Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • توبہ اور استغفار میں فرق

    اللہ تعالیٰ کی (بندگی ) بندے کے لیے سب سے بڑا شرف ہے۔ بندگی میں کمی بیشی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ سے دوری بھی ہو جاتی ہے، مگر توبہ واستغفار سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کی جا سکتی ہے۔
    (توبہ ؍استغفار ) دو عظیم عبادتیں ہیں، نماز روزہ کی طرح دو جدا جدا عبادتیں ہیں، یہ فرق معلوم ہوگا تبھی یہ ممکن ہوگا کہ ہم نے توبہ بھی کی، استغفار بھی کیا ہے۔
    توبہ اور استغفار میں فرق:
    یہ سوال اور یہ عنوان محض اس لیے ہی نہیں کہ ان دو عبادتوں کے فرق سے با خبر رہیں بلکہ اس لیے بھی کہ غیر شعوری طور پر دو الگ الگ عبادتوں کو ایک سمجھ کر (عبادت ) میں ہم ناقص نہ رہیں۔
    مدارج السالکین سے ایک اقتباس:
    پانچویں صدی ہجری کے ایک عالم ابو اسماعیل عبد اللہ بن محمد الانصاری الحنبلی (ت ۴۸۱ھ)ہیں،انہوں نے ایک کتاب ’’منازل السائرین‘‘تصنیف کی ہے، اس کتاب میں ۱۰۰منازل ذکر کیے گئے ہیں، جس سے منزل بمنزل تدریجاً طے کرکے بندہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے۔
    حافظ ابن قیم الجوزیہ (ت۷۵۱ھ) رحمہ اللہ نے مذکورہ کتاب کی شرح ’’مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين‘‘ کے نام سے کیا ہے۔
    اس کتاب’’مدارج السالکین:۱؍۵۴۲ ‘‘سے ہی ایک اقتباس کچھ تصرف سے پیش کروں گا۔
    غور کریں! قرآن میں جہاں اللہ تعالیٰ استغفار کا مفرد حکم فرمائے ہیں وہاں استغفار ( توبہ )کو شامل ہے۔
    مثلاًچند آیات ملاحظہ کریں:
    نوح علیہ السلام کا اپنی قوم سے کہنا: {اِسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا} [نوح:۱۰ ]
    صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو عذاب کی جلدی کرنے پر نصیحت کرتے ہوئے کہا:
    {لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} [النمل:۴۶ ]
    اسی طرح (البقرۃ:۱۹۹) میں امور حج بیان کرنے کے بعد استغفار کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا: {وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ}
    مذکورہ سبھی آیتوں میں مجرَّد استغفار کا حکم ہے مگر ( توبہ ) اس میں داخل ہے۔
    بیشتر آیات میں استغفار اور توبہ کو مقروناً یعنی ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ یہ دو الگ الگ عبادتیں ہیں۔
    استغفار کا تعلق گزرے ہوئے ایام سے ہے جب کہ توبہ آنے والی گھڑیوں سے متعلق ہے۔
    اللہ تعالیٰ نے (سورۃ ھود ) کے آغاز اور وسط میں بیان فرمایا:
    {وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ} [ہود:۳ ]
    اسی سورت میں ہود علیہ السلام کی زبانی: {وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ} [ہود:۵۲ ]
    اور صالح علیہ السلام کا یہ قول: {فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُجِيبٌ} [ہود:۶۱ ]
    اور آخر میں شعیب علیہ السلام کی دعوت کا ایک قطعہ یہ بھی ذکر کیا گیا: {وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ} [ہود:۹۰ ]
    ان سبھی آیات میں (استغفار ) کے ساتھ (توبہ ) کا الگ سے ذکر ہے۔
    دو گناہ:
    یہ سمجھ لیں کہ انسان سے ایک گناہ ہو چکا ہے اس کے لیے (استغفار )ہے، اور بحیثیت ِبشر مستقبل میں کسی گناہ کے ارتکاب کا خوف بھی دامن گیر ہے ایسے میں (توبہ ) اس کو مستقبل میں- باذن اللہ – محفوظ رکھے گا۔
    تنبیہ:
    (استغفار ) کا معنی سمجھنے میں چوک نہیں ہونی چاہیے، چوک کیسے ہوسکتی ہے؟
    ( غَفَرَ ) کا معنی!
    عربی زبان میں (غَفَرَ) کا معنیٰ بھلے ہی (اَلسِّتْرُ ) ہو مگر شرعاً اس میں ایک زائد معنی ایک زائد وصف بھی ہے۔
    اس لیے کہ ( غفران )کا معنیٰ محض کسی گناہگار کی ستر پوشی (پردہ ڈالنا ) ہی ہے تو یہ اہل ایمان کے لیے خاص نہیں ہے، مومن کے ساتھ کافر، فرمانبردار اور نا فرمان دونوں کی اللہ تعالیٰ ستر پوشی کرتے ہیں، اس لیے لفظ (غَفَرَ ) میں صرف ستر پوشی ہی نہیں بلکہ (الوِقَایۃُ) کا مرادی معنی بھی آتا ہے۔
    یعنی اللہ تعالیٰ کا کسی نافرمان بندے کے حق میں صرف ستر پوشی نجات کے لیے کافی نہیں ہے ستر پوشی کے ساتھ اسی عذاب سے بچا لیا جانا اصل ہے۔
    جی ہاں! (ستر) لفظ (غَفَرَ ) کا لازمی حصہ ہے۔
    ایک مثال: عربی زبان میں (اَلْمِغْفَرُ) خَود یعنی سر پر پہنی جانے والی لوہے کی ٹوپی کو کہا جاتا ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاری:کتاب اللباس، باب المغفر۔رقم:۵۸۰۸ ]
    اب دھیان دیں سر پر کوئی بھی کپڑا ہو تو اسے (مِغفر) نہیں کہا جاتا۔
    مثلاً: سر پر (عِمامۃ ) باندھا جاتا ہے، یا عام ٹوپی پہنی جاتی ہے اس میں (ستر ) کا معنی ضرور ہے مگر میدان جنگ میں (اَلْوِقَایَۃُ ) کی صفت اس میں قطعاً نہیں ہے۔
    یہیں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے (استغفار ) میں صرف ستر پوشی نہیں بلکہ عذاب سے نجات بھی مقصود ہونا چاہیے۔ یہ کب ہوگا؟ اس کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
    اس بارے میں یہی بات ہے کہ جب ہم (اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ) کا ورد کرتے ہیں تو صرف یہ معنی نہیں لینا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے سیئات پر پردہ ڈال دے، بلکہ یہ معنی مراد ہونا چاہیے کہ:
    ۱۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سیئات کو ختم کردے۔
    ۲۔ حسنات سے بدل دے۔
    ۳۔ آنے والی زندگی میں جو گناہ ہوگا اس سے اور دیگر گناہوں سے محفوظ رکھے۔
    ۴۔ استقامت عطا کرے۔ غیرہ۔
    کیوں کہ (ستر پوشی ) تو یوں ہی ہو جاتی ہے مگر وہ خاص نہیں ہے اہل ایمان کے لیے، نجات ملنا وہ اصل ہے اوروہ (استغفار اور توبہ ) سے ہی ممکن ہے۔
    خلاصہ: (اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ) کہتے ہیں تو اس میں (وَأَتُوْبُ إِلَیْہِ)کا معنی لازمی آتا ہے وہ ہمارے شعور میں ہونا چاہئے۔
    جب کہ (اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَأَتُوْبُ إِلَیْہِ) ایک ساتھ ملاکر پڑھتے ہیں تو بات زیادہ واضح رہتی ہے جس کا معنی بقول ابن القیم:
    الاستغفار:’’طَلَبُ وِقَایۃِ شَرِّ مَا مَضَی‘‘’’ماضی کی برائیوں اور گناہوں سے محفوظ رہنے کی دعا کرنا ‘‘
    التوبة:’’الرُّجُوعُ وَطَلَبُ وِقَايةِ شَرِّ مَا يَخَافُهُ فِي المُسْتَقْبِلِ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِهِ‘‘
    ایک کلمہ میں کہنا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں:
    (استغفار ) پچھلے گناہ سے مفارقت اور ( توبہ ) مفارقت کے فوراً رجوع الی اللہ۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings