-
نفسانی خواہشات کے چند مظاہر تربیتِ نفس اور تزکیۂ نفس بہت ہی اہم ہے لیکن بہت سارے لوگ اس سے غافل ہیں اور باوجود اس کے کہ خیر عام ہے، بہت سارے لوگ استقامت کی راہ پہ گامزن ہیں نیز میدا ن دعوت میں بھی سرگرم عمل ہیں ،پھر بھی کچھ لوگ سیدھے راستے کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن ا نہیں نہیں مل پارہا ہے، گویا راستے ان کے سامنے مسدود اور ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوچکے ہیں،چنانچہ شیطان انہیںاپنی آسان سواری بناکر ریا ونمود ،شہرت طلبی وخود پسندی اور فخرومباہات کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں لے کر رواں دواں ہے۔
ان نفسانی خواہشات کو ختم کرنے کے لیے خود کواخلاص سے مزین کرنا ہوگا کیونکہ اخلاص ہی اصل دین اور انبیائی دعوت کی کنجی ہے ، جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
{وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ }
’’انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیاکہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں ‘‘
[البینۃ:۶]
اسی طرح اللہ رب العالمین ایک اور جگہ فرماتا ہے:
{الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا}
’’جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کا م کون کرتا ہے ‘‘
[الملک :۲]
فضیل بن عیاض کہتے ہیں کہ’’أَحْسَنُ عَمَلاً‘‘ کا معنیٰ ہے ’’ہو أخلصہ وأصوبہ‘‘یعنی جس کا عمل بالکل خالص اوردرست ہو۔
اللہ کے رسول ﷺنے ایک عظیم حدیث میں جو اسلام میں اصول کی حیثیت رکھنے والی احادیث میں سے ایک ہے بیان فرمایا:
’’ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَي‘‘
’’انسان کے اعمال کا دارومدار اس کی نیت پر منحصر ہے ،اور ہر انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ نیت کرے ‘‘
[ البخاری:۱]
رسول اللہ ﷺ کا ایک اور فرما ن ہے:
’’مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ المَرْئِ عَلَي المَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ‘‘
’’اگر دوبھوکے بھیڑیوں کو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑدیاجائے تو وہ اسے اتنا نقصان نہیں پہنچائیں گے جتنانقصان آدمی کے مال وجاہ کی حرص اس کے دین کوپہنچاتی ہے ‘‘
[سنن الترمذی:۲۳۷۶،صحیح]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اخلاص دل کے اہم ترین اعمال میں سے ہے جو ایمان کی تعریف میں داخل ہیں او راخلاص کا مقام بڑااونچاہے ،بلکہ قلبی اعمال، بدنی اعمال کے مقا بلہ میں عمومی طور پر زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔لہٰذا ایک مسلمان کو غفلت میں نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ اگر وہ اللہ رب العالمین کی اطاعت بغیر اخلا ص اور صد ق نیت کے کرتاہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اسے اس پر کچھ ثواب بھی نہیں ملے گابلکہ ایسا کرنے والاسخت و عیدکا مستحق قرارپائے گا ، گرچہ اس کا یہ عمل عظیم ترین اعمال میں سے ہو،جیسے خیر کے راستوں میں خرچ کرنا اور کفار سے جنگ وغیرہ۔
یہاں تک کہ وہ علم جس سے اللہ کائنات کے لوگوںکو فائدہ پہنچاتا ہے، اگر اس کی طلب او راس کی نشر واشاعت میں بھی بندہ ہر طرح کی کوشش کے باوجود مخلص نہیں ہے تو وہ بھی فرمان نبوی کے مطابق آخرت میں وعید کا مستحق ہوگا۔
’’مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَي بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَعْنِي رِيحَهَا‘‘
’’یعنی اگر کوئی شخص ایسا علم جس سے رضاء الہٰی مقصود ہوتا ہے دنیا طلبی کے لئے حاصل کرتا ہے تو ایسے شخص کو قیامت کے دن جنت کی بو تک نہیں میسر ہوگی‘‘
[سنن ابی داؤد:۳۶۶۴،صحیح]
چند مہلک نفسانی خواہشات:
۱۔ تعریف پسند ہونا : چنانچہ بعض لوگ ہر مجلس میں اپنی تعریف سننے کے خواہاں ہوتے ہیں اور اس کے لیے ہروقت اپنا کان کھڑا رکھتے ہیں۔
حسن بن زیاد رحمہ اللہ کہتے ہیں: شیطا ن انسان پر اپنا ہر حیلہ اور ہتھکنڈہ استعمال کیے بغیر نہیں رہتا ہے ،چنانچہ وہ اس سے کوئی ایسی بات اگلوا دیتا ہے جس سے اس کے عمل کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے ۔ جیسے کہ اگر وہ بہت طواف کرتاہے تو کہتا ہے رات کا طواف کتنا عمدہ تھا ، یا اگرو ہ روزہ رکھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ سحری کرنا کتنا گراں گزرتاہے اور کتنی شدت کی پیاس لگتی ہے ، اسی طرح اگر آپ بات نہیں کرنا چاہتے ہو اور فصاحت و بلاغت کے مالک بھی ہوپھر لوگ کہتے ہیں کتنی فصاحت اس کے پاس ہے، کتنی خوبصورت گفتگو کرتا ہے اور کتنی پیاری آواز ہے پھر یہ سن کر تمہارے اندر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اورتم مارے خوشی کے جھوم اٹھتے ہو ، اور اگر تم بلیغ نہیں ہو تو لوگ کہتے ہیں تم اچھی گفتگو نہیں کرتے ہواور آواز بھی اچھی نہیں ہے پھر یہ چیز تم کو غمزدہ کردیتی ہے اور تم پر شاق بھی گزرتی ہے پھر تم ریاکا ر بن جاتے ہو،اس وجہ سے تم جہاں کہیں بھی گفتگو کرو تو تعریف اور تنقید کی پرواہ کیے بغیر اللہ کے خاطر زبا ن کھولو۔
۲۔ اپنے اعمال اور اس سے متعلق محنت و تھکاوٹ کا خوب خوب چرچا کرنا: بظاہر یہ دین سے محبت اور لوگوں کوجوش دلانے کے لیے بھی ہو سکتا ہے لیکن نہاں خانۂ دل میں دراصل اس سے مقصود اپنے کارناموں کو اجاگر کرنااور میدان دعوت میں جن پریشانیوں سے دوچار ہوا ہے ان کو بیان کرنا ہی ہوتا ہے تاکہ لوگ اس کے گرویدہ ہو جائیں ،ان کے دلوں میں اعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہوجائے اوراس کی خوب خوب تعریف کریں ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اصل دکھاوا یہی ہے کہ بندہ اپنی عبادات کے ذریعہ دنیا طلب کرے اور لوگوں کے دلوں میں اپنی عزت تلاش کرے۔
۳۔ پوری جماعت کے کا م کا کریڈٹ اپنے نام کرنا : چنانچہ ایسا شخص ذمہ داران کے سامنے اپنے آپ کو اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ اس نے ہی بنفس نفیس اس کام کوانجام دیا ہے،اس نے ہی اس کام کی تجویز بھی پیش کی تھی اور یہ اسی کا نتیجۂ فکر ہے۔یہاں تک کہ مسلسل اس طرح کے دعویٰ کی وجہ سے وہ اس سے خطرناک امر میں واقع ہوجاتا ہے یعنی وہ دوسروں کے کاموں کو بھی اپنی طرف منسوب کرنے لگ جاتا ہے پھر وہ ان لوگوں کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے جن کے تعلق سے اللہ کا فرمان ہے:
{الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ }
’’وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اورچاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھئے ان کے لئے درد ناک عذاب ہے‘‘
[آل عمران:۱۸۸]
۴۔ اپنی مذمت خود کرنا : تاکہ لوگ اسے متواضع سمجھیں ،اور اس کا مقا م ان کی نگاہوں میں بلند ہوسکے اور لوگ اس کی تعریف میں رطب اللسان رہیں کہ فلاں شخص تو بہت منکسر المزاج ، تواضع پسند ،شریف اور زہدو ورع کا پیکرہے، حالانکہ یہ اس کے لیے ہلاکت کا شاخسانہ ہے ۔
۵۔ اپنے متعلق لوگوں سے بیان کرتے پھرنا کہ ہمیشہ میرے پاس لوگوں کے آنے جانے کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے مجھے ذرہ برابر مطالعہ کے لیے وقت بھی نہیں مل پاتا ہے ،حالانکہ نیک عمل کرنے والوں کے حق میں یہ ابلیس کی ایک چال ہے،چنانچہ آپ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہوں گے جو ہمیشہ موقع کے تاک میں رہتے ہیں کہ کب لوگ ان سے ان کے مطالعہ اور علمی کا رکردگی کے متعلق سوال کریں اور وہ انہیں یہ جواب دیں کہ لوگوں کے ساتھ وہ بہت مشغول رہتے ہیں اور کثیر تعداد میں لوگ ان کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں اس لیے ان کے ساتھ گھنٹوں گھنٹوں تک مشغول رہتے ہیں۔
سعد بن عبد اللہ کہتے ہیں:’’اہل دانش و بینش نے اخلاص کے معنی پر غور و فکر کیا تو انہیں اس کے علاوہ کوئی اور معنی نہیں ملا کہ’’ظاہری و باطنی طورپرانسان کے تمام حرکا ت و سکنات اللہ رب العالمین کے لیے ہوں اس میں ہوائے نفس اور دنیا داری کا شائبہ تک نہ ہو۔
۶۔ خود پسندی کا شکار ہونا: اوریہ کہنا کہ میری تمام کی تمام ترکوششیں خدمت خلق کے لیے ہی ہواکرتی ہیں اور میری ساری توانائی اسی میں صرف ہوتی ہے، اورمیرے غم و اندوہ کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ شام سے ہی مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کرذرہ برابر بھی نیند نہیں آئی ہے ۔
حسین بن عبد الرحمن رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:’’دیکھو میں اس وقت نماز کی حالت میں نہیں تھا بلکہ بچھو نے مجھے ڈنک ما ردیا تھا ‘‘(جس کی وجہ سے میں جاگ رہا تھا)
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ایک شخص کے عالم ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اللہ رب العالمین سے ڈرے، جبکہ جہالت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے اعمال کے تئیں خود پسندی میں مبتلا ہوجائے‘‘۔
’’عجب ‘‘کی تعریف کرتے ہوئے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں’’تم لوگوں کو دکھاؤ کہ تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو دوسروں کے پا س نہیں ہے ‘‘۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ’’الفوائد‘‘میں رقم طراز ہیں :’’اعمال کو سب سے زیادہ تباہ کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ خود بینی میں مبتلا ہوناہے ،اعمال کے لیے اس سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ہے کہ انہیں صرف رضائے الہٰی کے لیے ہی انجام دیا جائے ،ساتھ ہی بندہ کو اس بات کااحساس ہو کہ یہ سب اعمال صالحہ اللہ رب العالمین کی توفیق ، مدد اور اس کی طرف رجوع کرکے ہی انجام پاتے ہیں۔
ذرا غور کیجیے اس شخص کی حالت پر جو ایک نیا جوڑا پہن کر خود پسندی میں مبتلا ہوگیا ، رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ:
’’بَيْنَمَا رَجُلٌ يَجُرُّ إِزَارَهُ مِنَ الخُيَلاَء ِ، خُسِفَ بِهِ، فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ فِي الأَرْضِ إِلَي يَوْمِ القِيَامَةِ‘‘
’’ایک شخص تکبر اور خود پسندی میں مبتلا نیا لباس پہن کر چل رہا تھا کہ اللہ نے زمین کو حکم دیاکہ اسے دبوچ لے پھرو ہ اس کے بعد زمین کے اندر دھنستا چلا گیا اور قیامت تک وہ دھنستا ہی رہے گا‘‘
[البخاری:۳۴۸۵]
۷۔ موقع ملتے ہی اپنے کارناموں کی گردان شروع کر دینا: چنانچہ ایسے لوگوں کے سامنے اگر آپ نے کبھی ایشیائی ممالک کاذکرچھیڑا تو وہ اس کے بارے میں بتانے لگیں گے اور اگر کبھی افریقہ کا تذکرہ آگیاتو بتانے لگیں گے کہ میں وہاں کا دس سالوں سے ہر سال ایک یا دوبار سفر کرتا ہوں، او راگربات یورپ کے تعلق سے ہو تو وہ کہیں گے کہ میں نے ہی نوجوانوں کو وہاں دعوت اور ریلیف کے لیے آمادہ کیا تھا اور وہ بڑی محنت کے بعد تیار ہوئے تھے۔
اوراگر کبھی فقراء کی امداد کی بات ہو تو وہ ان کے احوال و کوائف کے بارے میں ایسا بتاتے ہیں جس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ صرف وہی ان کے حالات کی مسلسل خبر رکھتے ہیں،اسی طرح باتوں باتوں میں وہ کچھ ایسابتانے لگتے ہیں کہ جس سے واقف بھی نہیں ہوتے ہیں۔
اور اگر وہ میت کو نہلانے کا کام کرتے ہیں تو وہ اپنی بات کی شروعات کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن میں پندرہ میت کو غسل دیا ہے ،پھر باتوں باتوں میں بیر و کافورکا ذکر کرنے لگتے ہیں لیکن اس سے ان کا مقصد ڈرانا اور نصیحت کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ ان سب کا ذکر وہ فخر ومباہات کے لیے کرتے ہیں،اسی طرح انہی میں کاایک اور بندہ لوگوں کے درمیا ن خیر و بھلائی کا کام کرتا ہے تو وہ آپ سے اسی کا ذکر کرتا ہے۔پھروہ کئی گنا بڑھا کر بتانے لگتا ہے کہ کس طرح لوگ اس کے ہاتھوں ہدایت یافتہ ہوئے اوربے چارہ یہ بھول جاتا ہے کہ پوری امت کو اللہ نے صرف ایک شخص کے ہاتھوں ہدایت کے راستہ سے سرفرازکیااوریہ بھی بھول جاتاہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اللہ نے ہجرت سے پہلے عشرۂ مبشرہ میں سے چھ لوگوں کو ہدایت کے راستے پر گامز ن کیا ۔
چہ نسبت خاک را با عالم پاک کجا عیسیٰ کجا دجال ناپاک
۸۔ اپنے تئیں علماء ومشائخ کی قدر دانی کو بیان کرنا: مثلاً فلاں طالب علم نے مجھے خاص طور پر ایک ایسی بات بتائی ہے جسے کوئی نہیں جانتاہے یا یہ کہ فلاں عالم نے مجھ سے اس اس طرح کا سوال کیا اور جب میں جانے لگا تو انہوں نے کھڑے ہوکر مجھے الوداع کہا ۔ اس طرح کی مثالوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔
۹۔اپنے آپ کو اور اپنے نقطۂ نظر کو نمایاں کرنے کیلئے دوسروں کی مذمت کرنا : مثلاً اگر میں فلاں کی جگہ پر ہوتا تو فلاں کا م نہ کرتا اور اتنی بھی کیا جلدی تھی ،معاملات سوجھ بوجھ سے کئے جاتے ہیں، پھر وہ اپنا کوئی ایسا واقعہ بیان کرنے لگتا ہے جس میں وہ اپنے آپ کو نمایاں کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دیکھو میں نے کیسے اس معاملہ کو حکمت ودانائی سے بہت سلجھے انداز میں نپٹادیا۔
اسی وجہ سے بعض علماء نے کہا ہے’’بندے کی آفت یہی ہے کہ وہ خود سے راضی ہوجائے اور جس بھی شخص نے خو دکے بارے میںاچھا گمان کرلیا تو سمجھ لیں اس نے خود کو ہلاک کرلیااور جو اپنے اندر کبھی بھی کوئی غلطی ہی نہ پائے تو سمجھ لیں کہ وہ متکبر ہے۔
البتہ انہی مہلک مظاہر کے دوران ہمیں کچھ ایسے روشن نقوش کی مثالیں بھی ملتی ہیں جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات کو قربان کردیا ہے۔
کیا ہی بہترین بات ہے اس مومن کی جو نیک عمل کرے اور اس کا انتساب اپنی جانب کرنا پسند نہ کرے اور کتنا عظیم ہے وہ شخص جو خوب محنت کرتا ہے پھر بھی اللہ کے سامنے خود کو حقیر سمجھتا ہے بلکہ اس سے بھی عظیم تر ین وہ بندہ ہے جو اپنی نیکیاں اسی طرح چھپاتا ہے جیسے وہ اپنے گناہوں کو چھپاتاہے۔
علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں:’’بہت ہی کم لوگ ہیں جو نیک عمل خالص لوجہ اللہ کرتے ہیں ورنہ اکثر لوگ اپنی عبادت کو ظاہر کرنا پسند کرتے ہیں ،یاد رکھئے لوگوں کی طرف نظر التفات بھی نہ کرنا اور نیک اعمال کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں بلند مقام حاصل نہ کرنے کا ارادہ رکھنا اور نیت بالکل خالص رکھنا،یہی وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے بلند ہونے والے بلند ہو گئے۔
۱۰۔ اپنے آپ کو ظاہر اور نمایاں کرنے کے لیے کچھ لوگ ایسا بھی کرتے ہیں کہ جب انہیں کسی کام کے لیے کہاجاتا ہے گرچہ وہ کا م معمولی ہی کیوں نہ ہو تو وہ فوراً معذرت کرنے لگتے ہیں، بلا شبہ انہیں معذرت کا حق حاصل ہے لیکن یہ کہہ کر معذرت کرنا کہ فی الحال میرے پاس کا م کا انبار ہے، میں بے حد مشغول ہوں اور میں بہت ساری جگہوں سے بندھا ہوںوغیرہ وغیرہ بالکل محل نظر ہے۔
بلکہ کثر ت اعمال کا دعویٰ تو ایک ایسا فیشن بن گیا ہے جوبعض لوگوں کی نوک ِزبان پر رہتا ہے، ایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ فرمائیں، ایک شخص نے ایک عورت کو پیغام ِنکاح بھیجا اور اس سے یہ بھی بتایا کہ میں دعوتی امو ر میں مشغول رہتا ہوں اوربڑی شرح وبسط کے ساتھ اپنی مشغولیات کاتذکرہ کیا اور یہ کہ ان مشغولیات کی وجہ سے ہو سکتا ہے مجھے تمہارے حقوق کی ادائیگی کا وقت نہ مل سکے،چنانچہ اس عورت نے اس کو ٹھکرادیا اور کہا کہ یا تو یہ جھوٹا ہے یا پھر ریاکا ر اور اس جھوٹ اور دکھاوے کے ذریعہ میری نگاہ میں اونچا بننا چاہتا ہے،ورنہ اللہ کے رسول ﷺ اور باعمل علماء کے مقابلے میں یہ شخص چہ معنی دارد ۔
۱۱۔ ایک بندہ ایسا ہے جو گنتی کے چند منٹ کے لیے ہر تین مہینہ میں دعوتی شعبہ کی زیارت کرتا ہے پھر جب بھی کسی مجلس میں بیٹھتا ہے تو اس دعوتی شعبہ سے متعلق کام اور اس کی سرگرمیوں کے حوالہ سے اس انداز سے گفتگو کرتاہے کہ گویا وہی اس کااصل ذمہ دار ہے پھر وہ اس سے متعلق ہر چھوٹی بڑی چیز کو بیان کرنے لگتاہے،پھر وہ منصوبو ں اور عزائم کو بھی پیش کرتاہے تاکہ لوگوں کواس وہم میں ڈالے کہ اسے ہمہ وقت دعوت دین کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور وہ دعوتی شعبہ آنے جانے میں مشقت بھی اٹھاتا ہے۔
۱۲۔ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو ہمیشہ اپنے نام سے سپاس نامہ حاصل کرنے کی تاک میں لگے رہتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی تعریف کی جائے ، ان کی کوششوں کو سراہاجائے اور جو کچھ کارنامہ انہوں نے انجام دیا ہے اسے بیان کیا جائے اوران کی سوانح حیات میں لکھا جائے ۔
آپ جتنا بھی کچھ کر رہے ہیں وہ اللہ رب العالمین کے یہاں بہت ہی کم ہے گرچہ وہ آ پ کی نگاہوں میں پہاڑ جیسا دکھائی دے ، اس وجہ سے اپنے دل میں خوف اور رجاء دونوں جمع کیجیے ۔اور وہ بات یا د رکھئے جو ابن عوف نے کہی ہے’’اپنے کثرت اعمال پر زیادہ بھروسہ مت کیجیے کیونکہ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے اعمال قبول کیے جاتے ہیں یا نہیں ؟ یقینا آ پ کا ہر عمل آپ کی نگاہوں سے اوجھل ہے۔
اپنے اعمال کی حفاظت اخلاص سے کرو اور اپنی نیکیوں کو ایسے ہی چھپا ؤ جیسے اپنے گنا ہوں کو چھپا تے ہو اور عظیم بشارت کے لیے تیار رہو اگر مقصد رضائے الہٰی ہے ۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس سے متعلق لکھتے ہیں’’اگر انسان کی کوئی بھی عبادت اللہ کے لیے ہے اور اس کا کوئی بھی عمل اخلاص سے بھر پور ہے تو اللہ اس کی وجہ سے اس کے بڑے بڑے گنا ہ معاف کردیتا ہے جیسا کہ حدیث بطاقہ میں ہے ۔لیکن یہ معاملہ اس کے ساتھ ہوگا جس نے شہادتین کا اقرار صدق دل سے اور اخلاص کے ساتھ کیا ہوگا۔جیسا کہ اس شخص نے کہا تھا ۔ورنہ بڑے بڑے گناہ کرنے والے کلمۂ توحید کا اقرار کرنے کے بعد بھی جہنم میں جائیں گے کیونکہ شہادتین کا اقرار ان کے گناہوں کے پلڑے کو جھکا نہیں پائے گا۔پھر شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے حدیث میں مذکور اس بدکار عورت کے واقعہ کو بیان کیاجس کو اللہ نے محض ایک کتے کو پانی پلانے کے سبب بخش دیا تھا ۔اور وہ شخص جس نے راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹائی تو اللہ نے اسے بھی بخش دیا ۔پھر شیخ الاسلام رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’کتے کو پانی پلانے والی عورت کے دل میں اخلاص تھا اس وجہ سے اللہ نے اسے بخش دیا مگر ہر بدکارعورت کتے کو پانی پلادے اور اللہ اسے بخش دے یہ ضروری نہیں ہے ۔ ان اعمال میں فرق مراتب دلوں میں موجود ایمان وتعظیم کے اعتبار سے ہواکرتے ہیں۔
اے میرے مسلمان بھائی! کسی انسان کے اندر ریاکاری پیدا ہونے کے تین بنیادی اسباب و محرکات ہیں۔
۱۔ تعریف پسند بننا اور لوگوں سے تعریف کا خواہاں رہنا ۔
۲۔ مذمت سے بھاگنا ۔
۳۔ لوگوںکے پاس موجودمال اور عزت و شرف وغیرہ کا لالچ اپنے دل میں پیدا کرنا۔
یہ بیماریاں انسان کے لئے بہت ہی خطرناک ہیں اور بسااوقات یہ انسان کے سوء خاتمہ کا بھی سبب ہوجایا کرتی ہیں کیونکہ یہ اس کے ظاہر و باطن میں تضاد کا مظہر ہیں۔اللہ کی پناہ