-
آ ئیں! ہم پہلے اپنی اصلاح کریں اسلامی ماؤں اور بہنو! عورت کے بغیر انسانی معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، یہ وہ سر چشمہء حیات ہے جو انسانی زندگی کو سیراب کرتی ہے اور اسے سینچ سینچ کر سر سبز و شاداب بناتی ہے، عورت وہ گہوارۂ تربیت ہے جہاں انسان پروان چڑھتا ہے اسی لئے عورت ذات نہایت ہی قابل احترام ہے خواہ اس کی حیثیت ماں کی ہو یا بہن کی، بیٹی کی ہو یا بیوی کی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام سے پہلے ہر سماج میں عورت ذلت کی نظر سے دیکھی جاتی رہی، کہیں ظلم و زیادتی اور بے رحمی کی شکار ہوتی رہی تو کہیں ہوس رانی کا نشانہ بنتی رہی ، الغرض اس کی زندگی نہایت ہی مظلومانہ تھی۔ مگر جب اسلام آیا تو اس نے جاہلی دنیا کی نظروں میں گری ہوئی مظلوم و مقہور عورت کو عزت کی چوٹی پر پہنچا دیا،اسے آداب زندگی سے آراستہ کر کے عزت سے جینا سکھایا، حقوق ملکیت اور دوسرے حقوق سے بھی آشنا کیا، اسی لئے اللہ کے یہاں ایک مومنہ عورت بہت بلند مقام رکھتی ہے اور اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی زبانی ایسی نیک عورت کو دنیا کا سب سے بہترین متاع قرار دیا ہے۔
عورت دو دھاری تلوار کی مانند ہے جب یہ درست سمت میں چلتی ہے اور اہداف کے حصول کے لئے فرائض کو امانت داری کے ساتھ ادا کرتی ہے تو صالح معاشرے کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور وہ معاشرہ اخلاقی سر بلندی اور مضبوط مقاصد کی برتری کے حوالے سے مثالی نوعیت کا ہوتا ہے لیکن جب یہی عورت غلط سمت کی طرف جاتی ہے تو کبھی کسی پاکھنڈی بابا سے ملاقاتیں کر کے دھاگے اور تعویذیں مانگتی پھرتی ہے تو کہیں غیر اللہ کے نام پر نذرانے پیش کرتے ہوئے ملتی ہے۔
محترم خواتین اسلام! اگر آپ اپنا مقام بحال رکھنا چاہتی ہیں تو اس کی واحد صورت یہ ہے کہ آغوش اسلام میں پناہ لے لیںاور اسلامی تعلیمات کو اپنا کر اپنا عقیدہ درست کر لیں، اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کریںاور اپنے دلوں کو خوف الہٰی، تقویٰ و طہارت اور فکر آخرت سے معمور کر لیں، اللہ کی قسم! ہمارے لئے کتاب و سنت کا مطالعہ، انبیاء علیہم السلام اور صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سوانح کا مطالعہ بہت ضروری ہے ، پستی میں گرتی ہوئی امت کو سربلند کرنے کے لئے اور اس امت کے غفلت میں پڑے ہوئے نونہالوں کے لئے اسلامی تعلیمات سے آگاہی بہت ہی ضروری ہے۔
رومانی اور فرضی کہانیاں تو ہم بہت شوق سے پڑھتے ہیں جبکہ یہ کہانیاں اپنے قارئین کو حقائق سے بہت دور خوابوں کی دنیا میں لے جاتی ہیں اور وہاں وہ خود کو تخیلات کے مہکتے ہوئے گلابوں کے درمیان پاتے ہیں اور خوش گمانیوں کے جام سے مخمور ہو کر سرمست ہو جاتے ہیںلیکن انجام کار وہ مایوسی اور پژمردگی کے شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی شخصیت تعطل اور ذہنی خرابی کا نمونہ بن جاتی ہے، اس قسم کی اکثر کتابیں اخلاق حسنہ کے لئے زہرہلاہل ہوتی ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔اس کے برعکس جب ہم اسلامی ادب و سیر کا مطالعہ کریں گے جو ہمارا علمی وادبی اثاثہ ہے تو ہمیں اللہ کی رحمت و برکت اور ہدایت نصیب ہوگی ، زندگی جینے کا سلیقہ معلوم ہوگا، صراط مستقیم کی رہنمائی حاصل ہوگی، ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے پاس دین و عقیدہ علمی ورثہ کی شکل میں موجودہے، ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اصلاح کی خاطر اللہ کی برکت او راپنی خوش نصیبی انہی چیزوں میں تلاش کریں۔
تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ و صحابیات کا ہی وہ منفرد معاشرہ تھا جنہوں نے دعوت الی اللہ کے لئے تن من دھن کی بازی لگا کر اس دعوت کی امانت کو پوری ذمہ داری سے ادا کیا، ہمیں ان کی قدر و منزلت ، مقام و مرتبہ اور فضل و شرف کا دلی طور پر اعتراف کرنا چاہئے ، بلا شبہ ہم اس مثالی معاشرے پر فخر کرتے ہیں، یہ سیرت کے معطر نمونے جن کی خوشبو اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہے ہمارے لئے ، ہماری ماؤں اور بہنوں بیٹیوں کے لئے بہترین مثالیں ہیں، موجودہ امت کے افراد جب تک اپنے ماضی سے رابطہ قائم نہ کریں گے اس وقت تک انہیں سرفرازی و سربلندی نصیب نہیں ہوگی۔
یوں تو پورے معاشرے کی اصلاح کی ضرورت ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ خواتین کی اصلاح پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ ماں کی گود ہی اولاد کی سب سے پہلی تربیت گاہ ہے جہاں انسان نشو نما پاتا ہے، جہاں باکردار شخصیت ساز افراد کی تخلیق ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی عورت اپنے بچے کے منہ میں صرف دودھ ہی نہیں ڈالتی ہے بلکہ اس کے رگ وریشے میں اپنے اخلاق کی روح پیوست کرتی ہے، اسی لئے اگر ماں صحیح العقیدہ ہو، اخلاق اور معاملات کی اچھی ہو، اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو اور اس کے ہاتھ سے اس کی اولاد تربیت پائے تو اولاد جملہ اوصاف حسنہ و کمالات طیبہ کی جامع ہوگی، اس کے برعکس اگر عورت ذات کے اندر فساد آ جائے تو تمام نسل انسانی کی ذہنی و اخلاقی حالت کا مسموم ہو جانا بعید نہیں ہے۔
آج نئی تہذیب کا دور دورہ ہے ، اس کے اثرات پوری سوسائٹی پر مرتب ہو رہے ہیں، زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی قدریں بھی بدلتی جا رہی ہیں اور طرز معاشرت میں بھی تبدیلی آ رہی ہے ، اس سے عورتوں کی زندگی بھی متأثر ہو رہی ہے ، اس دور ترقی میں عورت بھی ہر میدان میں آگے رہنا چاہتی ہے بلکہ اب تو اخلاقیات سے کوسوں دور، شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر زندگی کے ہر میدان میں عورتیں مردوں کو شکست دینا اپنے لئے باعث کمال سمجھتی ہیں، گرچہ میں بھی صنف نازک کا ایک حصہ ہوں لیکن حقیقت سے نظریں چرانا دانش مندی نہیں ہے ، آج مغربی تہذیب کی اندھی تقلید میں صنف نازک نے اپنے ان اعلیٰ و ارفع فرائض کو پس پشت ڈال دیا ہے ، بھلا دیا ہے جو انہیں اسلام نے بخشا تھا، یہ نادان عورتیں مردوں کی برابری اور آزادی کے چکر میں اپنی ہی بربادی کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ اللہ نے عورتوں کی صلاحیت اور جسمانی طاقت کے مطابق جو احکام ان پر واجب کئے تھے وہی ان کے لئے کافی تھے لیکن یہ بے وقوف عورتیںباہر کی دنیا میں قدم رکھ کر اپنے بوجھ کو بڑھا رہی ہیں، مرد کے شانہ بشانہ چلنے کی دھن میں مرد کا کماؤ ہاتھ بن کر اپنے آپ کو ذلیل کر رہی ہیں، جبکہ نبی اکرم ﷺ نے عورتوں کو مخلوط مجالس میں شمع انجمن بننے سے روکا تھا، انہیں گھر کی ملکہ کا درجہ بخشا ہے، لیکن عورتیں اپنے انہی غلط اقدامات کے باعث گھر میں اپنی حقیقی کارکردگی اور ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے اپنے شوہر، اپنی اولاد کی دیکھ ریکھ ، تربیت اور گھریلو معاملات کے نظم و نسق کی خاطر اجنبی نوکرانیاں لانے پر مجبور ہو گئی ہیں جو کہ متعدد بڑی بڑی برائیوں کے پھیلاؤ کا سبب ہے۔
اسلام نے عورتوں کو باہر نکلنے سے ہرگز نہیں روکا ہے بلکہ بلا ضرورت گھر سے بے پردہ باہر نکلنے سے روکا ہے، اگر عورت کام کرنے کی خواہش مند ہے تو باپردہ ہو کر اپنے گھریلو کام کاج جو کہ اس کی بنیادی ذمہ داری ہے اس کے کرنے کے بعد کرے اور اس کا کام مردوں سے بالکل الگ تھلگ عورتوں کے دائرۂ کار میں ہو، اورر اسی طرح عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے کے مسئلے میں بھی اسلام میں کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ علم حاصل کرنا تو ہر مرد وعورت پر فرض قرار دیا گیا ہے، نیز عورتوں کے دائرے میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے اور تعلیم دینے میں کوئی ممانعت نہیں جس طرح ابتداء اسلام میں عورتیں علم حاصل کرتی تھیں اور دوسروں کو بھی سکھاتی تھیں، عورتوں کا دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لینا اصلاح معاشرہ کا ایک اہم کردار ہے، اگر عورت ملاقاتوں کے ذریعے یا مدارس وغیرہ کے ماحول کے ذریعے اپنے معاشرے میں دعوت کی نشر واشاعت میں نشیط اور سرگرم رہے تو معاشرے کی اصلاح کے سمت ایک بڑا اور اہم قدم ہو سکتا ہے۔
لیکن افسوس! آ ج خود ہمیں اور ہماری ماؤں بہنوں کو سیرت نبوی کے بارے میں کوئی علم نہیں، صحابہ و صحابیات کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں، بلکہ عام طور پر اگر دیکھا جائے تو عورتوں کی اکثریت دین اسلام کے اہم مسائل سے ناواقف ہے یہاں تک کہ اپنے روز مرہ پیش آنے والے مخصوص احکام و مسائل کے بارے میں بھی خاطر خواہ علم نہیں۔ افسوس صد افسوس!!! جبکہ دوسری طرف آج عورتوں کو فلمی اداکار ، ڈرامے اور سیریل کے فرضی کردار پسند ہیں، دن رات موبائل میں سر کھپانا پسند ہے، ناول اور فرضی کہانیوں میں مست رہنا پسند ہے، حالانکہ کتنی ہی زندگیاں ہیں جنہیں انٹرنیت گیمز، ناولز اور فلمی سیریلس و ڈراموں نے تباہ کر دی ہیں، ان کی حقیقت کا علم ہونے کے باجود ہم ان کے کردار کو اپنانا پسند کرتے ہیں ، ان کی زندگی گزارنے کے طور طریقے پسند کرتے ہیں، آج اگر ہم کچھ کرنا چاہتی ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ اس مسئلے میں اسلام کا کیا طریقہ ہے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ آج فیشن کیا چل رہا ہے، لوگ کن باتوں، کن کردار اور کن اسٹائلس کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ واللہ المستعان
اے اسلامی ماؤں اور بہنو! اس پُر فتن دور میں ہم اپنے آپ کی اصلاح اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ منہج اختیار نہ کریں جو سلف صالحین کی عورتوں نے اختیار کر کے اپنی اصلاح کی تھی، ہم نبی کی سیرت، عادات و اخلاق اور صحابہ و صحابیات کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرتے رہیں تاکہ ہم خود اپنی تربیت کر سکیں اور اپنی نسلوں کے مستقبل کی حفاظت کا مضبوط بندو بست کر سکیں۔
اخیر میں نصیحت کے چند جملے لکھنا چاہوں گی جو میرے اور آپ سبھی کے لئے ہے، نصیحت کے یہ بیش قیمت جملے ڈاکٹر عائض القرنی کی کتاب’’ دنیا کی سب سے خوش نصیب عورت ‘‘سے ماخوذ ہیںجو کتاب مجھے کسی کی جانب سے تحفتاً موصول ہوئی تھی ، یہ تحفہ مجھے کتاب اللہ کے بعد سب سے بہترین تحفہ لگا ، کتاب میں خوش نصیب عورت بننے کی تمام تر ترکیبیں بتائی گئی ہیں، ان میں سے چند نصیحتیں میں اپنے الفاظ میں لکھنا چاہوں گی :
ـ’’ اے قابل احترام، دانش مند، عقل مند اور پردہ نشین بہنو! جب گھر میں اپنے تمام کاموں سے فارغ ہوکر بیٹھو تو اپنے قیمتی وقت کو فضول کاموں میں مت برباد کرنا، بے شک لمحہ لمحہ کا حساب دینا ہے ، یہ وقت بڑا قیمتی سرمایہ ہے اس کی ہمیشہ قدر و حفاظت کرنا، آخرت کی جواب دہی اور اس کی تیاری سے غفلت نیز حساب و کتاب سے بے توجہی ہرگز نہ کرنا، بلکہ ذکر الٰہی کی کثرت اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے رہنا، مسلسل دعائیں اور توبہ و استغفار کرنا، ہمیشہ وقت پر نماز اور صبح و شام کے اذکار کو اپنے اوپر لازم پکڑ لو، ممکن ہو تو نوافل پڑھنے کی کوشش کیا کرو، پیر اور جمعرات کے روزے رکھنے کی استطاعت ہو تو رکھنا شروع کر دو ورنہ صرف ’’ایام بیض‘‘ کے تین روزے ہی رکھنے کی حتی المقدور کوشش کرو، ہمیشہ نیک عورتوں کی صحبت اختیار کرنا جو اللہ کا تقویٰ اپناتی ہیں اور اپنے دین سے محبت کرتی ہیں، آج کل انٹرنیٹ کا استعمال بہت عام ہے ہمیشہ اس کوشش میں رہنا کہ اس کا مثبت استعمال ہو، لاابالی اور بے کار لوگوں کے ساتھ وقت نہ گزارنا، عمر عزیز کو فضول کاموں میں ہرگز نہ گنوانا، رب کریم کے سامنے ہر ہر لمحے کا حساب دینا ہے ہمیشہ یاد رکھنا، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کبھی کوئی کمی نہ ہونے دینا، والدین کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی، پڑوسیوں کا اکرام اور یتیموں کی کفالت کرنا نہ بھولنا، قرآن مجید کی روزانہ تلاوت کرنا اور کوشش کرنا کہ ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھنا ، مفیدکتابوں کا مطالعہ کرتے رہنا، مفید لٹریچر سے استفادہ کرتے رہنا ، پاک دامنی اور پردہ نشینی جسے اختیار کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے جو تمہارا حفاظتی حصار اور قلعہ ہے اس سے تجاوز نہ کرنا، حدود اللہ کی ہمیشہ حفاظت کرنا‘‘۔