Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عفوورواداری اسلام کی روشنی میں

    عفو ودرگزر کا شمار انسانیت کی اعلیٰ قدروں میں ہوتا ہے ، رواداری ایک ایسی خصلت ہے جسے اسلام سراہتا ہے اور اپنانے کے لئے ابھارتا ہے ۔ اس کا تعلق کسی ایک فرد سے نہیں ہے بلکہ پورے معاشرے اور جماعت سے ہے ، اس سے لوگوں کے تعلقات استوار ہوتے ہیں اور معاشرہ میں پیار ومحبت کی جڑ مضبوط ہوتی ہے اور روزمرہ کی زندگی پرامن اور پر سکون بنتی ہے، چاہے باپ کا اولاد کی غلطیوں کو نظر انداز کرنا ہو، شوہر کا بیوی کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنا ہو ، ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی سے عفووتسامح سے پیش آنا ہو ، بڑے کا چھوٹے کی لغزشوں کو درگزر کرنا ہو، مالک کا نوکر کی کوتاہیوں کو معاف کرنا ہو، ایک مدرس کا طلباء کی غلطیوں پر تسامح برتنا ہو، ایک دوکاندار کا گراہک کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ہویا مسلم ممالک میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ عفودرگزر کے ساتھ برتاؤ کرنا ہو۔ اسلام عفودرگزر کی تعلیم دیتا ہے اور شر پسند ی ،عنف و تشدد اور نزع وخرافات سے بچنے کی تلقین کرتا ہے ۔

    اسلام کی تعلیمات کا دقّت نظری سے مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی کے تمام پہلو میں اسلام نے آسانی و سہولت اور عفوورخصت کو ملحوظ خاطر رکھا ہے چاہے اس کا تعلق معاملات سے ہو ، عبادات سے ہو یا پھر کسی غیر مسلم کے ساتھ برتاؤ کرنے سے ہو۔ آئیے ان تمام پہلوؤں کو مثالوں سے سمجھتے ہیں ۔

    معاملات میں عفوودرگزر :

    (۱)  بنواسرائیل میں قصاص تھا دیت نہیں تھی، نصاریٰ میں دیت تھی قصاص نہیں تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ پر کرم و احسان کرتے ہوئے ایک مقتول کے بدلے کے طور پر قصاص ،دیت اور عفوودرگزر کے درمیان اختیار دیا ہے ، مقتول کے وارثین چاہیں تو قصاص طلب کرسکتے ہیں ،یا دیت لے سکتے ہیں یاقاتل کو سرے سے معاف کرسکتے ہیں:

    {یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی، اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثٰی بِالْأُنْثٰی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیہِ شَیْء ٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء ٌ إِلَیْہِ بِإِحْسَانٍ ذَالِکَ تَخْفِیفٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ }

    ’’اے ایمان والو! تم پر مقتولین کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے ،آزاد شخص آزاد کے بدلے میں ، غلام شخص غلام کے بدلے میں ،عورت عورت کے بدلے ، جس شخص کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے معافی مل جائے تو اسے بھلائی کے پیچھے لگنا چاہئے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہئے ، تمہارے رب کی طرف سے یہ رخصت ورحمت ہے ‘‘ [البقرہ:۱۷۸]

    یہاں اللہ تعالیٰ نے قصاص کے مطالبے کے طور پر اختیارات فراہم کرکے بہت بڑا احسان و کرم فرمایا ہے ۔

    (۲)  جہاں عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ برائی کا بدلہ برائی سے لیاجا سکتا ہے وہیں اسلام نے معافی اور صلح و مصالحت کو ترجیح دی ہے اور ایسا کرنے والے کو اجر عظیم کی بشارت سنائی ہے ۔

    {وَجَزَاء ُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ إِنَّہُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ}

    ’’ایک برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہی ہے لیکن اگر معاف کردیا اور صلح کرلیا تو اس کا اجر وثواب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاہے ‘‘[الشوریٰ:۴۰]

    اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر چہ برائی کا بدلہ اس جیسی برائی سے لی جاسکتی ہے لیکن جس شخص نے معاف کردیا اور مصالحت کرلی اس کا بدلہ اور اجر میرے اوپر ہے ۔ لہٰذا اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عفوودرگزر پر ابھارا ہے اور اجر عظیم کی بشارت سنائی ہے ۔

    (۳)  بلاشبہ ایمان کی دولت سے مالامال ہونے اور قوتِ ایمان کی لذتوں سے آشنا ہونے کے بعد اگر کوئی مرتد ہوجاتا ہے اور اس کی موت آجاتی ہے ایسے شخص کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ لیکن اگرکوئی شخص مجبوری یا سخت زدوکوب کی وجہ سے با دلِ ناخواستہ مجبور ہو کر شرک کر بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو قابل عتاب نہیں گردانا ہے ۔

    {مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِہِ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ وَلَکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِنَ اللّٰہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ}

    ’’جو شخص مومن ہونے کے بعد اللہ کا کفر کرے (سوائے اس شخص کے جو کفر کرنے پر مجبور کردیا گیا ہو لیکن پھر بھی اس کا دل ایمان پر برقرار ہو )اورجو کفر کھلے دل سے کرے تو اس پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘ [النحل: ۱۰۶]

    دراصل یہ آیت حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ جب مشرکین مکہ نے زدوکوب کرنا شروع کیا اور دردناک عذاب میں مبتلا کردیا کہ اگر محمد ﷺ کا انکار نہیں کریں گے تو ظلم و ستم کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا، چنانچہ حضرت عمار رضی اللہ نے بادل ِ ناخواستہ اکراہاً ایسا کیا اور بعد میں نبی کریم ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا اور عذربیان کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر یہ آیت نازل فرمائی ۔

    چنانچہ اگر کوئی شخص حالات سے مجبور ہوکر دشمنوں سے نجات کی خاطر فقط زبان سے کچھ کفریہ کلمہ ادا کردے اور ساتھ ہی ساتھ دل و دماغ ایمانی نورسے منور ہو تو اس پر کوئی عتاب نہیں ہے،ایسا شخص اللہ کی گرفت سے محفوظ رہے گا ۔

    (۴)  قرآن کی آیت ہے :

    {وَإِنْ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی}

    ’’اگر تم عورتوں کو انہیں چھونے سے پہلے ہی طلاق دے دو اور تم نے ان کا مہر مقرر کردیا ہو تو مقررہ شدہ مہر کا آدھا حصہ انہیں دے دو، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردیں یا وہ ذمہ دارشخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہو تمہارا معاف کردینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے ‘‘ [البقرۃ: ۲۳۷]

    غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عفوودرگزر کو تقویٰ کی نشانی اور تقویٰ کے نزدیک بتلایا ہے ، اگر چہ آدھا ہر عورت کا حق ہے لیکن عورت کو معاف کردینے کی رخصت دی ہے اور اس عمل کو تقویٰ و پرہیز گاری بتا کر ترغیب دی ہے ۔

    عبادات میں عفوودرگزر:

    (۱)  قرآن کریم کی آیت ہے :

    {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَنْ کَانَ مَرِیضًا أَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْرَ}

    ’’ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔۔۔۔۔۔ہاں جو شخص اس مہینہ میں بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے مہینوں میں روزے کی تکمیل کرنی چاہئے ‘‘[البقرۃ: ۱۸۵]

    رمضان جو اسلام کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے جس کے روزے رکھنا ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہے ، ان تمام فرضیت اور واجبیت کے باوجود اسلام نے مریضوں اور مسافروں کے لئے رخصت بخشی ہے اور اسے روزہ توڑنے کی اجازت دے کر دیگر ایام میں قضا کرنے کا جواز فراہم کیا ہے ۔ اسلام ایک دین فطرت ہے اس کی تمام تعلیمات اور احکام انسانی فطرت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نافذ کی گئی ہیں۔

    (۲)  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

    {وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاۃِ}

    ’’جب تم سفر میں جارہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ‘‘[النساء:۱۰۱]

    قارئین کرام!  نماز اسلام کے ارکان میں سے ایک بہت ہی اہم رکن ہے ، جس کی ادائیگی ہر مسلم پر واجب ہے چاہے حضر میں ہو یا سفر میں ، تندرست ہویا مریض ہو، امن میں ہو یا خوف میں ، بر میں ہویا بحر میں ، گرمی کا موسم ہو یا برسات کا ، کسی بھی پس منظر یا کسی بھی حالت میں معاف نہیں ہے ، پھر بھی اسلام نے انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور سفر کی تمام تر صعوبتوں کی رعایت کرتے ہوئے سفر کی حالت میں ایک مسافر کو قصر کرنے کی اجازت دی ہے اور فقہاء کا اتفاق ہے کہ صلوٰۃ رباعیہ (ظہر، عصر، اور عشاء کی نمازیں حالت سفر میں قصر کی صورت میں دودورکعت پڑھی جائیں گی ۔

    (۳)  {قُلْ لَا أَجِدُ فِی مَا أُوحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہُ إِلَّا أَنْ یَّکُونَ مَیْتَۃً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِیرٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّکَ غَفُورٌ رَحِیمٌ}

    ’’آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں ایک کھانے والے کے لئے کوئی حرام غذا نہیں پاتا سوائے مردار کے یا بہتے ہوئے خون کے یا خنزیر کا گوشت ہو۔۔۔۔۔۔۔ہاں کوئی مجبور ہو جائے انہیں کھانے پر تو بقدر ضرورت بغیر لذت گو محسوس کے کھا سکتا ہے، واقعی آپ کا اللہ غفوررحیم ہے ‘‘[الانعام :۱۴۵]

    اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حرام غذا کا ذکر کرتے ہوئے مردار، بہتا خون اور خنزیر کے گوشت کا تذکرہ کیا ہے ان کی حرمت اور عدم جواز کے باوجود اللہ تعالیٰ نے رخصت اور درگزر کا راستہ فراہم کیا ہے کہ بطورعلاج یا کسی آزمائش کی گھڑی میں انسان ان تمام حرام کردہ اشیاء کو کھا سکتا ہے بشرطیکہ اس کا استعمال بقدر ضرورت ہو اس سے لذت کا حصول مقصود نہ ہو۔

    دوسرے ادیان کے ساتھ عفوودرگزر:

    (۱)  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

    ’’أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاہِدًا، أَوِ انْتَقَصَہُ، أَوْ کَلَّفَہُ فَوْقَ طَاقَتِہِ، أَوْ أَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا بِغَیْرِ طِیبِ نَفْسٍ، فَأَنَا حَجِیجُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘

    ’’اگر کسی مامون (جس کو جزیہ کے بدلے میں امن دیا گیا ہو)‘‘پر ظلم کیا گیا یا اس کا حق مارا گیا یا اس کے جزیہ کا وصول حق سے زیادہ کیا گیا یا کوئی چیز اس کی چاہت کے بغیر لی گئی تو قیامت کے دن ایسے شخص کے لئے میںدفاع کروں گا‘‘ [ابوداؤد:۳۰۵۲،باب فی تعثیر اھل الذمۃ ۔حکم الحدیث صحیح]

    ایک ایسا شخص جواللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے ، نبوت کا انکار بھی کرتا ہے جس کا ٹھکانہ جہنم ہے اگر عہد و پیمان کے ساتھ مسلم ممالک میں رہتا ہے تو اس کے مال و متاع ،جان اور عزت کی حفاظت ویسے ہی کی جائے گی جس طرح ایک مسلم کی ہوتی ہے ایسا شخص کلی طور پر مامون ہوگا اس کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر ہوگی۔

    (۲)  رسول اللہ ﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں کے درمیان عقیدۂ توحید اور نظام کی وحدت کے ذریعہ ایک نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل کی اور غیر مسلموں کے ساتھ آپ ﷺ نے رواداری اور کشادہ دلی کے ایسے ضوابط متعین کئے جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے ۔

    آپ ﷺ نے رواداری کی مثال قائم کرتے ہوئے فرمایا کہ یہود اپنے دین پر قائم رہیں گے اور مسلمان اپنے دین پر، یہود اپنے اخراجات کے ذمہ دارہوں گے اور مسلمان اپنے اخراجات کے ، کوئی آدمی اپنے حلیف کی وجہ سے مجرم نہیں ٹھہرایاجائے گا ، مظلوم کی مدد کی جائے گی۔

    بہر حال اسلام نے رواداری اور عفوودرگزر کو قائم ودائم رکھا اور ظلم و تشدد کو کسی صورت میں بڑھاوانہیں دیا ۔

    رواداری حیاتِ نبویہ ﷺ کے جھروکے سے :

    (۱)  رسول اللہ ﷺ نے سریۂ محمد بن مسلمہ کو    ۶؁ھ میں بنو بکربن کلاب کی طرف بھیجا لیکن سارے افراد بھاگ نکلے اور واپسی میں بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرلائے اور مسجد نبوی کے ایک کھمبے میں باندھ دیا۔نبی کریم ﷺ کا گزرہوا تو آپ ﷺ نے ثمامہ سے فرمایا تمہارے پاس کیا ہے ؟ انہوں نے کہا میرے نزدیک خبر ہے ’’إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلٰی شَاکِرٍ، وَإِنْ  تُرِدْ مَالاً  تعط مَالاً ‘‘ ’’اگر تم قتل کرو تو ایک خون والے کو قتل کروگے، اگر احسان کروگے تو ایک قدرداں پر احسان کروگے اور اگر کچھ مال چاہئے تو جو چاہومانگ لو ‘‘ دوسری بار پھر آپ ﷺ کا گزر ہوا پھر وہی سوال کیا اور ثمامہ نے وہی جواب دیا ،پھر تیسری بار گزرے اور وہی سوال وجواب پیش آیا اس کے بعد آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا انہیں رہا کردو۔

    ذراغور کریں ایک شخص جو نبی ﷺ کو قتل کرنے نکلا ہو اور گرفت میں آچکا ہو اس کی گردن پوری طرح آپ ﷺ کے ہاتھ میں ہے پھر بھی آپ ﷺ نے آزاد کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ثمامہ قریب باغ میں جاکر غسل کرکے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف با اسلام ہوجاتے ہیں ۔

    (۲)  غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر آپ ﷺ صحابہ کرام کے ہمرا ہ واپس ہوتے ہوئے ایک سایہ دار درخت کے نیچے آرام فرمانے کی غرض سے لیٹ گئے اور تلوار کو درخت سے لٹکادیا ۔یکایک ایک مشرک آتا ہے اور تلوار سونت لیتا ہے اور کہتا ہے تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟آپ ﷺ نے فرمایا :’’اللہ‘‘ یہ سننا تھا کہ تلوار مشرک کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی ،پھر آپ ﷺ نے تلوار اٹھائی اور فرمایا اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ اس نے کہا :’’کن خیر آخذ‘‘ ’’آپ  اچھے پکڑنے والے ہوئیے یعنی احسان فرمائیے‘‘

    قارئین کرام !  ایسے نازک موقع پر جہاں مشرک آپ کو قتل کرنے کے درپے تھا، پھر تلوار آپ کے ہاتھ آئی ، انتقام کا پورا سنہرا موقع فراہم تھا پھر بھی آپ ﷺ نے عفوودرگزر فرمایا ،آپ نے اپنی ذات کے خاطر کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔

    (۳)  فتح مکہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ اور صحابہ کرام کو فتح عظیم سے سرفراز کیا، خانۂ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا ، قریش مسجد حرام میں کھچا کھچ بھرے تھے ، سارے دشمنان اسلام آپ کے ہاتھوں میں قیدی بن چکے تھے ، رؤساء قریش کے خون رگوں میں سوکھ چکے تھے ، خوف وہراس سے چمڑیاں پیلی ہوئی جارہی تھیں، ان کی نگاہوں میں خوفناک منظر گردش کررہا تھا ، آپ ﷺ خانۂ کعبہ کا دروازہ کھولتے ہیں اور قریش کو مخاطب فرماتے ہیں ’’تمہارا کیا خیال ہے میں تم لوگوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنے جارہاہوں؟ انہوں نے کہا ’’خیراً، أخ کریم ،وابن کریم‘‘، آپ کریم ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’لاتثریب علیکم الیوم ‘‘ ’’آج تم پر کوئی عقاب نہیں ، جاؤتم سب آزاد ہو‘‘۔

    قارئین کرام !  ذرا غورکریں مشرکین مکہ جنہوں نے مسلمانوں کے لئے دنیا تنگ کررکھی تھی ،آپ کو قتل کرنے کیلئے اوباشوںکو مامور کردیا تھا ، اشاعت اسلام کے تمام راستوں کو بند کررکھا تھا ، اور نتیجتاً نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام نے اپنا سارا مال و متاع کنبہ و قبیلہ اور وطن عزیز کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے، موقع سنہراتھا ،سارے لیڈرانِ قوم آپ کے شکنجے میں تھے لیکن ایسے نازک موقع پر بھی آپ نے احسان ،عفو وتسامح کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لئے نمونہ ہے ۔

    قارئین کرام!  جہاں اسلام نے رواداری اور رخصت و آسانی کو عبادات ،معاملات اور غیروں کے ساتھ برتاؤ میں ملحوظ رکھا ہے وہیں دعاۃ و مبلغین کیلئے ایسے ضوابط اور اسالیب متعین کئے جس کا ہر گوشہ عفووتسامح اور نرم مزاجی کو لازم قراردیتا ہے:

    (۱)  جہاں ایک طرف اسلام اشاعت و تبلیغ کا حکم دیتا ہے :{وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ}’’تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جوخیر و بھلائی کی طرف لوگوں کو دعوت دے ‘‘[آل عمران: ۱۰۴]وہیں دوسری طرف نرم مزاجی ،صبر و تحمل کا دامن مضبوطی سے تھامے رہنے کا بھی حکم دیتا ہے۔{ادْعُ إِلٰی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ}’’اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت و دانائی اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلاتے رہو اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیا کرو‘‘[النحل:۱۲۵]

    (۲)  {وَلَوْ شَاء َ رَبُّکَ لَآمَنَ مَنْ فِی الْأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیعًا أَفَأَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ}

    ’’اگر آپ کا رب چاہتا تو سارے لوگ جو روئے زمین پر بستے ہیں ایمان لے آتے ،تو کیا آپ لوگوں کو نا پسند کریں گے الّا یہ کہ وہ مومن ہوجائیں ؟‘‘[یونس :۹۹]

    مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو دین کی طرف مجبور کرنے سے منع کیا ہے اور دلائل وبراہین کی روشنی میں دعوت اسلام کا حکم دیا ہے ، ہر موڑ پر اللہ تعالیٰ نے داعی و مبلغ کو نرمی اور رواداری کی تلقین کی ہے ۔

    (۳)  {وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ }

    ’’نیکی اور برائی دونوںبرابر نہیں ہوتی ،برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر تمہارا دشمن ایسا ہوجائے گا جیسے جگری دوست ‘‘ [فصلت :۳۴]

    بلاشبہ اسلام برائی کا بدلہ اس جیسی برائی سے لینے کی اجازت دیتا ہے لیکن عفوودرگزر ،صلح و مصالحت اور حسن اخلاق کو فوقیت دیتا ہے اور یقیناً یہ نفرت وعداوت اور حقدوجلن کو ختم کردے گا۔

    قارئین کرام!  عفوودرگزر ،تسامح ،رواداری، کشادہ دلی ،نرم مزاجی اور صبر وتحمل ایسی خصلتیں ہیں جن سے معاشرہ کی فضا بہتر بنتی ہے ،دشمن بھی دوست بن سکتا ہے ، اجنبی شخص ہم نشین بن سکتا ہے ،اغیار ہمارے گرویدہ بن سکتے ہیں ۔ انہی شریفانہ ضوابط اور اخلاق حسنہ کا کرشمہ تھا کہ تمام صعوبتوں اور رکاوٹوں کے باوجود صحابہ کرام کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا، اسلامی لشکر جو صلح حدیبیہ (؁۶ھ) کے موقع پر چودہ یا پندرہ سو صحابہ پر مشتمل تھافتح مکہ (     ؁۸ھ) کے موقع پر دس ہزار ، غزوۂ تبوک (     ؁۹ھ) کے موقع پر تیس ہزار تک پہنچ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اگلے ایک سال کے اندر ایک لاکھ چوبیس ہزار یا چوالیس ہزار صحابہ کرام نے حجۃ الوداع (   ۱۰؁ھ) کے موقع پر آپ کے ساتھ شرکت فرمائی۔

مصنفین

Website Design By: Decode Wings