-
امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری پر تبلیغی اعتراضات کا جائزہ (قسط اول) تبلیغی نصاب والوں نے اپنے تبلیغی نصاب کو جن خرافات اور موضوع ومن گھڑت روایات وقصے وکہانیوں سے بھرا ہے ، ان کی نشاندہی اہل حدیث حضرات نے کردی تو یہ تبلیغیوں کی نظر میں اتنا بڑا گناہ ہوگیا کہ وہ اہل حدیث کو ملکہ وکٹوریہ کے نام لیوا بتلانے لگے حالانکہ سچائی یہ ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کی غلامی اور وفاداری میں ان کے بزرگوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔اگرحقائق سے پردہ اٹھایا جائے تو بات بہت لمبی ہوجائے گی اس لئے ہم سردست صحیح بخاری اور امام بخاری پر ان کے اعتراضات کا جائزہ پیش کریں گے۔
اس تعلق سے دیوبندی تبلیغی معترض نے اپنی تحریر کا عنوان دیاہے:
فرقۂ اہل حدیث کے صفوں میں زلزلہ :
یہ عنوان پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کے خلاف لکھی گئی ارشد القادری کی کتاب زلزلہ سے ایوان تبلیغیت میں جو زلزلہ آیا ہے اس کے اثر سے اب تک یہ بلبلارہے ہیں ۔ارشد القادری کو یہ لوگ جواب نہیں دے پائے اس لئے دوسروں کے خلاف اوٹ پٹانگ باتیں کرکے اسے زلزلہ سے تعبیر کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طرح دوسرے بھی لاجواب ہی رہے ہیں ۔ بہرحال اعتراضات کے جوابات ملاحظہ ہوں:
صحیح بخاری کے راویوں پر اعتراضات کا جواب:
٭ اعتراض:
امام بخاری عطاء الخراسانی کو خود ضعیف کہتے ہیں۔[ضعفا صغیر :ص: ۲۷۳]
مگر اسی ضعیف راوی سے حدیث بھی لی ہے۔[بخاری :ج :۲، ص: ۷۳۲]
جواب:
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں جس عطاء سے روایت لی ہے اس کے نام کے ساتھ صحیح بخاری میں الخراسانی موجود نہیں ہے۔ اس لئے معترض کا اسے الخراسانی بتلانا غلط ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جس عطاء سے روایت لی ہے وہ عطاء بن ابی رباح ہیں جو کتب ستہ کے مشہور ثقہ راوی ہیں ۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں یہ وضاحت کررکھی ہے۔ دیکھیے:[فتح الباری لابن حجر:۸؍۶۶۸]
واضح رہے کہ عطاء بن ابی رباح مشہور ثقہ راوی ہیں ان سے کتب ستہ کے ہر مصنف نے روایت لی ہے۔
اورابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق ابوحنیفہ نے بھی ان سے روایت لی ہے ۔ [جامع المسانید للخوارزمی:۱؍۹۶]
٭ اعتراض:
امام بخاری مقسم کو ضعیف فرماتے ہیں اور اسی ضعیف راوی سے صحیح بخاری میں حدیث بھی لی ہے۔[میزان الاعتدال: ج: ۴، ص: ۱۷۶]
جواب:
یہ سراسر جھوٹ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مقسم کو ضعیف فرماتے ہیں ۔میزان میں بھی ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہے ۔ البتہ امام بخاری نے مقسم کی ایک روایت میں انقطاع بتانے کے لئے اس کا تذکرہ ضعفاء میں کیا ہے وہاں مقسم پر کوئی جرح نہیں ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی یہ وضاحت کررکھی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ضعفاء میں مقسم پر کوئی جرح نہیں کی ہے ۔دیکھیے:[تہذیب التہذیب لابن حجر، ط الہند:۱۰؍۲۸۹]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں بعض صحابہ کا تذکرہ بھی یہ بتانے کے لئے کیا ہے کہ ان کی طرف منسوب فلاں فلاں روایت کی سند ضعیف ہے ۔ تو کیا کوئی احمق یہ کہہ سکتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایسے صحابہ کو بھی ضعیف کہاہے؟؟؟ معاذ اللہ۔
یادرہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے صرف اور صرف ایک حدیث لی ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ سمیت سنن اربعہ کے مصنفین امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت لی ہے۔
اورابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق ابوحنیفہ نے بھی ان سے روایت لی ہے ۔ [جامع المسانید للخوارزمی: ۲؍۱۴۶]
احناف نے مقسم کی بیان کردہ کئی احادیث کو اپنی دلیل بنایاہے۔ مثلاً دیکھئے:(حدیث اور اہل حدیث :ص:۴۰۳، ایضا :ص۵۸۲،ایضا :ص۶۳۵)
٭ اعتراض:
امام بخاری نے ایوب بن عائز کو ارجاء کی وجہ سے ضعیف فرمایا اور صحیح بخاری میں ان سے حدیث بھی لی ہے ۔[میزان الاعتدال: ج: ۱، ص: ۲۸۹]
جواب:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ایوب بن عائز کو ضعیف ہرگز نہیں کہا ہے میزان میں بھی ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہے، معترض نے جھوٹ بولا ہے ۔بلکہ سچ تو یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں ارجاء سے متصف کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو صدوق کہہ کر ان کی توثیق بھی کی ہے۔ دیکھئے:[الضعفاء للبخاری: ص:۲۷]
اورکسی کو ارجاء سے متصف کرنا اس کی تضعیف نہیں ہے ۔
دیوبندی حضرات کے مولانا سرفراز صاحب لکھتے ہیں:
اصول حدیث کی رو سے ثقہ راوی کاخارجی یا جہمی ، معتزلی یا مرجئی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعا ًاثر انداز نہیں ہوتا اورصحیحین میں ایسے راوی بکثرت موجود ہیں ۔[احسن الکلام :ج: ۱،ص:۳۱]
معنوی طور پرکچھ ایسی ہی بات امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔ دیکھیے:[میزان الاعتدال للذہبی ت البجاوی: ۴؍۹۹]
اس وضاحت کے ساتھ یہ بھی معلوم رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اورصرف ایک جگہ ان کی حدیث لی ہے لیکن اس حدیث میں امام بخاری رحمہ اللہ نے شعبہ رقم(۱۷۲۴)اورسفیان رقم(۱۵۵۹)سے ان کی متابعت بھی ذکر کی ہے۔
واضح رہے کہ امام مسلم ، امام نسائی اور امام ترمذی نے بھی ان سے حدیث لی ہے۔
اوراحناف نے اس راوی کی بیان کردہ روایت کو دلیل بنایا ہے۔ دیکھئے:(حدیث اور اہل حدیث :ص:۱۸۰)
٭ اعتراض:
امام بخاری ابی العباس الانصاری کو ضعیف بھی فرماتے ہیں اور ان سے حدیث بھی لی ۔[تہذیب: ج: ۱، ص: ۱۸۶]
جواب:
یہ بھی سراسرجھوٹ ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے کہیں بھی ابی العباس کو ضعیف نہیں کہا ہے اور نہ ہی تہذیب میں ایسا کچھ لکھاہے۔ البتہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں’’ لیس بالقوی‘‘ کہاہے لیکن یہ تضعیف کا جملہ نہیں ہے بلکہ اس سے صرف ثقاہت میں درجہ ٔکاملہ کی نفی ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:(یزید بن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ:۶۳۴ تا ۶۳۵ )
امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسی راوی کے بارے میں کہا:’’حسن الحدیث‘‘ یعنی یہ حسن الحدیث راوی ہے۔[میزان الاعتدال للذہبی ت البجاوی:۱؍۷۸]
اورصحیح بخاری میں اس کی جو روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے لی ہے اس کی متابعت اور اس کے تاریخی شواہد موجود ہیں جو اس کی روایت کو مزید تقویت دیتی ہیں اس لیے بخاری میں درج اس کی یہ روایت صحت کے درجہ پر ہے۔
واضح رہے کہ امام ترمذی اورامام ابن ماجہ نے بھی اس سے حدیث لی ہے۔اور امام ترمذی نے اس کی حدیث کو حسن کہاہے۔[سنن الترمذی ت بشار:۴؍۱۱۹]
٭ اعتراض:
امام بخاری نے عوف اعرابی سے بخاری میں روایت لی ہے جو قدری ،رافضی شیطان تھا۔[تہذیب :ج: ۸، ص: ۱۶۷]
جواب:
اولاً:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ کتب ستہ کے ہرمصنف نے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ سمیت امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
ثانیاً:
ان کا قدری یا شیعی ہونا ان کے ثقہ ہونے کے منافی نہیں ہے جیسا کہ ماقبل میں دیوبندیوں کے مولانا سرفراز صاحب کا اعتراف پیش کیا جاچکاہے۔
ثالثاً:
ان کو رافضی اور شیطان کسی نے نہیں کہا ہے ۔تہذیب میں یہ قول بے سند مذکور ہے اس لیے غیرمقبول ہے۔بالفرض کسی نے انہیں شیطان کہہ دیا تو ضروی نہیں ہے کہ ان کی بات صحیح ہو ۔بعض ائمہ نے ابوحنیفہ کو بھی شیطان کہا ہے۔ مثلاً:
امام حمادبن سلمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’كان أبو حنيفة شيطانا استقبل آثار رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يردها برأيه‘‘
’’ابوحنیفہ شیطان تھا یہ نبی ﷺ کی احادیث کو لے کرانہیں اپنی رائے سے رد کردیا کرتا تھا‘‘[الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی:۸؍۲۳۹،واسنادہ صحیح]
بلکہ محمدبن مسلمہ نے تو امام ابوحنیفہ کے بارے میں کہا:’’ہو دجال من الدجاجلۃ‘‘
’’یہ دجالوں میں سے ایک دجال ہے‘‘[الضعفاء الصغیر للبخاری ت أبی العینین: ص:۱۳۲،واسنادہ مقبول]
تو کیا ان اقوال کی بناپر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو شیطان اور دجال کہنا شروع کردیا جائے؟
رابعاً:
امام ابوحنیفہ کے شاگر امام ابویوسف نے بھی ان سے روایت لی ہے۔[الخراج لأبی یوسف :ص:۱۴۳]
٭ اعتراض:
امام بخاری نے حریز بن عثمان سے حدیث لی ہے جو صبح و شام حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ستربار لعنت کرتا تھا نعوذ باللہ۔ [تہذیب: ج:۲، ص: ۲۴۰]
جواب:
اولاً:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ سنن اربعہ کے مصنفین امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت لی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
ثانیاً:
علی رضی اللہ عنہ پرستر بار لعنت کرنا ان سے ثابت نہیں ہے۔تہذیب میں یہ بات بے سند مذکور ہے لہٰذا غیر مقبول ہے۔
امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۷) کہتے ہیں:’’ولم يصح عندي ما يقال فى رأيه‘‘
’’اس کی رائے کے بارے میں جو کہا جاتا ہے میرے نزدیک ثابت نہیں ہے‘‘ [الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۳؍۲۸۹]
یہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خاندان سے تھے اورشہادت عثمان رضی اللہ عنہ اور اس کے بعد جو لڑائیاں ہوئیں انہیں لے کر یہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ بولتے تھے لیکن اس سے بھی بعد میں رجوع کرلیا تھا جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خود یہ رجوع نقل کیا ہے۔ دیکھیے:[التاریخ الکبیر للبخاری:۳؍۱۰۳، الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی :۳؍۳۹۰واسنادہ صحیح]
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ان سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:
’’رحمه اللّٰه مائة مرة‘‘
’’یعنی علی رضی اللہ عنہ پر اللہ کی سیکڑوں رحمتیں نازل ہوں‘‘[ضعفاء العقیلی (التأصیل):۱؍۵۶۱،واسنادہ صحیح]
معلوم ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجنا ان سے ثابت نہیں اور جو تھوڑی بہت بات منقول ہے اس سے بھی انہوں نے رجوع کرلیا تھا ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’وإنما أخرج له البخاري لقول أبي اليمان أنه رجع عن النصب‘‘
’’امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی روایت اس لئے لی ہے کیونکہ ابوالیمان نے بیان کیا کہ انہوں نے نصب سے رجوع کرلیا تھا‘‘[تہذیب التہذیب لابن حجر، ط الہند:۲؍۲۴۰]
ثالثاً:
امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگرد امام ابویوسف اورامام محمد نے ان سے روایت لی ہے ۔دیکھیے:[الخراج لأبی یوسف: ص:۱۰۹،موطأ محمد بن الحسن الشیبانی:ص:۳۸]
٭ اعتراض:
امام بخاری نے جریر بن عبدلحمید سے روایت لی جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں بکتا تھا۔[تہذیب :ج :۲، ص: ۷ ۷]
جواب:
اولاً:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ کتب ستہ کے ہرمصنف نے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ سمیت امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
ثانیاً:
تہذیب میں یہ بات بے سند ہے اس لیے غیر مقبول ہے۔
ثالثاً:
ابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق یہ ابوحنیفہ کا شاگرد ہے اور احناف اس کے واسطے سے ابوحنیفہ کی مسانید روایت کرتے ہیں ۔دیکھیے:[جامع المسانید للخوارزمی:۱؍۲۸]
٭ اعتراض:
امام بخاری نے عباد بن یعقوب سے حدیث لی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو گالیاں بکتا تھا ۔[تہذیب: ج: ۵، ص: ۱۰۹]
جواب:
اولاً:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ سمیت امام ترمذی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
ثانیاً:
تہذیب میں یہ بات بے سند منقول ہے اس لیے غیر مقبول ہے۔
ثالثاً:
امام بخاری رحمہ اللہ نے عباد بن یعقوب کی روایت مقروناً لی ہے یعنی اس کی بیان کردہ روایت کی دوسری صحیح سند بھی پیش کردی ہے۔ دیکھیے:[صحیح البخاری :رقم:۷۵۳۴]
رابعاً:
ابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق عباد بن یعقوب ابوحنیفہ کے شاگرد کا شاگرد ہے اور احناف اس کے واسطے سے ابوحنیفہ کی مسانید روایت کرتے ہیں۔ دیکھیے:[جامع المسانید للخوارزمی:۱؍۲۸]
خامساً:
دیوبندیوں نے عباد بن یعقوب کی بیان کردہ حدیث کو اپنی دلیل بنایا ہے ۔دیکھیے:(حدیث اوراہل حدیث :ص: ۵۷۹)
٭ اعتراض:
امام بخاری نے عبدالملک بن اعین رافضی سے حدیث لی ہے۔[تہذیب :ج: ۶، ص: ۳۸۶]
جواب:
اولاً:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ کتب ستہ کے ہرمصنف نے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ سمیت امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
ثانیاً:
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں صدوق شیعی کہا ہے۔[تقریب التہذیب لابن حجر:رقم:۴۱۶۴]
یعنی ان کے رفض سے مراد ان کے اندر اہل کوفہ والی شیعیت ہے اور ایسے اوصاف والے راویوں کے بارے میں ماقبل میں دیوبندیوں کے مولانا سرفراز صاحب کا یہ اعتراف پیش کیا جاچکا ہے کہ اس سے راوی کی ثقاہت قطعاً اثر انداز نہیں ہوتی۔
ثالثاً:
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ان سے صرف ایک روایت لی ہے اور وہاں پر بھی دوسرے ثقہ راوی جامع بن أبی راشد سے ان کی متابعت پیش کردی ہے۔دیکھیے:[صحیح البخاری :رقم:۷۴۴۵]
اورامام ابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق امام ابوحنیفہ نے بھی جامع بن أبی راشد سے روایت لی ہے ۔ [جامع المسانید للخوارزمی:۱؍۲۲۰]
٭ اعتراض:
امام بخاری نے محمد بن حازم سے حدیث لی جو کہ مرجئہ تھا ۔[تہذیب :ج :۹، ص:۱۳۹]
جواب:
اولاً:
اس راوی سے صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے نہیں بلکہ کتب ستہ کے ہرمصنف نے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ سمیت امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابوداؤد ، امام نسائی اورامام ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے۔ پھر الزام صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر کیوں ؟
ثانیاً:
مرجئہ ہونے سے کوئی راوی ضعیف نہیں ہوجاتا، دیوبندی حضرات کے مولانا سرفراز صاحب لکھتے ہیں:
اصول حدیث کی رو سے ثقہ راوی کاخارجی یا جہمی ، معتزلی یا مرجئی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعاً اثر انداز نہیں ہوتا اورصحیحین میں ایسے راوی بکثرت موجود ہیں۔[احسن الکلام :ج:۱،ص:۳۱]
معنوی طور پرکچھ ایسی ہی بات امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔ دیکھیے:[میزان الاعتدال للذہبی ت البجاوی: ۴؍۹۹]
ثالثاً:
یہ ابوحنیفہ کی طرف منسوب مسانید کے مطابق ابوحنیفہ کا شاگرد ہے اور احناف اس کے واسطے سے ابوحنیفہ کی مسانید روایت کرتے ہیں۔ دیکھیے:[جامع المسانید للخوارزمی:۱؍۲۰۳]
جاری ہے ……