Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • صلہ رحمی (قرابت داروں کے حقوق )

    ترجمانی: رضوان اللہ عبد الرؤف سراجی

    اللہ کے بندو ! ہر انسان کے قریبی اس کے قرابت دار ہوا کرتے ہیں جیسے ماں باپ ، بیٹا بیٹی اور ہر وہ شخص جو انسان اور ان کے مابین ہو، وہ ماں کی طرف سے ہو یا باپ کی طرف سے ، بیٹے کی طرف سے ہو یا بیٹی کی طرف سے ۔[الضیاء اللامع:ص:۵۰۵]
    ویسے بیشتر لوگ تو قرابت داروں کے معاملے میں سستی سے کام لیتے ہیںاسی لیے وہ اپنے قرابت داروںکو اہمیت نہیں دیتے بلکہ ان سے الگ تھلگ رہتے ہیں اور انہیںاس کی کوئی پروا ہ نہیں ہوتی ہے حالانکہ دین اسلام میں قرابت داروں کا بڑا مقام ہے، اس کی وضاحت مندرجہ ذیل دلائل سے ہوتی ہے ۔
    صلہ رحمی کی اہمیت : اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِي تَسَاء َلُونَ بِهِ وَالْاَرْحَامَ}
    ’’اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو‘‘ [النساء:۱]
    ’’وَ الْاَرْحَامَ ‘‘کا مفہوم بتاتے ہوئے مفسرین لکھتے ہیں : ’’وَاتَّقُوا الْاَرْحَامَ اَنْ تَقْطَعُوهَا‘‘’’رشتے نا طے توڑنے سے بچو‘‘[تفسیر القرطبی : ۵؍۲ ،تفسیر الطبری :۴؍۲۲۷ ، تفسیر إبن کثیر : ۱؍۴۴۹ ، جامع البیان :۴؍ ۲۲۷]
    اور اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :
    ’’الرَّحِمُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَقُولُ مَنْ وَصَلَنِي وَصَلَهُ اللّٰهُ، وَمَنْ قَطَعَنِي قَطَعَهُ اللّٰهُ رحم ‘‘
    ’’رحم(رشتہ نا تا )عرش سے لٹکی ہوئی ہے اور کہتی ہے کہ جو مجھ کو ملائے گااللہ اس کو ملائے گا اور جو مجھ کو کاٹے گااللہ اس کوکاٹے گا‘‘
    [صحیح مسلم :۲۵۵۵]
    ایک اورجگہ اللہ کے رسول ﷺفر ماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    ’’اَنَا اللّٰهُ، وَاَنَا الرَّحْمٰنُ، خَلَقْتُ الرَّحِمَ، وَشَقَقْتُ لَهَا مِنَ اسْمِي، فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ ‘‘
    ’’میں اللہ ہوں اور میں ہی رحمن ، میں نے رحم (رشتے داری) کو پیدا کیا ہے اور میں نے اسے اپنے نام سے نکالا ہے جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا ‘‘
    [جامع الترمذی:۱۹۰۷، المستدرک علی الصحیحین للحاکم:۴؍۱۷۴ ، صحیح إبن حبان للحاکم :۲؍۱۸۷ ، صحیح الترغیب والترھیب :۲۵۲۸]
    ایک اور جگہ فرمایا:
    ’’إِنَّ اللّٰهَ خَلَقَ الْخَلْقَ حَتَّي إِذَا فَرَغَ مِنْهُمْ قَامَتِ الرَّحِمُ، فَقَالَتْ:هَذَا مَقَامُ الْعَائِذِ مِنَ الْقَطِيعَةِ، قَالَ: نَعَمْ، اَمَا تَرْضَيْنَ اَنْ اَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ، وَاَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ؟ قَالَتْ:بَلَي، قَالَ:فَذَاكِ لَكِ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: اقْرَء ُوا إِنْ شِئْتُمْ:(فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوا فِي الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوا اَرْحَامَكُمْ۔اُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَاَعْمَي اَبْصَارَهُمْ۔اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلَي قُلُوبٍ اَقْفَالُهَا)۔
    [محمد:۲۲۔۲۴]
    ’’جب ا للہ تمام مخلوق کو پیدا کرکے فارع ہوگیا تورحم (رشتہ نا تا ) کھڑی ہو ئی اور بو لی:یہ مقام اس کا ہے جو ناتا توڑنے سے پناہ چاہے،(اللہ تعالیٰ نے) فر مایا:ہاں،کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ میں اس سے جڑوں جو تجھ کو جوڑے اور اس سے کٹوں جو تجھ کو کاٹے؟(رحم) بولی:کیوں نہیں ، (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا:پس یہی تیرے لیے ہے پھراللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو (فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوا فِي الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوا اَرْحَامَكُمْ اُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَاَعْمَي اَبْصَارَهُمْ۔اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلَي قُلُوبٍ اَقْفَالُهَا)’’اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے۔کیا یہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟
    [صحیح بخاری:۵۹۸۷، صحیح مسلم :۲۵۵۴]
    رشتے داروں کے حقوق: اللہ کے بندو ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک رشتہ داروں کا بڑا مقام ہے، ان کے بے شمار حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں ،مندرجہ ذیل سطور میں چند حقوق پیش خدمت ہیں ۔
    سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ہم رشتے داروں سے جڑ کر رہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن میں ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیا ہے ۔جیسا کہ فرمان الہٰی ہے:
    {إِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَائِ ذِي الْقُرْبٰي}
    ’’اللہ عدل اوربھلائی کا اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے‘‘
    [النحل :۹۰]
    ایک اورجگہ فر مایا: {وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبٰي}
    ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک واحسان کرو‘‘[النساء:۳۶]
    اور فر مایا: {وَآتِ ذَا الْقُرْبَي حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا}
    ’’اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو اور بیجا خرچ سے بچو‘‘[الإسراء:۲۶]
    اور فر مایا: {فآتِ ذَا الْقُرْبَي حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ذَلِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللّٰهِ وَاُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}
    ’’پس قرابت داروں کو ، مسکینوں کو ،مسافروں کو ان کا حق دے دو، یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں، وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘[الروم:۳۸]
    اور نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بلکہ اللہ کے رسول ﷺنے بھی ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: ’’وَمَنْ كَانَ يُوْمِنُ بِاللّٰهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ‘‘
    ’’جواللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے ‘‘
    [صحیح بخاری :۶۱۳۸]
    اور فر مایا: ’’اتَّقُوا اللّٰهَ، وَصِلُوا اَرْحَامَكُمْ ‘‘
    ’’اللہ سے ڈرو اور اپنے رشتے داروں سے مل کر رہو ‘‘[معجم الاوسط للطبرانی :،۶؍۱۸ ،رقم الحدیث :،۵۶۶۴، شعب الإیمان للبیہقی:۷۵۷۷، الصحیحۃ:۸۶۹]
    ایک اور جگہ فرمایا:’’ بُلُّوا اَرْحَامَكُمْ وَلَوْ بِالسَّلَامِ ‘‘’اپنے رشتے داروں سے مل کر رہو خواہ سلام کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو ‘‘[شعب الإیمان للبیہقی :۶؍۲۲۶ ، رقم الحدیث :۷۶۰۳، مسندالشھاب :۱؍۳۷۹ ، رقم الحدیث:۶۵۳، صحیح الجامع :۲۸۳۸]
    صلہ رحمی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ نبی ﷺ نے موت کے وقت اس کی وصیت کی ہے جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کہ رسولﷺنے اپنے مرض الموت میںفرمایاتھا’’ارحامکم ارحامکم‘‘ تمہارے رشتے دار تمہارے رشتے دار۔[صحیح إبن حبان :۲؍۱۷۹ ، رقم الحدیث :۴۳۶،صحیح موارد الظمآن:۱۷۰۹]
    اے اللہ کے بندو ! اس لیے صلہ رحمی کرو اور رشتہ داروں سے مل کر رہواور صلہ رحمی کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ بسا اوقات ان کی زیارت کے لیے ان کے گھر چلے جایا کرو ،انہیں تحفے تحائف پیش کرو ، ان پر خرچ کرو اور پیار محبت سے ، نرم مزاجی اور ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ، ادب و احترام سے اور ہر اس جائز طریقے سے ان سے ملو جولوگوں کے درمیان رائج ہے ۔
    اے انسان! اگر توسنے کہ تیرارشتہ دار تیرے لیے دعا کر رہا ہے ، تیری تعریف کر رہا ہے اور تیرا ذکر خیرکر رہا ہے توتو کہہ کہ اس نے مجھے جوڑا اللہ اسے جوڑے اور جان لے کہ تونے اس کے ساتھ صلہ رحمی کیا اور اسے جوڑا اور اگر سن کہ وہ تیرے حق میں بد دعا کر رہا ہے ، لوگوں سے تیری شکایتیں کر رہا ہے اور تیرا ذکر برائیوں کے ساتھ کر رہا ہے تو کہہ کہ اس نے مجھے کاٹا ہے اللہ اسے کاٹے اور جان لے کہ اتنا کہہ دینے سے تونے اسے کاٹ دیا ۔
    اللہ کے بندو ! گو آپ کا رشتہ دار آپ کو کا ٹے لیکن آپ سے صلہ رحمی ہی مطلوب ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:
    ’’لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِيئِ، وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا ‘‘
    ’’کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے‘‘
    [صحیح بخاری :۵۹۹۱]
    ایک شخص بولا: اے اللہ کے رسولﷺ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں اور وہ برائی کرتے ہیں، میں رشتہ ملاتا ہوں اور وہ توڑتے ہیں، میں بردباری کرتا ہوں اور وہ جہالت کرتے ہیں، آپﷺنے فرمایا:
    ’’لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ، فَكَاَنَّمَا تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللّٰهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَي ذَلِكَ‘‘
    ’’اگر حقیقت میں تو ایسا ہی کرتا ہے تو ان کے منہ پر جلتی راکھ ڈالتا ہے اور ہمیشہ اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک فرشتہ رہے گا جو تم کو ان پر غالب رکھے گا جب تک تو اس حالت پر رہے گا‘‘
    [صحیح مسلم :۲۵۵۸]
    صلہ رحمی کا فائدہ : اللہ کے بندو ! صلہ رحمی کا بہت بڑا فائدہ ہے کیوں کہ صلہ رحمی کرنے والوں کے لیے دنیا وآخرت میں کامیابی ہے اس لیے کہ صلہ رحمی:
    ۱۔ مال میں اضافے اور رزق میں وسعت کا سبب ہے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فر مایا:
    ’’ إِنَّ اَعْجَلَ الطَّاعَةِ ثَوَابًا صِلَةُ الرَّحِمِ حَتَّي إِنَّ اَهْلَ الْبَيْتِ لِيَكُونُوا فَجَرَةً فَتَنْمُو اَمْوَالُهُمْ وَيَكْثُرُ عَدَدُهُمْ إِذَا تَوَاصَلُوا‘‘
    ’’اطاعت میںجلد ثواب پانے والا عمل صلہ رحمی ہے حتیٰ کہ گھر والے فاسق و فاجر ہوتے ہیں اور ان کے اموال میں ترقی ہوتی ہے، ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے جب لوگ صلہ رحمی کرتے ہیں ‘‘ یہ روایت صحیح ہے ،
    [ صحیح إبن حبان:۲؍۱۸۲ ، رقم الحدیث:۴۴۰، صحیح الجامع :۵۷۰۵]
    ایک اور جگہ فر مایا:
    ’’ مَنْ اَحَبَّ اَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، وَيُنْسَاَ لَهُ فِي اَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ‘‘
    ’’جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے‘‘
    [صحیح بخاری :۵۹۸۶، صحیح مسلم:۲۵۵۷]
    ۲۔ صلہ رحمی لمبی عمر اور بری موت سے نجات کا سبب ہے ۔جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فر مایا:
    ’’وَصِلَةُ الرَّحِمِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ وَحُسْنُ الْجِوَارِ يَعْمُرَانِ الدِّيَارَ، وَيَزِيدَانِ فِي الْاَعْمَارِ‘‘
    ’’صلہ رحمی ،اچھا اخلاق اور اچھا پڑوسی دونوںگھروںکو آباد کرتے اور عمر میںاضافہ کرتے ہیں ‘‘(یہ روایت صحیح ہے ) [مسند احمد:۶؍۱۵۹، رقم الحدیث :۲۵۲۵۹، شعب الإیمان للبیہقی :۶؍۲۲۶، صحیح الجامع :۳۷۶۷]
    ۳۔ صلہ رحمی کرنے سے اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت حاصل ہوتی ہے ، ایسے بندے کی اللہ حفاظت کرتا ہے اور اسے نیکیوں کی توفیق عطا فر ماتا ہے جیسا کہ جب اللہ کے رسول ﷺکے پاس پہلی مرتبہ جبرئیل علیہ السلام غار حرامیں آئے اور بہت سارا معاملہ انجام پایا پھر چلے گئے تو آپ ﷺغار سے لوٹے تو آپ ﷺکا دل کانپ رہا تھا، آپﷺ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور فرمایا: ’’زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّي ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ‘‘’مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، لوگوں نے انہیں کمبل اڑھا دیایہاں تک کہ ڈر ان سے چلا گیا‘‘
    پھر ساری باتیں خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بتانے کے بعد کہا : ’’ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَي نَفْسِي‘‘’’ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔
    تو خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’كَلَّا وَاللّٰهِ مَا يُخْزِيكَ اللّٰهُ اَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَي نَوَائِبِ الْحَقِّ ‘‘’ہر گز اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں‘‘
    [صحیح بخاری :۳، صحیح مسلم :۱۶۰]
    ۴۔ صلہ رحمی جنت میں جانے کا سبب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا :
    {وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا اَمَرَ اللّٰهُ بِهِ اَنْ يُوصَلَ وَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوء َ الْحِسَابِ۔ وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاء َ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلَاةَ وَاَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَ يَدْرَء ُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَي الدَّارِ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ۔سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَي الدَّارِ}
    ’’اور اللہ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں اور وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں ۔اور وہ اپنے رب کی رضا مندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں، ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے۔کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا‘‘
    [الرعد:۲۱۔۲۴]
    اسی طرح ایک دیہاتی نے اللہ کے رسول ﷺسے ایسے عمل کی بابت سوال کیا جو اسے جنت میں داخل کردے اور جہنم سے دور کردے تو آپ ﷺنے فر مایا:
    ’’تَعْبُدُ اللّٰهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُوْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ، دَعِ النَّاقَةَ‘‘
    ’’اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو ، نماز قائم کرو ،زکوٰۃ ادا کرو ، صلہ رحمی کرو (یعنی عزیزوں، رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کر (اگر وہ برائی کریں یا ملاقات ترک کریں تو تو نیکی کر اور ان سے ملتا رہ)اور اونٹنی کو چھوڑ دو‘‘
    [صحیح بخاری :،۱۳۳۲ ،صحیح مسلم :۱۳]
    اورابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺمجھے ایسا حکم بتائیے کہ اگر میں اس پر عمل کروں تو اس کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جا ؤں۔ تو آپ ﷺنے فر مایا:
    ’’اَفْشِ السَّلَامَ، وَاَطْعِمِ الطَّعَامَ، وَصِلِ الْاَرْحَامَ، وَصَلِّ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، ثُمَّ ادْخُلِ الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ ‘‘
    ’’سلام کو عام کرو ، (بھوکوں کو ) کھانا کھلا ؤ ، صلہ رحمی کرو اور نماز ادا کرو اس حال میں کہ لوگ سو رہے ہوں پھر جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جا و‘‘
    [مسند احمد :۲؍۳۲۳ ، رقم الحدیث :۸۲۹۵، المستدرک علی الصحیحین للحاکم :۴؍۱۴۴ ، رقم الحدیث :۷۱۷۴، صحیح إبن حبان :۲؍۲۶۱ ، رقم الحدیث :۵۰۸، صحیح الجامع:۱۰۸۵](یہ روایت صحیح ہے )
    اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب اعمال میں سے ایک عمل صلہ رحمی بھی ہے اور یہ عمل سب سے افضل ہے جیسا کہ ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے رسو ل ﷺ!اللہ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے ؟تو آپ ﷺنے فرمایا :
    ’’إِيمَانٌ بِاللّٰهِ قَالَ:قُلْتُ:يَا رَسُولَ اللّٰهِ، ثُمَّ مَهْ؟ قَالَ:ثُمَّ صِلَةُ الرَّحِمِ‘‘
    ’’ اللہ پر ایمان لانا ، وہ آدمی کہتا ہے کہ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول پھر کون ؟فر مایا پھر صلہ رحمی ‘‘ [ مسند ابی یعلی :۱۲؍۲۹۹ ، رقم الحدیث :۶۸۳۹، صحیح الترغیب والترھیب:۲۵۲۲](یہ روایت صحیح ہے)
    اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺسے ملاقات کیا تو ان کا ہاتھ میں نے پکڑ لیا اور کہا :اے اللہ کے رسول !مجھے سب سے افضل عمل کی بابت بتا ئیے تو آپﷺنے فر مایا:
    ’’يَا عُقْبَةُ، صِلْ مَنْ قَطَعَكَ، وَاَعْطِ مَنْ حَرَمَكَ، وَاَعْرِضْ عَمَّنْ ظَلَمَكَ ‘‘
    ’’اے عقبہ ! اسے جوڑو جو تمہیں کا ٹے ، اسے دو جو تمہیں محروم کرے اور اس سے اعراض کرو جو تم پر ظلم کرے ‘‘[ مسند احمد :۴؍۱۴۸ ، رقم الحدیث :۱۷۳۳۴،المستدرک علی الصحیحین للحاکم :۴؍۱۷۸ ، رقم الحدیث :۷۲۸۵،تاریخ دمشق لإبن عساکر :۴۰؍۴۹۷ ، صحیح الترغیب والترھیب :۲۵۳۶](یہ روایت صحیح لغیرہٖ ہے)
    ٭رشتے داروں کا دوسرا حق یہ ہے کہ ہم دعوت میں ،صدقہ میں ، نفقہ میں اور تحفے تحائف میں انہیں مقدم رکھیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے :
    {يَسْاَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَي وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّٰهَ بِهِ عَلِيمٌ}
    ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے جو مال تم خرچ کرو وہ ماں باپ کے لیے ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اور تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے‘‘
    [ البقرۃ :۲۱۵]
    ایک اور جگہ فر مایا:
    {كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِينَ}
    ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کرجائے، پرہیزگاروں پر یہ حق اورثابت ہے‘‘[البقرۃ :۱۸۰]
    اور اللہ کے رسول ﷺنے فر مایا:
    ’’الصَّدَقَةُ عَلَي الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ، وَعَلَي ذِي الْقَرَابَةِ اثْنَتَانِ:صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ‘‘
    ’’مسکین کو صدقہ دینا (صرف) صدقہ ہے، اور رشتہ دار کو صدقہ دینا دو چیز ہے، پہلا صدقہ اور دوسری صلہ رحمی ‘‘
    [ المجتبی للنسا ئی :۲۵۸۲، سنن إبن ماجۃ :۱۸۴۴، مسنداحمد:۴؍۱۸،سنن الدارمی :۱؍۴۸۸ ، صحیح إبن حبان :۸؍۱۳۲ ، المعجم الکبیر للطبرانی :۶؍۲۷۶ ، المشکاۃ :۱۹۳۹](یہ روایت صحیح ہے )
    اور اللہ کے رسول ﷺنے اپنے صحابہ کی تربیت میں اسی بات پر زور دیا ہے کہ وہ صدقہ و ہدیہ میں اپنے اقرباء کو مقدم رکھیں جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ:
    ’’كَانَ اَبُو طَلْحَةَ اَكْثَرَ الاَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، وَكَانَ اَحَبُّ اَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاء َ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ المَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائٍ فِيهَا طَيِّبٍ، قَالَ اَنَسٌ:فَلَمَّا اُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ:(لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّي تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ)(آل عمران:۹۲) قَامَ اَبُو طَلْحَةَ إِلَي رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَي يَقُولُ: (لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّي تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ) (آل عمران:۹۲) وَإِنَّ اَحَبَّ اَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاء َ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلّٰهِ، اَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللّٰهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللّٰهِ حَيْثُ اَرَاكَ اللّٰهُ، قَالَ:فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:بَخٍ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي اَرَي اَنْ تَجْعَلَهَا فِي الاَقْرَبِينَ، فَقَالَ اَبُو طَلْحَةَ:اَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ، فَقَسَمَهَا اَبُو طَلْحَةَ فِي اَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ ‘‘
    ’’ابوطلحہ انصارِ مدینہ میں اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے سب سے زیادہ مالدار تھے اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیرحاء کا باغ تھا، یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا اور رسول اللہﷺاس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے، انس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیںکہ جب یہ آیت نازل ہوئی:(لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّي تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ) (آل عمران:۹۲) ’’یعنی تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو‘‘، یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو اور مجھے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے، اس لیے میں اسے اللہ تعالیٰ کے لیے خیرات کرتا ہوں،اس کی نیکی اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے کا امیدوار ہوں، اللہ کے حکم سے جہاں آپﷺ مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے، راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر رسول اللہ ﷺنے فرمایا، خوب!یہ تو بڑا ہی آمدنی کا مال ہے، یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو،ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:یا رسول اللہ!میں ایسا ہی کروں گا، چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا‘‘ [صحیح بخاری:۱۴۶۱، صحیح مسلم :۹۹۸]
    یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان کا قریبی فقیر غیروں کے مقابلے اولیٰ ہے کیوں کہ یہ صدقہ اورصلہ رحمی ہے ۔
    اسی طرح جب میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی نبی کریم ﷺ سے اجازت لیے بغیر آزاد کر دی پھر جب ان کی باری کے دن نبی کریم ﷺ ان کے گھر آئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنی لونڈی آزاد کردیا ہے ؟ فرمایا،کیا تم نے آزاد کر دیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں، تو آپﷺنے فرمایا:
    ’’ اَمَا إِنَّكِ لَوْ اَعْطَيْتِهَا اَخْوَالَكِ كَانَ اَعْظَمَ لِاَجْرِكِ ‘‘
    ’’اگر اس کے بجائے تم نے اپنے ننہیال والوں کو دی ہوتی تو تمہیں اس سے بھی زیادہ ثواب ملتا‘‘
    [صحیح بخاری :۲۵۹۲، صحیح مسلم:۹۹۹]
    ٭رشتے داروں کا تیسرا حق یہ ہے کہ کچھ بھی ہو جا ئے لیکن ہم رشتے داروں سے الگ نہ ہوں کیوں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
    ’’لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا ‘‘
    ’’کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔
    [صحیح بخاری :۵۹۹۱]
    اور ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
    اَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنْ اَصِلَ رَحِمِي وَإِنْ اَدْبَرَتْ ‘‘
    ’’مجھے میرے خلیل ﷺنے یہ وصیت کیا ہے کہ میں رشتے داروں سے جڑو ںگو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے ہوں ‘‘
    [المعجم الکبیر للطبرانی:۲؍۱۵۶، شعب الإیمان للبیہقی:۶؍۹۴ ، مسندالبزار :۹؍۳۸۳ ، صحیح الترغیب والترھیب:۲۵۲۵](یہ روایت صحیح ہے )
    اور عقبہ بن عامر کو آپ ﷺنے کہا تھا:
    ’’يَا عُقْبَةُ، صِلْ مَنْ قَطَعَكَ، وَاَعْطِ مَنْ حَرَمَكَ، وَاَعْرِضْ عَمَّنْ ظَلَمَك َ‘‘
    ’’اے عقبہ ! اسے جوڑو جو تمہیں کاٹے ، اسے دو جو تمہیں محروم کرے اور اس سے اعراض کرو جو تم پر ظلم کرے ‘‘
    (یہ روایت صحیح لغیرہٖ ہے ،[ مسند احمد:۴؍۱۴۸ ، رقم الحدیث :۱۷۳۳۴،المستدرک علی الصحیحین للحاکم :۴؍۱۷۸ ، رقم الحدیث :۷۲۸۵،تاریخ دمشق لإبن عساکر :۴۰؍۴۹۷، صحیح الترغیب والترھیب:۲۵۳۶]
    اللہ کے بندو ! اللہ تعالیٰ نے قطع رحمی کو حرام قرار دیا ہے اور قطع رحمی سے ڈرایا اورقطع رحمی کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنایا ہے ۔جیسا کہ فر مایا:
    {وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِي تَسَاء َلُونَ بِهِ وَالْاَرْحَامَ}
    ’’اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو‘‘[النساء:۱]
    ’’وَالْاَرْحَامَ ‘‘کا مفہوم بتاتے ہوئے مفسرین لکھتے ہیں :’’وَاتَّقُوا الْاَرْحَامَ اَنْ تَقْطَعُوہَا‘‘’’ رشتے نا تے توڑنے سے بچو ‘‘[تفسیر القرطبی :۵؍۲ ، تفسیر الطبری :۴؍۲۲۷ ، تفسیر إبن کثیر :۱؍۴۹۹، جامع البیان:۴؍۲۲۷]
    ایک اور جگہ فر مایا:
    {وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا اَمَرَ اللّٰهُ بِهِ اَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْاَرْضِ اُولٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوء ُ الدَّارِ}
    ’’اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جن چیزوں کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ان کے لیے لعنتیں ہیں اور ان کے لیے برا گھر ہے‘‘
    [الرعد:۲۵]
    اور فر مایا:
    {فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوا فِي الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوا اَرْحَامَكُمْ اُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَاَعْمَي اَبْصَارَهُمْ }
    ’’اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے‘‘
    [محمد:۲۲۔۲۳]
    اور آپ ﷺنے فر مایا: ’’ لَا يَدْخُلُ الجَنَّةَ قَاطِعٌ ‘‘
    ’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا ‘‘[صحیح بخاری :۵۹۸۴ ،صحیح مسلم :۲۵۵۶]
    ایک اور جگہ فرمایا:
    ’’وَإِنَّ هَذِهِ الرَّحِمَ شِجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ، فَمَنْ قَطَعَهَا حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ‘‘
    ’’یقینا یہ رحم رحمن سے نکلی ہے ، اس لیے جو اسے کاٹے گا اس پر اللہ نے جنت کو حرام کردیا ہے ‘‘(یہ روایت صحیح ہے ،
    [مسند احمد:۱؍۱۹۰ ،مسند البزار:۴؍۹۳ ، مسندالشاشی:۱؍۲۴۴ ، المعجم الکبیر للطبرانی:۱؍۱۵۴ ، شعب الإیمان للبیہقی:۵؍۲۹۷ ، صحیح الترغیب والترھیب :۲۵۳۸]
    اور فر مایا:
    ’’ثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ: مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَقَاطِعُ رَحِمٍ ، وَمُصَدِّقٌ بِالسِّحْرِ‘‘
    ’’تین طرح کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے (۱)شراب کو نچوڑنے والا (۲)رشتے نا تے کاٹنے والا (۳) اور جادو کی تصدیق کرنے والا‘‘
    [مسند احمد :۴؍۳۹۹ ، صحیح إبن حبان :۱۳؍۵۰۷ ، صحیح الترغیب والترھیب :۲۳۶۲] (یہ روایت حسن لغیرہ)
    اور فر مایا :
    ’’ إِنَّ اَعْمَالَ بَنِي آدَمَ تُعْرَضُ كُلَّ خَمِيسٍ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَلَا يُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ ‘‘
    ’’بنی آدم کے اعمال ہر جمعرات کوجمعہ کی رات میںپیش کیے جاتے ہیں لہٰذا کسی بھی رشتہ توڑنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا ہے ‘‘ [مسنداحمد :۲؍۴۸۳ ، الادب المفرد:۶۱، شعب الإیمان للبیہقی:۶؍۲۲۴ ، صحیح الترغیب والترھیب :۲۵۳۸](یہ روایت حسن ہے )
    قطع رحمی کے اسباب :
    اللہ کے بندو ! ایک انسان قطع رحمی کیوں کرتا ہے، اس کے چنداسباب ہیں مندرجہ ذیل سطورمیںنقل کیا جا رہا ہے ، ان سے بچو!
    ۱۔ جہالت، کیوں کہ جاہل ہی قطع رحمی کرتا ہے ۔
    ۲۔ بے دینی یا دین داری میں کمی ۔
    ۳۔دنیا کی محبت اور اس سے لگاؤ ۔
    ۴۔وراثت وغیرہ میں ظلم و جبر ، بہت سے لوگوں نے رشتے داروں سے ظلم و جبر کی وجہ سے خود کو الگ کرلیا ۔
    ۵۔ازدواجی پریشانیاں بھی قطع رحمی کا سبب ہیں ۔
    اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو کیوں کہ اس دنیا سے تمہیں ایک دن جانا ہوگا اور اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو نا ہوگا اور تم سے تمہارے رشتے داروں کی بابت سوال ہوگا، لہٰذا تم میں سے جو جانتا ہے کہ اسے اللہ کی طرف لوٹنا ہے ، اسے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اسے اپنے رشتے داروں کی بابت جواب دینا ہے وہ آج ہی سے اس سوال کے جواب کی تیاری کرلے اور جان لو کہ جیسا تم کروگے ویسا پا ؤ گے ۔
    اے اللہ !مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف لوٹا دے ۔ آمین
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings