Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • آئینہ

    عرفان نفس کا بھی ایک سفر ہوتا ہے جو ہر انسان اپنی ذات کے اندر ہی اندر طے کرتا ہے، اس سفر میں راستے کے نشیب و فراز کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے اور اکثر لوگوں کو اس راہ میں ٹھوکر کھاکر گرنے میں یا سنگِ میل کو منزلِ مقصود سمجھ لینے میں یا پھر نشانِ منزل کو پہچاننے سے چوک کر آگے بڑھ جانے میں دیر نہیں لگتی ۔
    اس راہ کا وہی رہرو کامیاب ہوتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضلِ خاص سے نورِ بصیرت عطا فرمایا ہو، جوخود کو درِ ہدایت کا گداگر مانتا ہو ۔{وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدي وَء َاتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ}’’رہے وہ لوگ جنہوں نے جستجو سے سیدھی راہ پالی ہے، اللہ اُن کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں اُن کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے‘‘[سورہ محمد:۱۷]
    یا وہ جسے کسی مردِ حق آگاہ کی صحبت اور تربیت میسر ہو جو اسے اس پرخطر راہ پر چلنے کے شرعی راز و انداز سکھلائے ۔ {وَلَـٰكِن جَعَلْنَـٰهُ نُورا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَآء ُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِيٓ إِلَيٰ صِرَ ٰط مُّسْتَقِيم}
    ’’مگر اُس کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھاتے ہیں یقینا آپ راہ راست کی رہنمائی کر رہے ہیں‘‘[سورۃ الشوریٰ:۵۲]
    عرفان نفس کا ایک مرحلہ خودشناسی کا ہے۔ خودشناسی کے بغیر کوئی انسان عظیم نہیں بنتا، یہ خوبی انسانی کمالات میں سے ایک ایساکمال ہے جو بجائے خود عظیم ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سارے کمالاتِ انسانی کے لیے دروازہ کی حیثیت رکھتی ہے، اسی دروازے سے گزر کر ایک انسان خودی، خودداری، خوداعتمادی، عزت نفس اور خودکی اور اپنے اندر پائی جانے والی خوبیوں اور صلاحیتوں کی قدر کرنا جیسے عظیم مقامات تک کا سفر طے کرتا ہے ۔
    مگر یہی خودشناسی جب بے لگام ہوجائے اور حد سے گزر جائے تو پھر انسان خودپسندی، خودفریبی اور پھر اسی خود فریبی کے زیر اثر خودستائی،خودرائی،حق ناشناسی اور دوسروں کی حق تلفی تک چلا جاتا ہے۔
    اسی لیے زندگی کے ہر معاملے کی طرح عرفان نفس کے اس شخصی سفر میں بھی آدمی کو افراط و تفریط سے بچ کر میانہ روی کے ساتھ چلنا چاہیے جو ایک عظیم عبادت بھی ہے اور دنیا و آخرت ہر دو جگہ کامیابی کی ضمانت بھی ۔
    ’’خود‘‘کا سفر ’’خودی‘‘اور’’خودشناسی‘‘تک اچھا ہے مگر اس حد اعتدال سے آگے بڑھ کر اگر انسان ’’خدائی‘‘تک جا پہنچے تو پھر وہ کمال کے بجائے زوال کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے ۔
    عرفان نفس کی راہ کے خطرات میں سے ایک خطرہ جس سے ہر ایک سالک اور اس راہ کے ہر راہرو کو آگاہ رہنا چاہیے وہ انسان کے اندر کا اپنا بُت ہے۔
    یہ حقیقت ہے کہ انسان دوسروں کے مقابلے اپنی خوبیوں سے بذات خود زیادہ واقفیت رکھتا ہے۔ انسان کے عیوب کی طرح انسان کی خوبیوں پر بھی اکثر پردہ پڑا رہتا ہے جس کی وجہ سے دوسرے ان خوبیوں کو دیکھنے سے اکثر قاصر رہتے ہیں تاہم انسان خود سے بیگانہ نہیں ہوتا بلکہ وہ دوسروں سے تو کم ہی واقف ہوتا ہے مگر خودشناسی سے سرشار ہوتا ہے اور خود سے پرائے سے واقفیت کا یہی فرق اور تفاوت انسان کے اندر اس بت کو جنم دیتا ہے جس کا بالآخر وہ پجاری بن جاتا ہے ۔
    اس طرح ہر انسان کے اندر ایک بت ہوتا ہے جس کا پہلا پجاری اکثر وہ انسان خود ہوتا ہے ۔
    پھرخود کا پجاری ایسا انسان مزید آگے بڑھ کر اکثر اسی تگ و دو میں لگ جاتا ہے کہ دوسروں سے بھی اپنی خدائی کسی نہ کسی طرح منوالے جائے ۔
    اسی حقیقت کو حدیث مبارک میں رب ذوالجلال کی چادر پر ہاتھ ڈالنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
    نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’الْعِزُّ إِزَارُهُ، وَالْكِبْرِيَاء ُ رِدَاؤُهُ، فَمَنْ يُنَازِعُنِي عَذَّبْتُهُ‘‘
    ’’ناقابل تسخیر ہونا اس کا ازار ہے اور کبریائی اس کی چادر ہے ۔اب جو اس کو مجھ سے لینا چاہے گا میں اسے عذاب کے حوالے کردوں گا‘‘[مسلم:۲۶۲۰]
    ایک دوسری حدیث قدسی میں ارشاد ہوا :
    ’’الْكِبْرِيَاء ُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي ، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا، قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ‘‘
    ’’کبریائی میری چادر ہے اور عظمت و بڑائی میرا ازار ۔ اب جو کوئی ان میں سے کسی ایک کو مجھ سے لے لینا چاہے گا میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا ‘‘[ابوداؤد:۴۰۹۰]
    ایک مسلمان کو یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی بندگی کا کمال اسی میں ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے اس اندرونی بت کو توڑدے، ’’خود‘‘کی نفی کرے اور’’خدا‘‘کی برتری کے آگے سر تسلیم خم کردے ۔
    خود کا پجاری شخص کفر تک نا بھی پہنچے تو کم از کم کفرانِ نعمت تک ضرور پہنچتا ہے ۔
    پھر وہ کفران نعمت کئی صورتوں میں ظاہر ہوگا ۔
    ٭ کبھی ’’إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَي عِلْمٍ عِنْدِيْ‘‘’’یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ بوجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے‘‘[سورۃ القصص:۷۸]کے لب و لہجے میں ظاہر ہو گا۔
    ٭ کبھی{أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ}’’میں دوسرے سے بہتر ہوں‘‘[سورۃ الأعراف:۱۲] کے لبادے میں سامنے آئے گا۔
    ٭ اور کبھی احساس برتری میں ڈوب کر{لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ } ’’عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا‘‘[سورۃ المنافقون:۸] کی زبان بولے گا ۔
    ٭ وہ کبھی نگاہِ بصیرت سے اندھا ہوگا جو حق کو اور حقدار کو دیکھنے سے قاصر ہو گا تو کبھی زبانِ اعتراف سے محروم ایک گونگا ہوگا جس کی زبان پر دوسرے کے لیے حرفِ اعتراف بمشکل ہی آ پائے گا ۔
    ٭ وہ اکثر حق و حقیقت کی پذیرائی اور سماعت سے بہرا ہوگا ۔
    ٭ خود کے پجاری کو ہر طرف صرف اپنی ہی ذات نظر آئے گی اور اپنے ہی کارناموں کی گونج سنائی دے گی ۔
    ٭ وہ خود یہی چاہے گا کہ ہر کوئی صرف اس کے گن گائے۔
    ٭ وہ کبھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ دوسروں کے کارنامے اور خوبیاں اس کے سامنے گنائی جائیں۔
    ٭ اگر مجبورا ًکبھی کسی دوسرے کی خوبی گنا بھی دے گا تو کچھ اس انداز میں کہ’’میرے بعد یا میرے علاوہ میں نے آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا‘‘۔
    ٭ اور اگر کبھی ایسا ہو کہ کوئی دوسرا شخص اس کے سامنے کسی تیسرے کی خوبیوں کا تذکرہ کردے تو اس کاذہن اور زبان فوری موازنہ پر اتر آئیں گے کہ ’’ٹھیک ہے وہ ہوگا مگر میرے برابر کا تو نہیں۔ ‘‘
    ٭ وہ اس قدر کمزور شخصیت کا مالک ہوگا کہ دوسرے کسی ادنیٰ سے شخص کی معمولی خوبی کے تذکرہ کو بھی خود کی تنقیص سمجھے گا ۔
    ٭ وہ خود کے مداح تو پیدا کرے گا مگر محنت کرکے کسی کواپنے جیسا یا اپنے سے بہتر بنانے کی کوشش کبھی نہیں کرے گا۔
    ٭ وہ ایسا ’’سیلیبریٹی‘‘تو بنے گا جس کے ’’فین‘‘بے شمار ہوں مگر کبھی ایک خیرخواہ معلم و مربی نہیں بنے گا ۔
    ٭ ایسے پجاری خدائی کے دعویدار نہ بھی ہوں تو خود کو خدائی فوجدار سے کم بھی نہیں سمجھتے ۔
    ٭ ان کی عدالت میں ہر کوئی مجرم نہیں تو ملزم بن کر ضرور کھڑا ہوگا مگر وہ خود کو کبھی خود کی عدالت میں بھی کٹہرے میں کھڑا دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔
    ٭ خود کے یہ پجاری اکثر خود اپنے پیروں پر بھی کلہاڑی مار لیتے ہیں۔ وہ خود کو اس قدر مکمل سمجھنے لگتے ہیں کہ مزید کمالات کی طرف پیش قدمی کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔
    ٭ ان کی اپنی زندگی میں خود کو بنانے اور سنوارنے کے مسلسل سفر میں ایسا پڑاؤ آئے گاکہ غیر شعوری طور پر وہی پڑاؤ آخری منزل بن جائے گا ۔
    ٭ وہ انتہائی باصلاحیت لوگوں کے درمیان خوبیوں اور صلاحیتوں کے بھنڈار کے بیچ ہوں گے مگر ان میں سے کسی سے بھی کچھ بھید کشیدکرنے کے قابل نہیں رہ جائیں گے ۔
    اسی لیے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا تھا ’’رحم اللّٰه امرأ عرف قدر نفسه ‘‘’’اور اس شخص پر رحم کرے جو اپنی قدر کو پہچان لے‘‘[تفسیر القرطبی:النحل: ۱۴]
    خود کے پجاری ایسے لوگ ہر میدان اور سماج کے ہر طبقہ میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ جہاں ہوتے ہیں وہاں ترقی کا سفر رک جاتا ہے، شخصی بھی اجتماعی بھی، جس شعبہ میں رہتے ہیں وہاں چاپلوسی کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ وہاں حقیقی ترقی کے بجائے خودستانی پر مبنی حصولیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔رفتہ رفتہ پورا شعبہ یا گروہ ایسے خول میں بند ہوتا جاتا ہے جہاں تک حق پرستی اور حقیقت پسندی کی رسائی قریب قریب ناممکن ہوجاتی ہے۔ حقیقت کی روشنی کے ہالے میں خودفریبی کے ایسے اندھیرے کہ اللہ کی پناہ !
    {أَوْ كَظُلُمَـٰت فِي بَحْر لُّجِّيّ يَغْشَاهُ مَوْج مِّن فَوْقِهِ مَوْج مِّن فَوْقِهِ سَحَاب ظُلُمَـٰتُ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَآ أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَيٰهَا وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ للَّهُ لَهُ نُورا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ}
    ’’کیا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپپرکھا ہو، پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں۔ الغرض اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پہ درپے ہیں۔ جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے، اور (بات یہ ہے کہ) جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی‘‘[سورۃ النور:۴۰]
    اسی لیے ہر انسان کو چاہیے کہ خودشناسی کے اس سفر میں خودی تک جائے خدائی تک نہیں کہ یہ خدائی در حقیقت نفس کی غلامی ہے۔
    یہ ایسے شخص کی راہ ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوا :
    {أَرَئَ يْتَ مَنِ تَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَلْأَنْعَـٰمِد بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا}
    ’’کیا آپ نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا آپ ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہیں؟یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے‘‘[سورۃ الفرقان:۴۳،۴۴]

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings