Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • صبر وتحمل کیسے سیکھیں؟

    اللہ نے انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیاہے ،اور موت وحیات کا یہ سلسلہ دراصل ہماری آزمائش کے لئے تخلیق فرمایا گیا ہے،ہمیں کچھ آزادی عطا کی گئی ہے، اور دلوں کو لبھانے والی چیزیں ہمارے ارد گرد بکھیر دی گئی ہیں،ہمارے باطن میں مختلف قسم کے جذبات واحساسات ودیعت کردیئے گئے ہیں،نفس میں شہوت اور غضب کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھر دیئے گئے ہیں،اور ساتھ ہی ساتھ اللہ نے ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھنے کے لیے قرآن کریم اور نبی رحمت ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ ہم سیدھی راہ پر چلتے ر ہیں اور اس آزمائش میں پوری طرح کامیاب ہوجائیں،شہوت اور غضب سے مغلوب ہوکر رب کو ناراض نہ کریں،اسی لیے اللہ نے کامیابی کی شاہی کلید ’’صبر‘‘کا حکم دیا ہے۔
    صبر ایک ایسی اخلاقی خوبی ہے جس کی ضرورت ہمیں ہمیشہ رہتی ہے،خیر کی انجام دہی ہو یا محرمات سے اجتناب ، تقدیر کے فیصلے کی تکلیف ہو یا خبیث افراد کی بد اخلاقی،سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں صبر کی ضرورت ہے،بلا صبر نہ دنیا میں بہترین زندگی مل سکتی ہے اور نہ ہی دارالسلام میں داخلہ ممکن ہے، دنیا وآخرت کی کامیابی کے لیے صبر کرنا ضروری ہے،اللہ نے صبر کرنے کا حکم نبی ﷺ کو دیا اور اولوالعزم رسولوں کی طرح صبر کی تلقین فرمائی ہے،اہل ایمان کو صبر پر فلاح کا وعدہ فرمایا،اللہ کی مدد کے حصول کا پہلا ذریعہ صبر ہی ہے،قرآن مجید میں اللہ نے مختلف انداز میں صبر کاتقریباً نوے مرتبہ ذکر کیا ہے،گھر ہو یا بازار،مجلس ہو یا تنہائی،غصہ ہو یا خوشی،دین ہو یا دنیا،ہر وقت اور ہر جگہ ہمیں صبر کی ضرورت ہے، اللہ نے صبر کرنے والوں سے اپنی محبت،رحمت اور نصرت وتائید کا وعدہ فرمایا ہے،دخول جنت اور فرشتوں کا سلام اورانعام و اکرام صبر کرنے والوں کے لیے ہی ہوگا جس کا اظہار سورہ رعد آیت ۲۴میں’’بِمَا صَبَرْتُمْ‘‘ سے کیا گیا ہے۔صبر وہ در شہوار ہے جس کا مالک رب کی بے حساب بخشش کا مستحق بن جاتا ہے،صبر ایک ایسی سواری ہے جس پر ہم سوار ہوکر بسلامت جنت میں پہنچنے والے ہیں، صبر ہر تکلیف میں مومن کا مضبوط سہارا ہے،صبر سے مومن اپنے تمام مصائب کو اپنے لیے رحمت اور ذخیرۂ آخرت بنالیتا ہے،اسی صبر پر جنت الفردوس کا وعدہ ہے، بے صبری ایک خطرناک اخلاقی خرابی ہے،جس میں سراپا نقصان ہے،صبر مضبوط جسم وروح کا استعارہ ہے،صبر قوت کی پہچان ہے،بے صبری نفس کی کمزوری اورکمزور شخصیت کی علامت ہے نبی ﷺ نے غصہ کے وقت اپنے آپ پر کنٹرول رکھنے والے شخص کو بہادر اور غصہ کے بہاؤ میں بہہ جانے والے کو کمزور قرار دیا ہے۔
    لیکن اس کے باوجود آپ سماج پر نظر ڈالیں گے تو آپ کو بے صبری کے بھیانک مناظر نظر آئیں گے،خیر کے جملہ کاموں میں بے صبری ایک عام بات ہے،نماز کا ضیاع،ادھوری تعلیم،شکوہ وشکایت،معمولی تکلیفوں پر رونے دھونے کی عادت کا سبب بے صبری ہے، میاں بیوی کے جھگڑے،ساس وبہو کی سیاست ،آپسی نفرت و دشمنی اور قطع رحمی کا ایک بنیادی سبب ایک دوسرے کو نہ برداشت کرنا بھی ہے۔
    حالانکہ صبر کو نبی ﷺ نے رب کا بہترین اور وسیع ترین ربانی تحفہ اور عطیہ قرار دیا ہے،اور صبر ایک خوبصورت زیور،کشادگی اور خیر سے بھر پور اخلاق اور بہترین زندگی کی ضمانت ہے، ہم چاہیں تو صبر کے ذریعہ باہمی تعلقات میں الفت ومحبت گھول سکتے ہیں،لیکن کاہلی اور جہالت نے ہمیں خیر وبرکت سے محروم کردیا ہے، بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ انسان جسے اللہ کے لیے صبر کی توفیق ملی ہو۔جو فرائض کی ادائیگی میں چاق وچوبند ہو،حرام سے دور رہنے والا اور صبر وتحمل کا خوگر ہو کیو نکہ ایسے لوگوں کو اللہ نے سچا اور متقی قرار دیا ہے ۔
    محترم قارئین! اللہ کی اطاعت اورحرام کاموں سے اجتناب پر ثابت قدمی اور ہر آنے والی تکلیف کو اللہ کے لیے برداشت کرلینااور اللہ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا صبر کہلاتا ہے،اور صبر یہ عبادت ہے جس کو ہمیں اخلاص اور سنت رسولﷺ کی روشنی میں انجام دینا ہوگا ،اللہ تعالیٰ نے صبر میں اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
    {وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاء َ وَجْهِ رَبِّهِمْ }
    نبی ﷺ نے ایک عورت کو صبر کامفہوم بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْاُولَي‘‘’’صبر تو جب صدمہ شروع ہو اس وقت کرنا چاہیے‘‘[صحیح بخاری:۱۲۸۳]
    معلوم ہوا صبر اللہ کی خوشی کے لیے اور پریشانی کے اول مرحلہ میں کرنا چاہیے، کیونکہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اور چیخنے چلانے کے بعد صبر کرنا بے فائدہ ہے ہمیں اس پر اجر وثواب نہیں ملے گا۔ایسا صبرکرنا کوئی کمال نہیں ہے لیکن جس صبر کی تعلیم اسلام دیتا ہے وہ واقعی بڑی عظیم چیز ہے۔
    اسی لیے چند ایسے اسباب وذرائع پیش خدمت ہیں جن کو اختیار کرنے سے آہستہ آہستہ آپ اپنے نفس اور غصہ پر قابو پاجائیں گے،اور صبر کے خوگر بن جائیں گے۔ان شاء اللہ
    ۱۔ صبر کرنا اللہ کا حکم ہے،اور ایک مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ امر الٰہی کے تابع ہوتا ہے،جب بھی کسی تکلیف کا سامنا ہو تو حکم ربانی سمجھ کر صبر کرنا چاہیے اور اللہ کا یہ حکم یاد رکھنا چاہیے:
    {يَا اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}’’اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لیے تیار رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو‘‘ [آل عمران: ۲۰۰]
    صبر تمام انبیاء کرام کی زندگی کا خاصہ رہی ہے،خاص کر اولوالعزم پیغمبروں کی زندگی کا بیشتر حصہ صبر کرتے ہوئے گزرا،اللہ نے اپنے حبیب وخلیل کو عزم وہمت والے رسولوں کی طرح صبر کرنے کا حکم فرمایا،یہی نہیں بلکہ دعوت کے بالکل ابتدائی مرحلے میں ہی آپ کو صبر کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
    {وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ}’’اور اپنے رب کی راہ میں صبر کر‘‘[المدثر:۷]
    لہٰذا آپ اللہ کا حکم سمجھ کر صبر کریں،نفس کو حکم الٰہی پر جھکائیں،صبر کو عبادت سمجھ کر اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، دل میں اللہ کا خوف اور ڈر پیدا کریں،اللہ کے احکام کی مخالفت کے بھیانک انجام سے ڈریں۔ کیونکہ اللہ کی اطاعت خیر اور اللہ کی مخالفت شر کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
    ۲۔ صبر کڑوا ہوتا ہے لیکن اس کا پھل بہت میٹھا ہوتا ہے،جس طرح سورج میں گرمی اور جلن ہوتی ہے لیکن دھوپ اہل دنیا کی بہترین زندگی کے لئے ناگزیر ہے،بغیر سورج کے ہماری زندگی مفلوج ہوکر رہ جائے گی،ہم بھوکے پیاسے ٹھنڈمیں ٹھٹھر کر مرجائیں گے،اسی طرح صبر کرنا نفس پر بہت گراں گزرتا ہے لیکن صبر کے بدلے ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں،ہمیںصبر کرتے وقت ان بشارتوں اور وعدوں کو یاد کرنا چاہیے جن کااللہ نے وعدہ کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا:
    {وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ}’’اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے ‘‘[البقرہ:۱۵۵]
    {إِنَّمَا يُوَفَّي الصَّابِرُونَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ}’’صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے‘‘ [الزمر:۱۰]
    {اُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُون}’’ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘[البقرہ:۱۵۷]
    {وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ}’’اور صبر و سہارا رکھو، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘[الانفال:۴۶]
    {وَاللّٰهُ يُحِبُّ الصَّابِرِين}’’اور اللہ صبرکرنے والوں کو (ہی)چاہتا ہے‘‘[آل عمران:۱۴۶]
    یہ عام بشارت،بے حساب اجر وثواب کا وعدہ،ثنا اور رحمت وہدایت،اللہ کی معیت ونصرت اور محبت کا وعدۂ ربانی یہ سب انہی خوش نصیب مسلمانوں کے لئے ہے جو صبر کو عبادت سمجھ کر اللہ کی خوشی کے لئے انجام دیتے ہیں،ایک مومن اپنے اوپر آنے والی تمام تکلیفوں کو سامان تجارت بناکر اس سے فائدہ اٹھاتا ہے،بڑے حادثے جن میں اکثر لوگ ٹوٹ جاتے ہیں،دنیا کابھی نقصان اور بے صبری کی وجہ سے دین کا بھی نقصان اٹھاتے ہیں وہیں مومن بندہ صبر کرتا ہے اور یہ صبر اس کے لئے مغفرت،رحمت،ہدایت، اور خیر و بھلائی کا ذریعہ بن جاتا ہے،اور نعم البدل کا حق دار بھی ۔اور یہ سمجھ اور توفیق صرف مومن کو حاصل ہوتی ہے۔
    ۳۔ صبر ایک قابل تعریف اخلاقی خوبی اور اللہ کا ایک قیمتی اور خیر سے بھرپور تحفہ ہے،کوئی بھی چیز چھین کر آپ کو صبر کی توفیق مل جائے تو یہ صبر چھینی گئی چیز سے زیادہ خیر وبرکت والی ہے اس صبر کو اختیار کریں،اسے حاصل کریں،تاکہ آپ صالحین کے زمرے میں داخل ہوسکیں،انبیاء کرام کے قصوں کو بیان ہی اس لیے کیا گیا ہے تاکہ دلوں کو ثبات،ٹھہراؤ اورصبر کی نعمت ملے،اور جس طرح انہوں نے صبر کیا،اہل ایمان بھی اسی طرح صبر کریں۔
    حضرت نوح،ایوب،ابراہیم،موسیٰ،عیسیٰ،یوسف،یعقوب علیہم السلام اورخصوصاً محمد رسول اللہﷺ کے مبارک واقعات کو یاد رکھیں،صبر وتحمل کے لئے آئیڈیل بنائیں،صبر کا ہنر آجائے گا۔
    ۴۔ صبر سے مومن اور کافر کے درمیان فرق ہوتا ہے،مومن تمام تکالیف پر صبر کرتا ہے،جزع فزع نہیں کرتا،سینہ کوبی،نوحہ گری سے بچتا ہے،اللہ کی تقدیر پر راضی ہوتا ہے،اللہ کی راہ میں تکلیفیں برداشت کرتا ہے،لیکن کافر بڑا بے صبرا،دل پھینک ہوتا ہے،تکلیف پر واویلا مچاتا ہے،اور خوش حالی میں بخیل بن جاتا ہے،اور یہ کیفیت ہر اس انسان کی ہوتی ہے جس کے پاس ایمان کامل نہیں ہے:
    {إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا۔إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا۔وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا۔إِلَّا الْمُصَلِّينَ }
    ’’بیشک انسان بڑے کچے دل والا بنایا گیا ہے،جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑبڑا اٹھتا ہے،اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔مگر وہ نمازی‘‘۔ [المعارج:۱۹۔۲۲]
    مطلب یہ ہے کہ صبر اہل ایمان کا راستہ ہے اور بے صبری بے ایمان لوگوںکا، آپ صبر کرکے اہل ایمان کا راستہ اختیار کریں۔
    ۵۔ اس بات پر ایمان ویقین کہ ہر چیز تقدیر کا حصہ ہے،مصائب وآلام اللہ کی اجازت سے نازل ہوئے ہیں،اور ہم اللہ کی ملکیت ہیں،موت کے بعد بھی ہمیں اللہ ہی کے پاس جانا ہے،وہ اللہ مالک ہے جیسا بھی وہ فیصلہ کرے ہم اپنے رب کے فیصلے پر راضی ہیں، یہ عقیدہ غم کو ہلکا اور صبر کو آسان بنادیتا ہے،اور قلب کو سکون واطمینان ملتا ہے،ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے،صبر وتحمل کی توفیق ملتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
    {مَا اَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِ وَمَنْ يُوْمِنْ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهُ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْئٍ عَلِيمٌ}
    ’’کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے‘‘ [التغابن:۱۱]
    جب بھی تکلیف کا سامنا ہو،جان ومال میں نقصان ہو تو اسی عقیدہ کا استحضار کرنا صبر میں آسانی کا سبب ہوگا،نبی ﷺ نے بھی یہی تعلیم دی ہے:
    ’’احْرِصْ عَلَي مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ اَصَابَكَ شَيْء ٌ فَلَا تَقُلْ:لَوْ اَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ:قَدَرُ اللّٰهِ وَمَا شَائَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ ‘‘
    ’’حرص کر ان کاموں کی جو تجھ کو مفید ہیں (یعنی آخرت میں کام دیں گے) اور مدد مانگ اللہ سے اور ہمت مت ہار اور تجھ پر کوئی مصیبت آئے تو یوں مت کہہ اگر میں ایسا کرتا تو یہ مصیبت کیوں آتی لیکن یوں کہہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں ایسا ہی تھا جو اس نے چاہا کیا۔ اگر مگر کرنا شیطان کے لیے راہ کھولنا ہے‘‘ [صحیح مسلم:۶۷۷۴]
    اسی لیے نبی کریم ﷺ نے مصیبت کے وقت کی جو دعا سکھلائی ہے،اس میں بھی اللہ کی ملکیت اور اپنی بندگی کا اقرار ہے،ہماری ابتداء اور انتہا اور دنیاوی زندگی سب کا مالک وہی ہے،اور صبر پر اجر اور نعم البدل کی درخواست ہے وہ دعاء یہ ہے:
    ’’مَا مِنْ عَبْدٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ فَيَقُولُ:إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ اَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَاَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا اَجَرَهُ اللّٰهُ فِي مُصِيبَتِهِ، وَاَخْلَفَ لَهُ خَيْرًا مِنْهَا‘‘
    ’’جب کسی مسلمان بندے کو کوئی مصیبت آتی ہے اور وہ’’ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ،اللَّهُمَّ اْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَاَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا‘‘کہتا ہے تو اللہ اس کو اس کی مصیبت میں اجر دیتے ہیں۔ اور اس کا نعم البدل عطا کرتے ہیں‘‘[صحیح مسلم:۲۱۲۷]
    ۶۔ تکلیف کو اپنے لیے برا مت سمجھو،کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے مصیبت میں ڈال دیتاہے،اور ہر انسان کو اس کی دینداری کے اعتبار سے آزمایا جاتا ہے،جو صبر کرتا ہے،راضی رہتا ہے اس کے لئے اجرو ثواب لکھا جاتا ہے اور جوصبر نہیں کرتا،ناراض ہوتا ہے اللہ بھی اس سے ناراض ہوجاتا ہے،تو آزمائش کا مطلب برا نہیں بلکہ آپ کا رویہ اسے خیر یا شر بنا دیتاہے۔نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے:
    ’’عِظَمُ الْجَزَائِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَائِ،إن اللّٰهَ إِذَا اَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ ،فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا،وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السُّخْطُ ‘‘
    ’’جتنی بڑی مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا ثواب ہوتا ہے، اور بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے، پھر جو کوئی اس سے راضی و خوش رہے تو وہ اس سے راضی رہتا ہے، اور جو کوئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہو جاتا ہے‘‘ [سنن ابن ماجہ:۴۰۳۱حسنہ الالبانی]
    مصائب اور مشکلات میں خیر کے پہلو کو نبی ﷺ نے یوں بیان کیا ہے:
    ’’مَنْ يُرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْرًا يُصِبْ مِنْهُ‘‘’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے بیماری کی تکالیف اور دیگر مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے ‘‘[صحیح بخاری:۵۶۴۵]
    صبر کرنا اس وقت مشکل محسوس ہوتا ہے جب ہم مصیبت کو عذاب سمجھتے ہیں، اور اللہ سے ناراض اور بیزار ہونے لگتے ہیں،لہٰذا تکلیف کے وقت روشن پہلو پر نظر رکھیں،پر امید رہیں،اللہ سے اچھا گمان رکھیں،صبر کرنا آسان ہوجائے گا۔
    ۷۔ گناہوں کی بخشش اوراللہ کی مغفرت کا حصول ایک مومن کا عظیم ترین مقصد ہے،یہ اللہ کا انعام اور کرم ہے جو اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے،کیونکہ گناہ ہر فساد کی جڑ ہے،اللہ کے غضب اور عذاب جہنم کو واجب کردینے والی چیز ہے، مومن ہمیشہ اپنے گناہوں کے شر سے خوف زدہ رہتا ہے،اسی لیے توبہ واستغفار کرتا رہتا ہے،لیکن کافرومنافق گناہوں میں ڈوبے رہتے ہیں،توبہ نہیں کرتے،اسی لیے وہ رب کی رحمت سے محروم ہی رہتے ہیں،اللہ کی راہ میں ہر تکلیف جس پر مومن صبر کرتا ہے اس کے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہیں،نبی ﷺ کا فرمان بغور پڑھیں:
    ’’مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ، وَلَا وَصَبٍ، وَلَا هَمٍّ، وَلَا حُزْنٍ، وَلَا اَذًي، وَلَا غَمٍّ، حَتَّي الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ‘‘’’مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے‘‘[صحیح البخاری:۵۶۴۱]
    ۸۔ صبر کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت دی گئی ہے،جتنا ہم صبر کریں گے جنت سے اتنا ہی قریب ہوں گے ، جنت میں داخلہ کی چاہت اور شوق ہو تو انسان صبر ضرور کرے گا،اس لیے صبر کرتے وقت جنت پانے کا یقین صبر کو آسان ترین بنادے گا،صحابۂ کرام جنت کے لیے اپنی جانیں قربان کردیا کرتے تھے،جنت سے قیمتی کوئی شی نہیں ہے،اور صبر انسان کو جنتی بنادیتا ہے،جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو فرشتے ان کو سلام کہتے ہوئے بشارت دیں گے اور ان کے صبر کو دخول جنت اور اکرام واحترام کا سبب قرار دیں گے ۔اللہ کا ارشاد ہے:
    {وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَاب،سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَي الدَّارِ}’’ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے،کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ)ہے اس دار آخرت کا‘‘[الرعد:۲۳،۲۴]
    ۹۔ صبر کی عظمت ومقام،شرف وعزت،فوائد وبرکات،بہترین نتائج کو دیکھتے ہوئے اس کے حصول کے لیے دعا ضرور کرنا چاہیے،تاکہ مصیبت اور فرائض کی ادائیگی کے وقت اللہ صبر کی توفیق عطا فرمائے،جیسا کہ اہل ایمان کی دعا کو خود قرآن نے نقل فرمایا ہے:
    {رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِين }’’اے ہمارے رب!ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما(انڈیل دے)اور ہماری جان حالت اسلام پر نکال‘‘ [الاعراف :۱۲۶]
    ’’اور نبی ﷺ خود دعا فرمایا کرتے تھے:’’وَاَسْاَلُكَ الرِّضَائَ بَعْدَ الْقَضَاء ‘‘’’اور میں تجھ سے تیری قضاپر رضا کا سوال کرتا ہوں‘‘[النسائی:۱۳۰۶]
    صبر سے بڑا مقام ہے رضا اور خوشی کا،نبی ﷺنے اسی کا سوال کیا ہے، اس لیے ہمیں بھی اپنے رب سے تکلیف پر صبر کے لیے دعا کرنا چاہیے۔
    خلاصۂ کلام: سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی بھی شرف کو پانے کے لیے محنت اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے،محنتی انسان مقام صبر بلکہ مقام رضا کو بھی پالیتا ہے اور یہ اللہ کا وعدہ بھی ہے۔
    {وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِين}
    ’’اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے‘‘[العنکبوت:۶۹]
    نبی ﷺنے خیروبھلائی کو پانے کا یہی فارمولہ بھی بتایا ہے:
    ’’احْرِصْ عَلَي مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ وَلَا تَعْجَزْ‘‘’’حرص کر ان کاموں کی جو تجھ کو مفید ہیں (یعنی آخرت میں کام دیں گے) اور مدد مانگ اللہ سے اور ہمت مت ہار‘‘ [صحیح مسلم:۶۷۷۴]
    اور کاہلی وسستی کامیابی کی دشمن ہے،دنیا وآخرت کو برباد کرنے والی بری عادت ہے اسی لیے پیارے رسول ﷺ کاہلی اور بے بسی سے پناہ طلب کیا کرتے تھے۔
    ’’اللَّهُمَّ إِنِّي اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ‘‘’’یا اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اورسستی سے‘‘[ صحیح مسلم:۶۸۷۳]
    ’’اللہ تعالیٰ ہمیں عافیت اور امن والی زندگی عطا فرمائے اور ہر آنے والی تکلیف پرصبر وتحمل کی توفیق بخشے۔ آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings