ للعالمین ہو معرکہ آرائی کیونکر کر سکتا ہے ؟

     وہ رسول ﷺ جس کے بارے میں قرآن کا فرمان ہو: {وَإِنَّكَ لَعَلٰي خُلُقٍ عَظِيمٍ} ’’آپ بلند اخلاق پر فائز ہیں ‘‘[القلم:۴]وہ غیروں پر حملہ کیسے کرسکتا ہے ؟

    وہ مذہب جس کی تعلیم ہو {وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ } ’’اورفتنہ قتل سے بڑھ کرہے ‘‘ [البقرۃ:۱۹۱] جنگ و جدال کیسے کرسکتا ہے ؟

    جو مذہب {لَا إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ}’’دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ‘‘ [البقرۃ:۲۵۶]کی تعلیم دیتا ہووہ غیروں کو تلوار کے زور پر اسلام کی طرف دعوت کیسے دے سکتا ہے ؟

    جو مذہب فتنہ پروروں کے ہاتھ اور پیر مخالف سمت سے کاٹنے کا حکم دے وہ فتنہ اور ظلم و تشدد کو کیسے قبول کرسکتا ہے ؟

    اسلام کی تمام تر تعلیمات بھائی چارگی ، عفودرگزر، حلم و بردباری اور صبر و تحمل پر مبنی ہیں۔

    قریب آؤ تو شاید ہمیں سمجھ جاؤ
    یہ دوریاں تو فقط فاصلے بڑھاتی ہیں

مصنفین

Website Design By: Decode Wings