Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • قبر پر مٹی ڈالتے وقت «مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَی» پڑھنے والی روایت کا تحقیقی جائزہ

    بعض فقہاء ِاحناف وشوافع کے نزدیک قبر پر تین لپ مٹی ڈالتے وقت پہلی لپ کے ساتھ’’ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ‘‘ دوسری لپ کے ساتھ’’ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ‘‘ اور تیسری لپ کے ساتھ ’’وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَی‘‘ پڑھنا مستحب ہے۔
    دیکھیں: [الجوہرۃ النیرۃ علی مختصر القدوری:۱؍۱۰۹، المجموع شرح المہذب:۵؍۲۹۳]
    ان کی دلیل ابو امامہ سے مروی ایک حدیث ہے جسے امام احمد نے مسند(۳۶؍۵۲۴)، نمبر۲۲۱۸۷)میں روایت کیاہے، انہوں نے کہا:
     «حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللّٰهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ:’’لَمَّا وُضِعَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ ابْنَةُ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْرِ.قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:(مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ، وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَي)(طه:۵۵)، قَالَ:ثُمَّ لَا أَدْرِي أَقَالَ:بِسْمِ اللّٰهِ وَفِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَعَلَي مِلَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ؟ أَمْ لَا، فَلَمَّا بَنَي عَلَيْهَا لَحْدَهَا طَفِقَ يَطْرَحُ لَهُمُ الْجَبُوبَ وَيَقُولُ: سُدُّوا خِلَالَ اللَّبِنِ.ثُمَّ قَالَ: أَمَا إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِشَيْئٍ وَلَكِنَّهُ يَطِيبُ بِنَفْسِ الْحَيِّ‘‘.
    » ترجمہ: سیّدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’جب رسول اللہﷺکی بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہاکو قبر میں رکھا گیا تو رسول اللہﷺنے یہ آیت پڑھی{مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیہَا نُعِیدُکُمْ، وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرَی}(سورہ طہ:۵۵ )’’ہم نے تمہیں اسی مٹی سے پیدا کیا اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے اور پھر اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے‘‘سیّدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں یہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد آپ ﷺنے یہ دعا پڑھی تھی یا نہیں: بِاسْمِ اللّٰہِ، وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ۔’’اللہ کے نام کے ساتھ،اللہ کی راہ میں اور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق دفن کرتے ہیں‘‘۔ جب لحد کی چنائی کردی گئی تو آپ ﷺنے لوگوں کی طرف گارا پھینکا اور فرمایا: اس سے اینٹوں کے شگافوں کو پر کر دو۔ پھر فرمایا:یہ کوئی ضروری چیز نہیں ہے، بس زندہ لوگوں کا نفس ذرا مطمئن ہو جاتا ہے‘‘۔
    اس حدیث کو امام احمد کے علاوہ حاکم نے( مستدرک :۲؍۴۱۱،نمبر:۳۴۳۳)میں، بیہقی نے حاکم سے (سنن کبیر :۳؍ ۵۷۴، نمبر:۶۷۲۶)میں اور ابو نعیم نے (معرفۃ الصحابۃ:۶؍۳۲۰۰ ، نمبر:۷۳۵۹)میں یحییٰ بن ایوب کے طریق سے روایت کیا ہے۔
    اس حدیث کا مدار یحییٰ بن ایوب غافقی پر ہے، اور یحییٰ مختلف فیہ راوی ہیں:
    ابن سعد نے کہا:’’منکر الحدیث‘‘’’کہ وہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں‘‘[الطبقات الکبریٰ:ط:دارصادر:۷؍ ۵۱۶]
    احمد بن حنبل نے کہا:’’سیء الحفظ‘‘’’ کہ ان کا حافظہ خراب ہے‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۹؍۱۲۸]
    ابو حاتم نے کہا:’’یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ‘‘’’ان کی حدیث لکھی جائے گی اور قابل حجت نہیں ہوگی‘‘[الجرح والتعدیل :۹؍۱۲۸]
    ابن معین نے ایک مرتبہ کہا:’’صالح‘‘اور دوسری مرتبہ کہا:’’ثقۃ‘‘[الجرح والتعدیل:۹؍۱۲۸]
    عجلی نے کہا: ’’ثقۃ‘‘[ الثقات ط:الباز :ص:۴۶۸]
    ابن عدی نے کہا:’’وہو عندی صدوق لا بأس بہ‘‘ ’’کہ میرے نزدیک وہ صدوق ہیں، ان میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘[الکامل فی ضعفاء الرجال :۹؍۵۹]
    ذہبی نے (الکاشف:۲؍۳۶۲)میں کہا:’’صالح الحدیث‘‘، اور (دیوان الضعفاء:ص:۴۳۱) میں کہا: ’’ثقۃ‘‘
    ابن حجر نے کہا:’’صدوق ربما أخطأ‘‘’’کہ وہ صدوق ہیں لیکن بسا اوقات غلطی کر جاتے ہیں‘‘ [تقریب التہذیب :ص:۵۸۸]
    ابن حجر نے ان کے تئیں جو موقف اختیار کیا ہے وہی راجح معلوم ہوتاہے۔
    سند میں یحییٰ غافقی کے استاد عبید اللہ بن زَحر افریقی ہیں، یہ بھی مختلف فیہ راوی ہیں۔
    امام بخاری نے کہا:’’ثقۃ‘‘[ العلل الکبیرللترمذی :ص:۱۹۰]
    ابو زرعہ نے کہا: ’’لا باس بہ، صدوق‘‘’’کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے وہ صدوق ہیں‘‘[الجرح والتعدیل :۵؍ ۳۱۵]
    ابن المدینی نے کہا:’’منکر الحدیث‘‘’’کہ وہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں‘‘[ الجرح والتعدیل:۵؍۳۱۵]
    امام احمد سے ان کے بارے میںپوچھا گیا تو انہیں ضعیف قرار دیا۔[ الجرح والتعدیل:۵؍۳۱۵]
    ابن معین نے کہا: ’’لیس بشیء ‘‘’’کہ وہ کچھ نہیں ہیں، یعنی ضعیف ہیں‘‘ [الجرح والتعدیل :۵؍۳۱۵]
    عجلی نے کہا:’’یکتب حدیثہ، ولیس بالقوی‘‘’’کہ ان کی حدیث لکھی جائے گی، وہ مضبوط نہیں ہیں‘‘[ الثقات: ص:۳۱۶]
    ابو حاتم نے کہا:’’لین الحدیث‘‘’’کہ وہ حدیث میں کمزور ہیں‘‘[الجرح والتعدیل:۵؍۳۱۵]
    ابن حبان نے کہا:
     «منكر الحديث جدا يروي الموضوعات عن الأثبات، وإذا روي عن على بن يزيد أتي بالطامات وإذا اجتمع فى إسناد خبر عبيد اللّٰه بن زحر وعلي بن يزيد والقاسم أبو عبد الرحمٰن لا يكون متن ذلك الخبر إلا مما عملت أيديهم فلا يحل الاحتجاج بهذه الصحيفة»
    ’’کہ وہ حد درجہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں، ثقات سے موضوع حدیثیں بیان کرتے ہیں، جب علی بن یزید سے روایت کرتے ہیں تو بڑی باطل اور منکر روایات لاتے ہیں، اور جب کسی خبر کی سند میں عبید اللہ بن زحر، علی بن یزید اور قاسم ابو عبد الرحمن جمع ہوجائیں تو وہ حدیث ان کے ہاتھوں کی گڑھی ہوئی ہوتی ہے، چنانچہ اس صحیفہ- صحیفہ عبید اللہ بن زحر، عن علی بن یزید عن القاسم-سے استدلال کرنا جائز ہی نہیں ہے‘‘
    [المجروحین:۲؍۶۲]
    اور اس سند میں یہ تینوں راوی موجود ہیں۔
    ذہبی نے کہا:’’مختلف فیہ وہو إلی الضعف أقرب‘‘’’ کہ وہ مختلف فیہ ہیں اور ضعف سے قریب تر ہیں‘‘ [المغنی فی الضعفاء:۲؍۴۱۵]
    اورحافظ ابن حجر نے کہا:’’صدوق یخطیء ‘‘’’صدوق ہیں مگر غلطیاں کرتے ہیں‘‘[ تقریب التہذیب :ص:۳۷۱]
    مذکورہ بالا اقوال سے معلوم ہو اکہ عبید اللہ بن زحر کو اکثر ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہے، صرف امام بخاری اور ابو زرعہ نے ان کی تعدیل کی ہے۔
    خلاصہ یہ ہے کہ یہ راوی ضعیف ہیں، البتہ متابعات میں ان کی حدیث لکھی جا سکتی ہے۔
    اسناد میں عبید اللہ بن زحر کے استاد علی بن یزید الہانی ہیں اور وہ بالاتفاق ضعیف ہیں۔
    امام احمد نے انہیں ضعیف قرار دیا۔[الجرح والتعدیل:۶؍۲۰۹]
    امام بخاری نے کہا:’’منکر الحدیث‘‘’’کہ وہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں‘‘[ التاریخ الکبیر :۶؍ ۳۰۱، التاریخ الأوسط:۱؍۳۱۰]
    ابو زرعہ نے کہا:’’لیس بقوی‘‘’’کہ وہ قوی نہیں ہے‘‘ [الجرح والتعدیل:۶؍۲۰۹]
    ابو حاتم نے کہا: ’’ضعیف الحدیث حدیثہ منکر‘‘’’وہ ضعیف الحدیث ہیں، ان کی حدیثیں منکر ہیں‘‘[الجرح والتعدیل:۶؍۲۰۹]
    نسائی نے کہا:’’متروک الحدیث‘‘’’کہ ان کی حدیثیں ائمہ نے چھوڑ دی ہیں‘‘[الضعفاء والمتروکون :ص: ۷۷]
    ابن حبان نے کہا:’’منکر الحدیث جدا‘‘’’کہ ان کی حدیث میں بہت زیادہ نکارت ہے‘‘[ المجروحین: ۲؍ ۱۱۰]
    اور حافظ ابن حجر نے کہا:’’ضعیف‘‘[تقریب التہذیب :ص:۴۰۶]
    اسناد میں علی بن یزید الالہانی کے استاد القاسم بن عبد الرحمن ابو عبد الرحمن شامی ہیں اور وہ مختلف فیہ راوی ہیں:
    ابن المدینی نے کہا:’’ثقۃ‘‘ [سؤالات ابن أبی شیبۃلابن المدینی :ص:۱۵۳]
    ابن معین نے کہا:’’ثقۃ‘‘ [تاریخ ابن معین روایۃ الدوری :۴؍۴۲۸]
    امام بخاری نے کہا:’’ثقۃ‘‘[ العلل الکبیر للترمذی:ص:۱۹۰]
    عجلی نے کہا:’’ثقة، یکتب حدیثه، ولیس بالقوی‘‘’’وہ ثقہ ہیں، ان کی حدیث لکھی جائے گی لیکن وہ قوی نہیں ہیں‘‘[الثقات ط:الباز:ص:۳۸۸]
    ابو حاتم نے کہا:’’حدیث الثقات عنہ مستقیم، لا بأس بہ، وإنما ینکر عنه الضعفاء ‘‘’’کہ جب ان سے ثقہ راوی روایت کرے تو کوئی حرج نہیں، نکارت صرف تب ہوتی ہے جب ان سے ضعیف راوی روایت کرے‘‘ [تہذیب الکمال :۲۳؍۳۸۹]
    یعقوب بن سفیان، ترمذی اور یعقوب بن شیبہ نے بھی کہا:’’ثقة‘‘[تہذیب التہذیب:۸؍۳۲۴]
    ذہبی نے کہا:’’صدوق‘‘’’کہ وہ صدوق ہیں‘‘[الکاشف:۲؍۱۲۹]
    امام احمد نے ان پر کلام کیا ہے۔[ الجرح والتعدیل:۷؍۱۱۳]
    ابن حبان نے کہا:
     «كان ممن يروي عن أصحاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المعضلات ويأتي عن الثقات بالأشياء المقلوبات حتي يسبق إلى القلبأنه كان المتعمد لها»
    ’’کہ صحابہ کرام سے منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں، اور ثقات سے مقلوب روایات بیان کرتے ہیں حتیٰ کہ دل میں یہ گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے عمدا ًایسا کیا ہے‘‘
    [المجروحین:۲؍۲۱۲]
    اور ابن حجر نے کہا:’’صدوق یغرب کثیرا‘‘’’صدوق ہیں، مگر وہ بہت زیادہ غرائب روایت کرتے ہیں‘‘ [تقریب التہذیب :ص:۴۵۰]
    القاسم کے بارے میںائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کا تتبع کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ اکثر ائمہ نے ان کی توثیق کی ہے، جہاں تک امام احمد کا ان پر کلام کرنے کی بات ہے تو انہوں نے ایک خاص حدیث کی نکارت کو بیان کیا اور اس نکارت کا محمل قاسم کو قرار دیا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے نزدیک قاسم مطلقاً تمام احادیث میںضعیف ہیں جیسا کہ یہ اہلِ علم پر مخفی نہیں ہے، اور جہاں تک ابن حبان کے جرح کی بات ہے تو ان کا یہ جرح ان کے تشدد پرمحمول کیا جائے گا۔
    اس لیے راجح یہ ہے کہ قاسم صدوق ہیں جیسا کہ ذہبی نے کہا، واللہ اعلم۔
    اس حدیث کی سند کا دراسہ کرنے کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی ہے کہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے، کیوں کہ علی بن یزید الہانی بالاتفاق ضعیف راوی ہیں، اور عبید اللہ بن زحر کے بارے میں راجح قول یہ ہے کہ وہ بھی ضعیف ہیں۔
    نیز یہ سلسلہ سند خود ضعیف ہے،ابن معین کہا:’’علی بن یزید عن القاسم عن أبی أمامۃ ہی ضعاف کلہا‘‘ ’’کہ علی بن یزید، عن القاسم، عن ابی امامہ کا پورا سلسلہ ضعیف ہے۔
    اس سلسلہ کے بارے میںاس سے سخت قول ابن حبان کا اوپرگزر چکا ہے۔ اور یہ حدیث اسی سلسلہ سے مروی ہے۔
    امام ذہبی نے اس پر حکم لگاتے ہوئے کہا: «لم يتكلم عليه وهو خبرٌ واهٍ، لأن على بن يزيد متروك» ’’کہ حاکم نے اس حدیث پر کوئی حکم نہیں لگایا، یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے،کیونکہ علی بن یزید متروک راوی ہے‘‘
    ذہبی کے علاوہ ہیثمی نے( مجمع الزوائد:۳؍۴۳) میں، ابن حجر نے( إتحاف المہرۃ:۶؍۲۴۲) میں، ابن رسلان نے (شرح سنن أبی داؤد:۱۳؍۵۲۱) میں،حسین مغربی نے( البدر التمام:۴؍۲۲۵) میں، اور صنعانی نے (سبل السلام:۱؍۴۹۶) میں اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔
    اگر بالفرض اس حدیث کو ہم نے صحیح مان بھی لیا تو بھی اس میں یہ ذکر ہی نہیں کہ پہلی لپ میں’’ مِنْهَا خَلَقْنَاكُم
    ‘‘ دوسری لپ میں’’ وَفِيهَا نُعِيدُكُم
    ‘‘ اور تیسری لپ میں ’’وَمِنْهَا نُخْرِجُكُم تَارَةً أُخْرَيْ‘‘پڑھا جائے، اس میں صرف اتنا ہے کہ ام کلثوم کو جب قبر میں رکھ دیا گیا تو آپ ﷺنے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی، اس میں سرے سے پہلی لپ، دوسری لپ اور تیسری لپ کی تفصیل ہے ہی نہیں۔
    ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
    امام نووی نے اس حدیث کو بطورِ دلیل ذکر کرنے کے بعدکہا کہ گرچہ یہ ضعیف ہے، لیکن فضائل اور ترغیب وترہیب کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[المجموع شرح المہذب:۵؍۲۹۴]
    امام نووی کی یہ بات محلِ نظر ہے، کیونکہ یہ حدیث فضائل کے باب میں نہیں ہے، بلکہ اس سے ایک عمل کے استحباب پر استدلال کیا گیا ہے، اور استحباب پانچ احکام تکلیفی (وجوب، استحباب، حرمت، کراہت، اباحت) میں سے ایک حکم ہے، اور باتفاقِ ائمہ احکام تکلیفی کسی ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہوتے۔
    نیز یہ حدیث اتنی سخت ضعیف ہے کہ اس پر فضائل کے باب میں بھی عمل نہیں کیا جائے گا۔
    ابن کثیر نے اپنی تفسیر قرآن میں بغیر سند کے ایک حدیث ذکر کی ہے جس سے بعض حضرات کو اس مسئلہ میں استدلال کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے،اس لیے اسے بھی یہاں نقل کرنا اور اس کا جواب دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
    ابن کثیر کہتے ہیں:
     «وفي الحديث الذى فى السنن أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حضر جنازة، فلما دفن الميت أخذ قبضة من التراب فألقاها فى القبر ثم قال:(منها خلقناكم) ثم (أخذ) أخري وقال:(وفيها نعيدكم). ثم أخذ أخري وقال: (ومنها نخرجكم تارة أخري)»
    [تفسیر ابن کثیر ت سلامۃ:۵؍۲۹۹]
    کہ سنن کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺایک جنازہ میں حاضر ہوئے، جب میت کو دفنا دیا گیا تو آپ ﷺنے ایک لپ مٹی لی اور’’ مِنْهَا خَلَقْنَاكُم‘‘پڑھا،پھر دوسری لپ مٹی لی اور’’ وَفِيهَا نُعِيدُكُم‘‘پڑھا،پھر تیسری لپ مٹی لی اور’’ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُم تَارَةً أُخْرَيْ‘‘ پڑھا۔
    ابن کثیرکے قول میں سنن سے کیا مراد ہے؟
    عام طور پر اہل علم سنن سے سنن اربعہ (سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ) مراد لیتے ہیں، اس لیے میں نے اس حدیث کو سنن اربعہ میں تلاش کرنے کی کوشش کی ، لیکن تلاش بسیار کے باوجود سنن اربعہ میں یہ حدیث نہیں ملی۔
    اس لیے غالب گمان یہ ہے کہ ابن کثیر نے سنن سے بیہقی کی سنن کبیر مراد لی ہوگی، اور سنن کبیر میں یہ روایت جس سیاق کے ساتھ آئی ہے اس کی مفصل تخریج گزر چکی ہے، اور ابن کثیر نے اسے جس سیاق کے ساتھ اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے وہ مجھے حدیث کی متداول کتابوں میں کہیں نظر نہیں آئی ۔
    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قبر پر مٹی ڈالتے وقت مذکورہ آیت کا پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، اس لیے اسے اس مخصوص وقت میں پڑھنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔
     وما توفيقي الا باللّٰه، وما اريد الا الاصلاح، وصلي اللّٰه علٰي نبينا محمد وعلٰي آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا

مصنفین

Website Design By: Decode Wings