Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اے اہل ِنظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

    تجزیہ و تحلیل عقل وفکرکی ذہنی ریاضت کا نام ہے،احوال وظروف کی نباضی اور آثار وقرآئن کی دیدہ ریزی مبصر کو ایسے حقائق سے روبرو کراتی ہے جن سے ظاہر بین نگاہیں محروم ہوتی ہیں،لیکن ذہن رسا کو ایک منطقی نتیجے تک پہنچنے کے لیے اعتدال وانتہا کے درمیان کی حد فاصل کا ادراک بھی ہونا چاہیے،وگرنہ اندھیرے میں تیر چلانا اور ریت کے گھروندوں پر اترانا فراست اور دانشوری نہیں ہے،بہتیرے لوگ اس فکری مشق کے ذریعے صحیح نتیجے تک پہنچتے ہیں،وہ غیرمعمولی حالات کے تانے بانے میں پوشیدہ رموز کو پا لیتے ہیں،ان سے ارباب نظر نہ صرف مستفید ہوتے ہیں بلکہ ان کی رہنمائی انسانیت کو قبل ازوقت ممکنہ نشیب وفراز سے آگاہ بھی کرتی ہے،اس کی مثالیں تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں، تقسیم کے واقعے پر مولانا آزاد رحمہ اللہ کے تجزیے اور پیش گوئیاں آج حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں،ان کا ہرتجزیہ مسلمہ صداقت بن چکا ہے،اسی بنا پر وہ بزبان خود کہتے تھے کہ تم پانی اور کیچڑ کو دیکھ کر کہتے ہو کہ بارش ہوئی ہے میں ہواؤں میں سونگھ لیتا ہوں کہ بارش ہونے والی ہے۔
    تاریخ ایسی ذکی الحس ہستیوں سے بھری پڑی ہے جن کی نگاہ بصیرت مستقبل کے تیور اور ممکنہ تبدیلیوں کو تاڑ لیتی تھی،انہوں نے اپنی مجتہدانہ بصیرت سے قوم وملت کو فیض پہنچایا،خطروں سے آگاہ کیا،لیکن ماضی میں یہ جسارت وہی اذہان کرتی تھیں جو اس کی اہل ہوتی تھیں،لیکن موجودہ دورمیں فقہ الواقع کے نام نہاد مجتہدین نے منظر نامہ یکسر تبدیل کردیا ہے،اب سطحی اندازوں اور بے بنیاد واہموں کو تجزیہ اور پیشن گوئی کے نام پر صفحات پر صفحات انڈیلا جارہا ہے، آئے دن لوگ سستی شہرت کے لیے اپنے خام تجزیوں کی بنا پر ایسی پیشن گوئیاں کررہے ہیں کہ انسان حیران وششدر رہ جائے،پھر اسے حقیقت پر محمول کرکے شیئر در شیئردنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنا رے تک پہنچا دیاجاتا ہے،زیادہ تر تحریریں سنسنی خیز اور دور ازکار خدشات پر مبنی ہوتی ہیں،موہوم خدشات کے سائے میں لوگ حالات کو اسی تناظر میں دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔
    سچ یہ ہے کہ ایسی تحریریں کہیں نہ کہیں منطقی طور پر ایسے مخدوش حالات وخطرات کے لیے راہ ہموار کرتی ہیں جو وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتے،جان لیجیے کہ یہ معاملہ ان فقہی مسائل سے میل کھاتا ہے جو واقع تو نہیں ہوتے لیکن ان کا حکم قبل ازوقت ہی بیان کردیا جاتا ہے،جس سے شریعت منع کرتی ہے،بعینہٖ ہم نے ایسے دورازکار اور خوفناک قسم کے بعیدالوقوع تجزیے بھی پڑھے ہیں جن پر ماہ وسال کی گرد جم گئی ہے،اب تجزیہ کاروں کی وہ پیشن گوئیاں شرمندہ تکمیل ہونے سے رہیں،لیکن ان کے منفی اثرات کی قیمت کون ادا کرے گاجو اس تجزیے کے نتیجے میں انسانی دل ودماغ اور صحت کو لاحق ہوئے اور اس جھوٹ کا خمیازہ کون بھرے گا جس نے ذہنوں کو گمراہ کیااورخوف کی نفسیات کا انسانوں کو مریض بنایا،مایوسی کی وہ کہر کیسے چھٹے گی جسکاپیداہونا فطری تھا،ضروری تھا کہ وقت آنے پر ایسی تحریروں کو منظر عام پر لا کر ان کے جھوٹ اور غلط بیانی کو بے نقاب کیا جاتا،اس پر رد لکھا جاتا،لیکن وقت گزرنے پر کوئی بھی ان کی خبر نہیں لیتاہے۔
    یہ ایک فیشن بن چکا ہے کہ کسی مضطرب دماغ کو شرارت سوجھتی ہے اور وہ دریا کی خاموش سطح پر ہلچل برپا کرجاتا ہے،اپنے مفروضات کی بنیاد پر انسانوں کے مستقبل کا فیصلہ سنانے لگتا ہے اور اپنے لا یعنی وساوس کے لیے ذخیرۂ احادیث کو بھی مشق ستم بنانے سے نہیں چوکتا ،جی ہاں سیاسی مقاصد اور دنیوی جولانگاہوں سے نکل کر یہ مخصوص داؤ پیچ دینی حقائق پر بھی ہاتھ صاف کرنے لگتا ہے، ،مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب اوبامہ امریکہ کا صدر چن کر آیا تھا تو ایک ایسی ہی دھماکہ خیز تحریرمنظر عام پر آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ وہی حبشی ہے جو خانۂ کعبہ کو منہدم کرے گا اور جس کی پیشن گوئی حدیثوں میں کی گئی ہے ،پھر بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ حدیث میں بیان کیے گئے علامات کو نہ صرف اوبامہ کی شباہت پر چسپاں کیا گیا تھا بلکہ اس کے شجرۂ نسب کو بھی کھینچ تان کر متعلقہ مفہوم تک پہنچا دیا گیا تھا،پھر کیا تھا؟مضمون کی کاپیاں کار ثواب سمجھ کر بانٹی جارہی تھیں تاکہ خانۂ خداکو انہدام سے بچایا جاسکے۔
    دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ عراق و افغانستان پر امریکی حملے کو فقہ الواقع کے ایکسپرٹ پورے یقین کے ساتھ قرب قیامت کی جنگوں پر محمول کررہے تھے اور ’’کتاب الملاحم ‘‘کی حدیثوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر ان واقعات پر چسپاں کررہے تھے،ابھی کورونا بحران کے دور میں ویکسین کے حوالے سے جس انداز کی تحریریں اور تجزیے سوشل میڈیا پر گردش کررہے تھے اور ویکسین میں چِپ کی بات کہہ کر ایک ہولناک دجالی نظام کی آمد آمد کی بات کہی جارہی تھی،اسے پڑھ کر محسوس ہورہا تھا کہ یہ لوگ دجّال کا تفصیلی انٹرویو لے کر یہ سطور سپرد قلم کررہے ہیں،اب پتہ نہیں وہ خفیہ چِپ کہاں کہاں پہنچائی جارہی ہے کیونکہ ہر ملک ویکسین کی تیاری میں لگا ہوا ہے،بیماری کو خطرناک سازش کہہ کر جس طرح کے انکشافات کیے جارہے تھے وہ پڑھ کر پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی محسوس ہورہی تھی،ملک کو اسپین بنا نے کی بات اور ایک طویل مسلم نسل کشی کے خطرناک منصوبے تو پرانے ہوگئے،سی اے اے اور این آر سی پر بھی یہ طبقہ اپنا مخصوص راگ الاپ رہا ہے اور چیزوں کو بڑھا چڑھا کر دکھا رہا ہے،دراصل ایک طبقہ ہے جو اپنے مخصوص عینک سے ہر واقعے کو دیکھتا ہے،سنسنی خیز انکشافات کے ذریعہ اپنے تیز طرار قلم ،سیاسی بالغ نظری اور بصیرت کا لوہا منوانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ملکی و عالمی سیاست کے اصل کھلاڑی ہم ہیں باقی لوگ حیض ونفاس اورطہر وغسل کے مفتی ہیں۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کی فکری تفریح اور قلمی شوخی کی کھلی اجازت ہے؟ یا اس کے کچھ حدود اور معیار بھی ہیں؟کیاصحافتی ضابطوں کا اطلاق اس قسم کی تحریروں پر نہیں ہوتا؟کیا صحیح اور غلط اور سچ وجھوٹ کا اعتباراس کوچے میں نہیں پایا جاتا؟ یا پھر ہر کوئی اپنے وساوس اور ہوائی خیالات کو دانشوری اور پیش گوئی کے نام سے جگہ جگہ انڈیلنے پر آزاد ہے،کیا صحافتی اخلاقیات میں قلم کے لیے حزم واحتیاط کادرس نہیں ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی ہر قید و بند سے آزادبدنام زمانہ میڈیا کے نقش ِقدم پر چلنے لگے ہیں اور خدمت انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر کسب ِدنیا، سستی شہرت اور مکر وفریب کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے،ایسے ہی لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے۔
    اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خُوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings