Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عورتیں وراثت سے محروم کیوں؟

    محترم قارئین ! اسلام نے عورتوں پربے شمار احسانات کیے ہیں،ان کے حقوق بالکل مردوں کی طرح متعین فرمائے ہیں تاکہ مردوعورت دونوں باعزت زندگی گزار سکیں ۔اللہ نے فرمایا:
    {وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ، وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ، وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ }
    [البقرۃ: ۲۲۸]
    ان میں ایک عظیم احسان یہ ہے کہ اسلام نے انہیں میراث کا حق دیا ہے،میراث اس مال کو کہتے ہیں جو میت بطورِ ترکہ چھوڑ کر جاتا ہے، اسلام نے مردوں کی طرح عورت کا بھی میراث میں حصہ متعین فرماکر عورت کی بڑی تکریم فرمائی ہے،زمانۂ جاہلیت میں عورت حقِ میراث سے محروم تھی بلکہ وہ خود ہی سامانِ میراث تھی جیسا کہ قرآن نے اس کی صراحت فرمائی ہے:
    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَائَ كَرْهًا}
    ’’ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو‘‘
    [النساء :۱۹]
    اور آج بھی تقریباً تمام مذاہب میں عورت میراث سے محروم ہے،لیکن اللہ نے میراث میں عورتوں کا حصہ متعین کیا، آج بھی قرآن کی آیات میں عورتوں کا حصہ مذکور ہے اور ان آیات کی مسلمان تلاوت کرتے ہیں،لیکن آج کا المیہ یہ ہے عورت کا میراث وہ لوگ ہڑپ رہے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں،جس جاہلیت کی زندگی سے اسلام نے لوگوں کو نکالا تھا، میراث کے معاملے میں مسلم سماج پھر اسی جاہلی روش پر چل رہا ہے اور عورت کا حق میراث بڑے شان سے ہڑپ رہا ہے،بلکہ اس کو اپنا ہی حق سمجھ کر کھا رہا ہے۔اور جو بہادر بیٹیاں، سمجھ دار خواتین اپنا حقِ میراث طلب کرتی ہیں، ان کو ہی برا بھلا کہاجارہا ہے، لالچی اورفسادی تک کا خطاب دیا جارہا ہے،یہ بڑی دیدہ دلیری ہے، اللہ ہدایت دے ۔
    محترم قارئین ! جس میراث کی تفصیل خود اللہ نے قرآن میں بیان فرمایا ہے،اور مردوں اور عورتوں کو استحقاق میں برابر رکھا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    {للرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَائِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا}
    ’’ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی۔ (جو مال ماں باپ اور خویش واقارب چھوڑ مریں) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے‘‘
    [النساء:۷]
    جس میراث کو اللہ نے’’نَصِيبًا مَّفْرُوضًا‘‘
    کہہ کر تمام قسم کی دخل اندازی کا رد فرمادیا ہے،جس میراث کو اللہ نے «يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادُكُمْ» کہہ کر اس پر عمل کی تاکید فرمائی ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ مرد پورے میراث پر قابض ہوجائے اور کمزور بہن، بیوی، بیٹی، ماں کو محروم کردے؟
    وہ میراث جسے اللہ نے ’’تِلْکَ حُدُودُ اللّٰہ‘‘اور’’وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ ‘‘کہہ کر اس کی ادائیگی کو لازمی قرار دیا ہے، اور اس کی عدمِ ادائیگی پر جہنم کی شدید ترین دھمکی دی ہو، لیکن پھر بھی ایک مسلمان اپنی عورتوں کے حقِ میراث کو کھاجائے اور ڈکار تک نہ لے،کمزور ورثاء کے میراث کو کھانے والوں کا جاہلانہ رویہ بہت بڑے فساد اور بگاڑ کا غماز ہے۔
    آئیے غور کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ اس عظیم ترین حق سے سماج کی عورتیں محروم ہیںاور ان کے حق کوخود ان کے اقرباء ادا نہیں کررہے ہیں،جب کہ’’فَرِیضَۃً مِّنَ اللّٰہِ‘‘کہہ کر اللہ نے میراث کے حکم کی تعظیم فرمائی ہے کہ یہ تقسیم خود اللہ نے کی ہے لہٰذا پوری امانت داری اور شوق ومحبت سے یہ حصے اہل حق تک پہنچادینے چاہیے،میراث نہ ادا کرنا امانت میں خیانت اور باطل طریقے سے مال کھانا ہے اور یہ دونوں چیزیں شریعت میں ممنوع ہیں، اللہ نے امانت ادا کرنے کا حکم دیا ہے: «إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَي أَهْلِهَا» ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ‘‘[النساء :۵۸]
    اور اسی طرح اللہ نے حرام طریقے سے مال کھانے کو ناجائز قرار دیا ہے:
    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ}
    ’’اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ‘‘
    [النساء :۲۹]
    میراث سے محروم ہونے کے چند اسباب:
    ۱۔ شرعی علم کی کمی: بہت سارے لوگ میراث کے احکام،فرضیت اور اس کی اہمیت سے ناواقف ہیں اور بہت ساری عورتوں کو بھی اس کا بالکل علم نہیں ہوتا ہے،وہ اپنا حق سمجھتی ہی نہیں ہیں،حالانکہ عورتوں کا حصہ اللہ نے فکس کردیا ہے، بس اسے لینا ہے،لیکن مساجد اورعلمی دروس سے دوری اور تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ عورتیں اپنے شرعی حقوق سے ناواقف ہوتی ہیں اور یوں جہالت کی وجہ سے میراث سے محروم رہتی ہیں۔
    ۲۔ اپنا حقِ میراث طلب نہ کرنا : بہت ساری عورتوں کو اپنا حق معلوم رہتا ہے لیکن وہ اپنے حق کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں، کبھی شرم وحیا کی وجہ سے اور سماج کے مصنوعی خوف کی وجہ سے اور کبھی اس ڈر سے کہ بھائی اور بھابھی ہم سے رشتہ توڑ لیں گے،اور اس طرح سالہا سال بیت جاتے ہیں لیکن عورت اپنے حقِ میراث کا مطالبہ نہیں کرپاتی ہے، حالانکہ میراث کی آیات کے نازل ہونے کا سبب ایک عورت کا مطالبہ ہی تھا، حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی اپنی بچیوں کے لیے میراث میں ظلم کی شکایت لے کر اللہ کے رسول کے پاس آئیں تو اللہ نے میراث کی آیات نازل کیں اور ان کو ان کا حق ملا۔[ترمذی:۲۰۹۲،حسن]
    لہٰذا اپنے حق کا مطالبہ نہ کرنا بھی محرومی کا بہت بنیادی سبب ہے۔اس سلسلے میں خواتین کو سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنا حق وصول کرنے کے لیے پوری کوشش کرنا چاہیے،تاکہ سماج میں عورتوں پر ظلم کم ہو،ان کا میراث انہیں بآسانی مل سکے اور حق میراث دینے کی فضا عام ہو۔
    ۳۔ دین کا ناقص علم : سماج میں دین کے بارے میں غلط تصور رائج ہونے کی وجہ سے بھی عورت میراث سے محروم ہوجاتی ہے، میراث نہ دینا یہ حرام مال کھانے کی بدترین شکل ہے، ایک انسان بینک میں کام کرتا ہے، سودی کاروبار کرتا ہے، شراب بیچتا ہے، تو ہمیں اس سے نفرت ہوتی ہے، اس کے مال سے نفرت ہوتی ہے بلکہ ہم اس کے گھر کھانے پینے سے بچتے ہیں لیکن جب کوئی میراث ہڑپ کرتا ہے،جو بدترین حرام ہے تو ہم اس سے اتنی نفرت نہیں کرتے،جتنی دوسرے حرام کمائی والوں سے کرتے ہیں۔لہٰذا میراث پر قبضہ کرنے والے کو سماج کا کوئی خوف نہیں ہوتا ہے اور وہ بڑے شان سے کمزور عورتوں کا حق دبالیتا ہے اور اسے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے۔اور نہ اس برائی پر کوئی اس کا بائیکاٹ کرتا ہے،جب کہ سماج میں پھیلی برائی پر نکیر کرنا شرعی حکم ہے۔ اور اسے نہ روکنا لعنت کا سبب ہے،اللہ نے بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا:
    {كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُون}
    ’’آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وہ بہت برا تھا‘‘
    [المائدۃ:۷۹]
    کمزور ورثاء کا حق ہڑپ لینا اللہ کے حدود کو کراس کرنا ہے جو ایک سنگین جرم ہے،ان ظالموں کو روکنا، تنبیہ کرنا امر بالمعروف والنہی عن المنکر کا جزء ہے۔لہٰذا جس طرح سارے جرائم پر گفتگو ہوتی ہے ویسے ہی میراث میں ظلم پر گفتگو ہونی چاہئے۔نبی کریم کا ارشاد ہے: «أنصر أخاك ظالما أو مظلوما»
    ’’اپنے بھائی کی مدد کرو چاہئے ظالم ہو یا مظلوم ‘‘
    ۴۔ دنیا کی شدید محبت: دنیا کی ایسی محبت جس میں آدمی حلال وحرام کی تمیز نہ کرے دین وایمان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، ایسے لوگ جو ایمان سے زیادہ دنیا سے محبت کرتے ہیں وہ اپنے پاور کا استعمال کرکے اپنی بہن بیٹی کا حق کھاجاتے ہیں، حالانکہ ان کمزور عورتوں کا حق نہ دینا اور انہیں محروم کردینا یہ ظلم ہے اور یہ مال جہنم کی آگ ہے جسے وہ کھارہے ہیں، جیسا اللہ کا فرمان ہے:
    {إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامٰي ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا}
    ’’جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے‘‘
    [النساء:۱۰]
    دنیا کی محبت اگر حد سے بڑھ جائے تو انسان دینی احکامات کی پرواہ نہیں کرتا ہے،بلکہ دین بھی چھوڑ سکتا ہے، اسی لیے اللہ اور رسول اللہ ﷺسے بڑھ کر کسی بھی چیز کی محبت دل میں نہیں آنے دینا چاہیے،اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:
     «بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا، وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا، وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا»
    ’’جلدی جلدی نیک کام کر لو ان فتنوں سے پہلے جو اندھیری رات کے حصوں کی طرح ہوں گے، صبح کو آدمی ایماندار ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو ایماندار ہو گا اور صبح کو کافر ہو گا اور اپنے دین کو بیچ ڈالے گا دنیا کے مال کے بدلے‘‘
    [صحیح مسلم :۳۱۳]
    بڑے بد نصیب ہیں وہ لوگ جو حرام مال کے لیے اللہ کے دین کو چھوڑ دیں،اور مال کی محبت میں اس قدر اندھے ہوں کہ کمزور بچوں اور عورتوں کا حصہ ہڑپ کرجائیں،اور تھوڑے سے مال کے لیے اپنی آخرت برباد کرلیں۔
    ۵۔ آخرت سے غفلت: آخرت پر ایمان ویقین مسلمان کو ہر قسم کی حرام کمائی سے بچاتا ہے، اللہ کے پاس جواب دہی کا احساس دل میں ہو تو انسان اللہ کے حدود کی حفاظت کرتا ہے اور اللہ ورسول کے احکامات پر عمل کرتا ہے، یہ یقین جب کم ہو یا معدوم ہو تو انسان راستے سے بھٹک جاتا ہے ،اللہ کا فرمان ہے:
    {وَإِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِا لْآ خِرَةِ عَنِ الصِّرٰطِ لَنٰٰكِبُونَ}
    ’’بیشک جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ سیدھے راستے سے مڑ جانے والے ہیں‘‘
    [المؤمنون:۷۴]
    اسی لیے اللہ تعالیٰ نے میراث کی تقسیم میں اللہ ورسول کی اطاعت کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارت سنائی ہے:
    {تِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ وَمَن يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}
    ’’یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ( ﷺ)کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ‘‘
    [النساء:۱۳]
    آخرت پر یقین رکھنے والوں کے لیے یہ بہت بڑی بشارت ہے، اور جو مخالفت کریں،من مانی اور دادا گیری کریں، کمزورں کاوہ حق میراث نہ ادا کریں جو اللہ نے انہیں دیا ہے، ایسے ظالموں کے لیے شدید ترین وعید سنائی گئی ہے۔
    {وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ}
    ’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ ﷺکی نافرمانی کرے اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے‘‘
    [النساء:۱۴]
    ۶۔ لڑکیوں کی ملکیت کا انکار: اسلام نے ایک عورت کو اپنے مال کا مالک بنایا ہے، اس کے مال کو اس کی اجازت کے بنا کوئی بھی نہیں لے سکتا ہے، جیسے مہر یا تحفہ میں ملنے والا پیسہ، زیور وغیرہ یا میراث میں ملنے والا مال اگر کوئی اس سے جبرا ًلیتا ہے تو یہ حرام ہے، گناہ کا کام ہے ۔جیساکہ اللہ نے فرمایا:
    {وَآتُوا النِّسَائَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْئٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا}
    [النساء: ۴]
    اس آیت میں شوہر کو بیوی کا مال اس کی اجازت سے کھانے کی اجازت ہے لیکن اگر راضی نہ ہو تو کسی کے لیے بھی اس کا مال لینے کی اجازت نہیں ہے،اس آیت سے عورتوں کی ملکیت ثابت ہوتی ہے۔
    علاج: یہی ہے کہ مسلمان خاص کر عورتیں علم دین حاصل کریں، بصیرت کے ساتھ زندگی گزاریں،دین کا بنیادی علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہے، میراث کا تعلق ہر مسلمان سے ہے،لہٰذا اس کا علم عوام تک پہنچانا اہل علم کی ذمہ داری ہے،خطباتِ جمعہ، دروس،اجتماعات، دینی مجلات، نجی مجلسیں،عوامی روابط اور سوشل میڈیا پر اس کا چرچا ہونا چاہیے، تاکہ عوام اس کی اہمیت کو سمجھے۔
    اور عوام پر لازم ہے کہ میراث کے سلسلے میں من مانی کرنے کے بجائے اہل علم سے مسئلہ معلوم کریں، اور اسی کی روشنی میں میراث تقسیم کریں،اور اللہ سے ڈرتے رہیں۔اللہ تعالیٰ نے ناجائز طریقے سے مال کمانے اور کھانے سے منع فرمایا ہے لہٰذا ہرقسم کے حرام مال سے بچیں،اور یاد رکھیں کہ دنیا وآخرت کی سعادت وکامیابی اور جنت انہیں کو ملے گی جو نیکی کی راہ پر چلتے ہیں اور گناہوں سے بچتے ہیں۔
    اللہ ہم سبھی کو میراث کی تقسیم میں شریعت کی اتباع کی توفیق بخشے،اور ناجائز کمائی اور اس کی برائی سے محفوظ رکھے، تاکہ عورتوں کو ان کا حق میراث مل سکے تاکہ وہ ایک خوش حال زندگی گزار سکیں۔آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings