Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • منکر پر انکار اور رد کے شرعی اصول و ضابطے

     «عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي اللّٰه عنها أَن رسُولَ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم قَال:’’سَتَكُونُ أُمَرَائُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ…‘‘»
    ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ ﷺنے فرمایا:’’قریب ہے کہ تم پر امیر مقرر ہوں تم ان کے اچھے کام بھی دیکھو گے اور برے کام بھی، پھر جو کوئی برے کام کو پہچان لے وہ بری ہوا (اگر اس کو روکے ہاتھ یا زبان یا دل سے) اور جس نے برے کام کو برا جانا وہ بھی بچ گیا ،لیکن جو راضی ہوا برے کام سے اور پیروی کی اس کی (تباہ ہوا)‘‘۔
    [صحیح مسلم:۱۸۵۴]
    سعودی عرب کے دن بدن بدلتے حالات کے سلسلے میں نبوی ہدایات مذکورہ حدیث میں موجود ہیں :
    ۱۔ ان کے معروف کو پہچان کر قدر کریں ۔
    ۲۔ ان کے منکر کو پہچان کر انکار کریں (انکار کے طریقے اور درجات سے متعلق تفصیل بعد میں آرہی ہے )
    ۳۔ ان کے منکر کی ہمنوائی کرنا اور ہاں میں ہاں ملانا خود کی تباہی کا دروازہ کھولنا ہے ۔
    حدیثِ مذکور کی روشنی میں سعودی عرب کی بے جا حمایت کا انجام ظاہر ہے ۔
    مگر سعودی عرب سے متعلق چند باتیں ایسی ہیں کہ جن کی وجہ سے موضوع گنجلک ہوجاتا ہے اور اکثر یوں سمجھا جاتا ہے کہ سعودی عرب کی بے جا حمایت کی جارہی ہے ۔
    معاملہ یہ ہے کہ سعودی عرب سے متعلق ایک تو جھوٹی خبریں عام کی جاتی ہیں اور دوسری طرف آنے والی بعض سچی خبروں میں جھوٹ شامل ہوتا ہے ، جیسے یہی خبر دیکھیں،خبر یہ تھی کہ:’’ سعودی عرب ہوٹلوں میں موسیقی کے لائسنس جاری کرنے جارہا ہے ‘‘، مگر لوگوں نے سرخی یوں جمائی اور پھیلایا کہ:’’ سعودی عرب بار کھولنے کی اجازت دینے جارہا ہے ‘‘۔
    اب ایسے موقعہ پر ایک تو حقیقت کو واضح کرنے کے لیے زبان کھولنی پڑتی ہے ۔
    دوسری طرف یار لوگ جس طرح خبر پر تبصروں کی آڑ میں رائی کا پہاڑ بناتے ہیں اور طرح طرح کے دعوے کرتے ہیں ۔ ان دعووں کو سعودی عرب میں رہ کر بس کر سعودی عرب کو قریب سے دیکھ چکے لوگ ان تبصروں کو حقیقت سے کوسوں دور پاتے ہیں لہٰذا وہ بے ساختہ اس کی نفی کرتے ہیں (یہ بھکتی نہیں اپنا مشاہدہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ معترضین عموماً وہ احباب ہیں جو سعودی نہ رہے اور مدافعین سعودی پلٹ)
    مزید یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ انہی ’’خبروں‘‘کی آڑ میں مسلکی و منہجی اختلاف کے پرانے نئے حساب بے باق کرنے لگ جاتے ہیں تب بولنا پڑتا ہے ،لکھنا پڑتا ہے ،رد کرنا پڑتا ہے مگر لوگ اس باریکی کو ملحوظ نہ رکھیں تو یہی معاملہ بے جا حمایت کا بن جاتا ہے ۔
    اس ساری صورت حال کو سامنے رکھیں تو یہ سمجھنا آسان ہے کہ تائید میں لکھنے والے بہت سارے لوگوں کا معاملہ سعودی عرب کی بے جا حمایت کا نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر یہ بھی مطالبہ رکھیں کہ جس طرح حمایت کی ہے بالکل اسی شد ومد کے ساتھ اس کی برائی پر نکیربھی کی جائے ۔
    رہی بات منکر کے انکار کی تو پھر انکار کے سلسلے میں شریعت کے جو اصول ہیں انہیں آپ عمومی طور پر دیکھ لیں ، سعودی عرب کو منظر سے ہٹا کر صرف اصولی موقف دلائل کی روشنی میں طے کریں ۔
    یہ کہنا کہ ’’خیر پر تعریف ہو تو شر پر کھلے عام نکیر بھی دینی فریضہ ہے ‘‘ عقلاً تو صحیح لگتا ہے مگر نقلاً (کتاب وسنت کی روشنی میں ) دیگر مصالح کے پیش نظر ضابطہ ایسا نہیں ہے بلکہ انکار کے سلسلے میں تفصیل وارد ہے ، جس کو یہاں مختصرا ًدرج کررہاہوں:
    ۱۔ حکمران کے منکر کا دل سے انکار ہر باخبرمسلمان پر فرض عین ہے ، اور ہاتھ سے انکار ایسے معاملات میں عوام اور علماء کے اختیار سے باہر کی چیز ہے ۔
    ۲۔ جہاں تک زبان و قلم سے نکیر کی بات ہے تو پھر اگر معاشرہ میں کوئی منکر عام ہو تو آپ اس کا حکمِ شرعی کھلے عام بیان کیجیے۔
    یا خاص حکمران کے کسی ایسے اقدام سے متعلق آپ سے سوال ہو جو منکر ہے تو کھلے عام اس منکر کا حکم شرعی بیان کیجیے۔
    ۳۔ اگر حکمران کے کسی شریعت مخالف فیصلہ پر آپ کو خود اپنی طرف سے انکار کرنا مقصود ہے تو پھر حکمران کے سامنے جاکر نصیحت کیجیے یا اس کو لکھ بھیجئے ۔
    اور اگر آپ کی پہنچ حکمران تک نہیں ہے تو پھر زبان و قلم سے اس انکار کے آپ مکلف اور مسئول نہیں ہیں ،آپ اس حکمران کی اصلاح کی دعا کیجئے ۔
    عوام الناس کے درمیان یا منبر و محراب (سوشل میڈیا ) پر حکمران کی گرفت ان کا محاسبہ کرنا اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنا یہ انکارِ منکر سے آگے حکمران کے خلاف عوام کو بھڑکانا ہے جو شرعا ًممنوع ہے ۔
    «يه حديث معيار هے:
    ’’مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْصَحَ لِسُلْطَانٍ بِأَمْرٍ، فَلَا يُبْدِ لَهُ عَلَانِيَةً، وَلَكِنْ لِيَأْخُذْ بِيَدِهِ، فَيَخْلُوَ بِهِ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْهُ فَذَاكَ، وَإِلَّا كَانَ قَدْ أَدَّي الَّذِي عَلَيْهِ لَهُ ‘‘»
    ’’جو شخص کسی صاحب اقتدار کو کسی بات کی نصیحت کرنا چاہے تو اسے لوگوں کے سامنے اعلانیہ نصیحت نہ کرے اسے تنہائی میں سمجھائے ، سو اگر وہ نصیحت قبول کرتاتو یہی مطلوب تھا، اور اگر نصیحت قبول نہیں کرتا تو نصیحت کرنے والے نے اپنی ذمہ داری پوری کردی‘‘
    [مسند احمد :۱۵۳۳]
    ۴۔ اگر مسلمان حاکم آپ کا ولی امر نہ ہو (آپ اس کی رعایا نہیں ہیں )تب بھی آپ پر اطاعت کے باب سے تو نہیں مگر حکمران کے خلاف اٹھنے والے فتنہ کے سدِّ باب کی قبیل سے آپ دل سے انکار اور دعا پر اکتفا کیجیے ۔
    سوشل میڈیا یا منبر و محراب پر چیخنے چلانے سے نہ آپ اس منکر کو روک سکتے ہیں اور نہ اس حکمران کو نصیحت!
    فرض کرلیں سوشل میڈیا پر آپ کی اس کوشش سے دیر سویر آپ کی یہ نصیحت حکمران تک پہنچ بھی جائے تو اس وقت تک جو نقصان ہوگا وہ اس فائدہ سے بڑا ہوگا ۔
    ولی امر آپ کا نہ ہو تب بھی خیال رکھیں کہ شورش پسندوں کی جانب سے خلافتِ عثمان بن عفان میں مختلف صوبوں کے والیوں کے خلاف یہی روش اختیار کی گئی تھی کہ ایک صوبہ کے گورنر سے متعلق شکایتیں خود اس کے صوبے میں نہ ہو کر دوسرے صوبوں میں عام کی گئی تھیں ، پھر ہر صوبہ کے ’’متحرک لوگ‘‘دوسرے صوبے کی اصلاح اور وہاں کے لوگوں کو انصاف دلانے کے نام پر نکلے تھے اور بالآخر خلیفۂ وقت کے قتل تک بات پہنچی تھی ۔
    مذکورہ تفصیل ہی کی روشنی میں ’’ہر مسلم حکمران‘‘کے ساتھ معاملہ ہونا چاہیے۔
    جہاں تک یہاں سوشل میڈیا پر نکیر کرنے پر ابھارا جارہا ہے اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس سے دیگر لوگوں کے سامنے خود کو معتدل اور متوازن شخصیت کا مالک ثابت کرنے سے زیادہ کچھ مقصود نہیں یا حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ اگر واقعی یہی مقصود ہے تو پھر یہاں بھی «وَلَنْ تَرْضَي عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَي حَتّٰي تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ» کو یاد رکھیں ۔ سلفی منہج کے مطابق موقف اپنائیں، باقی اللہ پر چھوڑ دیں ۔
    { «إِنَّ اللّٰهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا…» }واللہ أعلم

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings