Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • ماہ رمضان ماہ فیضان

    فیضان رمضان المبارک کے تو کیا کہنے اللہ عزوجل نے ہمیں کتنا عظیم الشان ماہ عطا فرمایا ہے ، جس میں ہمیں ہر ہر لمحہ ثواب ملتا رہتا ہے اور اس کی ہر ہر گھڑی عظمت والی ہے ، اس مبارک مہینے میں انسان کی ہر نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے ۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ وقت ہم اللہ رب العزت کی عبادت اور ذکر و اذکار میں اور اللہ کی خوشنودی میں ہی گزاریں ۔ کیونکہ باقی ماہ میں تو ہم دنیاوی کام کرتے ہی رہتے ہیں لیکن اس ماہ میں تو کم ازکم اگر ہم تھوڑا دنیا کا کام کرلیں اور آخرت کی تیاری کی کوشش کرلیں تو اللہ عزوجل بہت بڑا رحمن اور رحیم ہے ہمیں ضرور معاف فرماکر عظیم اجر عطا فرمائے گا۔
    عربی زبان میں صوم (روزہ) کا معنی رکنا ہے اور شریعت مطہرہ کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کی خاطر عبادت کے ارادے سے کھانے پینے اور صوم توڑدینے والی دیگر چیزوں سے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک رکنے اور اجتناب کرنے کو صوم کہتے ہیں ۔
    روزے کی اہمیت تو اسی سے واضح ہوجاتی ہے کہ روزہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے ۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا : ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ۔(۱)اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ (۲)نماز قائم کرنا ۔(۳) زکوٰۃ ادا کرنا ۔(۴) بیت اللہ کا حج کرنا (اگر استطاعت حاصل ہوجائے ) ۔(۵) رمضان المبارک کے روزے رکھنا ‘‘۔[صحیح بخاری:۸،صحیح مسلم:۱۶]
    روزے کا مقصد اللہ نے قرآن میں ’’لعلکم تتقون‘‘ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے ’’کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو‘‘۔
    ماہ رمضان کا صوم ہر بالغ، عاقل ،مقیم اور روزہ کی طاقت رکھنے والے مسلمان مرد و عورت پر فرض اور واجب ہے بشرطیکہ کوئی شرعی عذر نہ ہو۔
    ارشاد باری ہے : {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ }
    ’’تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے اور جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے‘‘[البقرۃ:۱۸۵]
    یہ عظیم و بابرکت و مقدس مہینہ تو سراپا نیکیوں اور مغفرت و بخشش کا ہے اور صدقہ و خیرات کا ہے اور بکثرت تلاوت قرآن مجید کا ہے ، جس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ، شیاطین اور سرکش جن قید کردیئے جاتے ہیں ۔ یہی وہ با برکت مہینہ ہے جس میں قرآن پاک نازل ہوا ہے ، اس مہینے میں ایک ایسی بابرکت رات ہے جو ایک ہزار ۸۳ سال ۴ مہینے سے بہتر ہے ۔
    صوم کی فضیلت میں چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں :
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انسان کے نیک عمل کو دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مگر روزے کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے اس لیے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا میری ہی وجہ سے وہ اپنا کھانا پینا اور اپنی جنسی خواہش چھوڑتا ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشی کے موقع ہیں: ایک خوشی اس کے روزہ افطار کرنے کے وقت ہوتی ہے اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ہوگی ۔اور روزہ دار کے منہ کی بواللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے ۔اور روزہ ایک ڈھال ہے تو جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو تو دل لگی کی باتیں نہ کرے اور نہ شوروغل کرے اور اگر کوئی اس کو گالی دے یا اس سے لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہوتو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ [صحیح بخاری:۱۹۰۴، صحیح مسلم:۱۱۵۱،سنن ابن ماجہ:۱۶۳۸]
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو سارے شیاطین اور سرکش جنات کو جکڑ دیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں پھر ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا ،اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں پھر ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور ایک ندادینے والا ندا دیتا ہے کہ اے نیکی کے طلبگار! آگے بڑھ، اور اے برائی کے طلبگار !برائی سے باز آجا،اور اللہ کے لیے بہت سے لوگ جہنم سے آزادی پانے والے ہیں، اور یہ ندا رمضان کی ہر رات میں ہوتی ہے ۔ [صحیح بخاری:۱۸۹۹، سنن ترمذی:۶۸۲، سنن ابن ماجہ:۱۶۴۲]
    حضرت سہل بن ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :’’جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریّان کہتے ہیں ،قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے ،ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہوگا ۔ پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں ؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے، ان کے سوا اس سے کوئی اور نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا ،پھر اس سے کوئی اندر نہ جائے گا ۔ [صحیح بخاری:۱۸۹۶،صحیح مسلم:۱۱۵۲]
    عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :’’کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کا روزہ اور قرآن دونوں بندے کے لیے سفارش کریں گے ‘‘۔ [مسند احمد:۲؍۱۷۴]
    آپ ﷺ نے فرمایا :’’تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے ۔ عادل حکمراں ،روزہ دار حتیٰ کہ روزہ افطار کرلے اور مظلوم‘‘۔ [ترمذی:۳۵۹۸، سنن ابن ماجہ:۱۷۵۲]
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:’’جوشخص رمضان المبارک کا روزہ ایمان کی حالت میں اور ثواب کے حاصل کرنے کی غرض سے رکھے ، اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ [صحیح بخاری: ۱۹۰۱، صحیح مسلم : ۷۶۰]
    رمضان در اصل قرآن کا مہینہ ہے ، اسی ماہ اسے نازل کیاگیا اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں نبی کریم ﷺ جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید دہرایا کرتے تھے۔
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرئیل علیہ السلام آپ سے رمضان میں ملتے ، جبرئیل علیہ السلام آنحضرت ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے حتیٰ کہ رمضان گزرجاتا ۔ نبی کریم ﷺ جبرئیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے ۔ جب حضرت جبریل آپ سے ملنے لگتے تو آپ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے ۔ [صحیح بخاری:۱۹۰۲]
    اسی ماہِ مبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر ہے یعنی ۲۱؍۲۳؍۲۵؍۲۷؍۲۹ ، ان راتوں میں سے کسی ایک رات کے اندر ہے ۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :’’کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو‘‘۔[صحیح بخاری:۲۰۲۰]
    عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ شب قدر پندرہویں شعبان کی رات ہے تو یہ بات بے بنیاد اور بالکل غلط ہے ، لہٰذا رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں کثرت سے عبادت کرنی چاہیے ۔ مثلاً : نفلی نمازیں ، تلاوت قرآن پاک ، دعا واستغفار ، ذکر واذکار ،تسبیح و تحلیل ، تکبیر و تحمید ، صلاۃ و سلام ،دعوت و تذکیراور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر …جیسی تمام مشروع عبادات کرنا چاہیے۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :’’کہ جب (رمضان کا ) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ اپنی کمر کس لیتے اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے ‘‘۔
    یہ وہ رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :
    {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ۔وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ۔لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ۔تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ۔سَلَامٌ هِيَ حَتَّي مَطْلَعِ الْفَجْرِ}
    ’’ہم نے اس (قرآن ) کو شب قدر میں نازل کیا ۔اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ہزارمہینے سے بہترہے۔ اس میں روح الامین اور فرشتے ہر کام کے (انتظام کے ) لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں ۔ یہ (رات) طلوع صبح تک سراپا سلامتی ہے‘‘ [سورۃالقدر]
    ماہ رمضان کے آخری عشرہ سے تعلق رکھتا ہوا ایک اہم عبادت ’’اعتکاف ‘‘ بھی ہے ۔ جس کا معنیٰ ’’اللہ کی عبادت کے لیے اس کا تقرب حاصل کرتے ہوئے مسجد کو لازم پکڑنا اور یکسوئی کے ساتھ جم کر بیٹھے رہنے کے ہیں ، اعتکاف کی مشروعیت پر تمام علماء امت کا اجماع ہے کیونکہ یہ کتاب و سنت سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ}
    ’’اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو‘‘[البقرہ:۱۸۷]
    نبی کریم ﷺ کی زوجۂ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے ۔ اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔[صحیح البخاری:۲۰۲۶]
    ماہ رمضان میں عمرہ کرنے کا ثواب حج کے برابر ہے اس سے بھی ماہ رمضان کی عظمت ثابت ہوتی ہے ۔دیکھیے : [صحیح بخاری:۱۷۸۲]
    رمضان کے تعلق سے ہماری کوتاہیاں:
    غرض کہ ماہ رمضان اپنے تمام تر گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے بہت ہی اہمیت و فضیلت کا حامل ہے لیکن افسوس ! اتنی فضیلتوں کے باوجود امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ ماہ رمضان میں ان امور سے پہلو تہی اختیارکرتا نظر آتا ہے جو ان کے لیے بہت ہی گھاٹے کا سودا ہے ۔ یہ ماہ تو آخرت کی کمائی کا بہترین موسم ہے لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ اسے دنیاوی مشاغل میں ضائع کردیتے ہیں ۔ اور واضح رہے کہ روزہ صرف یہی نہیں ہے کہ بندہ صبح صادق سے کھانا پینا ترک کردے بلکہ جس طرح کھانا پینا اور دیگر امور ممنوع ہیں بعینہٖ روزے کی حالت میں زبان و دیگر اعضاء کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :’’اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کی وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔ [صحیح بخاری :۱۹۰۳]
    حدیث سے ثابت ہوا کہ روزہ کا ثواب حاصل کرنے کے لیے روزہ دار کو چاہیے کہ جھوٹ نہ بولے، لڑائی جھگڑے سے اجتنا ب کرے،غیبت ،چغلی و دیگر بے ہودہ باتوں سے خود کو دور رکھے۔
    اور بھی بہت ساری ہماری کوتاہیاں ہیں جنہیں نظر انداز کردیا جاتاہے اور یوں ہی رمضان بھی ختم ہوجاتا ہے ۔ جیسے :
    بہت سارے لوگ دن بھر سوتے ہیں یہاں تک کہ نمازیں بھی قضا کردیتے ہیں یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے ۔ رمضان ہو یا غیر رمضان نماز با جماعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
    اکثر لوگ رمضان المبارک کی با برکت راتوں کو فضول محفلیں جمانے اور فلم بینی جیسے غلط مشاغل میں برباد کردیتے ہیں ، اور آج کل موبائل کے فتنے سے کوئی بچا ہوا نہیں ہے ۔ الا ماشاء اللہ
    افطارپارٹیوں کا رواج عام ہوگیا ہے جن میں ریا کاری اور نام و نمود مطلوب ہوتا ہے ۔
    رمضان المبارک کی بابرکت راتوں کو بازاروں میں گھومنا درست نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل جگہ مسجد ہے اور سب سے بدتر جگہ بازار ہے۔
    خواتین کا زیادہ وقت مطبخ (کچن) میں گزارنا ۔ اکثر گھر انوں میں صرف طرح طرح کے پکوان سے ہی رمضان المبار ک کی آمد کا احساس ہوتا ہے ۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی تمام لغزشوں اور کوتاہیوں کا اصلاح کریں۔
    صدقۃ الفطر کی عبادت:
    ماہ رمضان کے روزوں کے اختتام پر صدقۂ فطر ادا کی جاتی ہے ، جسے روزوں کے دوران میں ہونے والی کمی ، کوتاہی یا لغزش کے ازالے اور ناداروں اور حاجتمندوں کو سامان خوردونوش فراہم کرنے کے لیے فرض کیا گیا تاکہ اہل ایمان کی تطہیر کا بھی انتظام ہوجائے اور فقراء و مساکین کی حوصلہ افزائی کا اہتمام بھی ہوجائے ۔
    عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’کہ رسول ﷺ نے صدقۂ فطر روزہ دار کو فحش اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے اور مسکینوں کی خوراک کے لئے فرض قراردیا ہے ۔ لہٰذا جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کردیا ، تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے ‘‘۔ [سنن ابن ماجہ:۱۸۲۷]
    اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ماہ رمضان کی عظمت و مرتبت کو سمجھنے اور اس کے اندر تمام امور کو انجام دینے کی توفیق دے ۔ آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings