Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • مالداروں کے لئے نفلی صدقہ کا حکم (دوسری قسط)

     اسی طرح علمائے متقدمین ومتأخرین کی ایک بہت بڑی جماعت نے مالداروں کے لئے اس نفلی صدقہ کے استعمال کو جائز کہا ہے۔ ذیل میں بعض فتاوے ملاحظہ فرمائیں:

    الف ۔  ابو الولید الباجی فرماتے ہیں:

    ’’أما صدقة التطوع فتعطي لكل أحد من غني وفقير‘‘

    ’’جہاں تک نفلی صدقہ کا مسئلہ ہے تو یہ مالدار وفقیر سب کو دیا جائے گا‘‘[المنتقی شرح المؤطا:۷/۳۲۰]

    ب۔ ابن حزم فرماتے ہیں:

    ’’والصدقة للتطوع على الغني جائزة وعلي الفقير‘‘

    ’’مالدار کو نفلی صدقہ دینا جائز ہے اور فقیر کوبھی‘‘[المحلی:۸/۱۲۴]

    ج۔  ابو بکر علاء الدین السمرقندی (ت ۵۴۰ھ)فرماتے ہیں:

    ’’أما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني وتحل له وتكون بمنزلة الهبة له‘‘

     ’’جہاں تک نفلی صدقہ کا معاملہ ہے تو اسے مالدار کو دینا جائز ہے۔ اور مالدار کے لئے وہ حلال بھی ہوگا، اور یہ اس کے لئے ہبہ کی مانند ہوگا‘‘[تحفۃ الفقہاء :ص:۳۰۱]

    د۔  کاسانی فرماتے ہیں:

    ’’وأما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجري الهبة‘‘

    ’’اور نفلی صدقہ تو اسے مالدار کو دینا جائز ہے، کیونکہ یہ ہبہ کے قائم مقام ہے‘‘[بدائع الصنائع:۲/۴۷]

    ح۔ ابن قدامہ فرماتے ہیں:

    ’’وكل من حرم صدقة الفرض من الأغنياء وقرابة المتصدق والكافر وغيرهم، يجوز دفع صدقة التطوع إليهم، ولهم أخذها‘‘

    ’’ہر وہ شخص جن کے لئے فرض صدقہ حرام ہے جیسے مالدار، صدقہ کرنے والے کا قریبی رشتے دار، کافر وغیرہ انہیں نفلی صدقہ دینا جائز ہے، اور ان کے لئے قبول کرنا بھی جائز ہے‘‘[المغنی:۲/۴۹۲]

    و۔  ان کے علاوہ بھی ابن عبد البر،امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہم کے اقوال اوپر گزر چکے ہیں، اور اس طرح کے دیگر علماء کے فتاوے بہت ہیں۔ اس کے بالمقابل خاکسار کو متقدمین یا متأخرین علما ء میں سے کسی کا قول نہیں ملا جنہوں نے مالداروں کے لئے اس نفلی صدقہ کو ناجائز کہا ہو۔

    البتہ اس مسئلہ میں بعض ایسے اشکالات ہیں جن سے کسی کو یہ وہم یا غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ مالداروں کے لئے نفلی صدقہ جائز نہیں۔ ذیل میں ان اشکالات کا ازالہ کیا جارہا ہے اور ان کا مختصرا ًجائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

    ۱۔   صدقہ کے حقدار نادار محتاج لوگ ہیں، نہ کہ اہل دولت وثروت۔   نبی ﷺ نے فرمایا:

    ’’تؤخذ من أغنياء هم فترد علٰي فقراء هم‘‘

    جائزہ:  اس حدیث میں جس صدقہ کا حقدار فقراء ومساکین کو کہا گیا ہے وہ نفلی صدقہ نہیں ہے، بلکہ بالاتفاق فرض  زکات ہے جو کہ اسلام کا ایک رکن ہے۔ جس کے لئے نصاب متعین ہے، اور جس کا کھانا مالداروںکے لئے بالاجماع جائز نہیں۔ یہ در اصل حدیث معاذ کا ایک ٹکڑا ہے، اور حدیث معاذ میں بالکل واضح ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں ارکان اسلام کی تعلیم دی تھی اور اہل یمن کے مابین اس کی نشر واشاعت کا حکم دیا تھا۔ 

    لہٰذا زکات کے مصرف میں وارد شدہ حدیث سے نفلی صدقہ کا بھی مالداروں کے لئے حرام ہونے پر استدلال کرنا قطعاً صحیح نہیں۔ 

    ۲۔   ایک آدمی نے رات کی تاریکی میں ایک مالدار کو صدقہ دے دیا تو کہا گیا:’’تصدق علی غنی‘‘ یہ تعجب اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مستحق نہ تھا اسی لئے تو اسے دینے پر اظہار تعجب کیا گیا ۔

    جائزہ:

    الف ۔  مذکورہ جملہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی قدرے طویل حدیث کا ایک مختصر ٹکڑا ہے۔ پوری حدیث اس طرح ہے:  آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک شخص نے کہا:مجھے ضرور صدقہ دینا ہے، پس وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور ایک چور کو اپنا صدقہ دے دیا، صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج کسی نے چور کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا:اے اللہ تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں۔ آج مجھے پھر ضرور صدقہ کرنا ہے۔ چنانچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور ایک فاحشہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ جب صبح ہوئی تو پھر چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا: اے اللہ تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں، میں زانیہ کو صدقہ دے آیا۔ اچھا آج پھر صدقہ کروں گا ، پھر اپنا صدقہ لے کر نکلا اور ایک مالدار کے ہاتھ میں دے آیا۔ صبح پھر لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج کسی نے ایک مالدار کو اپنا صدقہ دے دیا ہے۔ اس شخص نے کہا:اے اللہ تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں، میں چور، زانیہ اور مالدار کو اپنا صدقہ دے آیا۔ اسے کہا گیا:تم نے جو چور کو صدقہ دیا ہے ہو سکتا ہے اس سے وہ چوری سے رک جائے۔ زانیہ ہو سکتا ہے زنا سے رک جائے، اور مالدار ہو سکتا ہے عبرت پکڑے اور اللہ تعالیٰ نے جو اسے مال دیا ہے اس سے خرچ کرنے لگے۔ [صحیح بخاری:۱۴۲۱، وصحیح مسلم:۱۰۲۲]

    یہاں صدقہ کرنے والے نے تین لوگوں کو اپنے صدقے کا مال دیا اور تینوں پر اظہار تعجب کیا گیا۔سوال یہ ہے کہ یہ اظہار تعجب کیا حرمت کی دلیل ہے؟

    اگر اسے حرمت کی دلیل مان لیا جائے تو چور اور زانیہ کو صدقہ کا مال دینا بھی حرام قرار پائے گا حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں۔

    علامہ ابن بطال المالکی رحمہ اللہ (متوفی۴۴۹ھ)فرماتے ہیں:

    ’’أما الصدقة على السارق والزانية، فإن العلماء متفقون أنهما إن كانا فقيرين فهما ممن تجوز له الزكاة‘‘

    ’’جہاں تک چور اور زانیہ کو صدقہ دینے کا مسئلہ ہے تو علما ء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر دونوں فقیر ہوں تو ان کے لئے زکوٰۃ جائز ہے‘‘[شرح صحیح البخاری لابن بطال:۳/۴۲۳]

    اور اسی طرح کا اتفاق ابن الملقن نے بھی اپنی صحیح بخاری کی شرح میں نقل کیا ہے۔دیکھیں:[التوضیح :۱۰/۳۰۰]

     لہٰذا اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مالدار کو صدقہ کا مال دینا حرام ہے۔ ہاں زیادہ سے زیادہ اس کا سیاق خلاف اولیٰ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ 

     ب۔    اگر کوئی اس سے مالدار کو نفلی صدقہ دینے کی حرمت پر استدلال کرنا بھی چاہے پھر بھی اس کا یہ استدلال صحیح نہ ہوگا کیونکہ یہ حدیث نفلی صدقہ کے سلسلے میں نہیں ہے، بلکہ اس میں واجب صدقہ کی بات کی گئی ہے۔ اور واجب صدقہ کا مالدار کے لئے حرام ہونے پر کوئی کلام نہیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ خصوصی طور پر اس حدیث کا سیاق حرمت پر دلالت نہیں کرتا، اس کی حرمت کے دلائل دوسرے ہیں، یہ حدیث نہیں۔)

    جو اس حدیث کو نفلی صدقہ پر محمول کرتے ہیں ان پر رد کرتے ہوئے علامہ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    ’’وزعم بعضهم أن هذا كان فى صدقة التطوع‘‘

    ’’بعض لوگوں کا گمان ہے کہ یہ واقعہ نفلی صدقے کا تھا‘‘ [التوضیح:۱۰/۳۰۱]

    دیگر شارحین نے بھی اسے واجب صدقہ پر محمول کرتے ہوئے یہ بحث کی ہے کہ فرض زکات اگر کسی غیر مستحق کو دے دی جائے تو وہ زکات دینے والے کی طرف سے کافی ہوگا یا نہیں۔ لہٰذا اس سے نفلی صدقہ پر استدلال بالکل درست نہیں۔ واللہ اعلم۔

    ۳۔  اللہ تعالیٰ نے واضح طور سے صدقہ کو مسکینوں کا ہی حق قرار دیا ہے۔ فرمایا:

    ’’” إن تبدو الصدقات فنعما هي وإن تخفوها وتؤتوها الفقراء فهو خير لكم‘‘، اور اس میں نفلی صدقہ کی بات کی گئی ہے۔

    جائزہ:  اس آیت میں بھی مالداروں کو نفلی صدقہ دینے کے عدم جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس میں افضل مصرف کی طرف رہنمائی ہے بس، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنا نفلی صدقہ کسی فقیر اور محتاج کو دینا کسی مالدار کو دینے کی بنسبت زیادہ بہتر ہے ۔ 

    امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    ’’تَحِلُّ صَدَقَةُ التَّطَوُّعِ لِلْأَغْنِيَاء ِ بِلَا خِلَافٍ فَيَجُوزُ دَفْعُهَا إلَيْهِمْ وَيُثَابُ دَافِعُهَا عَلَيْهَا وَلَكِنَّ الْمُحْتَاجَ أَفْضَلُ‘‘

    ’’مالداروں کے لئے بلا اختلاف نفلی صدقہ حلال ہے، لہٰذا انہیں نفلی صدقہ دینا جائز ہے، اور دینے  والا ثواب کا حقدار ہوگا، لیکن حاجت مند کو دینا بہتر ہے‘‘[المجموع شرح المہذب:۶/۲۳۹]

    ۴۔   صدقہ اور ہدیہ میں فرق کیا گیا ہے:’’ھو علیھا صدقۃ ولنا ھدیۃ‘‘

    جائزہ:  اس حدیث میں جس صدقہ کی بات کی گئی ہے وہ نفلی صدقہ نہیں، بلکہ اس سے مراد زکات ہے، کیونکہ آپ ﷺ اور آپ کے آل پر زکات حرام تھی، نفلی صدقہ نہیں۔

    حدیث:’’لا تحل الصدقۃ لآل محمد‘‘

    ’’آل محمد کے لئے صدقہ حلال نہیں‘‘کی شرح کرتے ہوئے ابن قاسم المالکی فرماتے ہیں:

    ’’ذالك فى الزكاة المفروضة‘‘

    ’’یہ حکم فرض صدقہ کا ہے‘‘دیکھیں:[الجامع لمسائل المدونہ لابی بکر یونس التمیمی:۲۴/۱۳۵]

    ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    ’’وأجمعوا أن صدقة التطوع حلال لبني هاشم جد محمد صلى اللّٰه عليه وسلم إلا أحمد بن محمد الأزدي فإنه منع من ذالك‘‘

     ’’علما ء کا اس بات پر اجماع ہے کہ نفلی صدقہ بنی ہاشم (جو کہ محمد ﷺکے جد امجد ہیں)کے لئے حلال ہے، صرف احمد بن محمد الازدی نے اس سے منع کیا ہے، اور کسی نے نہیں‘‘[الاقناع فی مسائل الاجماع:۱/۲۲۵]

    اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    ’’لَا يَحْرُمُ عَلٰي آلِ مُحَمَّدٍ صَدَقَةُ التَّطَوُّعِ إنَّمَا يَحْرُمُ عَلَيْهِمْ الصَّدَقَةُ الْمَفْرُوضَةُ‘‘

    ’’آل محمد پر نفلی صدقہ حرام نہیں، ان پر صرف فرض صدقہ حرام ہے۔

    آگے فرماتے ہیں:

    ’’وَتَصَدَّقَ عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ عَلٰي بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ بِأَمْوَالِهِمَا، وَذَالِكَ أَنَّ هَذَا تَطَوُّعٌ، وَقَبِلَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْهَدِيَّةَ مِنْ صَدَقَةٍ تُصُدِّقَ بِهَا عَلٰي بَرِيرَةَ، وَذَالِكَ أَنَّهَا مِنْ بَرِيرَةَ تَطَوُّعٌ لَا صَدَقَة‘‘

    ’’علی اور فاطمہ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب پر اپنا مال صدقہ کیا کیونکہ یہ نفلی تھا۔ اور نبی ﷺ نے بریرہ کا وہ ہدیہ قبول کیا جو ان پر صدقہ کیا گیا تھا، اس لئے کہ یہ بریرہ کی طرف سے نفلی (صدقہ)تھا، (فرض)صدقہ نہ تھا‘‘[الام:۲/۸۸]

    دوسری بات:  اگر اس حدیث میں موجود لفظ ’’صدقہ‘‘کو نفلی صدقہ پر محمول کیا جائے پھر بھی آپ ﷺ پر قیاس کرتے ہوئے دوسرے مالدار امتیوں کے حق میں نفلی صدقہ کا استعمال ناجائز نہ ہوگا۔ کیونکہ اس باب میں آپ ﷺ اور آپ کے آل پر دوسروں کو قیاس کرنا صحیح نہیں۔ اگر آل محمد میں کوئی زکات جمع کرنے والا ہو پھر بھی بطور اجرت زکات سے ان کے لئے کچھ لینا جائز نہیں۔ جیسے کہ آپ ﷺ نے اپنے غلام ابو رافع کو اس سے منع کیا تھا۔ (اسے امام ترمذی (حدیث نمبر:۶۵۷)، امام نسائی (حدیث نمبر:۲۶۱۲)وغیرہ نے بسند صحیح روایت کی ہے، اور شیخ البانی رحمہ اللہ  نے ارواء الغلیل (حدیث نمبر:۸۸۰)میں اسے صحیح کہا ہے۔)

    جب کہ دوسرے مالداروں کے لئے اس صورت میں یہ جائز ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

    {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا} [التوبه:۶۰]

    لہٰذا اگر اسے نفلی صدقہ پر بھی محمول کیا جائے پھر بھی یہ حدیث مالدار امتیوں کے حق میں نفلی صدقہ کے عدم جواز کے لئے دلیل نہ ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہوگی کہ اہل بیت کے لئے نفلی صدقہ بھی جائز نہیں جیسے کہ بعض علما کا کہنا ہے، جب کہ اکثر وبیشتر علما ء کی رائے یہ ہے کہ اہل بیت کے لئے صرف زکات ناجائز ہے، نفلی صدقہ  نہیں، بلکہ ابن القطان الفاسی نے تو اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جیسا کہ گزرا۔

    ۵۔  صدقہ کے لغوی معنی میں مسکین شامل ہے، یعنی یہ مسکینوں کے لئے ہی ہے، اس میں مالدار شامل نہیں ہیں۔

    جائزہ:  شروع میں بیان کیا گیا ہے کہ صدقہ کا اطلاق کبھی عمومی معنی میں ہوتا ہے جس میں امیر وغریب کا کوئی فرق نہیں، اور کبھی خصوصی معنی میں، اور خصوصی معنی میں بھی یہ کبھی واجب صدقہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جو مسکینوں کے لئے ہے، اور کبھی نفلی صدقہ کے لئے جس میں امیر وفقیر سب شامل ہوتے ہیں۔

    صدقہ کے لغوی معنی میں مسکین کا شامل ہونا ان کے لئے حصر کی دلیل نہیں، بلکہ شریعت نے اس لغوی معنی کا کس جگہ کتنا اعتبار کیا ہے یہ ہمارے لئے دلیل ہے۔ اور اوپر دلائل سے بیان کیا گیا ہے نفلی صدقہ کے باب میں شریعت نے کہیں پر اسے مسکین کے لئے خاص نہیں کیا ہے، یا بالفاظ دیگر امراء کے لئے ناجائز نہیں کہا ہے، اس لئے اس لغوی معنی سے استدلال کرتے ہوئے نفلی صدقہ کو امراء کے لئے ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔

    ۶۔  حدیث:’’<.span>لا حظ فيها لغني ولا لقوي مكتسب‘‘

    اور حدیث:’’ لَا تحل الصَّدَقَة لَغَنِی، وَلَا لذِی مرّة سوی‘‘

    جائزہ:  اس حدیث میں بھی لفظ ’’فیہا‘‘یا لفظ’’صدقہ‘‘سے مراد نفلی صدقہ نہیں، بلکہ زکات ہے۔

    امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    ’’التطوع من الصدقات لم يدخل فى معنى قول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم:لا تحل الصدقة لغني، ولا لذی مرة سوی، وأن ذالك إنما عنی به الصدقة المفروضة التى فرضها اللّٰه فى أموال الأغنياء لأهل سهمات الصدقة فى بعض الأحوال‘‘

    ’’نفلی صدقے رسول اللہ ﷺکے اس قول:کسی مالدار یا طاقتور مضبوط شخص کے لئے صدقہ حلال نہیں میں داخل نہیں ہوں گے۔ اس لئے کہ اس سے مراد فرض صدقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مالداروں کے مال میں بعض حالتوں میں اہل سہام کے لئے فرض کیا ہے‘‘[تہذیب الآثار۔ الجزء المفقود: ص:۴۱۳]

    اور علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    ’’هذا الخبر وكل ما جاء بهذا اللفظ فإنما هو على الصدقة المفروضة التى حرمت على الأغنياء ‘‘

    ’’یہ حدیث اور ہر وہ حدیث جو ان الفاظ سے مروی ہو اس سے مراد فرض صدقہ ہے جو کہ مالداروں پر حرام ہے‘‘[المحلی:۸/۱۲۵]

    اور ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    ’’وقوله: لا تحل الصدقة لغني إلا لخمسة يريد الصدقة المفروضة، وأما التطوع فغير محرمة على أحد غير من ذكرنا على حسب ما وصفنا فى هذا الباب، إلا أن التنزه عنها حسن، وقبولها من غير مسئلة لا بأس به، ومسئلتها غير جائرة إلا لمن لم يجد بدًا‘‘

    ’’حدیث کا لفظ :’’مالدار کے لئے صدقہ حلال نہیں سوائے پانچ لوگوں کے‘‘ سے مراد فرض صدقہ ہے۔ جہاں تک نفلی صدقہ کی بات ہے تو وہ کسی پر حرام نہیں سوائے ان کے جن کا تذکرہ اس باب میں گزرا یعنی بنو ہاشم کا مسئلہ، ہاں اس سے بچنا بہتر ہے۔ اور بغیرمانگے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور مانگنا جائز نہیں سوائے ان لوگوں کے جن کے لئے مانگنا ضروری ہو‘‘[التمہید :۳/ ۱۰۰]

    اور ابن قاسم العاصمی فرماتے ہیں:

    ’’(قال صلى اللّٰه عليه وسلم:لا تحل الصدقة) أى الزكاة المفروضة (لغني) إجماعا‘‘

    ’’آپ ﷺ نے فرمایا:صدقہ حلال نہیں یعنی فرض زکات جو کہ مالدار کے لئے بالاجماع حلال نہیں‘‘[الاحکام شرح اصول الاحکام لابن قاسم:۲/۱۸۸]

    ان تمام مذکورہ دلائل اور علمائے کرام کے فہم سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مالداروں کے لئے نفلی صدقہ کا استعمال بلا شبہ جائز ہے۔

    هذا ما ظهر لي والعلم عند الله، فهو اعلم، وعلمه اتم واحكم۔

    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings