Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اخوت وبھائی چارگی کا اسلامی تصور

    اسلامی تعلیمات کا مطالعہ اور غور وفکرکرنے سے اخوت کی بنیادی طور پر چار قسمیں معلوم ہوتی ہیں ،انہی چار اقسام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اخوت اور بھائی چارگی سے متعلق کچھ تفصیلات ذیل کے سطور میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
    اخوت کی کل چار قسمیں :
    ۱۔ جنسی اخوت: اس قسم میں دو لوگوں کا محض ہم جنس ہونا ضروری ہے۔ مثلاً ایک شخص جنس انسان ہے تو دوسرا بھی اسی جنس کا ہو ،صرف جنسیت کے ایک ہونے کی بنیاد پر یہ اخوت ثابت ہوتی ہے ، یہ وہ اخوت ہے جس کی بنا پر بلا تفریق مذہب وملت تمام انسانیت کو ایک زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے،اخوت کی اس قسم کو ہماری شریعت بھی تسلیم کرتی ہے کیونکہ شریعت میں اس سلسلے میں کچھ دلائل ملتے ہیں جن سے اس تقسیم کی درستی واضح ہوتی ہے۔مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں پوری انسانیت کو آدم اور حوا علیہما السلام سے جوڑتے ہوئے ارشاد فرمایا:
    {يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَي وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ }
    ترجمہ :’’اے لوگو ہم نے تم سب کو ایک (ہی)مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو ۔کنبے قبیلے بنادیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے ،یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے‘‘[الحجرات:۱۳]
    اور جیسا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :
    ’’كلكم بنو آدم و آدم خلق من تراب لينتهين قوم يفتخرون بآبائهم أو ليكونن أهون على اللّٰه من الجعلان ‘‘
    ’’تمام لوگ آدم کی اولاد سے ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ……‘‘[قال الشیخ الألبانی :(صحیح )انظر حدیث رقم:۴۵۶۸،فی صحیح الجامع]
    نقلی دلائل کے علاوہ عقلی حقائق اور تجربات ومشاہدات سے اخوت کی اس تقسیم کی تائید ہوتی ہے جس کی ایک عمدہ مثال ہے کہ کسی جگہ ناگہانی حادثہ کی زد میں انسان اور جانور دونوں آجائیں اورجائے حادثہ سے قریب موجود کسی انسان کی نگاہ ان دونوں پر پڑے توایسی صورت میں محض انسانی اخوت کی بنیاد پر دیکھنے و الے انسان کی جنسی اخوت حادثہ سے دوچار انسان کی مدد پر مجبور کرتی ہے جبکہ اسی جگہ ایک حیوان بھی حادثہ سے دوچار ہوا ہے مگر انسان کی توجہ پہلے اپنے ہم جنس انسان کی حفاظت کی تگ ودو میں ر ہتی ہے اورحیوان کی حفاظت کی فکر دوسرے نمبر پر ہوتی ہے ، یہی وہ رشتہ ہے جو محض انسانیت کی بنیاد پر ایک انسان میں دوسرے انسان کے متعلق موجود ہوتا ہے اور اسی رشتے سے منسلک ہونے کی وجہ سے بے شمار انسانی ہمدردیوں کے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں ۔
    ۲۔ نسبی اخوت: یہ وہ رشتۂ اخوت ہے جس کے لیے ہم خاندان وہم قبیلہ ہونا ضروری ہے، اس اخوت میں دین کی ہم آہنگی کا امکان ہونے کے ساتھ دینی اختلاف کا بھی امکان موجود رہتا ہے ۔مثال کے طور پر سورہ النساء میں وراثت کے باب میں تفصیلی بحث موجود ہے ،اسی طرح شریعت اور عرف عام میں اس سلسلے کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جن سے ہم اور آپ واقف ہیں ،نسبی اخوت کے سلسلے میں واقعاتی حقائق آئے دن دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیںمثلاًجب کسی انسان کے حقیقی اور نسبی بھائی سے کسی شخص کا اختلاف ہو تا ہے تو نسبی اور خاندانی اخوت کی بنیاد پر انسان اپنے نسبی بھائی ہی کا ساتھ دیتے نظر آتا ہے جو صرف نسبی اخوت ہی کی بنیاد پرانسان انجام دیتا ہے ۔
    ۳۔ علاقائی اخوت: اس کا مطلب ہے کہ علاقے اور بستی کا اتفاق ہو مثلاً ایک شخص کسی علاقے سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا بھی اسی علاقے کا رہنے والا ہے، اس مناسبت سے دونوں کے درمیان جو اخوت ہے وہ علاقائی اخوت ہے اس میں بھی دین کے اختلاف کا امکان رہتا ہے ۔اس اخوت کا تذکرہ خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پہ ملتا ہے۔ مثلاً: {وَإِلَی مَدْیَنَ أَخَاهُمْ شُعَیْبًا[اعراف:۸۵] وَإِلَی عَادٍ أَخَاهُمْ ہُودًا[اعراف:۶۵] وَإِلَی ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا[اعراف:۷۳]وغیرہ
    خارج میں فطری طور پر علاقائی اخوت کے بھی مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں بالخصوص آدمی جب دیار غیر میں ہوتا ہے تو اپنے ملک اور اپنے علاقے کے افراد سے مل کر فطرتاً علاقائی اخوت کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے سے الفت ومحبت کے جذبات کو پیش کرتا نظر آتا ہے ۔
    ۴۔ دینی اخوت: دین کی بنیاد پرقائم ہونے والی اخوت کو دینی اخوت سے تعبیر کرتے ہیں یعنی کہ طرفین سے دین میں ہم آہنگی ہو ۔ اسلامی تناظر میں یہاں دین سے ہم آہنگی سے مراد دونوں کا دین اسلام ہو،اور اگر یہ دینی اتفاق ہو تو یہ اخوت تمام اخوتوں میں سب سے مضبوط رشتہ کو استوار کرنے کی تاکید کرتاہے، اس رشتے کی مضبوطی اور حفاظت کی خاطر اسلام نے بے شمار احکامات بیان کیے، چنانچہ ذیل میں چند ایک کا تذکرہ پیش خدمت ہے ۔
    اخوتِ دینی کی مضبوطی اورحفاظت کے لیے چند اسلامی احکامات:
    (۱) اللہ رب العزت نے قرآن میں ارشاد فرمایا :انما المؤمنون اخوۃ( یاد رکھو)سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں ۔[الحجرات:۱۰]مذکورہ آیت کا مفہوم بالکل واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ تمام اہل ایمان واسلام آپس میں اخوت کے رشتے سے منسلک ہیں۔
    (۲) اس رشتے کی مضبوطی کو زمانی مسافت سے بے نیاز کرتے ہوئے اسلام نے حکم دیا کہ بعد میں آنے والا مسلمان اپنے تمام گزرے ہوئے مسلم بھائیوں کو دعائے استغفار میں یاد رکھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
    {وَالَّذِينَ جَائُ وا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَء ُوفٌ رَحِيمٌ }
    اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان والوں کے لیے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال ، اے ہمارے رب بے شک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے ۔[الحشر:۱۰]
    (۳) اسلامی رشتہ ٔاخوت کی اہمیت اور قدرومنزلت کے پیش نظرنبی ﷺ نے ایک دوسرے کے آپسی حقوق بیان کیے اور اس حوالے سے بے شمار روایات کتب احادیث میں ملتی ہیں جن میں سے کچھ کا تذکرہ ذیل کے سطور میں ہدیۂ قارئین ہے۔
    (۱) عن ابن عمر أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللّٰهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ القِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللّٰهُ يَوْمَ القِيَامَةِ‘‘
    ترجمہ:’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس پر خو دظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے، اورجو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہواللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے، اور جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پریشانی دور کرتا ہے اللہ اس کی وجہ سے اس سے قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا، اور جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا ‘‘[بخاری:۲۴۴۲]
    (۲) اسی رشتے کی پاسداری کی تاکید کرتے ہوئے نبی ﷺنے ارشاد فرمایا :
    ’’لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَي بَيْعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ اللّٰهِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ التَّقْوَي هَاهُنَا وَيُشِيرُ إِلَي صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَي الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ‘‘
    ’’آپس میں حسد نہ کرو، ایک دوسرے کے لیے دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھاؤ،ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو ، ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو اور اللہ کے بندے بن جاؤ جو آپس میں بھائی بھائی ہیں ، مسلمان (دوسرے)مسلمان کابھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے ،تقویٰ یہاں ہے ۔ اور آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف تین مرتبہ اشارہ کیا (پھر فرمایا) کسی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے ، ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون ،مال اور عزت حرام ہے‘‘[مسلم:۲۵۶۴]
    (۳) عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَي اللّٰهُ عَنْهُ‘‘
    عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان بچے رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے ‘‘ [بخاری:۱۰]
    (۴) عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، قَال:’’ذَهَبْتُ لِأَنْصُرَ هَذَا الرَّجُلَ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ؟ قُلْتُ: أَنْصُرُ هَذَا الرَّجُلَ، قَالَ: ارْجِعْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول:إِذَا التَقَي المُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالقَاتِلُ وَالمَقْتُولُ فِي النَّارِ ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ هَذَا القَاتِلُ فَمَا بَالُ المَقْتُولِ قَالَ:إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلٰي قَتْلِ صَاحِبِهِ‘‘
    احنف بن قیس کہتے ہیں :’’کہ میں اس آدمی (علی بن ابی طالب) کی مدد کرنے چلا، راستے میں مجھ کو ابو بکرہ ملے ، پوچھا: کہاں جاتے ہو ؟ میں نے کہا اس شخص (علی رضی اللہ عنہ) کی مدد کرنے جاتا ہوں ، ابو بکرہ نے کہا: اپنے گھر لوٹ جاؤ، میں نے نبی کریم ﷺسے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے: جب دو مسلمان آپس میں اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ قاتل تو خیر (ضرور دوزخی ہونا چاہیے )۔ لیکن مقتول کیوں دوزخی ہوگا ؟ فرمایا: وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کا لالچ رکھتا تھا (موقع پاتا تو اسے ضرور قتل کر دیتا )‘‘ [بخاری:۳۱]
    (۵) قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمََ:’’ سِبَابُ المُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ‘‘
    رسول ﷺ نے فرمایا:’’مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے ‘‘[بخاری:۴۸]
    (۶) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:’’حَقُّ المُسْلِمِ عَلَي المُسْلِمِ خَمْسٌ:رَدُّ السَّلَامِ، وَعِيَادَةُ المَرِيضِ، وَاتِّبَاعُ الجَنَائِزِ، وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَتَشْمِيتُ العَاطِسِ‘‘
    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں : سلام کاجواب دینا ،مریض کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا ، دعوت قبول کرنا ،اور چھینک آنے پر جواب دینا ( چھینکنے والا جب ’’الحمد للہ‘‘کہے تو اس کے جواب میں ’’یرحمک اللہ‘‘کہنا ‘‘[بخاری:۱۲۴۰]
    اس طرح بے شمار احادیث ہیں جن میں اس رشتہ کی مضبوطی سے متعلق اصول بتاے گئے تاکہ ایک طرف لوگوں کو اس رشتہ کی اہمیت معلوم ہو اور دوسری طرف اس میں مضبوطی لانے کے لیے بیان کردہ اصول پر عمل پیرا ہوکر دینی اخوت کو مستحکم بنانے کی کو شش کی جائے ۔
    کیا غیر مسلم کو بھائی بول سکتے ہیں؟
    اس مسئلے میں کسی نتیجے تک پہنچنے میں اوپر دی گئی تفصیلات سے مسئلہ کسی قدر واضح ہوچکا ہے مگر غیر مسلم کو بھائی کہنے سے متعلق تفصیلات پر نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس مسئلے میں علماء کی مختلف آراء ہیں جن میں کچھ علماء انتہائی شدت سے غیر مسلم کو بھائی کہنے کی مخالفت کرتے ہیں، انہی علماء میں مفتی ٔاعظم علامہ ابن باز رحمہ اللہ بھی ہیں اور انہی کے فتو یٰ کو بنیاد بنا کر کئی عرب علماء کی یہی رائے ہے، چنانچہ فتاویٰ اسلامیہ میں سعودی لجنہ دائمہ کے جو فتاویٰ یکجا کیے گئے ہیں انہی میں علامہ ابن باز کا یہ فتویٰ مذکو ر ہے اور شیخ رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف پر کئی دلائل پیش فرمائے ہیں۔ مثلاً:
    {قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآئُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللّٰهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَائُ أَبَدًا حَتَّي تُؤْمِنُوا بِاللّٰهِ وَحْدَهُ) [ممتحنہ:۴] وقال سبحانه: {لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَاددُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَائَ هُمْ أَوْ أَبْنَاء َهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ}[مجادلہ:۲۲]
    بلکہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ انسانی اخوت کا تصور ان کے حوالے سے کرنا یہ شیطانی وسوسے کی پیداوار ہے اور یہ کسی بھی صورت درست نہیں ہے کیونکہ حقیقی اخوت ایمانی اخوت ہے اور اگر دین میں اختلاف موجود ہے تو اس اخوت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور علامہ رحمہ اللہ نے اپنے اس قول کی تائید میں قرآن کی یہ آیت پیش فرمائی ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کی بابت ہے: {رَبِّ إِنَّ ابْنِی مِنْ أَهلِی وَإِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْکَمُ الْحَاکِمِینَ}[ھود:۴۵]قال {إِنَّه لَیْسَ مِنْ أَهلِکَ }[ھود:۴۶]اور اس سلسلے کی دوسری آیت پیش فرماتے ہیں جو کہ اس حوالے سے عموماً پیش کی جاتی ہے:{یَا أَیُّها الَّذِینَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاءَ تُلْقُونَ إِلَیْهمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَاءَ کُمْ مِنَ الْحَقِّ }[ممتحنہ:۱]
    جبکہ دوسری طرف قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں غیر مسلمین اور کفار کو’’اخ‘‘یعنی بھائی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔مثلاً شعیب ،ہود اور صالح کی قوم کو ان کا بھائی تعبیر کیا گیا ہے اور مزید یہ کہ نبی ﷺکے زمانے میں بھی انہیں بھائی کہنے کا رواج معلوم ہوتا ہے مثلاً بخاری کی یہ روایت ہے جسے امام بخاری نے مختلف مقام پر پیش کیا بلکہ ایک جگہ تو اسی روایت کو اسی سے متعلق باب قائم کرکے اس کے ذیل میں ذکر فرمائے ہیں باب ہے ’’باب صلۃ الاخ المشرک‘‘
    حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:’’رَأَي عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ حُلَّةً سِيَرَاء َ عِنْدَ بَابِ المَسْجِدِ، فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَهَا، فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ، قَالَ:إِنَّمَا يَلْبَسُهَا مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ فِي الآخِرَةِ ، ثُمَّ جَاء َتْ حُلَلٌ، فَأَعْطَي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ مِنْهَا حُلَّةً، وَقَالَ:أَكَسَوْتَنِيهَا، وَقُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ؟ فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا ، فَكَسَاهَا عُمَرُ أَخًا لَهُ بِمَكَّةَ مُشْرِكًا‘‘[بخاری:۲۶۱۲]
    اس روایت سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غیر مسلمین کو بھائی کہنے کا معاملہ ویسا نہیں ہے جس قدر بعض علماء نے شدت برتتے ہوئے اپنے فتاویٰ میں ذکر کیا ہے بلکہ اس سلسلے میں معقول اور راجح بات جو معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ غیر مسلمین کو بھائی کہنا جائز ہے جیساکہ مختلف دلائل سے ثابت ہے، بالخصوص ہندوستانی ماحول میں اس شوشہ کو زیادہ بڑھا کر لوگوں میں دوری پیدا کرنے سے بچنا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے البتہ اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ’’ الولاء والبراء‘‘ کے اسلام نے جو اصول مقرر کیے ہیں انہیں ملحوظ رکھا جائے اور مسلم اور غیر مسلم میں فرق کا انکار کرنے سے بچاجائے ،دل میں مسلمانوں سے محبت اور غیر مسلم سے برأت کا جذبہ موجود ہونا چاہیے ۔اب رہا علامہ ابن باز اور دیگر علماء سعودیہ کے اس فتویٰ کا مسئلہ جس میں انہوں نے انکا ر کیا ہے تو اس سلسلے میں بعض علماء ربانین سے گفتگو کرنے سے معلوم ہوا کہ ان علماء کے یہ فتاویٰ وقتی اور محلّی کے قبیل سے ہیں چونکہ اس وقت سعودیہ میں ان غیر مسلمین سے تعلقات میں کافی وسعت والی صورت حال دکھ رہی تھی اور اس پر نکیر کرنے کی خاطر اہل علم نے اس طرح کے فتاوے صادر فرمائے ۔واللہ اعلم

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings