-
مفهوم المسِنّة الواردة في السُّنّة (المسنة اور الثني کا مفہوم) الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه اجمعين، وبعد:
برادرم سر فراز فیضی -حفظہ اللہ-! آپ نے ایک تحریر کی طرف اشارہ کیا ہے, جس میں قربانی کے جانور سے متعلق کسی صاحب نے گفتگو کی ہے۔
قربانی کے جانور میں اصل اعتبار دانت کا ہو گا یا عمر کا؟ اور اگر عمر کا اعتبار ہوگا تو وہ عمر کیا ہوگی؟ اس میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے, مختلف وجہات نظر اور ان کی دلیلیں ہیں, دلیلیں اتنی متجاذب ہیں کہ ایک طالب علم حیران رہ جائے, اس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے, کہ کس رائے کی طرف جائے۔
صاحب تحریر نے اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ اصل اعتبار عمر کا ہے نہ کہ دانت کا, اور اس کے لیے مختلف دلیلیں ذکر کی ہیں, یا اگر زیادہ صحیح تعبیر استعمال کی جائے تو فقہاء کے اقوال کو دلیل کےطور پر ذکر کیا ہے, اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہور فقہاء نے عمر کا ہی اعتبار کیا ہے, گرچہ عمر کی تحدید میں ان کے یہاں اختلاف ہے۔
میں ذیل کے سطور میں ان شاء اللہ مختصر اور آسان انداز میں مسئلے کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا, طوالت سے بچنے کے لیے بہت سارے مسائل اور ان کے ادلہ کی جانب صرف اشارے پر اکتفا کروں گا, اہل علم کے لیے ان شاروں کو سمجھنا مشکل نہیں ہوگا, فأقول وباللہ التوفیق والسداد:
قربانی کے جانور کے سلسلے میں ہم سب سے پہلے شریعت کے نصوص کو دیکھیں گے, کہ کیا شریعت نے اس کی عمر کی کوئی تحدید کی ہے؟
ذخیرہ نصوص میں ہمیں دو طرح کے الفاظ ملتے ہیں, ایک (المسنة), دوسرا (الثنی) , پہلے کا ذکر (لا تذبحوا إلا مسنة) اور دوسرے کا ذکر (الجذع يوفي مما يوفي منه الثني) میں ہے۔
زیر نظر مسئلہ میں بیت القصید (المسنة)اور (الثنی ) کا مفہوم اور اس کی تعریف کو جاننا ہے, اور اسی سے مسئلے کی تہ اور صحیح رائے تک پہونچا جا سکتا ہے۔ میرے خیال سے یہاں تک کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اب ہم (المسنة )اور (الثنی ) کا مفہوم سب سے پہلے شریعت کے نصوص میں تلاش کریں گے,اگر شریعت کے نصوص میں ہمیں اس کی توضیح مل گئی تو ٹھیک, ورنہ ہم اہل لغت کی طرف رجوع کریں گے, اگر اہل لغت کے یہاں بھی اس کی کوئی تحدید نہیں ملی, تو عرف کا اعتبار کریں گے۔
ایسا اس لیے کہ علماء نے ایک قاعدہ بنایا ہے کہ شرعی نصوص کے اندر وارد الفاظ ومصطلحات کی تعریف کی تعیین اور تحدید سب سے پہلے شریعت کے نصوص سے کریں گے, کیوں کہ شریعت کی توضیح وتشریح سب پر مقدم ہے, اگر اس میں نہیں ملا تو اہل لغت کی تشریحات کی طرف رجوع کریں گے, کیوں کہ شریعت انہیں کی زبان میں نازل ہوئی ہے, اگر اہل لغت بھی خاموش ہیں, تو عرف کا اعتبار ہوگا, کیوں کہ (العادة محكمة) بھی ایک شرعی قاعدہ ہے۔
اس سلسلے میں شیخ الإسلام ابن تیمیۃ فرماتے ہیں کہ:
(فما له حد في الشرع أو اللغة رجع في ذلك إليهما، وما ليس له حد فيهما رجع فيه إلى العرف) (مجموع الفتاوى 35/351)
اس قاعدے کی روشنی میں جب ہم (المسنۃ )اور (الثنی ) کی تعریف وتوضیح شریعت کے نصوص میں تلاش کرتے ہیں, تو شریعت کے نصوص میں ان دونوں الفاظ کی کوئی تعریف نہیں ملتی ہے, کسی بھی عالم یا فقیہ نے ایسا دعوى نہیں کیا ہے کہ شریعت نے ان دونوں الفاظ کی تعریف مقرر کی ہے۔
اب ایسی صورت میں ہم دوسرے آپشن کی طرف جائیں گے, یعنی (المسنۃ )اور (الثنی ) کی تعریف اہل لغت کے یہاں تلاش کریں گے۔
بیشتر اہل لغت نے (المسنۃ) کی تعریف (الثنی) سے کی ہے, اور (الثنی) کی تعریف (إذا سقطت ثنيتها) سے کی ہے, یعنی جب اس کے دانت گر جائیں, اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کی جگہ پر نئے دانت نکلتے ہیں۔ اگر اہل لغت کے اقوال کو یہاں نقل کیا جائے تو محض تطویل کے کچھ نہیں ہوگا, طلبہ اور اہل تخصص لغت کی کتابوں کا مراجعہ کر سکتے ہیں۔
کچھ دیگر اہل لغت نے کہا ہے کہ (المسنۃ) (ا لثنی) کو کہتے ہیں, اور (الثنی) اس جانور کو کہتے ہیں جو ایک خاص عمر کو پہونچ جائے, جیسے بھیڑ اور بکری ایک سال کے, گائے دو سال کی, اور اونٹ پانچ سال کا ہوجائے, عمر کی تحدید میں بھی اختلاف ہے, خلاصہ یہ کہ (المسنۃ )اور (الثنی ) کو عمر سے مربوط کیا ہے, نہ کہ دانت سے۔
(المسنۃ )اور (الثنی ) کی تعریف میں اہل لغت کی آراء میں بظاہر تعارض نظر آرہا ہے, لیکن یہاں پر دو باتیں قابل غور ہیں:
☑️ پہلی بات یہ کہ:
اہل لغت کے اقوال میں حقیقت میں کوئی تعارض نہیں ہے, کیوں کہ جن لوگوں نے بھی (المسنۃ )اور (الثنی) کو عمر سے مربوط کیا ہے, انہوں نے ساتھ میں یہ بات بھی ذکر کیا ہے کہ (الثنی) وہ جانور ہے جس کے دانت گر گئے ہوں, اور دانت کا گرنا چونکہ اسی عمر میں ہوتا ہے, اس لیے اس عمر کے جانور کو ثنی کہا گیا ہے, گویا کہ وہ بھی یہی کہ رہے ہیں کہ (الثنی) کا اصل تعلق دانت گرنے سے ہی ہے, عمر کا ذکر محض اس لیے کیوں کہ دانت اسی عمر میں گرتے ہیں۔
تہذیب اللغۃ (12/210) میں ازہری کہتے ہیں:
(والبَقَرةُ والشاةُ يَقَع عَلَيْهَا اسمُ المُسِنّ إِذا أَثْنَيا، فَإِذا سَقَطتْ ثنِيتها، بعد طُلُوعهَا فقد أسَنَّتْ، وَلَيْسَ معنى أسنانِها كِبَرها كالرّجل، وَلَكِن مَعْنَاهُ طُلوعُ ثنِيّتها. وتُثْنى البَقرةُ فِي السّنة الثَّالِثَة، وَكَذَلِكَ المِعْزَى تُثْنى فِي الثَّالِثَة، ثمَّ تكون رَبَاعِيةً فِي الرَّابِعَة، ثمَّ سِدْسًا فِي الْخَامِسَة، ثمَّ سالِفًا فِي السَّادِسَة؛ وَكَذَلِكَ البقرُ فِي جَمِيع ذَلِك)
خط کشیدہ عبارت پر غور کیجئے, اس میں ازہری (ثنی) کے عمر سے مربوط ہونے کی نفی کر رہے ہیں, اور اسے دانٹ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔
یہ وہی ازہری ہیں جن کی تهذيب اللغۃ (15/ 101) کی ایک عبارت سے استدلال
کرکے صاحب تحریر نے (الثنی) کو عمر سے جوڑا ہے, ان کی وہ عبارت یہ ہے: (الْبَعِير إِذا اسْتكْمل الْخَامِسَة وطَعن فِي السَّادِسَة فَهُوَ ثَنِيُّ، والأُنثى: ثَنِيّة، وَهُوَ أَدنى مَا يَجوز من سِنّ الْإِبِل فِي الْأَضَاحِي، وَكَذَلِكَ من الْبَقر والمِعْزَى؛ فَأَما الضَّأْن فَيجوز مِنْهَا الجَذَع فِي الأَضَاحِي وَإِنَّمَا سُمي الْبَعِير ثَنِيّاً، لِأَنَّهُ أَلْقى ثَنِيَّته)
لیکن اگر ازہری کی دونوں عبارتوں کو ایک ساتھ رکھ کر غور کریں گے تو واضح ہو جائے گا کہ (ثنی) کا اصل تعلق دانت سے ہے نہ کہ عمر سے, عمر کا ذکر محض اس لیے ہے کیوں کہ اسی عمر میں عموما دانٹ گر کر نئے دانت نکلتے ہیں۔
اب مجھے نہیں معلوم کی ازہری کی پہلی عبارت سے کیوں صرف نظر کیا گیا؟!
تاج العروس کی ایک عبارت سے بھی استدلال کرکے (الثنی ) کو عمر سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے, وہ عبارت بھی دیکھ لیں: تاج العروس (37/296) میں زبیدی المحکم لابن سیدہ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:
(وفي المحكم: الثني من الإبل الذي يلقي ثنيته وذلك في السادسة، ومن الغنم الداخل في السنة الثانية تيسا كان أو كبشا)
اس سے جسٹ پہلی والی لائن میں زبیدی نے جوہری سے بھی نقل کیا ہے, عبارت ہے:
(وفي الصحاح: الثني الذي يلقي ثنيته، ويكون ذلك في الظلف والحافر في السنة الثالثة، وفي الخف في السنة السادسة)
ان دونوں ہی نقولات پر غور کرنے سے بات واضح ہو جائے گی کہ (الثنی) کو پہلے دانت سے ہی جوڑا گیا ہے, بعد میں عمر کا ذکر اس لیے آیا ہے کیوں کہ اسی عمر میں دانت گرتے ہیں۔
لسان العرب (14/123) میں ابن منظور نے ابن الأثیر سے (الثنی) کی تعریف نقل کی ہے, اس کو ذکر کر کے بھی (الثنی) کو عمر سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے, وہ عبارت ہے:
(قال ابن الأثير: الثنية من الغنم ما دخل في السنة الثالثة، ومن البقر كذلك، ومن الإبل في السادسة، والذكر ثني، وعلى مذهب أحمد بن حنبل ما دخل من المعز في الثانية، ومن البقر في الثالثة)
ابن منظور کی مذکورہ نقل سے فیصلہ کرنے سے پہلے لسان العرب (13/222) کی
یہ عبارت بھی دیکھ لیں جسے صاحب تحریر نے قابل التفات نہیں سمجھا ہے: (والبقرة والشاة يقع عليهما اسم المسن إذا أثنتا، فإذا سقطت ثنيتهما بعد طلوعها فقد أسنت، وليس معنى إسنانها كبرها كالرجل، ولكن معناه طلوع ثنيتها، وتثني البقرة في السنة الثالثة، وكذلك المعزى تثني في الثالثة) یہ ازہری سے نقل کیا گیا ہے, لیکن نام کے ذکر کے بغیر۔
کیا ابن منظور کی ان دونوں عبارتوں کو ایک ساتھ دیکھنے کے بعد یہ اشکال باقی رہ سکتا ہے کہ (الثنی) کا اصل تعلق کس سے ہے؟, دانت سے یا عمر سے؟
بلکہ ابن منظور کی جس عبارت کو چھوڑ دیا گیا ہے, اس میں باقاعدہ طور سے وہ اس بات کی نفی کر رہے ہیں کہ (الثنی) کا تعلق عمر سے ہے, بلکہ اس کا تعلق دانت گرنے سے بتا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ابن فارس کا ایک قول فتح الباری کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے, مجھے ابن فارس کی مقاییس اللغۃ میں وہ عبارت نہیں ملی, ممکن ہے ان کی کسی اور کتاب میں ہو۔
خلاصہ یہ کہ جن بعض اہل لغت نے (الثنی) سے متعلق عمر کی بات کی ہے, انہوں نے بھی اسے پہلے دانت سے ہی مربوط کیا ہے, عمر کی بات صرف اس لیے کی ہے, کیوں کہ اسی عمر میں عموما دانت گرتے ہیں, اس لیے اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ (الثنی) کا اصل تعلق تمام اہل لغت کے یہاں دانت سے ہی ہے.
☑️ دوسری بات یہ کہ:
اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ بات مان لی جائے کہ بعض اہل لغت نے اختلاف کیا ہے, اور بیشتر اہل لغت کے خلاف (الثنی) کا تعلق عمر سے مانا ہے (جب کہ ایسا ہے نہیں) تو پھر ہم اہل لغت کی کس رائے کو معتبر مانیں گے؟ کیا پہلی رائے کو؟ جس کے مطابق (الثنی) کا تعلق دانت سے ہے, یا دوسری رائے کو؟ جس کے مطابق اس کا تعلق عمر سے ہے؟اصولی بات تو یہی ہے کہ ایسی صورت میں دونوں رائے میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کے لیے کوئی مرجح ہونا چاہیے۔
ترجیح میں ایک بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ جمہور اہل لغت کی رائے کو کثرت کی بنا پر ترجیح دی جائے, لیکن صحیح بات تو یہ ہے کہ حق کو پرکھنے کے لیے کثرت آخری معیار نہیں ہے, لہذا دونوں میں سے ایک رائے کو ترجیح دینے کے لیے ہم یہ دیکھیں گے کہ دونوں میں سے کون سی رائے شریعت کے اصول وضوابط اور مصالح ومقاصد کے موافق ہے۔
یہاں پر دو اصولی باتیں پیش نظر رہنی چاہئیں:
🔹 پہلا اصول:
شریعت کے احکام کے استقراء سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ شریعت کے وہ احکام جن کا تعلق اسباب و شروط وموانع وغیرہ سے ہیں, شریعت نے ان احکام کو ظاہری اور محسوس علامات اوصاف سے مربوط کیا ہے تاکہ وہ بلا تفریق عام وخاص سب کے لیے واضح رہیں, مثال کے طور پرنماز کے اوقات کو ظاہری علامات سے جوڑ ا گیا ہے, فجر کا طلوع ہونا, سورج کا زائل ہونا, سورج کا غروب ہونا وغیرہ ظاہری علامتیں ہی ہیں, مہینے کی ابتداء کا تعلق رؤیت ہلال سے ہے جو کہ ظاہری علامت ہے, اور اسی لیے علماء نے رمضان اور رؤیت ہلال کے مسئلے میں اس نقطے کو خاص طور سے ذکر کیا ہے, اسی طرح حج کے ایام کی ابتداء کا تعلق بھی ظاہری علامت سے ہے, وقس على ذلک۔
اسے اور زیادہ واضح انداز میں یوں سمجھیں کہ طلوع فجر ساڑھے چار بجے, اور غروب آفتاب سوا سات بجے ہوتا ہے, اب یہاں پر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ فجر اور مغرب کی نماز کا اصل تعلق ہماری گھڑی سے ہے, کیوں کہ ساڑھے چار بجے طلوع فجر, اور سوا سات بجے غروب آفتاب ہوتا ہے, گھڑی کا وقت تو ہم محض اس لیے بتاتے ہیں کہ اس وقت طلوع اور غروب ہو رہا ہے, ورنہ اس کا اصل تعلق تو طلوع اور غروب سے ہی ہے, نہ کہ گھڑی کے وقت سے, کیوں کہ شریعت نے نماز کے اوقات کو ان ظاہری علامات سے ہی جوڑا ہے, اسی لیے گھڑی کا وقت بدلتا رہتا ہے, لیکن اس کے بدلنے سے وقت کی اصل علامت (طلوع غروب وغیرہ) پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے, بعینہ اسی طرح قربانی کے جانور کا اصل تعلق ظاہری علامت دانت سے ہے, لیکن کچھ اہل لغت نے اسے عمر سے اس لیے مربوط کیا ہے کیوں کہ دانت گرنے والے وقت میں اس کی عمر عموما اتنی ہی ہوتی ہے, گرچہ یہ نادر واقعات میں آگے پیچھے بھی ہوتا ہے, اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ اصل سے ہٹ جائیں, وہ اپنی جگہ پر باقی رہے گا, اصل سے ہٹنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہر دور اور ہر زمانے میں ہر عام وخاص کے لیے واضح نہیں ہوگا, جبکہ اصل کا اعتبار کرنے سے عام وخاص, جاہل وعالم کسی کے لیے اس کو جاننے میں دشواری نہیں ہوگی۔
لہذا شریعت کے اس عمومی قاعدے سے جمہور اہل لغت کی بات کی ہی تائید ہوتی ہے, اور دانت کو معیار اور اصل ماننا ہی شرعی اصولوں کے موافق ہے۔
🔴 بعض اشکالات اور ان کے جوابات:
1️⃣ یہاں پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جانور کا عمر بھی تو ایسی علامت ہے جسے آسانی کے ساتھ جانا جا سکتا ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ قربانی کے مسئلے میں عمر ایسی ظاہری علامت نہیں ہے جسے سب جان سکیں, کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ قربانی کا جانور بیشتر لوگ (اگر نوے پچانوے فیصد کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو) دوسروں سے خریدتے ہیں, صرف چند گنتی کے لوگ ہی جانور کو بچپن سے پالتے ہیں, کیا ایسی صورت میں جانور کی عمر ظاہری علامت ہو سکتی ہے؟! بازار سے خریدے گئے جانور کی عمر کو کیسے معلوم کریں گے؟!, جبکہ دانت کا اعتبار کریں تو مسئلہ بالکل آسان ہے, آپ ایک نظر میں یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ جانور قربانی کے معیار پر اترتا ہے یا نہیں۔
2️⃣ یہاں ایک اشکال یہ وارد ہو سکتا ہے کہ: زکاۃ کے نصاب میں بعض جانوروں کو عمر سے کیوں مربوط کیا گیا ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ : یہ مذکورہ قاعدے کے عین مطابق ہے, وہ ایسے کہ: زکاۃ کے جانور انسان خود پالتا ہے, اور ان کی عمروں کا اسے پتہ ہوتا ہے, لہذا اس مسئلے میں عمر ظاہری علامت ہے, جسے آسانی کے ساتھ جانا جا سکتا ہے, جبکہ قربانی کے مسئلے میں معاملہ اس کے بر عکس ہے, مزید یہ کہ: وہ جانور جن کا ذکر زکاۃ کے نصاب میں آیا ہے (تبیع, مسنۃ, بنت مخاض وغیرہ وغیرہ) یہ اس طرح کی ظاہری علامتیں نہیں ہیں, جیسی علامت دانت ہے, ان علامتوں کو منضبط کر پانا بہت مشکل امر ہے, جن اہل علم کو ان کی تفاصیل معلوم ہیں, وہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
3️⃣ اس جواب پر ایک سوال یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ: اگر کوئی انسان جانوروں کی تجارت کرتا ہے, اور دوسروں سے جانوروں کو خرید کر بیچتا ہے, تو اسے ان کی عمر کا پتہ کیسے چلے گا, اور وہ زکاۃ کیسے نکالے گا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: تجارت کرنے والے کو جانوروں کی عمر کا پتہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے, کیوں کہ تجارت کے جانوروں کے نصاب میں نہ تو تعداد یکھی جائے گی, اور نہ ہی زکاۃ نکالتے وقت جانور کی عمر, بلکہ یہ تجارت کا مال ہے, جس کی صرف مالیت دیکھی جائے گی, تعداد سے قطع نظر, اگر وہ مالیت نصاب کو پہونچ جائے تو وہ اس میں سے زکاۃ نکالے گا, عمر کی کوئی قید نہیں۔
4️⃣ نصاب زکاۃ میں جانوروں کی عمر سے متعلق ایک بات یہ کہی جارہی ہے کہ شریعت نے (تبیع, بنت مخاض وغیرہ) ذکر کرکے جانور کے وصف کو بیان کیا ہے, لیکن اصل اعتبار وصف کا نہیں ہے, بلکہ اس عمر کا ہے جس میں یہ وصف پایا جاتا ہے, اسی طرح (الثنی) بھی ایک وصف ہے, لہذا اس کا اعتبار نہ کرکے اس عمر کا اعتبار کیا جائے گا جس میں یہ وصف پایا جاتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ: پہلی بات تو یہ کہ جس طرح (تبیع) ایک وصف ہے, اسی طرح عمر بھی ایک وصف ہے, نیز جس طرح (الثنی) ایک وصف ہے, اسی طرح عمر بھی ایک وصف ہے۔
دوسری بات یہ کہ وصف کی دو قسمیں ہیں: وصف مناسب, اور وصف طردی, وصف مناسب وہ وصف ہے جس کے اندر ایسا معنى پایا جائے جس پر شرعی حکم کی بنیاد رکھنا شرعی مصالح ومقاصد کے موافق ہو, اور طردی وہ وصف ہے جس کے اندراس طرح کا معنى نہ پایا جا رہا ہو جس پر شرعی حکم کی بناء رکھی جا سکتی ہو, لہذا ایک ہی وصف کسی مسئلے میں مناسب, اور دوسرے مسئلے میں طردی ہو سکتا ہے (اس کی تفاصیل اصول فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے)۔
اب یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کہاں پر کون سا وصف مناسب, اور کون سا وصف طردی ہے, ظاہر ہے کہ اس کا فیصلہ شریعت کے اصول اور مصالح ومقاصد کی روشنی ہی میں کریں گے, اور مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ قربانی کے مسئلے میں (الثنی) وصف مناسب ہے, اور عمر وصف طردی ہے, اور زکاۃ کے مسئلے میں عمر وصف مناسب ہے, اور تبیع وغیرہ وصف طردی ہے۔
5️⃣ ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے روزے کی فضیلت بیان فرمائی, لیکن ہم اس دن روزہ نہیں رکھتے ہیں جس دن سعودیہ میں یوم عرفہ ہوتا ہے, بلکہ ہم اپنے ملک کے حساب سے نو ذی الحجۃ کو روزہ رکھتے ہیں, معلوم ہوا کہ یوم عرفہ ایک وصف ہے, جس کا اصل اعتبار نہیں ہے, بلکہ اصل اعتبار ہر ملک کا اپنا نو ذی الحجۃ ہے , بالکل اسی طرح (الثنی) ایک وصف ہے, جس کا کوئی اعتبار نہیں, اصل اعتبار عمر کا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ: در اصل اس اشکال کے اندر ہماری بات کی تائید پائی جاتی ہے, اور اس سے ہمارا کام اور بھی آسان ہو جاتا ہے, اس لیے جس نے بھی یہ اشکال پیش کیا ہے, اس کا شکریہ, اللہ تعالى اسے اس کا بہترین بدلہ دے۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ شریعت کے احکام ایسے ظاہری اور محسوس علامات واوصاف سے مربوط ہیں جن کا جاننا یکساں طور پر سب کے لیے آسان ہو, اب آپ یوم عرفہ پر غور کریں, اگر اسے سعودیہ کے یوم عرفہ سے جوڑ دیا جائے تو کیا سب کے لیے اس کو جاننا اور اس پر عمل کرنا ممکن ہوگا؟!
آپ شاید کہیں کہ: وسائل الاعلام کی ترقی کے زمانے میں یہ جاننا کون سا مشکل کام ہے!
میں کہوں گا کہ: جزاک اللہ خیرا, آج سے سو, دو سو, چار سو سال پہلے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا اس وقت لوگوں کو سعودیہ کے یوم عرفہ کا علم ہو سکتا تھا؟! اور شریعت کے احکام تو ہر زمانے کے لیے ہیں! اس لیے ان کو ایسی علامات سے جوڑنا ضروری ہے, جو ہر زمان ومکان, اور ہر طرح کے لوگوں کے لیے یکساں طور پر واضح ہوں, اور یہی وجہ ہے کہ یوم عرفہ کو سعودیہ سے نہ جوڑ کرکے عربی مہینے کی تاریخ سے جوڑا گیا, جس کا علم رؤیت ہلال کے ذریعہ ہر زمانے میں, ہر طرح کے لوگوں کے لیے یکساں طور پر ہو سکتا ہے, اور اس بات سے اختلاف ان لوگوں کو بھی نہیں ہو سکتا جو قربانی کے جانور میں عمر کو اصل مانتے ہیں۔
اب بصد احترام عرض ہے کہ: اشکال پیدا کرنے والے حضرات اپنی اسی بات کو قربانی کے جانور (الثنی) پر چسپاں کرکے دیکھیں, اور یہ بتائیں کہ اگر اسے عمر سے جوڑ دیا جائے , تو کیا یہ ایسے ہی نہیں ہوگا, جیسے یوم عرفہ کو سعودیہ سے مرتبط کر دیا جائے, کیوں کہ جس طرح یوم عرفہ کا علم دشوار بلکہ نا ممکن ہے, اسی طرح قربانی کے جانور کی عمر کا علم ہر شخص کے لیے ممکن نہیں, لہذا اہل لغت نے جو عمر کی بات کی ہے, آپ اس کو اسی طرح کی صفت کیوں نہیں مان لیتے جس طرح کی صفت آپ یوم عرفہ کو مان رہے ہیں, کیوں کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ہم نے شریعت کا یہ اصول جان لیا کہ اس کے احکام ایسی ظاہری اور محسوس علامات واوصاف سے مرتبط ہیں, جنہیں ہر کوئی جان سکتا ہے, لہذا اس کی روشنی میں (الثنی) کو دانت سے ہی مرتبط کرنا شرعی اصول ومقاصد کے عین موافق ہے۔
🔷 دوسرا اصول:
اس دوسرے اصول کی بنیاد پہلے اصول پر ہی ہے, وہ یہ کہ شریعت کے احکام منضبط امور سے مربوط ہیں, جو ہر طرح کے حالات میں منضبط, ہر طرح کے لوگوں کے لیے واضح ہوں, ان احکام کو ایسے امور سے مربوط نہیں کیا گیا ہے جن کا انضباط ہی نہ ہو سکے, اس کی بے شمار مثالوں میں سے آپ رؤیت ہلال اور دخول شہر ہی کے مسئلے کو لے لیجئے, عربی مہینہ اسی وقت شروع ہوگا جب چاند دیکھ لیا جائے, یا تیس دن پورا ہو جائے, یہ ایسا محکم اور منضبط ہے کہ آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہیں, آپ کو کوئی دشواری نہیں ہوگی, اس کے برخلاف اگر اسے فلکی حسابات سے جوڑ دیا جائے تو ہر قدم پر دشواری آئے گی, کیوں کہ ہر جگہ کی رؤیت الگ ہوتی ہے, دخول شہر کو فلکی حسابات سے جوڑنے سے رؤیت کے سلسلے کے سارے نصوص معطل ہو جائیں گے, یہی حال اوقات نماز کا ہے, انہیں ایسی علامتوں سے جوڑ دیا گیا ہے جو سب کے لیے یکساں منضبط ہیں۔
اب آپ غور کریں کہ اگر قربانی کے جانور (الثنی) کا تعلق عمر سے جوڑ دیا جائے تو کیا اس میں انضباط ممکن ہے, ہرگز نہیں, کیوں کہ جب بیشتر لوگ جانور دوسروں سے خریدتے ہیں, تو عمر کا صحیح علم کیوں کر ہو پائے گا, جبکہ اگر اس کا تعلق دانت سے مانا جائے, تو یہ حد درجہ منضبط ہوگا, اور ہر حال میں, ہر انسان کے لیے اس کو جا ننا انتہائی آسان ہوگا۔
اوپر ذکر کی گئی مثال (صوم يوم عرفه) بھی پیش کی جا سکتی ہے, صوم یوم عرفہ کو ہم سعودیہ سے اس لیے نہیں جوڑتے کیوں کہ یہ ہر زمانے, اور ہر طرح کے لوگوں کے لیے منضبط نہیں ہے, جو کو شریعت کے اصولوں کے خلاف ہے, بلکہ شریعت کی آفاقیت پر قدح بھی ہے, اسی لیے شریعت کے اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے ہم اسے طردی وصف مانتے ہیں, بعینہ یہی حال قربانی کے جانور (الثنی) کا ہے, اس کو عمر سے جوڑنا منضبط نہیں ہے, جبکہ دانت سے جوڑنا ہر حال میں منضبط ہے۔
لہذا قربانی کے جانور میں اصل اعتبار عمر کا نہیں بلکہ دانت کا ہے, اور شریعت کے اصول اسی کی تائید کرتے ہیں۔
هذا ما عندی, فإن أصبت فمن الله, وإن أخطأت فمنی ومن الشیطان, والله ورسوله بریئان.
کتبہ : د/ محمد نسیم عبد الجلیل
الجامعۃ المحمدیۃ منصورہ مالیگاؤں