Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • یزید کے لیے ’’رضی اللہ عنہ ‘‘یا ’’رحمۃ اللہ علیہ ‘‘کے استعمال کا حکم

    سوال: کیا یزید کے نام کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ ‘‘یا ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ استعمال کر سکتے ہیں؟ اگر کوئی استعمال کرتا ہے تو کیا یہ حرام ہے؟
    جواب: غالباً سوال یزید بن معاویہ کے بارے میں ہے ، کیونکہ انہی کے بارے میں روافض اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے نام نہاد اہل سنت اس طرح کا اعتراض کرتے ہیں ، یقینا یزید بن معاویہ کے ساتھ’’ رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کا استعمال کر سکتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے :’’أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ‘‘
    ’’میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر(قسطنطنیہ) کے شہر میں جہاد کرے گا وہ بخشا ہوا ہے ‘‘[صحیح البخاری: ۶؍۱۰۳، (۲۹۲۴)]
    اور اس لشکر میں نہ صرف یزید بن معاویہ شریک تھے ،بلکہ بالاتفاق وہ اس کے امیر الجیش تھے ، اور جب رسول اللہﷺ کی اس پیشین گوئی کے مطابق یزید بن معاویہ مغفور اور بخشے ہوئے ثابت ہوئے تو ان کے لئے ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کہنے میں کیا حرج ہے ؟
    نیز مسلمانوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے سے پہلے مومنوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، اور اپنے دلوں میں ان سے کینہ کپٹ نہیں رکھتے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَالَّذِيْنَ جَائُ وْا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَء ُوْفٌ رَّحِيْمٌ }
    ’’اورجو ان کے بعد آئیں گے کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے ،اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں ، اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال ، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے‘‘
    [الحشر:۱۰]
    اس واسطے یزید بن معاویہ جو ہم سے پہلے گزرے ہیں اور بلا شبہ مسلمان تھے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اور ’’غفر اللہ له‘‘ یا’’رحمه اللہ‘‘کہنا جائز ہے۔
    علاوہ ازیں یزید کے بارے میں جو الزامات ہیں ان میں ایک تو شیعہ وغیرہ نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے ، اور اکثر و بیشتر ثابت نہیں ، دوسرے ان سے ان کا کفر و ارتداد لازم نہیں آتا اور ان کا شمار مسلمانوں میں سے ہوتا ہے اس لیے ان کے نام کے ساتھ ’’رحمۃ اللہ علیه‘‘ کہنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔
    امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ :’’اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو یزید پر لعنت کرتا ہے، کیا اس پر فسق کا حکم لگایا جاسکتا ہے؟ کیا اس پر لعنت کا جواز ہے؟ کیا یزید فی الواقع حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، یا اس کے بارے میں سکوت افضل ہے ؟‘‘
    تو انہوں نے جواب دیا: مسلمان پر لعنت کرنے کا قطعاً جواز نہیں ہے ، جو شخص کسی مسلمان پر لعنت کرتا ہے وہ خود ملعون ہے ، رسول اللہ ﷺنے فرمایاہے :’’مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا‘‘[سنن الترمذی:۴؍۳۵۰(۱۹۷۷)]
    علاوہ ازیں ہمیں تو ہماری شریعت اسلامیہ نے جانوروں تک پرلعنت کرنے سے روکا ہے۔[صحیح مسلم:۴؍ ۲۰۰۵(۸۴)]
    تو پھر کسی مسلمان پر لعنت کرنا کیسے جائز ہوگا جس کی حرمت (عزت )حرمت کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔ جیسا کہ حدیث نبوی ﷺمیں مذکور ہے ۔[سنن ابن ماجہ:۲؍۱۲۹۷(۳۹۳۲)وقال الألبانی:حسن،سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:۷؍۱۲۴۸(۳۴۲۰)]
    یزید کا اسلام صحیح طور سے ثابت ہے ، جہاں تک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے واقعہ کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی صحیح ثبوت موجود نہیں کہ یزید نے انہیں قتل کیا ،یا ان کے قتل کا حکم دیا ، یا اس پر رضا مندی ظاہر کی ، جب یزید کے متعلق یہ باتیں پایۂ ثبوت ہی کو نہیں پہونچتی ہیں تو پھر اس سے بدگمانی کیوں کر جائز ہوگی ، جب کہ مسلمان کے متعلق بدگمانی کرنا بھی حرام ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : {يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ْ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ}
    ’’اے ایمان والو!بہت بد گمانیوں سے بچو، یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں‘‘
    [الحجرات:۱۲]
    اور نبی ﷺکا ارشاد ہے:’’ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے خون ، مال اور عزت و آبروکو محترم ، اور اس کے ساتھ بدگمانی کرنے کو حرام قرار دیا ہے‘‘[صحیح مسلم:۴؍۱۹۸۶(۳۲)]
    جس شخص کا خیال ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا یا ان کے قتل کو پسند کیا وہ پرلے درجے کا احمق ہے ، کیا یہ واقعہ نہیں کہ ایسا گمان کرنے والے کے دور میں کتنے ہی اکابر، وزراء اور سلاطین کو قتل کیا گیا ، لیکن وہ اس بات کا پتہ چلانے سے قاصر رہا کہ کن لوگوں نے ان کو قتل کیا اور کن لوگوں نے اس قتل کو پسند یا ناپسندکیا، درآں حالانکہ ان کے قتل اس کے بالکل قریب میں اوراس کے زمانے میں ہوئے اور اس نے ان کا خود مشاہدہ کیا ، پھر اس قتل کے متعلق (یقینی اور حتمی طور پر)کیا کہا جاسکتا ہے جو دور دراز کے علاقے میں ہوا او ر جس پر چار سو سال ( امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے دور تک ) کی مدت بھی گزر چکی ہے ۔
    علاوہ ازیں اس سانحہ پر تعصب و گروہ بندی کی دبیز تہیں بھی چڑھ گئی ہیں اور موضوع روایتوں کے انبار لگادیئے گئے ہیں ، جس کی بنا پر اصل حقیقت کاسراغ لگانا مشکل ہے،نیز مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا ضروری ہے۔
    پھر اہل حق (اہل سنت )کا مذہب تو یہ ہے کہ کسی مسلمان کے متعلق یہ ثابت بھی ہوجائے کہ اس نے کسی مسلمان کو قتل کیا ہے تب بھی وہ قاتل مسلمان کافر نہیں ہوگا ، اس لیے کہ جرمِ قتل کفر نہیں، بلکہ ایک معصیت (گناہ ) ہے ۔
    پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ مسلمان قاتل کبھی مرنے سے پہلے توبہ بھی کر لیتا ہے اور شریعت کا حکم ہے کہ اگر کوئی کافر بھی کفر سے توبہ کر لے تو اس پر بھی لعنت کی اجازت نہیں ، پھر یہ لعنت ایسے مسلمان کے لیے کیونکر جائز ہوگی جس کے بارے میں قوی امید ہے کہ اس نے مرنے سے پہلے جرمِ قتل سے توبہ کرلی ہوگی؟
    آخر کسی کے پاس اس امر کی کیا دلیل ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور وہ توبہ کے بغیر ہی مر گیا جب کہ اللہ کا در ِتوبہ ہر وقت کھلا ہے ۔
    {وَهُوَ الَّذِيْ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ}’’وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے‘‘[الشوری:۲۵]
    بہر حال کسی لحاظ سے بھی ایسے مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے جو مرچکا ہو، جو شخص کسی مرے ہوئے مسلمان پر لعنت کرے وہ خود فاسق اور اللہ کا نافرمان ہے ۔
    اگر (بالفرض ) لعنت کرنا جائز بھی ہو لیکن وہ لعنت کے بجائے سکوت اختیار کئے رکھے تو ایسا شخص بالاجماع گناہ گار نہ ہوگا ، بلکہ اگر کوئی شخص اپنی پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی ابلیس پر لعنت نہیں بھیجتا تو قیامت کے روز اس سے یہ نہیں پوچھاجائے گا کہ تو نے ابلیس پر لعنت کیوں نہیں کی ؟
    البتہ اگر کسی نے کسی مسلمان پر لعنت کی تو قیامت کے روز اس سے ضرور پوچھا جاسکتا ہے کہ تو نے اس پر لعنت کیوں کی تھی ؟ اور تجھے کیوں کر معلوم ہوگیا تھا کہ وہ ملعون اور راندۂ درگاہ ہے ؟ جب کہ کسی کے کفر و ایمان کا مسئلہ امور غیب سے ہے ، جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، ہاں شریعت کے ذریعے ہمیں یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ جو شخص کفر کی حالت میں مرے وہ ملعون ہے۔
    جہاں تک یزید کو’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ یا ’’رحمہ اللہ ‘‘کہنے کا تعلق ہے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب (اچھا فعل) ہے ، ولکہ وہ از خود ہماری ان دعاؤں میں شامل ہے جو ہم تمام مسلمانوں کی مغفرت کے لیے کرتے ہیں ، جیسے: :’’اللَّهمَّ اغفِرِ للمُؤمِنِیْنَ وَالمُؤمِنَاتِ‘‘ ’’اے اللہ! تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔ اس لیے کہ یزید بھی یقینا مومن تھا‘‘[وفیات الاعیان:۳؍ ۲۸۸]
    بہر حال یزیدکے لیے ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کا دعائیہ جملہ استعمال کر سکتے ہیں، یہ حرام نہیں ہے ۔
    جہاں تک ان کے لیے ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کے استعمال کی بات ہے تو چوں کہ اکثر و بیشتر اس کا استعمال صحابۂ کرام کے لیے ہوتا ہے اس لیے اس کے استعمال سے احتراز کریں تو بہتر ہے ،مگر علامہ ابن رشد اور ابن قدامہ’’ رحمۃ اللہ علیھما‘‘ وغیرہ بہت سے علماء کرام نے اس کا استعمال امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے لیے بھی کیا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر صحابی کے لیے بھی اس کے استعمال کی گنجائش اور جواز ہے ، اور معنی کے اعتبار سے بھی اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings