Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • فرقۂ’’سروریہ‘‘:تعارف اور افکار ونظریات (قسط اول)

    یقیناً حقیقی اہل السنہ والجماعہ وہی لوگ ہیں جو ہمیشہ ایک ہی راستے پر چلتے ہیں، ایک ہی منہج اور طریقے پر قائم رہتے ہیں، ہمہ وقت کتاب و سنت اور فہمِ سلف کو ہر میدان میں حرزِ جاں بنائے رکھتے ہیں، خواہ عقائد ہوں، افکار ہوں، منہج وتعامل ہو یا اعمال واخلاق، کسی بھی باب میں سلف صالحین کی روش سے ذرہ برابر اعراض گوارا نہیں کرتے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ:
     «لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولها»
    ’’کہ اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح انہی چیزوں سے ہوگی جس سے پہلے کے لوگوں کی اصلاح ہوئی‘‘
    اور رب ذوالجلال نے فرمایا ہے :
    {وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَي وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّي وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاء َتْ مَصِيرًا}
    جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (ﷺ) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے‘‘
    [سورۃ النساء ، :۱۱۵]
    اور رسول کریم ﷺ نے خبر دی ہے کہ:
     «لَيَأْتِيَنَّ عَلَي أُمَّتِي مَا أَتَي عَلَي بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّي إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَي أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَي ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَي ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا:وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَال:مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي»
    ’’میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آ چکی ہے، (یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے)یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہو گا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہو گا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول!یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا:یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے‘‘
    [أخرجہ الترمذی:۲۶۴۱ واللفظ والطبرانی:۱۴۶۴۶، والحاکم: ۴۴۴، وہو حدیث حسن]
    مزید : «سُئِلَ النَّبيُّ صَلَّي اللّٰهُ عليه وسلَّمَ:أيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَال:’’قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ»
    اللہ کے رسول ﷺسے دریافت کیا گیا کہ کون لوگ سب سے بہتر ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:’’میرے زمانے کے لوگ، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، اور ان کے بعد وہ جو ان کے بعد آئیں گے‘‘۔[أخرجہ البخاری:۶۶۵۸]
    اب ذرا غور کریں کہ جن کے راستوں کی پیروی کرنے کا حکم خود اللہ نے دیا ہو، جن کے فلاح پانے کی خوشخبری اللہ اور اس کے رسول نے دی ہو اور آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ میں جن کے سب سے بہتر ہونے کی گواہی دی گئی ہو ان کے نقش قدم پر چلنے والا گروہ اور ان کے منہج وفہم کی اتباع کرنے والی جماعت سب سے بہتر، اقرب الی الحق والصواب اور نجات یافتہ نہیں ہوگی تو اور کون ہوگا ؟
    اللہ کا شکر ہے کہ فتنوں کی تلاطم خیز موجیں انہیں(اہل السنہ والجماعہ کو) بدل نہ سکیں اور شبہات وشہوات کی بے رحم تیز وتند آندھیاں انہیں اپنے منہج وفکر سے ٹس سے مس نہ کر سکیں۔چنانچہ اندھیری رات کے مسافروں کے لیے یہی روشن ستارے ہیں اور متعدد ٹیڑھے میڑھے راستوں کے بیچ صراط مستقیم ہیں اللہ انہیں تا قیامت ایسے ہی باقی رکھے۔ آمین!
    مگراللہ کی حکمت ومشیئت سے مختلف ادوار میں ایسے لوگ اور ایسی جماعتیں وجود میں آئیں جنہوں نے اپنے آپ کو اہل السنہ والجماعہ باور کرایا اور ان کی مشابہت کی کوشش کی حالانکہ وہ ان میں سے نہ تھے، بس زبانی دعویٰ تھا پھر بھی سادہ لوح عوام ان سے دھوکہ کھا جاتی ، چنانچہ ہر زمانے میں علمائے سنت نے صحیح عقیدہ و منہج کی توضیح کی، باطل و اہلِ باطل کی نقاب کشائی کی، عوام کو ان سے ڈرایا اور لوگوں کی صحیح تربیت فرمائی، سنت کا اثبات کیا اور بدعت واہل ِبدعت کی تردید کی۔
    اگر کوئی قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے تعلق سے تحقیق کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ ان کا صرف ایک ہی نام تھا ’’مسلم‘‘،جو اللہ نے انہیں دیا تھا لیکن جب خوارج اور شیعہ وجود میں آئے تو اہل علم نے ان کے انحرافات کو واضح کیا،سنت وجماعت کو لازم پکڑا، عوام کو ان سے دور رہنے کی تلقین کی اور خالص مسلمانوں کا نام ’’اہل السنہ والجماعہ‘‘رکھا پھر جب اہل الرائے کا فتنہ عروج پذیر ہوا جنہوں نے احادیث کو چھوڑ کر اپنی کمزور آراء پر اعتماد کیا، تقلید الرجال اور شخصیت پرستی میں مبتلا ہو گئے تو علمائے اہل السنہ والجماعہ نے ان کے انحرافات کو بھی اُجاگر کیا اور حدیث و سنت کی اتباع کرنے والوں کو ’’اہل الحدیث یا اہل الاثر‘‘کا نام دیا تاکہ اہل الرائے سے ان کی تمیز کی جا سکے، اس کے بعد جب اہلِ کلام منطقیین وفلاسفہ سامنے آئے جنہوں نے اسماء و صفات،تقدیر الہٰی اوررؤیت باری تعالیٰ وغیرہ امورِ عقیدہ کا انکار کیا اور غیبیات کی تاویل کی تو علمائے اہل حدیث نے ان کی گمراہیاں بیان کی اور اپنے آپ کو سلفِ صالحین صحابہ و تابعین کی طرف نسبت کرتے ہوئے سلفی کہلائے،چنانچہ وہ اپنی اسی حالت پر قائم ہیں، سنت و اہل سنت کی نصرت ومعاونت کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں اور بدعت و اہلِ بدعت پر رد کرتے ہیں، ان سے تحذیر کرتے ہیں اور ان کے انحرافات وخزعبلات کو آشکار کرتے ہیں۔
    فتنوں کے اسی تسلسل کی ایک کڑی کے طور پر اس زمانے میں مشہور و معروف فرقہ’’الاخوان المسلمون‘‘کا ظہور ہوا جس کی تاسیس حسن البنا (متوفی۱۹۴۹؁م) کے ہاتھوں ہوئی، جس نے اپنے افکار خوارج سے، عقائد معتزلہ واشاعرہ سے اور سلوک و کردار صوفیا سے ادھار لیا، مزید اپنے طور پر حزبی سیاسی کارکردگیوں کو شامل کیا، شیعیت سے محبت کو چھپایا اور عام طور پر سنیت ظاہر کی، ان سے بہت لوگ متاثر ہوئے اور بہتوں نے ان کی تردید بھی کی اور ان کی حقیقت کو پہچانا، در اصل یہ’’ الاخوان المسلمون‘‘ کلچرل مفکرین تھے اور ہیں جن کا مقصدِ اساسی سیادت و قیادت کا حصول ہے جس کے لیے دین کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ حقیقت میں یہی جماعت عالمِ اسلام بالخصوص خلیجی ممالک میں پائے جانے والی تمام منحرف جماعات، تحریکات اور فرقوں کی ماں ہے۔
    اسی کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک تنظیم’’السروریہ‘‘کے تعلق سے ذیل میں میں چند سطور قلم بند کروں گا ان شاء اللہ۔
    فرقۂ سروریہ کا تعارف:
    فرقہ سروریہ ایک فکری قطبی اخوانی تنظیم ہے جو سلفیت ظاہر کرتی ہے اور سید قطب اور الاخوان المسلمون کے افکار کی ترویج کرتی ہے نیز سلفیت کے لبادے میں رہ کر ان اخوانی افکار ونظریات کے حصول کے لیے کوشاں رہتی ہے اور اس کے مؤسس محمد سرور زین العابدین کی طرف نسبت کرتے ہوئے سروریہ کہلاتی ہے۔!
    دکتور محمد بن رمزان الہاجری فرماتے ہیں:’’حروریہ (خارجی فرقہ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا تھا) اور سروریہ کے مابین سوائے حاء اور سین کے کوئی فرق نہیں ہے، حروریہ بھی عقائد اسماء وصفات اور فقہ میں سلفی تھے سروریہ بھی سلفی ہیں لیکن حروریہ نے امام کے خلاف خروج کیا تھا، حکام کی تکفیر کی تھی، مسلمانوں کو کافر قرار دیا تھا اور ان کا خون بہایا تھا، سروریہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں، حروریہ سچے تھے لیکن یہ جھوٹے ہیں۔
    (https://youtu.be/P2TjeO3pXX0)
    علماء کہتے ہیں کہ اس کے مؤسس محمد سرور نے اخوانی قمیص زیب تن کیا اور اس کے اوپر سنی سلفی چادر اوڑھ لی اور اس چادر کے اندر چھپ کر اخوانی منہج پھیلاتا رہا، بالخصوص دور حاضر کے ائمہ اربعہ امام ابن باز، ابن عثیمین، مقبل الوادعی اور محمد ناصر الدین البانی رحمہم اللہ کی زندگی میں اس نے اپنے آپ کو امام ابن تیمیہ، ابن القیم اور محمد بن عبد الوہاب رحمہم اللہ اور مذکورہ بالا ائمہ کرام کا ہم منہج ظاہر کیا، سلفیت کی اشاعت میں کتابیں تصنیف کیں، مجلہ جاری کیا اور سلفی علماء کی کتابوں کی نشر واشاعت کی لیکن کبھی کھل کر اپنے موقف کو واضح نہیں کیا۔!
    فرقۂ سروریہ اپنے آپ کو سلفی کہلاتا ہے اور سلفیت کا مظاہرہ بھی کرتا ہے، اس کے لیڈران لمبی لمبی داڑھی رکھتے ہیں، جبہ و دستار پہنتے ہیں اور سلفی عقیدہ کو ماننے کا دم بھرتے ہیں، سلفی عقیدے کی کتابوں کی تشریح کرتے ہیں اور اپنے دروس و محاضرات میں علامہ البانی، ابن باز، ابن عثیمین اور مقبل الوادعی جیسے سلفی علماء کا ذکر کرتے ہیں، ان سے اپنا تعلق ظاہر کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ سلفی نہیں ہیں بس زبانی دعویٰ ہے ،سلفیت اس سے بری ہے۔کیونکہ یہ لوگ سید قطب کی تعریف کرتے ہیں حالانکہ وہ داڑھی مونڈتا اور جینس پینٹ پہنتا تھا، شعائر اسلام کی پابندی نہیں کرتا تھا بلکہ صحیح سے نماز بھی ادا نہیں کرتا تھا۔!یہ لوگ اپنی ان چیزوں کو جال کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کی سنی عوام ان کی داڑھی ٹوپی سے دھوکہ کھا کر ان کے دامِ فریب میں آ جائے، ورنہ اخوانی قطبیوں کی اکثریت داڑھی مونڈے اور جینس پینٹ والے ہوتے ہیں، عقیدہ کی کتابوں سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔! سچ کہا کہنے والے نے:
     «وكل يدعي وصلا بليلي……وليلي لا تقر لهم بذاكا»
    ’’مؤسس سروریہ‘‘محمد سرور زین العابدین کی مختصر حالات زندگی:
    اس سے قبل کہ میں اس تنظیم کے افکار و نظریات پر بحث کروں اس کے مؤسس محمد سرور زین العابدین کے بارے میں چند وضاحتیں پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں چونکہ جماعتوں اور تنظیموں کا مزاج اور ان کی حقیقت ان کے مؤسسین کے افکار و نظریات سے مربوط ہوتی ہے۔
    محمد سرور زین العابدین ایک شامی شخص تھے جن کی پیدائش۱۹۳۸عیسوی میں سیریا کے ’’حوران‘‘نامی صوبہ کے تسیل نامی گاؤں میں ہوئی تھی، اخوانی منہج پر پلے بڑھے اور اسی پر عمل کرتے رہے، انہوں نے سید قطب اور اس کے بھائی محمد قطب کے افکار و نظریات کو بغور پڑھا تھا ان سے حد درجہ متاثر بھی تھے، ان کی تعلیم و تربیت اخوانی علماء وزعماء کے ہاتھوں ہوئی تھی جن میں عصام العطار احمد النفاخ اور عبد الرحمن المحلاوی وغیرہم اخوانیین قابلِ ذکر ہیں لیکن جب سیریائی جماعت اخوان المسلمین کے قائدین کے ما بین اختلاف رونما ہوا جس کے امیر مصطفیٰ السباعی تھے اور نتیجتاً جماعت دو دھڑوں میں بٹ گئی تو وہ ۱۹۶۵؁عیسوی کو۲۷سال کی عمر میں اپنی بیوی کے ساتھ جو طبی خدمات انجام دینے کے لیے سعودی جا رہی تھی بطورِ محرم رشتہ دار کے سعودی عرب چلے گئے، حائل شہر میں سکونت اختیار کی اس وقت ان کا کوئی کام نہ تھا اور نہ ہی شرعی علم سے کوئی واسطہ تھا البتہ تنظیمی واداری کاموں میں بڑے ماہر تھے ،انتظام و انصرام میں اور لوگوں کو جلدی قائل کر لینے میں بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے سو انہوں نے کسی مدرسے میں بطورِ منتظم نوکری شروع کر دی، وہاں ایک سال رہنے کے بعد صوبہ قصیم کے بریدہ نامی شہر میں چلے گئے وہاں جا کر ’’المعہد العلمی‘‘میں بطور استاد ان کی تقرری ہو گئی جہاں وہ حساب پڑھاتے تھے، بریدہ کا ماحول خالص سنی سلفی ماحول تھا انہیں یہاں کے لوگوں کی سلفیت بڑی پسند آئی، یہیں پر انہوں نے سلفی علماء سے کچھ شرعی علوم سیکھے، شیخ صالح البلیہی وغیرہ سے عقائد کی کتابیں پڑھی لیکن وہ اس بات سے نالاں تھے کہ سلفی حضرات تحریک اور تحریکیت سے دور رہتے ہیں اور حکام وامراء کے خلاف کچھ نہیں بولتے ہیں چنانچہ انہوں نے اخوانیت کو سلفیت کے ساتھ ملا کر لوگوں میں اپنے افکار کی نشر و اشاعت شروع کر دی، اس کے لیے انہیں سلفیت کے اظہار کا سہارا لینا پڑا، داڑھی بڑھانے اور جبہ و دستار پہننے کی ضرورت ہوئی، عقائد کی کتابوں کے ساتھ دلچسپی دکھانی پڑی سو انہوں نے یہ سب کیا حتی کہ بعض باحثین نے کہا کہ:’’محمد سرور ایک ساتھ امام محمد بن عبد الوہاب کی چادر اور سید قطب ومحمد قطب کا جینس پینٹ پہن کر نکلے تو وہ سعودی انقلابی نوجوانوں کا سب سے بڑا اور مشہور تحریکی مرجع بن گئے، جس کے لیے وہ دائیں ہاتھ میں ’’کتاب التوحید‘‘ اور بائیں ہاتھ میں ’’فی ظلال القرآن‘‘لے کر نکلتے تھے‘‘
    یہاں بریدہ میں بہت سارے طلبہ نے ان سے استفادہ کیا جو بعد میں چل کر بڑے مشہور ہوئے جن میں سے ایک سلمان العودہ ہیں۔
    اس وقت سعودی اخوانیوں کا قائد مناع القطان تھے، جب ہر طرف سے اخوانیوں کو دھتکارا گیا تو سعودی عرب نے انہیں اپنے ہاں اس شرط کے ساتھ پناہ دی تھی کہ وہ کسی قسم کا تنظیمی تحریکی اور جماعتی کام نہیں کریں گے، مناع القطان شروع شروع میں اس عہد کا پاس و لحاظ رکھتے تھے (گرچہ ۱۹۷۳کے بعد وہ بھی سعودی عرب میں اخوانیت کا پرچار کرنے لگے) چنانچہ جب انہیں محمد سرور کی کارکردگیوں کا پتا چلا تو بڑے برہم ہوئے، مزید جیسا کہ محمد سرور کے ساتھیوں اور قریبی لوگوں میں سے ایک شخص کا بیان ہے کہ بریدہ میں محمد سرور کی حرکتیں بڑی عجیب و غریب تھیں، عموماً اخوانی حضرات امراء وحکام سے دور رہتے ہیں کیونکہ وہ انہیں کافر سمجھتے ہیں لیکن محمد سرور بات بات پر ان سے قربت بڑھانے کی کوشش کرتے تھے چنانچہ اس کے لیے وہ امراء اور رجال الامن کو المعہد العلمی کے نوعمر طلبہ کی رپورٹس لکھا کرتے تھے کہ فلاں اشتراکی ہے، فلاں تحریکی ہے ،فلاں ناصری ہے وغیرہ وغیرہ ،اور جب انہیں امراء سے کچھ مانگنا ہوتا تو پہلے کچھ رپورٹس لکھتے پھر اپنی حاجت بیان کرتے تھے، یہ چیزیں دیکھ کر مناع القطان اس سے بد دل ہو گئے اور عوام کی طرف سے بھی کچھ شکایات آنے لگیں جس کی وجہ سے وہ وہاں پانچ سال کا عرصہ گزار کر ۱۹۷۱عیسوی میں ’’احساء‘‘چلے گئے۔
    یہاں بھی بڑی محنت کے ساتھ تنظیمی وتحریکی کاموں میں لگ گئے، کچھ نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملایا جن میں سے ایک نے لندن جاکر ’’المنتدی الاسلامی‘‘کے نام سے ایک مرکز کی تاسیس کی اور ’’البیان‘‘ کے نام سے ایک مجلہ جاری کیا۔
    محمد سرور یہاں پر دو سال رہے اس کے بعد حکومتِ سعودیہ کے مطالبے اور دباؤ کی وجہ سے ۱۹۷۳میں کویت چلے گئے ۔
    ان کے کویت جانے کے بعد سالم الدخیل سعودی سروریوں کا لیڈر بنے لیکن بہت جلد انہوں نے سروری تنظیم سے علیحدگی اختیار کر لی کیونکہ کچھ مسائل میں ان کا سروریوں سے شدید اختلاف ہو گیا تھا ،سروری حضرات علی الاطلاق تکفیر کے قائل تھے، اسی طرح کتمان وسِرِّیت کا حد درجہ اہتمام کرتے تھے جو سالم الدخیل کو پسند نہ آیا، سروریوں نے انہیں اس شرط کے ساتھ تنظیم چھوڑنے کی اجازت دی کہ وہ تنظیم کے بارے میں کچھ بھی نہیں بولیں گے، سالم الدخیل کے بعد فلاح العطیری ان کا لیڈر بنے، انہی کی طرف نسبت کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو’’ فلاحیہ عطیریہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ان کے بعد ناصر العمر قائد بنے جو اب تک ہیں، سعودی سے جانے کے بعد بھی محمد سرور یہاں کے سروریوں کی خبر رکھتے تھے اور گاہے بگاہے مختلف اسفار میں ان سے ملتے رہتے تھے اور ان کی ذہن سازی کرتے رہتے تھے۔
    کویت میں اخوانی مجلہ’’المجتمع الاسلامی‘‘کے ساتھ منسلک ہو کر کام کرنے لگے ، وہیں ان کی ملاقات اخوانی لیڈر حسن ایوب اور سید عید سے ہوئی جو سید قطب کے ساتھ قید میں تھا لیکن کسی طور پر قتل سے بچ گیا تھا، ان حضرات سے محمد سرور نے بہت کچھ سیکھا اور مزید قوت اور لگن کے ساتھ کام کرتے رہے کیونکہ کویت میں تنظیموں کو بہت زیادہ آزادی حاصل تھی لیکن یہاں وہ کچھ خاص لکھتے نہ تھے وجہ یہ تھی کہ اس وقت ان کا کوئی علمی مقام نہیں تھا بس تنظیمی وتحریکی کاموں میں مصروف رہتے تھے ۔
    یہاں ایک عرصہ گزارنے کے بعد انگلینڈ کے شہر برمنگھم چلے گئے کیونکہ انقلابِ ایران کے بعد کویت پر ایرانی اثر بڑھ گیا تھا اور محمد سرور علی الاطلاق شیعوں کو کافر کہتے تھے، چنانچہ شیعی لیڈروں کی شکایت پر کویتی حکام کے دباؤ کی وجہ سے گیارہ سال کا عرصہ گزار کر اُنہیں کویت چھوڑنا پڑا۔ وہ ایک کتاب فروش تاجر کی شکل میں برمنگھم گئے، وہاں جا کر’’مرکز دراسات السنہ‘‘کے نام سے ایک مرکز قائم کیا، ایک دار النشر کی تاسیس کی جہاں سے سلفی عقائد کی بہت ساری کتابوں کو شائع کیا اور تقریباً تین سال بعد مجلہ السنہ کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا جسے علامہ البانی اور مقبل الوادعی رحمہما اللہ نے ’’مجلۃ البدعۃ‘‘کا لقب دیا تھا۔
    وہاں ایک لمبا عرصہ گزارنے کے بعد ۲۰۰۴م میں اردن چلے گئے پھر اردن سے قطر اور یہیں پر۱۱نومبر ۲۰۱۶م کو وفات پا گئے۔
    محمد سرور زین العابدین کے افکار کا خلاصہ:
    محمد سرور کی زندگی کے مجموعی حالات کا بغور مطالعہ کرنے سے درج ذیل باتیں سامنے آئیں:
    (۱) آدمی زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا بالخصوص شرعی علوم سے نا آشنا تھا جیسا کہ عموماً اخوانی لیڈران کا حال ہوتا ہے۔
    (۲)شروع سے لے کر اخیر تک اخوانیت سے جڑے ہوئے تھے جیسا کہ خود انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہتے ہیں کہ:’’میری عمر اور میری تاریخ الاخوان المسلمون کے ساتھ منسلک رہی ہے، میں نے اپنے بچپن میں اخوانیت کو اپنایا تھا، لہٰذا اخوانیت ترک کرنا آسان نہیں ہے‘‘(شریط مراجعات مع الشیخ محمد سرور زین العابدین فی الیتیوب)
    (۳) سلفیت ظاہر کرتے تھے لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی کیونکہ وہ مسائلِ ایمان کو صحیح طور پر منطبق نہیں کرتے تھے، معاملۃ الحکام اور امامت وجماعت کے مسائل کو منہجِ سلف سے پرے ہو کر دیکھتے تھے، انہوں نے عقیدہ کی کتابوں کو خشک اور غیر ضروری کہا ہے اور صراحت کے ساتھ ملک فہد وغیرہ عربی حکام کی تکفیر کی ہے، مسلمانوں کی مساجد کو ’’مساجد الضرار ‘‘کہا ہے اور اس نام سے کتاب بھی لکھے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
    (۴) انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سروری نام کی ایک تنظیم موجود ہے اور انہوں نے ہی سعودیہ عربیہ میں اس کی تاسیس کی ہے۔
    (۵) انہوں نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ان کی طرف سروریت کی نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ یہ نسبت تاسیس کے اعتبار سے ہو، مسؤولیت اور ذمہ داری کے اعتبار سے نہیں۔(شریط مراجعات مع الشیخ محمد سرور زین العابدین فی الیتیوب )
    (۵) عقیدہ کی کتابوں سے عداوت رکھتے تھے اور لوگوں کو ان سے بیزاری کی دعوت دیتے تھے، جیسا کہ آگے اس کا ذکر آ رہا ہے۔
    (۶) خوارج کی طرح گناہوں کی وجہ سے مسلم حکام و عوام کو کافر قرار دیتے تھے۔
    (۷) اہلِ سنت سلفیوں سے حد درجہ بغض رکھتے تھے، عوام کو علماء سے متنفر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سرکاری نوکر ہیں جو سرکاری اشارے پر ناچتے ہیں، جب انہیں اخوانیوں پر رد کرنے کے لئے کہا جاتا ہے تو ان پر رد کرتے ہیں اور جب ایرانیوں کے خلاف بولنے کے لیے کہا جاتا ہے تو ان پر پل پڑتے ہیں،یہ غلام کے غلام کے غلام کے غلام کے غلام ہیں اور ان کا آخری آقا نصرانی امریکی ہے جو وائٹ ہاؤس میں بیٹھا ہوا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں محمد سرور مجلہ’’السنۃ‘‘ شمارہ۲۶؍جمادی الاولیٰ ۱۴۱۳صفحہ:۲۔۳)
    ان کی لکھی ہوئی چند کتابوں کے اسماء درج ذیل ہیں:
    (۱)دراسات فی السیرۃ النبویۃ(۲)منہج الأنبیاء فی الدعوۃ إلی اللہ
    (۳)حقیقۃ انتصار حزب اللہ(۴)العلماء وأمانۃ الکلمۃ
    (۵)وجاء دور المجوس(۶)أزمۃ أخلاق
    (۷)مأسات المخیمات الفلسطینیۃ فی لبنان
    (۸)الشیعۃ فی لبنان۔۔حرکۃ أمل أنموذجاً
    (۹)سلسلۃ الحکم بغیر ما أنزل اللہ (جزء ان)
    (۱۰)مذکراتی۱۔۳ (۱۱)مساجد الضرار
    (۱۲)اغتیال الحریری (۱۳)أحوال أہل السنۃ فی إیران
    (۱۴)رؤیۃ إسلامیۃ فی الصراع العربی الإسرائیلی ۱۔۲(۱۵)أیقاظ قومی أم نیام؟
    جاری ہے ………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings