-
مسلم معاشرے میں سوشل میڈیا کے چند اہم نقصانات (قسط اول) محترم قارئین! اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں اور عام طور پر ایک پہلو مثبت ہوتا ہے اور دوسرے میں کچھ منفی پہلو شامل ہوتے ہیں، موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور ضرورت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے لیکن اس کے بھی کچھ منفی پہلو ہیں جن کا جاننا خصوصاً ایک مسلمان کے لیے بے حد ضروری ہے۔
(۱) وقت کی ناقدری : سوشل میڈیا کے بلا ضرورت اور غلط استعمال کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ آج ہمارے نزدیک وقت کی اہمیت ختم ہوچکی ہے، وقت بے قیمت اور بے معنیٰ ہوکر رہ گیا ہے، ہم اور ہماری یہ نسلیں انٹرنیٹ پر بیٹھ کر گھنٹوں گزار دیتے ہیں ،فیس بک، واٹس اَپ پر چیٹنگ کرتے اور گیم کھیلتے ہوئے گھنٹوں ضائع وبرباد کردیتے ہیں اور اس میں معصوم بچے، نوجوان، بوڑھے اور مرد وعورت سبھی شامل ہیں۔
قارئین کرام! وقت ہماری زندگی ہے، ہماری حیات ہے، ہماری عمر ہے، وقت کو ضائع کرنا زندگی کو ضائع کرنا ہے اس لیے ضائع کیے ہوئے وقت کے بارے میں یہ نہ سوچیں کہ آج ہم نے ایک یا دو گھنٹے ضائع کردیئے ہیں بلکہ یہ سوچیں کہ ہمیں اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لیے جو مدت اور مہلت دی گئی تھی اس میں سے دو گھنٹے یا تین گھنٹے کم ہوگئے ہیں اور ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ دنیا وآخرت کو بنانے اور سنوارنے کے لیے ہمیں کتنی عمر اور کتنی زندگی دی گئی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيمٌ خَبِير}
ترجمہ:’’کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کوئی یہ بھی نہیں جانتا ہے کہ وہ کہاں مرے گا یقیناً اللہ رب العالمین جاننے والا خبر رکھنے والا ہے‘‘
[لقمان:۳۴]
جب اس طریقے سے اپنے وقت کا محاسبہ کریں گے تو ہمیں سمجھ آئے گی کہ وہ لوگ کتنے بیوقوف اور قابل رحم ہیں جو ایک سال کے گزرنے پر ناچ گانے کے ساتھ نئے سال کا جشن منایا کرتے ہیں،وقت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور کسی بھی نعمت پر شکرگزاری کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس نعمت کا صحیح استعمال کیا جائے،وقت اللہ رب العزت کی ایک ایسی عام نعمت ہے، جو انسانی معاشرہ میں یکساں طور پر امیر، غریب، عالم، جاہل، چھوٹے اور بڑے سب کو ملی ہے ، وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اُس سِل سے دی جاتی ہے کہ جس سے اگر فائدہ اٹھا یا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھلتی ہی جاتی ہے ۔یاد رکھیں دنیا میں ہر چیز کی کسی حد تک تلافی کی جاسکتی ہے لیکن وقت کی تلافی نہیں ہے، گزرا ہوا وقت کبھی ہاتھ نہیں آتا ہے۔
قارئین کرام! جوانی ، زندگی، مال و دولت ، صحت وتندرستی اور خالی وقت یہ وہ چیزیں ہیں جن کی قدر کی جائے اور صحیح را ستے پر انہیں خرچ کیا جائے تو بندہ دونوں جہاں کی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور یہ نعمتیں کسی کو بھی ہمیشہ کے لیے نہیں دی جاتی ہیں بلکہ دن ڈھلنے کی طرح ہر ایک پر زوال طاری ہوتا ہے ، وقت یکساں نہیں رہتا ہے ، کبھی مالداری ہے تو کبھی غربت ،کبھی جوانی ہے تو کبھی بڑھاپا ،حالات بدلتے رہتے ہیں، نہ جا نے یہ صحت اور خوش حال جوانی اور زندگی کے لمحا ت کب چھن جائیں ،اس لیے نبی کریم ﷺ نے ان نعمتو ں کی قدر کرنے کی ہدایت فرمائی اور اگلے موقع کا انتظار کئے بغیر ابھی سے ہی آخرت کے لیے کچھ سرمایہ جمع کرلینے کا مشورہ دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کارِخیر اور فرائض کی ادائیگی کو اگلی گھڑی کے لیے ٹالتے رہیں اور اچانک قوتِ عمل ہم سے ختم ہوجائے، پھر اُس وقت چاہنے کے باوجود بھی نیکی سے ہم محروم رہیں گے اور آخرت ویران نظر آئے گی، جہاں ہماری مدد کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہو گا ، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے جہنمیوں کے احوال کا تذکر ہ کرتے ہوئے فرمایا :
{وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَـٰلِحًا غَيْرَ لَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَآء َكُمُ لنَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ}
’’اور وہ لوگ جہنم میں چیخ وپکار مچائیں گے (اور اللہ سے وقت کا مطالبہ کریں گے کہ) اے ہمارے رب ہمیں یہاں سے نکال دے تاکہ ہم وہ نیک کام کرلیں جو دنیا میں رہ کر ہم نہیں کرسکے ،تو( اللہ تعالیٰ ان کے اس مطالبے کو رد کرتے ہوئے کہے گا کہ) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جتنی عمر میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرسکتا تھا(اپنے آپ کو سنبھال سکتا تھا)اور تمہارے پاس ڈرانے والے بھی آئے تھے (لیکن تم نے نہ اپنے عمر سے فائدہ اٹھایا اور نہ ہی نصیحت کرنے والوں کی نصیحت سے فائدہ اٹھایا)سو اب تم عذابِ جہنم کے مزے چکھو ،یہاں ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے‘‘
[فاطر :۳۷]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ضیاعِ وقت کی خطرناکی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’إضاعة الوقت أشد من الموت، لأن إضاعة الوقت تقطعك عن اللّٰه والدار الآخرة، والموت يقطعك عن الدنيا وأهلها‘‘
مطلب یہ ہے کہ:’’وقت کا ضیاع یہ موت سے بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ موت آپ کو دنیا اور اہل دنیا سے دور کردیتی ہے لیکن وقت کا ضیاع آپ کو اللہ اور آخرت سے دور کردیتا ہے‘‘
[الفوائد: ص:۳۱، طبع دار الکتب العلمیۃ]
لہٰذا وقت کی قدر کیے بغیر انسان جس طرح دنیا میں کامیاب نہیں ہوسکتا اسی طرح آخرت میں کامیابی نہیں مل سکتی ، اس لیے وقت کا ضائع کرنے والا شریعت کی نظر میں بھی مجرم ہے ، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے رات میں جلد سونے اور صبح جلد بیدار ہونے کی ہدایت دی اور ان لوگوں پرسخت ناراضگی کا اظہار فرمایا جو عشا کی نماز کے بعد بلا وجہ گفتگو میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ۔
اس وقت مسلم معاشرہ عام طور سے ضیاعِ وقت کی آفت کا شکار ہے ، یورپی معاشرہ اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود وقت کا قدر دان ہے اور زندگی کو باقاعدہ ایک نظام کے تحت گزار نے کا پابند بنا ہوا ہے ، سائنس اور ٹیکنا لو جی میں ان کی تر قیوں کا ایک بڑا سبب وقت کی قدر دانی ہی ہے بلکہ وقت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس سے بڑی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ کائنات جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں اس کاایک ایک نظام اورسسٹم مثلاً چاند، سورج، ستاروں کا اپنے وقت پر نکلنا ڈوبنا، شب وروز کی آمدورفت اور موسموں کی تبدیلیاں وغیرہ یہ سب کے سب ہمیں اعتدال اور پابندیٔ وقت کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتے ہیں،وقت کا صحیح استعمال ہی انسان کا روشن اور چمکتا ہوا مستقبل بنتا ہے اور یہی وقت جب ضائع ہوجاتا ہے تو یاد ِماضی بن کر پل پل اور لمحہ لمحہ انسان کو رلاتارہتا ہے۔
قارئین کرام! سوشل میڈیا کے آنے کے بعد اس کے چکر میں نوجوانوں کی جوانیاں، بچوں کا بچپن اور لڑکوں کا لڑکپن ضائع ہورہا ہے، مانو کہ ہم نے اپنی زندگی اس کے لیے وقف کردی ہے اور سچ میں وقت کی ناقدری جس طرح آج یہ انسان کررہا ہے شاید کہ تاریخ کے کسی دور میں وقت کی اتنی ناقدری کی گئی ہو سوشل میڈیا کے اس دور میں وقت کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
(۲) بیکار کی مصروفیات: سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ ہماری زندگی میں بیکار کی مصروفیات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، اگر ہم صدق دل اور پوری امانت داری کے ساتھ سوشل میڈیا پہ اپنی مشغولیات کا تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ہماری مصروفیات کا زیادہ تر حصہ ان چیزوں کے دیکھنے، سننے، اور پڑھنے میں جاتا ہے جس کا تعلق نہ ہمارے دین سے ہوتا ہے نہ ہی آخرت سے ہوتاہے جس کے سلسلے میں عربی کا وہ مقولہ صادق آتا ہے کہ:
’’علم لا ينفع وجهالة لا تضر‘‘
’’کہ ایسا علم ہے جو جانو تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ جانو تو کوئی نقصان نہیں ہے ‘‘
شریعت نے جسے قرآنِ پاک میں لغو سے تعبیر کیا ہے اور لغو کا مطلب ہوتا ہے بے معنیٰ اور بے مطلب کی مشغولیات ، ایسے کام کرنا جس میں نہ دنیا کافائدہ ہو نہ دین کا فائدہ ہو ہم خود ہی سوچیں کہ واٹس اپ اور فیس بک پر جو چیٹنگ کرتے ہیں کیا واقعی اس کا تعلق ہماری دنیا اور آخرت سے ہوتا ہے ،ہرگز نہیں لہٰذا یہ اہلِ ایمان کی صفت نہیں ہے بلکہ اہل ایمان کے بارے میں قرآن کہتا ہے :
{وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ}
’’اہل ایمان وہ ہیں جو لغویات سے اعراض کرتے ہیں‘‘
[المومنون:۳]
{وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَاما}
’’جب وہ کسی لغو محفل اور مجلس سے گزرتے ہیں تو شرافت سے گزرتے ہیں ‘‘
[الفرقان:۷۲]
اہل ایمان ہمیشہ اپنے آپ کو بے کار کی چیزوں اور غیر مفید کاموں سے بچا کر رکھتے ہیں،پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
’’مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ‘‘
’’کہ انسان کے اسلام کے اچھائی کی علامت یہ ہے کہ وہ لایعنی چیزوں میں نہیں پڑتا ہے‘‘
[رَوَاہُ التِّرْمِذِی:۲۳۷۱، صحیح]
لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہر خبر پر تبصرہ کرنا، نوٹ چڑھانااور اپنی ذاتی رائے کا پیوند لگانا ہمارا بنیادی اور پیدائشی حق ہے حالانکہ مسلما نو ں کے کندھے پر آخرت کی بڑ ی بھاری ذمہ داری عائد ہو تی ہے،انہیں فرصت ہی کہا ں کہ لغویات اور فضو ل و بے کار کاموں میں اپنی صلا حیتوں کو صر ف کر یں ،رضا ئے الہٰی اور فلا حِ آخر ت ان کا مشن ہو تا ہے ، وہ آخرت کی طرف تیز قدموں سے آگے بڑھتے ہیں اور نیک کا مو ں میں اپنے آپ کو مصر و ف رکھتے ہیں اور جب سے یہ بیکار کی مصروفیات آئی ہیں تب سے ہماری زندگی سے بہت ساری اچھی عادتیں اور اچھی چیزیں رخصت ہورہی ہیں، آج ہم نے خود کو موبائل اور انٹرنیٹ میں اتنا مصروف کرلیا ہے کہ ہمارے پاس اپنی ہی زندگی کی اہم ترین ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وقت نہیں ہے ہمارے پاس گیم کھیلنے اور سوشل میڈیا پر گپ شپ کے لیے بھرپور وقت ہے لیکن تلاوتِ قرآن ، اللہ کا ذکر، صلہ رحمی اور رشتے داروں سے ملاقات کے لیے وقت نہیں ہے اور ان بے کا ر کی مصروفیات نے ہر شخص اور زندگی کے ہر شعبے کو متأثر کیا ہوا ہے، مسجد سے لے کر مدرسہ اور کالج سے لے کر کمپنی ،غرضیکہ زندگی کے ہر سسٹم اور نظام پر اس نے اپنا اثر ڈال رکھا ہے، ہمیں مقصدِ حیات سے بھٹکا رکھا ہے، آج کتنے والدین کو شکایت ہے کہ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں ،اگر جاتے بھی ہیں تو ہوم ورک نہیں کرتے ہیں، تعلیم میں دلچسپی نہیں رکھتے، کئی جگہ ٹیوشن جوائن کرنے کے باوجود امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں، آخر وجہ کیا ہے؟ وجہ بھی تو ہم ہی ہیں، ہم نے انہیں شاندار فون تو دلادیا ،انٹرنیٹ کنکشن انہیں لے کر دے دیا ہے لیکن کبھی یہ جائزہ لینے کی توفیق نہیں ہوتی ہے کہ اس انٹرنیٹ کا استعمال وہ کس چیز میں کررہے ہیں، کیا دیکھ رہے ہیں، کیا سن رہے ہیں، کن سے بات کررہے ہیں ہم نے اپنے بچوں کو قیمتی موبائل دلا دیا اور نہیں دیکھا کہ وہ اس کا استعمال کہاں تک صحیح کررہے ہیں اور جب ان کے اندر اخلاقی اور تعلیمی گراوٹ آتی ہے تو ہم رونا روتے ہیں، جبکہ سبب ہم ہی ہیں۔ اسی طرح اسکول میں ٹیچر بیٹھا ہوا ہے اور بچے اس کے سامنے بیٹھے ہیں پھر بھی وہ اپنے موبائل میں لگا ہوا ہے، کمپنیوں میں ورکرز فون کے استعمال کی وجہ سے کام میں کوتاہیاں کررہے ہیں، یہ تباہی یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ عبادت جو مقصدِ حیات ہے، مقصدِ زندگی ہے آج سوشل میڈیا کی وجہ سے ہماری عبادتیں بھی محفوظ نہیں ہیں ،نہ عبادتوں میں خشوع وخضوع ہے ،نہ میلان باقی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی عبادتوں کی لذت سے محروم ہوچکے ہیں ،کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جیسے کسی نوٹیفکیشن کی آواز سنتے ہیں حالتِ نماز میں ہی ان کی توجہ فوراً موبائل کی طرف چل پڑتی ہے کہ کس کا کال آرہا ہے ،کس کا میسج ہوسکتا ہے، کتنی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ موبائل میں گانے کی رنگ ٹون سیٹ کیا ہوا ہے جوحرام ہے، مسجد میں داخل ہوا موبائل کو سائلنٹ موڈ میں نہیں کیا اور دورانِ نماز کسی کا فون آگیا، اب عین نماز کے وقت جبکہ قرآن کی تلاوت ہورہی ہے، اللہ رب العزت کی کبریائی کے نعرے بلند ہورہے ہیں ایسے وقت میں اللہ کے گھر میں فلمی گانا بجتا ہے اور نہ صرف اس کی اپنی عبادت خراب ہوتی ہے بلکہ سارے نمازیوں کی عبادت میں اس حرکت کی وجہ سے خلل واقع ہوتا ہے تو دیکھیں کہ اس چیز نے ہماری عبادت اور عبادت گاہوں تک کو متأثر کر رکھا ہے۔
(۳)تنہائی ختم ہوگئی : سوشل میڈیا کی وجہ سے جو منفی تبدیلیاں ہماری زندگی میں آئی ہیں ان میں سے ایک تبدیلی یہ بھی ہے کہ آج ہم فرصت اور تنہائی کی نعمت سے محروم ہو گئے ہیں، زندگی سے تنہائی چلی گئی، اب کوئی انسان تنہا نہیں رہتا ہے ،جبکہ تنہائی بہت بڑی نعمت ہے ،ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ کچھ دیر تنہا رہے، جہاں اسے کچھ سکون ملے ،وہ کچھ سوچ سکے مستقبل کی پلاننگ اور منصوبہ بندی کرسکے، جہاں وہ اپنے ماضی کامحاسبہ کرسکے آج سوشل میڈیا ، انٹرنیٹ اور موبائل کی وجہ سے انسان تنہا نہیں رہ پاتا ہے بلکہ حد تو یہ ہے کہ حمام اور باتھ روم میں بھی وہ تنہا نہیں رہتا ہے، وہاں بھی کالنگ اور میسجیز کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور بہت سے نادان ایسے بھی ہیں جو باتھ روم میں بیٹھے ہوئے کال ریسیو کرتے ہیں، بات کرتے ہیں ۔
جاری ہے ………