-
سندِ عالی فاروق عبد اللہ نراین پوری(پی ایچ ڈی ریسرچر، شعبہ فقہ السنہ، کلیۃ الحدیث الشریف، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ)
سند عالی کہتے ہیں کہ جس سند میں راوی اور نبی ﷺ کے درمیان واسطے کم سے کم ہوں بہ نسبت اس سند کے جس میں اسی حدیث میں راوی اور نبی ﷺکے درمیان واسطے زیادہ ہوں۔
کسی سند کا عالی اور نازل ہونا ایک نسبی چیز ہے۔ مثلاً ثلاثی سند رباعی سند کی بہ نسبت عالی ہے، لیکن ثنائی سند کی بہ نسبت نازل ہے۔
سندِ عالی کا حصول محدثین کی سنت رہی ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’طلب الإسناد العالي سنة عمن سلف‘‘
’’سند عالی کا حصول سلف کی سنت ہے‘‘[الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب البغدادی:۱؍۱۲۳]
بلکہ یہ ان کے نزدیک ہمیشہ سعادت ومنقبت کا باعث اور مرغوب امررہا ہے۔
مشہور تابعی ابو العالیہ الریاحی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’كنا نسمع الرواية بالبصرة عن أصحاب رسول اللّٰه ﷺ فلم نرض حتي ركبنا إلى المدينة فسمعناها من أفواههم‘‘
’’ہم بصرہ میں صحابہ کرام سے مروی کوئی روایت سنتے لیکن اس پر بس نہیں کرتے، بلکہ سفر کرکے مدینہ آتے اور ڈائرکٹ ان کے منہ سے سنتے‘‘[سنن دارمی:۱؍۴۶۴، ح:۵۸۳]
غور فرمائیں کہ اس زمانے میں بصرہ سے مدینہ کا سفر کتنا مشکل ترین مرحلہ تھا، لیکن صرف سند عالی کے حصول کے لیے وہ اسے برداشت کرنے پر راضی تھے۔
اگر کسی کے پاس سند عالی ہوتی تو ان کی شان ہی نرالی ہوتی۔ اس تعلق سے امام طبرانی رحمہ اللہ کا ایک دلچسپ قصہ ملاحظہ فرمائیں:
ابن العمید رحمہ اللہ رکن الدولہ کے زمانے میں وزارت کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا کہنا ہے:میں یہ سمجھتا تھا کہ ریاست ووزارت سے محبوب دنیا میں کوئی چیز نہیں، یہاں تک کہ جب میں نے ایک دن امام طبرانی اور ابو بکر الجعابی کا مذاکرہ اور مناظرہ دیکھ لیاتو یہ خیال کافور ہو گیا۔ ہوا یوں کہ دونوں کے درمیان بحث جاری تھی، کوئی کسی کو مغلوب نہیں کر پا رہا تھا، یہاں تک کہ ابو بکر الجعابی نے کہا کہ میرے پاس ایک ایسی حدیث ہے جو ابھی دنیا میں کسی کے پاس نہیں۔ (یعنی کوئی اسے روایت کرنا چاہے تو اسے میرے ہی واسطے سے روایت کرنا پڑے گا)۔
امام طبرانی نے کہا: لائیں ایسی کون سی حدیث ہے آپ کے پاس۔
تب ابو بکر الجعابی نے اپنی سند اس طرح بیان کی:
حَدثنَا أَبُو خَليفَة، حَدثَنَا سُلَيْمَان بن أَيُّوب ۔۔۔ پھر آگے کی سند بیان کرنے کے بعد حدیث بیان کی۔
اس پر امام طبرانی نے فرمایا:میں ہی سلیمان بن ایوب ہوں۔ آپ میرے شاگرد ابو خلیفہ کے واسطے سے مجھ تک نہ پہنچ کر مجھ سے ہی اسے ڈائرکٹ سن لیں، آپ کی سند عالی ہو جائے گی۔
اس پر ابو بکر الجعابی شرم سے پانی پانی ہوگئے۔
ابن العمیدفرماتے ہیں:اس وقت میری دلی کیفیت یہ تھی کہ کاش ریاست ووزارت کا مالک نہ ہوکر میں طبرانی کی جگہ پر ہوتا، اور حدیث -وسند عالی-کی وجہ سے طبرانی کو جو خوشی ومسرت حاصل ہوئی وہ مجھے حاصل ہوئی ہوتی۔ دیکھیں:[جزء فیہ ذکر ابی القاسم الطبرانی للامام ابن مندہ:ص:۳۴۴]
اس قصہ سے بخوبی سند عالی رکھنے والے کی رفعت شان اور علو مرتبت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
بلکہ بسا اوقات بعض ائمہ سند عالی کے لیے ثقہ راوی کو چھوڑ کر کسی ضعیف راوی سے روایت کرنے سے گریز نہیں کرتے۔’’ کتب المستخرجات‘‘ میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ میں نے اپنی کتاب’’ کتب حدیث میں ضعیف احادیث کیوں؟‘‘ میں اسے مع مثال بیان کیا ہے۔دیکھیں:[ص:۶۰۔۶۵]
بلکہ امام مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بعض جگہوں پر ایسا کیا ہے۔ انہوں نے بعض ضعیف راویوں اور دوسرے طبقہ کے چند متوسط راویوں سے ایسی روایات ذکر کی ہیں جو ان کی صحیح کی شرط پر پورے نہیں اترتے، بعض لوگوں نے اس تعلق سے ان پر اعتراض بھی کیا ہے ،امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی شرح میں ان اعتراضات کے متعدد جوابات دئے ہیں، جن میں سے ایک جواب یہ ہے:
’’أن يعلو بالشخص الضعيف إسناده، وهو عنده من رواية الثقات نازل، فيقتصر على العالي، ولا يطول بإضافة النازل إليه، مكتفيا بمعرفه أهل الشأن فى ذٰلك، وهذا العذر قد رويناه عنه تنصيصا‘‘۔
’’وہ اس ضعیف شخص کے ذریعہ سند عالی حاصل کرناچاہتے ہیں، کیونکہ مذکورہ حدیث ان کے پاس ثقہ راویوں سے سند نازل کے ساتھ ہے، پس ایسے مواقع پر سند عالی پر اکتفاء کرتے ہیں اورطوالت کے خوف سے سند نازل کو ذکر نہیں کرتے، کیونکہ اہل فن کے مابین وہ حدیث معروف ہوتی ہے، یہ عذر امام مسلم سے ہی ہمیں نصًّا روایت کی گئی ہے‘‘ [المنہاج:۱؍۲۵]
خود امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إنما أدخلت من حديث أسباط وقطن وأحمد ما قد رواه الثقات عن شيوخهم إلا أنه ربما وقع إلى عنهم بارتفاع ويكون عندي من رواية أوثق منهم بنزول فأقتصر على ذٰلك، وأصل الحديث معروف من رواة الثقات‘‘
’’جن احادیث کو ثقہ راویوں نے اپنے شیوخ سے روایت کی ہیں انہیں میں نے اسباط ، قطن اور احمد سے اس لیے روایت کی ہیں کیونکہ وہ مجھے ان کے واسطے سے سند عالی کے ساتھ ملیں اور ثقہ راویوں سے سند نازل کے ساتھ ، پس سند عالی کے ساتھ ہی میں نے روایت کرنے پر اکتفاء کیا ، کیونکہ اصل حدیث ثقہ راویوں کی روایت سے مشہور ومعروف تھی‘‘ [المنہاج:۱؍۲۵]
آج بھی اہل علم کے یہاں سند عالی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اسی لیے آپ پائیں گے کہ متعدد عرب مشایخ ہندوستان کا سفر کرتے ہیں اور ہمارے مُعَمَّر مشایخ سے سند اجازہ حاصل کرتے ہیں، کیونکہ موجودہ دور میں سب کی سند غالباً میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ تک ہی پہنچتی ہے۔ اور ان کے سب سے پرانے تلامذہ (ایک یا دو اسطے کے ساتھ)ہندوستان میں موجود ہیں۔ غالباً شیخ محمد الاعظمی حفظہ اللہ (استاد محترم شیخ اسعد اعظمی حفظہ اللہ کے والد بزرگوار)اس وقت سب سے عالی سند رکھتے ہیں۔آپ میاں صاحب کے چار تلامذہ سے اپنی احادیث روایت کرتے ہیں۔ پتہ نہیں ان کے علاوہ بھی ہندوستان میں آج کسی کو یہ شرف حاصل ہے یا نہیں۔
جہاں تک کتب حدیث کی بات ہے تو امام مسلم، ابو داؤد اور نسائی کے یہاں سب سے عالی سند رباعی ہے۔ رباعی کا مطلب یہ کہ ان کے اور نبی ﷺکے درمیان صرف چار واسطے ہیں۔ ان تمام کتب میں کوئی بھی حدیث ثلاثی سند سے مروی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ تمام کے تمام تیسری صدی ہجری کے علماء ہیں۔ان کے بالمقابل امام طبرانی خوش نصیب ہیں، تین سو ساٹھ ہجری میں وفات پانے کے باوجود ان کے یہاں بعض احادیث ثلاثی سند سے موجود ہیں۔ بلکہ ’’ثلاثیات الطبرانی‘‘ کے نام سے ایک کتاب ہی موجود ہے۔ MILFS, Matures, Teens. Best Porn Online https://mat6tube.com/ watch right now! USA, UK, Australia, South Korea, France, Germany, etc.
امام ترمذی کے یہاں صرف ایک حدیث ثلاثی سند سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں:
حدثنا إسماعيل بن موسي الفزاري ابن بنت السدي الكوفي، قال:حدثنا عمر بن شاكر، عن أنس بن مالك قال:قال رسول اللّٰه ﷺ:’’يأتي على الناس زمان الصابر فيهم على دينه كالقابض على الجمر‘‘[حدیث نمبر:۲۲۶۰]
غور فرمائیں! اس میں امام ترمذی اور نبی ﷺ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں:اسماعیل الفزاری، عمر بن شاکر اور انس رضی اللہ عنہ۔ لیکن یہ سند متکلم فیہ ہے، اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے شواہد کی بنا پر اسے صحیح کہا ہے۔ [سلسلہ صحیحہ: ۲؍۶۴۵، ح:۹۵۷]
امام ابن ماجہ کے یہاں اس طرح کی پانچ حدیثیں ہیں جو ثلاثی سند سے مروی ہیں۔ ان کے نمبرات ہیں: ۳۲۶۰، ۳۳۱۰،۳۳۵۶،۳۴۷۹،۴۲۹۲
یہ پانچوں احادیث ایک ہی سند سے مروی ہیں، وہ سند ہے:
حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ قَالَ:حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ سُلَيْمٍ قَالَ:سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
یہ سند بھی ضعیف ہے۔ جبارۃ بن المغلس اور کثیر بن سلیم دونوں ضعیف ہیں۔ دیکھیں:[تقریب التہذیب، ترجمہ نمبر:۸۹۰، و۵۶۱۳]
کتب ستہ میںثلاثی اسانید سے مروی احادیث سب سے زیادہ امام بخاری رحمہ اللہ کے یہاں ہیں۔ تکرار کے ساتھ بائیس (۲۲)اور بغیر تکرار کے ان کی تعداد سولہ(۱۶) ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ ان تمام ثلاثیات کو پانچ اسانید سے روایت کرتے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
۱۔حدثنا أبو عاصم الضحاك بن مخلد، عن يزيد بن أبي عبيد، عن سلمة بن الأكوع رضي اللّٰه عنه
۲۔ حدثنا المكي بن إبراهيم، حدثنا يزيد بن أبي عبيد، عن سلمة بن الأكوع رضي اللّٰه عنه
۳۔ حدثنا محمد بن عبد اللّٰه الأنصاري، حدثنا حميد، عن أنس رضي اللّٰه عنه
۴۔ حدثنا عصام بن خالد، حدثنا حريز بن عثمان، أنه سأل عبد اللّٰه بن بسر صاحب النبى ﷺ
۵۔ حدثنا خلاد بن يحييٰ، حدثنا عيسيٰ بن طهمان، قال:سمعت أنس بن مالك رضي اللهّٰ عنه۔
بہت سارے علما ء نے امام بخاری رحمہ اللہ کی ان ثلاثیات کو جمع کرنے اور ان کی شرح کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ مثلاً:
۱۔ الفرائد المرویات فی فوائد الثلاثیات لمحمد بن إبراہیم الحضرمی المری (ت۷۷۷ھ)
۲۔ شرح ثلاثیات البخاری للبرماوی (ت۸۳۱ہ)
۳۔ کفایۃ القاری بشرح ثلاثیات البخاری لحمید الدین السندی المکی الحنفی (ت۱۰۰۹ہــ)
۴۔ تعلیقات القاری علی ثلاثیات البخاری للملا علی بن سلطان القاری (ت۱۰۱۴ہـ)
۵۔ منحۃ الباری بشرح ثلاثیات البخاری للشیخ محمد بن عمر بن سالم بازمول
یہ تمام کتابیں الحمد للہ مطبوع ہیں۔
ثلاثیات کی اس بحث میں امام دارمی، عبد بن حمید اور امام احمد کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔
امام دارمی کی مسند میں اس طرح کی پندرہ (۱۵)احادیث ہیں۔ عبد بن حمید الکشی کے یہاں ان کی تعداد اکاون (۵۱) ہے۔ اور مسند احمد کے اندر ان کی تعداد تین سو بتیس (۳۳۲)ہیں۔مسند احمد کے ان تمام احادیث کی علامہ سفارینی نے شرح کی ہے۔
کتب ستہ میں کوئی بھی ثنائی سند موجود نہیں ہے۔
یہ شرف اور سعادت امام مالک رحمہ اللہ کے حصے میں وافر مقدار میں آئی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مؤطا امام مالک میں ان ثنائیات کی تعداد کتنی ہے؟
علامہ عبد العزیز بن شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بستان المحدثین میں ان کی تعداد تقریبا چالیس (۴۰)بتائی ہے۔ جبکہ در حقیقت ان کی صحیح تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
استاد محترم فضیلۃ الشیخ محفوظ الرحمن فیضی حفظہ اللہ نے مؤطا کی ان ثنائیات کو کتابی شکل میں جمع کیا ہے جو ’’دار غراس کویت‘‘ سے مطبوع ہے۔ شیخ نے سبب ِتالیف یہ بیان کیا ہے کہ جب انہوں نے علامہ عبد العزیز بن شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کا یہ قول دیکھا تو مؤطا سے ان چالیس (۴۰)احادیث کو جمع کرنے کی خواہش پیدا ہوئی ۔ جب آپ نے اس پر کام شروع کیا تو ابھی ایک تہائی کتاب تک نہیں پہنچے تھے کہ ان ثنائیات کی تعداد چالیس(۴۰) پہنچ گئی۔ پھر جب اپنی بحث سے فارغ ہوئے تو ان کی تعداد ایک سو ترپن(۱۵۳) تک پہنچ چکی تھی۔
لہٰذا صحیح قول یہ ہے کہ مؤطا امام مالک میں ان ثنائیات کی تعداد ایک سو ترپن (۱۵۳)ہے۔
مطبوعہ کتب میں ثنائیات ہی سب سے عالی سند تصور کی جاتی ہے، حالانکہ ھمام بن منبہ رحمہ اللہ کی’’ الصحیفۃ الصحیحہ ‘‘کی سند اس سے بھی عالی ہے۔ الحمد للہ شیخ علی حسن علی عبد الحمید کی تحقیق سے یہ کتاب ’’المکتب الاسلامی بیروت‘‘ اور’’ دار عمار اردن ‘‘سے مطبوع ہے۔
اس کتاب میں کل ایک سو اڑتیس (۱۳۸)احادیث موجود ہیں، اور ان تمام احادیث میں ان کے اور نبی ﷺ کے درمیان صرف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا واسطہ ہے۔
اس کتاب کی تمام احادیث کو امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ امام احمد کی سند ہے:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ:هَذَا مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ۔
صرف پہلی حدیث میں امام احمد نے یہ سند بیان کی ہے ، اس کے بعد آگے کی تمام احادیث میں وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا صیغہ استعمال کیا ہے۔
امام معمر بن راشد رحمہ اللہ نے بھی اپنی جامع میں اس کی اکتیس (۳۱)احادیث کو روایت کیا ہے۔
صحیحین کے اندر بھی اس کی بہت ساری احادیث موجود ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ محدثین کے نزدیک سند عالی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ شروع سے لے کر آج تک اس کی جستجو برقرار ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ عالی ہونے کے ساتھ ساتھ اگر وہ صحیح بھی ہو تو اس کی بہت زیادہ علمی قیمت ہے، ورنہ وہ صرف باعث شرف ہی ہے، اس سے کسی حدیث کی قوت نہیں بڑھتی۔ واللہ اعلم بالصواب۔