-
علماء کرام سے تنفیر کا فتنہ: اسباب و علاج (قسط اول) تاریخ شاہد ہے کہ دشمنان اسلام نے اسلام کو مٹانے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے مختلف قسم کے حربے اختیار کیا ہے۔ کبھی وہ قرآن و حدیث کی خدمت کے نام پر قرآن و حدیث میں دخل اندازی کرتے ہیں تو کبھی مسلمانوں کے افکار و نظریات کو دقیانوسی قرار دیتے ہوئے اپنے افکار و نظریات کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں اور کبھی مسلمانوں کے تعلیمی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور ان کے اذہان میں یہ فکر اور سوچ بٹھانے کی سعی کرتے ہیں کہ اگر آگے بڑھنا اور ترقی کرنا ہے تو ہمارے جدید نظامِ تعلیم کو اختیار کرو اور کبھی وہ اسلام مخالف منظم تحریکات چلاتے ہیں جو کہ بظاہر اسلام کے مفاد اور حق میں معلوم ہوتی ہیں لیکن درحقیقت وہ تحریکات اسلام کے بالکل منافی ہوتی ہیں، اسی طرح مسلمانوں کو اسلام کے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا کرتے ہیں اور اخوتِ اسلامی کی مقدس روح کو ناپاک کرنے کی سعیِ مذموم کرتے ہیں، افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب ان کے دامِ فریب میں آکر خود مسلمان اسلام مخالف عمل کرتے ہیں اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ دین کی بڑی خدمت کر رہے ہیں، اسلامی تعلیمات پر حملہ کرنے والے خواہ مسلمان ہوں اور مسلم خاندانی پس منظر رکھتے ہوں یا غیر مسلم ہوں اور غیر مسلم خاندانی پس منظر رکھتے ہوں سب کی خطرناکی اور زہرناکی قریب قریب یکساں نظر آتی ہے بلکہ بسا اوقات مسلم نام کے حامل افراد کی خطرناکی کچھ زیادہ ہی سنگین ہوتی ہے۔
یہ تمام کوششیں دشمنانِ اسلام کو ناکافی لگیں کیونکہ انہیں علماء اسلام کے مقام و مرتبہ کا اعتراف تھا اور انہیں یہ معلوم تھا کہ جب تک مسلمانوں کا تعلق علماء حق اور علماء ربانیین سے بنا رہے گا وہ اسلام پر باقی رہیں گے، لہٰذا انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کو بروئے کار لانے کی خاطر عام مسلمانوں کو وارثینِ انبیاء یعنی علماء حق سے دور کرنے کی سازشیں شروع کیں اور علماء کے تعلق سے لوگوں کے دلوں میں اس قدر نفرت اور دوری پیدا کی کہ وہ صحیح اسلام سے دور ہوگئے، نتیجتاً ہر کس و ناکس نے دین میں دخل اندازی شروع کردی اور دین کی ایسی ایسی تشریحات کی کہ اسلام کی شبیہ بگڑ کر رہ گئی۔ دین معاشرے، معیشت اور بازاروں سے نکل گیا اور دھیرے دھیرے گھروں سے بھی نکل کر مساجد و مدارس میں خستہ حالی کی زندگی جی رہا ہے، کبھی کبھار دینی اجلاس و کانفرنسوں میں اپنی رہی سہی شان کے ساتھ کسی شہر میں یا سوشل میڈیا پر کہیں نظر آجاتا ہے، ورنہ ایسا لگتا ہے کہ اب رخصت ہوا کہ تب رخصت ہوا۔
سادہ لوح عوام شعوری و غیر شعوری طور پر تعلیماتِ اسلامی سے برگشتہ ہونے لگی، الحاد و زندیقیت وغیرہ اپنا سر اٹھانے لگے اور اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہونے لگے، عیسائی مشنریز اور انگریزوں کی پیداوار اور ان کی پروردہ قادیانیت بھی اپنے جامہ سے باہر آگئی اور مسلمانوں کو غربت، بے روزگاری اور زندگی کے دیگر مسائل کی آڑ لے کر دین سے پھیرنا شروع کر دیا،ـ سچ ہے:
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
مختصر یہ کہ عوام نے علماء کو ناکارہ تصور کر لیا اور تمام علماء کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے ان کو علماء بنی اسرائیل کے مشابہ قرار دے دیا بلکہ کچھ ناعاقبت اندیشوں نے تو علماء کو فرقہ پرست، بزدل، جہنمی اور نہ جانے کیسے کیسے القاب سے نوازنا شروع کر دیا، علماء کی اہمیت ختم ہونے لگی اور جہلاء و متعالمین کا بول بالا ہونے لگا اور انہی کو حقیقی دعاۃ اور مبلغین سمجھ لیا گیا، حالانکہ علماء کرام کی جماعت اس جہاں میں انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل جماعت ہے، وہی تو اس امت کے محافظ ہیں، دین کی حفاظت و صیانت، تفسیر و تشریح اور دعوت و تبلیغ انہی کی ذمہ داری ہے، انہی کی بدولت ہی تو کتاب و سنت کا علم اس دنیائے فانی میں باقی ہے، چنانچہ نبی اکرم ﷺکا فرمان ہے:
’’إِنَّ اللّٰهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلٰكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ، حَتَّي إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُ وسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا‘‘
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے، بلکہ وہ علم علماء کو موت دے کر اٹھائے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، پھر ان سے سوالات کیے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
[صحیح بخاری:ح: ۱۰۰]
غور فرمائیں! نبی اکرم ﷺنے علماء ربانیین کی وفات کو علم کا خاتمہ بتایا ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ علماء کرام ہی وہ ستارے ہیں جن کے ذریعہ جہالت کی تاریکی کو علم کی روشنی میں بدلا جا سکتا ہے، فرمانِ الہٰی ہے:
{فَاسْأَلُوا أَهلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}
ترجمہ: ’’اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو‘‘
[سورۃ النحل:۴۳]
یہی وجہ ہے کہ خود نبی اکرمﷺنے علماء حق کو وارثینِ انبیاء قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاء‘‘
ترجمہ:’’علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘
[سنن ابی داؤد :ح:۳۶۴۱، سنن ترمذی:ح:۲۶۸۲، سنن ابن ماجہ:ح :۲۲۳، علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے]
علماء حق کے فضائل میں وارد نصوص سے اعراض:
علماء کی تحقیر و توہین اور ان پر لعن طعن کرنے والوں کو یہ اور اس طرح کی بے شمار نصوص جن میں علماء حق کے فضائل وارد ہوئے ہیں، ہضم نہیں ہوتی ہیں یا شاید وہ جان بوجھ کر ان نصوص سے صرف نظر کرتے ہیں، لہٰذا انہیں صرف وہ نصوص نظر آتے ہیں جن میں علماء سوء کی مذمت وارد ہے اور انہی نصوص کو بنیاد بنا کر وہ تمام علماء ، خواہ وہ علماء حق ہوں یا علماء سوء ، سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دیتے ہیں، حالانکہ یہ روش اور طریقہ تو خوارج کا ہے جو وعید کے نصوص کو لیتے ہیں اور وعد کے نصوص کا انکار کر دیتے ہیں، یا یہ طریقہ اہلِ ہویٰ کا ہے جو اپنے نفس کی اتباع میں اپنے مطلب کی باتوں کو لیتے ہیں جبکہ مخالف باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔
علماء پر فتوؤں کی بوچھار:
ان کے قدم یہیں تک رکے رہتے تو کچھ غنیمت بھی تھا لیکن ان لوگوں نے علماء کرام کی تذلیل و اہانت میں چار قدم آگے بڑھ کر ان پر فتوے بازی شروع کردی، لہٰذا کبھی وہ علماء کرام کو اللہ کے ڈر اور خوف سے عاری قرار دیتے ہیں، حالانکہ اگر کوئی حقیقی معنیٰ میں اللہ سے ڈرتا ہے تو علماء حق ہی ہیں۔ فرمانِ الہٰی ہے:
{إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ}
ترجمہ: ’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘
[سورۃ فاطر:۲۸]
بھلا بتایئے! کیا علماء کرام کے علاوہ اللہ سے کوئی نہیں ڈرتا؟ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ سے ڈرنے والے تو بہت سارے لوگ ہو سکتے ہیں لیکن علماء کے ڈر اور خوف کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے اسی لیے اللہ رب العالمین نے ان کے ڈرنے اور خوف کھانے کی مثال دی ہے۔
کبھی وہ علماء کرام کو مذہبی منافرت پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہیں فرقہ پرست قرار دیتے ہیں اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ علماء رفع الیدین اور فاتحہ خلف الامام وغیرہ کی احادیث بیان کرتے ہیں، ان کی بیان کردہ وجوہات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ علماء صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا چھوڑ کر یہ بھی صحیح اور وہ بھی صحیح کا نعرہ لگانا شروع کر دیں، حالانکہ یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے خلاف ہے، قرآن و حدیث تو ہمیں یہ حکم دیتے ہیں کہ ہم قرآن وحدیث کے بالمقابل کسی کو ترجیح نہ دیں، اب اگر اس سے کسی کو لگتا ہے کہ مذہبی منافرت پھیلتی ہے اور لوگ فرقوں میں بٹتے ہیں تو اس کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے،کیونکہ قرآن و حدیث بیان کرنے سے ہی اتحاد کی فضا قائم ہوتی ہے نہ کہ لوگوں کے افکار و آراء بیان کرنے سے، کیونکہ یہ دونوں چیزیں وحیِ الہٰی ہیں۔
اسی طرح کبھی وہ علماء کو بزدلی اور مصلحت پرستی کا طعنہ دیتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، علماء کرام بوقتِ ضرورت اور بقدرِ ضرورت اپنا حق ادا کرتے رہتے ہیں، البتہ وہ وقتی مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا کام کرتے ہیں، انہیں معاشرتی و حکومتی مصالح اور مفاسد کا بخوبی علم ہوتا ہے اسی لیے وہ احتیاط برتتے ہیں،حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الفتنةُ إذا أقبلت عرفها كل عالم، وإذا أدبرت عرفها كل جاهل‘‘
ترجمہ: ’’فتنہ جب سر اٹھاتا ہے تو ہر عالم اسے پہچان لیتا ہے، اور جب چلا جاتا ہے تو جاہل کو پتہ چلتا ہے کہ یہ فتنہ تھا‘‘
[التاریخ الکبیر للبخاری:۴؍۳۲۲، طبقات ابن سعد:۹؍۱۶۶]
ہم کیسے تیراک رہے ہیں جاکر پوچھو ساحل والوں سے
خود تو ڈوب گئے لیکن رخ موڑ دیا طوفانوں کا
علماء کی تحقیر اور ان پر طعن کا نقصان:
علماء کرام کا مذاق اڑانا اور ان پر طعن و تشنیع کوئی نئی بات نہیں، صدیوں سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے، البتہ دور حاضر میں خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعہ اس کا حیطۂ عمل وسیع ہو گیا ہے، چنانچہ اس کے اثرات پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کیے جاتے ہیں، لہٰذا علماء کو تمسخرانہ انداز میں ملّا اور جاہل مولوی وغیرہ جیسے القاب سے پکارا جاتا ہے، حالانکہ علماء کرام کی توہین و تحقیر پر سخت وعیدیں وارد ہیں، چنانچہ علماء سے دشمنی اللہ سے جنگ ہے، حدیثِ قدسی میں فرمانِ الہٰی ہے:
’’مَنْ عَادَي لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ‘‘
ترجمہ: ’’جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے‘‘
[صحیح بخاری:۶۵۰۲]
اس کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’الْمُرَادُ بِوَلِيِّ اللّٰهِ الْعَالِمُ بِاللّٰهِ الْمُوَاظِبُ عَلٰي طَاعَتِهِ الْمُخْلِصُ فِي عِبَادَتِهِ‘‘
ترجمہ:’’اللہ کے ولی سے مراد عالم باللہ (جو اللہ کی معرفت رکھتا ہو)ہے، جو اس کی اطاعت میں ہمیشگی اور دوام برتتا ہے اور اس کی عبادت میں مخلص ہے‘‘
[فتح الباری:۱۱؍۳۴۲]
اس کے علاوہ جو علماء کے حق کو نہیں پہچانتا اور ان کی توہین کرتا ہے وہ نبی ﷺکے طریقہ پر نہیں، فرمانِ نبوی ہے:
’’ليس من أُمتي من لم يُجِلَّ كبيرَنا، ويَرحَمْ صغيرَنا، ويعرِفْ لعالمِنا‘‘
ترجمہ:’’جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا، ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے علماء کی قدر نہیں کرتا وہ میری امت میں سے نہیں‘‘۔
[صحیح الترغیب للالبانی: ح:۱۰۱]
علماء سلف نے بھی علماء کی توہین و تحقیر اور ان پر طعن و تشنیع سے ڈرایا ہے، چنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وعلماء السلف من السابقين، ومن بعدهم من التابعين أهل الخير والأثر، وأهل الفقه والنظر لا يذكرون إلا بالجميل، ومن ذكرهم بسوء، فهو علٰي غير السبيل‘‘
ترجمہ:’’سابقین علماء سلف اور ان کے بعد تابعین اہل خیر اور علم و فقہ والے ہیں، ان کا صرف ذکرِ جمیل کیا جائے گا اور جو ان کا ذکر برے طریقہ سے کرتا ہے وہ راہِ راست سے بھٹکا ہوا ہے‘‘
[شرح العقیدہ الطحاویہ بتحقیق الارنؤوط : ۷۴۰]
اور امام ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’من استخف بالعلماء ذهبت آخرته، ومن استخف بالأمراء ذهبت دنياه، ومن استخف بالإخوان ذهبت مروء ته‘‘
ترجمہ: ’’جس نے علماء کی توہین کی اس کی آخرت برباد ہو گئی اور جس نے امراء کی اہانت کی اس کی دنیا چلی گئی اور جس نے بھائیوں کی ناقدری کی اس کی مروء ت ختم ہو گئی‘‘
[سیر اعلام النبلاء للذھبی:۸؍۴۰۸]
امام احمد بن اذرعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الوقيعة في أهل العلم ولا سيما أكابرهم من كبائر الذنوب‘‘
ترجمہ: ’’اہل علم کی مذمت و توہین خاص طور سے ان کے اکابر کی، کبیرہ گناہوں میں سے ہے‘‘
[الرد الوافر لابن ناصر الدین الدمشقی:۲۸۳]
مذکورہ بالا احادیث اور اقوال سلف سے ہمیں درس عبرت حاصل کرنا چاہیے، علمائے کرام کی توقیر و تکریم کرنا چاہیے اور ان کے بارے میں اپنی زبانوں کو لگام دینا چاہیے، اختلاف رائے رکھنے کا حق سب کو ہے لیکن اس کے کچھ حدود و قیود ہیں، لہٰذا شائستگی سے اختلاف رکھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن بے ادبی، سطحیت اور تذلیل و حقارت کسی صورت میں جائز نہیں۔ یاد رکھیں! علماء پر بہتان لگانا، سنی سنائی باتوں کو ان کی طرف منسوب کرنا اور ہر محفل میں زبان درازی کرکے اپنی علمیت ظاہر کرنا بجز جہالت کے اور کچھ نہیں۔
جاری ہے …………