-
ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ کی حقیقت محترم قارئین ! ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، ایک دن ہمارے ایک دوست شیخ ابرق ساجدی حفظہ اللہ نے اِس واقعہ سے متعلق سوال کیا کہ کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟ اِس واقعہ کا متن مع حوالہ درکار ہے۔
راقم اپنے اِس دوست کا جواب دیتے ہوئے اِس واقعے کی حقیقت پیش کر رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
سب سے پہلے وہ واقعہ ہو بہو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، جو معاشرے میں گردش کر رہا ہے۔
ابودجانہ رضی اللہ عنہ کی ہر روز کوشش ہوتی ہے کہ وہ نماز فجر رسول اللہﷺکے پیچھے ادا کریں، لیکن نماز کے فوری بعد یا نماز کے ختم ہونے سے پہلے ہی مسجد سے نکل جاتے، رسول اللہﷺکی نظریں ابودجانہ کاپیچھا کرتیں ، جب ابودجانہ کا یہی معمول رہا تو ایک دن رسول اللہﷺنے ابودجانہ کو روک کر پوچھا :ابودجانہ!کیا اللہ سے تمہیں کوئی حاجت نہیں ہے؟ ابودجانہ گویا ہوئے:کیوں نہیں اے اللہ کے رسول،میں تو لمحہ بھر بھی اللہ سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔۔۔ رسول اللہﷺفرمانے لگے:تب پھر آپ ہمارے ساتھ نماز ختم ہونے کا انتظار کیوں نہیں کرتے اور اللہ سے اپنی حاجات کے لئے دعا کیوں نہیں کرتے؟
ابودجانہ کہنے لگے:اے اللہ کے رسول!در اصل اس کا اصل سبب یہ ہے کہ میرے پڑوس میں ایک یہودی رہتا ہے، جس کے کھجور کے درخت کی شاخیں میرے گھر کے صحن میں لٹکتی ہیں، اور جب رات کو ہوا چلتی ہے تو اس کی کھجوریں ہمارے گھر میں گرتی ہیں، میں مسجد سے جلدی اس لئے نکلتا ہوں تاکہ ان گری ہوئی کھجوروں کو اپنے خالی پیٹ بچوں کے جاگنے سے پہلے پہلے چُن کر اس یہودی کو لوٹادوں، مبادا وہ بچے بھوک کی شدت کی وجہ سے ان کھجوروں کو کھا نا لیں۔
پھر ابودجانہ قسم اٹھاکر کہنے لگے:اے اللہ کے رسول!ایک دن میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا جو اس گری ہوئی کھجوروں کو چبا رہا تھا، اس سے پہلے کہ وہ اسے نگل پاتا میں نے اپنی انگلی اس کے حلق میں ڈال کرکھجورباہر نکال دی۔ ۔۔اللہ کے رسول!جب میرا بیٹا رونے لگا تو میں نے کہا :اے میرے بچے مجھے حیا آتی ہے کل قیامت کے دن میں اللہ کے سامنے بطور چور کھڑا ہوں۔۔۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پاس کھڑے یہ سارا ماجرا سن رہے تھے، جذبہ ایمانی اور اخوت اسلامی نے جوش مارا تو سیدھے اس یہودی کے پاس گئے اور اس سے کھجور کا پورا درخت خرید کر ابودجانہ اور اس کے بچوں کو ہدیہ کر دیا۔۔۔
پھر کیوں نہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان مقدس ہستیوں کے بارے میں یہ سند جاری کرے:’’رَضِیَ اللّٰہُ عَنْـہُـمْ وَرَضُوْا عَنْہ‘‘’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے‘‘
چند دنوں بعد جب یہودی کو اس سارے ماجرے کاپتہ چلا تو اس نے اپنے تمام اہل خانہ کو جمع کیا اور رسول اللہ ﷺکے پاس جا کر مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔۔۔ الحمدللّٰہ علٰی نعمۃ الإسلام ۔
عزیزو! ابودجانہ تو اس بات سے ڈر گیا تھا کہ اس کی اولاد ایک یہودی کے درخت سے کھجور کھانے سے کہیں چور نہ بن جائے۔ اور آج ہمارا کیا حال ہے کہ آج ہم اپنے مسلمان بھائیوں کا مال ہر ناجائز طریقے سے کھائے جا رہے ہیں اور ہمارے کان تک جوں تک نہیں رینگتی۔
اللہ المستعان [بحوالہ:الطبقات الکبری لابن سعد]
٭ اب اِس واقعہ کی حقیقت پیش خدمت ہے :
محترم قارئین ! اِس واقعہ سے متعلق پانچ باتیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
(پہلی بات) اِس واقعہ کی کوئی سند نہیں مل سکی لہٰذا یہ واقعہ بے اصل ہے۔
(دوسری بات) مجھے یہ قصہ دو کتابوں میں ملا ہے اور وہ بھی بغیر سند کے۔
اُن دونوں کتابوں اور اُن کے مصنفین کے نام یہ ہیں :
(۱) نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس …مصنف :عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری رحمہ اللہ (المتوفی:۸۹۴ھ)
(۲) إعانۃ الطالبین علی حل الفاظ فتح المعین…مصنف:ابو بکر عثمان بن محمد شطا الدمیاطی رحمہ اللہ (المتوفی: ۱۳۱۰ھ)
پہلی کتاب کے مصنف رحمہ اللہ نے زیر بحث واقعہ کو’’ حکایۃ‘‘کہہ کر نقل کیا ہے ۔
اور دوسری کتاب کے مصنف رحمہ اللہ نے’’ لطیفہ ‘‘کہہ کر نقل کیا ہے۔
پہلی کتاب کے الفاظ مع ترجمہ پیش خدمت ہیں :
حكاية: كان فى زمن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم رجل يقال له ابو دجانة فإذا صلى الصبح خرج من المسجد سريعا ولم يحضر الدعاء ، فساله النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عن ذالك، فقال: جاري له نخلة يسقط رطبها فى داري ليلا من الهواء فاسبق اولادي قبل ان يستيقظوا فاطرحه فى داره فقال النبيﷺلصاحبها:بعني نخلتك بعشر نخلات فى الجنة عروقها من ذهب احمر وزبرجد اخضر واغصانها من اللولو الابيض فقال:لا ابيع حاضرا بغائب، فقال ابو بكر:قد اشتريتها منه بعشر نخلات فى مكان كذا، فرح المنافق ووهب النخلة التى فى داره لابي دجانة وقال لزوجته:قد بعت هذه النخلة لابي بكر بعشر نخلات فى مكان كذا وهى داري فلا ندفع لصاحبها إلا القليل، فلما نام تلك الليلة واصبح وجد النخلة قد تحولت من داره إلى دار ابي دجانة۔
حکایت : نبی کریم ﷺکے زمانے میں ایک آدمی تھا جسے ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا ۔ جب وہ نماز فجر پڑھ لیتے تو جلدی مسجد سے نکل جاتے اور دعا میں حاضر نہیں رہتے تھے ۔ (ایک دن)نبی کریم ﷺنے اُن سے اِس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواباً عرض کیا کہ میرے پڑوسی کے پاس ایک کھجور کا درخت ہے جس کی پکی ہوئی کھجوریں رات میں ہوا کی وجہ سے میرے گھر میں گرتی ہیں تو میں اپنے بچوں کے جاگنے سے پہلے ہی اُن کھجوروں کو اٹھاتا ہوںاور اُس پڑوسی کے گھر میں ڈال آتا ہوں۔ نبی کریم ﷺنے کھجور کے درخت کے مالک سے کہا:تم مجھے اپنا یہ کھجور کا درخت جنت میں دس کھجور کے درختوں کے بدلے بیچ دوجن کی جڑیں لال سونے اور سبز قیمتی پتھر کی ہوں گیں اور جن کی ٹہنیاں سفید موتی کی ہوں گی تو اُس نے کہا:میں غائب چیز کے بدلے حاضر چیز کی بیع نہیں کروں گا۔تب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا :میں اِس درخت کو اِس آدمی سے فلاں جگہ پر موجود کھجور کے دس درختوں کے بدلے میں خریدلیتا ہوں۔ تو منافق خوش ہو گیا اور اُس نے اپنے گھر میں موجود درخت کو ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور اپنی بیوی کے پاس آکر کہا :میں نے اِس درخت کو ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فلاں جگہ پر موجود کھجور کے دس درختوں کے بدلے میں بیچ دیا ہے جبکہ یہ درخت میرے گھر میں ہی ہے لہٰذا ہم اِس درخت کے مالک کو تھوڑا ہی دیں گے ۔ جب وہ اُس رات سویا اورصبح کیا تو اُس نے دیکھا کہ کھجور کا درخت اُس کے گھر سے منتقل ہو کر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچ گیا ہے۔ [نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس بتحقیق عبد الرحیم ماردینی:۱/۲۳۱]
دوسری کتاب کے الفاظ مع ترجمہ پیش خدمت ہیں :
لطیفۃ: كان فى زمن النبى ﷺ رجل يقال له ابو دجانة، فكان إذا صلى الفجر خرج مستعجلا ولا يصبر حتي يسمع دعاء النبى ﷺ، فقال له يوما: اليس لك إلى اللّٰه حاجة؟ فقال:بلي، فقال: فلم لا تقف حتي تسمع الدعاء ؟ فقال: لي عذر يا رسول اللّٰه۔قال: وما عذرك؟ فقال:إن داري ملاصقة لدار رجل، وفي داره نخلة، وهى مشرفة على داري، فإذا هب الهواء ليلا يقع من رطبها فى داري، فإذا انتبه اولادي، وقد مسهم الضر من الجوع فما وجدوه اكلوه، فاعجل قبل انتباههم، واجمع ما وقع واحمله إلى دار صاحب النخلة، ولقد رايت ولدي يوما قد وضع رطبة فى فمه فاخرجتها باصبعي من فيه وقلت له: يا بني! لا تفضح اباك فى الآخرة، فبكي لفرط جوعه۔فقلت له: لو خرجت نفسك لم ادع الحرام يدخل إلى جوفك، وحملتها مع غيرها إلى صاحبها۔ فدمعت عينا النبى ﷺ وسال عن صاحب النخلة، فقيل له: فلان المنافق، فاستدعاه وقال له: بعني تلك النخلة التى فى دارك بعشرة من النخل:عروقها من الزبرجد الاخضر، وساقها من الذهب الاحمر، وقضبانها من اللولو الابيض، ومعها من الحور العين بعدد ما عليها من الرطب۔فقال له المنافق:ما انا تاجر ابيع بنسيئة، لا ابيع إلا نقدا لا وعدا، فوثب ابو بكر الصديق رضي اللّٰه تعالٰي عنه وقال: هي بعشرة من النخيل فى الموضع الفلاني، وليس فى المدينة مثل تلك النخيل، ففرح المنافق وقال بعتك۔قال قد اشتريت، ثم وهبها لابي دجانة، فقال النبى ﷺ قد ضمنت لك يا ابا بكر عوضها، ففرح الصديق، وفرح ابو دجانة رضي اللّٰه عنهما، ومضي المنافق إلى زوجته يقول قد ربحت اليوم ربحا عظيما، واخبرها بالقصة وقال قد اخذت عشرة من النخيل، والنخلة التى بعتها مقيمة عندي فى داري ابدا ناكل منها ولا نوصل منها شيئا إلى صاحبها، فلما نام تلك الليلة واصبح الصباح وإذا بالنخلة قد تحولت بالقدرة إلى دار ابي دجانة كانها لم تكن فى دار المنافق، فتعجب غاية العجب۔
لطیفہ : نبی کریم ﷺکے زمانے میں ایک آدمی تھا جسے ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا ۔ جب وہ نماز فجر پڑھ لیتے تو فورا ً مسجد سے نکل جاتے اور نبی کریم ﷺکی دعا سننے تک نہیں ٹھہرتے تھے ۔ تو (ایک دن)نبی کریمﷺنے اُن سے کہا:کیا آپ کو اللہ سے (کچھ مانگنے)کی ضرورت نہیں ہے؟ تو انہوں نے جواباً عرض کیا :کیوں نہیں، ضرورت ہے۔تو آپ ﷺنے اُن سے کہا:تب آپ دعا سننے تک ٹھہرتے کیوں نہیں؟انہوں نے کہا:اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے پاس ایک عذر ہے۔آپ ﷺنے پوچھا:آپ کا عذر کیا ہے؟ تو انہوں کہا:میرا گھر ایک آدمی کے گھر سے ملا ہوا ہے اور اُس کے گھر میں ایک کھجور کا درخت ہے جو میرے گھر پر جھکا ہوا ہے ۔ جب رات میں ہوا چلتی ہے تو اُس کی پکی ہوئی تازہ کھجوریں میرے گھر میں گر جاتی ہیں۔ پھر جب میرے بچے جاگتے ہیں اور انہیں بھوک لگی ہوتی ہے اور وہ کچھ نہیں پاتے ہیں تو انہی کھجوروں کوہی کھانے لگ جاتے ہیں ۔ اِسی وجہ سے میں اُن سے جلدی پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں اور جو کھجوریں گری ہوئی ہوتی ہیں ، انہیں جمع کرتا ہوںاور صاحب درخت کو واپس کر دیتا ہوں۔
ایک دن میں نے اپنے ایک بچے کو دیکھا کہ اس نے ایک تازہ کھجور کو اپنے منہ میں رکھ لیا تھا، میں نے اپنی انگلی سے اُس کے منہ سے اُس کھجور کو نکال دیا اور اُس سے کہا :اے میرے بیٹے!اپنے والد کو آخرت میں رسوا مت کرتو وہ بھوک کی شدت کی وجہ سے رونے لگا ۔ پس میں نے کہا :اگر تمہاری جان بھی نکل جائے تو میں تمہارے پیٹ میں حرام نہیں داخل ہونے دوں گا ۔ پھر میں نے اُس کھجور کو بھی دوسری کھجوروں کے ساتھ اٹھا کر اُس کے مالک کے پاس پہنچا دیا ۔نبی کریم ﷺکی دونوں آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور آپ نے اُس درخت والے کے بارے میں پوچھا تو آپ کو بتایا گیا کہ فلاں منافق ہے تو آپ نے اُس کو بلوایا اور اُس سے کہا: تم اپنے گھر میں موجود کھجور کے درخت کو مجھ سے بیچ دو، (جنت میں)دس ایسے کھجور کے درختوں کے بدلے جن کی جڑیں سبز قیمتی پتھر ، جن کا تنا لال سونے کا اور جن کی ٹہنیاںسفید موتی کی ہوں گی اور اُن درختوں پر جتنی تر کھجوریں ہوں گی، اتنی ہی تعداد میں حوریں بھی ہوں گی تو اُس منافق نے آپ سے کہا:میں ادھاری بیع کرنے والا تاجر نہیں ہوں، میں صرف نقدی بیع کروں گا ، وعدے والی بیع بھی نہیں کروں گا۔ تب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ تم یہ کھجور کا درخت، اُن دس کھجور کے درختوں کے بدلے میں بیچ دو جو فلاں جگہ پر ہیں اور اُن جیسے کھجور کے درخت مدینہ شہر میں نہیں ہیں تو منافق خوش ہو گیا اور کہا کہ میں تم کو بیچتا ہوں تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں خرید لیتا ہوں ۔ پھر آپ نے اُس درخت کو ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کو ہبہ کر دیا ۔ تب اللہ کے رسولﷺنے فرمایا :اے ابو بکر! میں تم کو اُس کے بدلے جنت کی ضمانت دیتا ہوں تو ابو بکر اور ابو دجانہ رضی اللہ عنہما دونوں خوش ہو گئے ۔
پھر منافق اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا کہ آج میں نے ایک عظیم فائدے والا سودا کیا ہے اور پورا قصہ بیان کیا اور کہا کہ میں نے دس کھجور کے درخت کو لے لیا اور جو درخت میں نے بیچا ہے وہ تو میرے گھر میں ہمیشہ میرے پاس ہے، ہم اُس میں سے کھائیں گے اور اُس میں سے اُس کے مالک کو کچھ نہیں دیں گے ۔ جب وہ اُس رات سویا اورصبح کیا تو اُس نے دیکھا کہ کھجور کا درخت قدرتی طور پر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں چلا گیا ہے ، گویا کہ وہ اُس منافق کے گھر میں تھا ہی نہیں۔ اِس وجہ سے اُس منافق کو بہت ہی زیادہ تعجب ہوا۔ [إعانۃ الطالبین علٰی حل الفاظ فتح المعین:۳/۲۹۳]
قارئین کرام! آپ خود غور کریں کہ جس قصے کو حکایت اور لطیفہ کہہ کر نقل کیا گیا ہو ، اُس کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے؟
اِس کے علاوہ مذکورہ دونوں علماء کرام نے اِس قصے کو نقل کرنے کے بعد نہ تو کوئی حوالہ دیا اور نہ ہی صحت و ضعف کے اعتبار سے کوئی گفتگو کی ہے۔
(تیسری بات) یہ قصہ، الطبقات الکبریٰ لابن سعد میں نہیں ہے، لہٰذایہ حوالہ غلط ہے۔
(چوتھی بات) زیر بحث قصہ میں ایک جملہ ایساہے جسے نقل کرکے اس کی حقیقت سے آگاہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
وہ جملہ پیش خدمت ہے:
جن دو عربی کتابوں کا حوالہ گزشتہ سطور میں پیش کیا گیا ہے، اُن میںبالترتیب یہ ہے کہ:
(۱) ’’فإذا صلى الصبح خرج من المسجد سريعا ولم يحضر الدعاء ‘‘
’’جب ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھ لیتے تو فوراً مسجد سے نکل جاتے اور دعا میں حاضر نہیں رہتے تھے‘‘
(۲) ’’فكان إذا صلى الفجر خرج مستعجلا ولا يصبر حتي يسمع دعاء النبى ﷺ‘‘
’’جب ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھ لیتے تو فوراً مسجد سے نکل جاتے اور صبر نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ نبی ﷺکی دعا سن لیں‘‘
قارئین ! مذکورہ جملے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نماز فجر کے بعد نبی کریم ﷺدعا کرتے تھے اور صحابہ کرام دعا میں حاضر ہوتے تھے۔
راقم اپنے ناقص علم کے مطابق باادب عرض کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺکا مذکورہ عمل ، کسی بھی صحیح یا حسن حدیث میں نہیں ملتا ہے اور صحیح یا حسن تو دور، کسی ایسے متن میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ملتا جس کی سند موضوع ہو۔
ایک بات اور واضح طور پر جان لیں کہ کسی بھی صحیح یا حسن حدیث میں اس بات کا ذکر قطعاً نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺنے پنج وقتہ نمازوں میں سے کسی نماز کے بعد دعا مانگنے کا اہتمام کرتے تھے اور صحابہ کرام اُس میں حاضر ہوتے تھے۔
(پانچویں بات ) عربی اور اردو دونوں قصوں میں فرق ہے ۔
بطور مثال تین باتیں پیش خدمت ہیں :
(۱) اردو میں جو واقعہ گردش کر رہا ہے ، اُس میں ہے:
لیکن نماز کے فوری بعد یا نماز کے ختم ہونے سے پہلے ہی مسجد سے نکل جاتے۔
قارئین ! آپ غور کریں کہ نماز ختم ہونے سے پہلے مسجد سے باہر کیسے نکلیں گے؟
اِس کا واضح مطلب یہ ہے کہ صحابی رسول نماز پوری پڑھے بغیر ہی مسجد سے نکل جاتے تھے۔
اب آپ بتائیں کہ کیا کوئی صحابی اس طرح سے کر سکتے ہیں؟ نعوذ باللہ من ذالک۔
اِس پر مزید یہ کہ جن دو کتابوں کا حوالہ گزشتہ سطور میں پیش کیا گیا ہے ، اُن میں یہ جملہ نہیں ہے بلکہ اُن میں یہ ہے کہ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھنے کے بعد نکلتے تھے۔کما مر۔
(۲) اردو میں جو واقعہ گردش کر رہا ہے ، اُس میں ہے کہ:
ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کا پڑوسی یہودی تھا جبکہ دونوں عربی کتابوں میںابو دجانہ رضی اللہ عنہ کا پڑوسی ایک منافق تھا اور یہودی اور منافق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
(۳) اردو میں جو واقعہ گردش کر رہا ہے ، اُس میں کئی جملے ایسے ہیں جن کا ذکر مذکورہ دونوں عربی کتابوں میں نہیںہے۔
بطور مثال صرف دوجملے پیش خدمت ہیں :
(پہلا جملہ) میں تو لمحہ بھر بھی اللہ سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔۔۔ رسول اللہﷺفرمانے لگے:تب پھر آپ ہمارے ساتھ نماز ختم ہونے کا انتظار کیوں نہیں کرتے اور اللہ سے اپنی حاجات کے لئے دعا کیوں نہیں کرتے؟
(دوسرا جملہ) چند دنوں بعد جب یہودی کو اس سارے ماجرے کاپتہ چلا تو اس نے اپنے تمام اہل خانہ کو جمع کیا اور رسول اللہ ﷺکے پاس جا کر مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔۔۔ الحمدللّٰہ علٰی نعمۃ الإسلام ۔
قارئین ! آپ غور کریں کہ جب یہ جملے عربی کتابوں میں بھی نہیں ہیں تو پھر یہ جملے آئے کہاں سے ؟ اِن کی عربی عبارتیں کہاں ہیں؟
واضح بات ہے کہ یہ سب جملے من گھڑت ہیں ۔ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔آمین۔
(نوٹ) اِس قصہ میں اور بھی کئی چیزیں قابل گرفت ہیں لیکن اُنہیں نظر انداز کیا جارہا ہے کیونکہ مذکورہ چیزیں اِس قصے کو باطل اور من گھڑت قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔
(خلاصۃ التحقیق) زیر بحث روایت بے اصل اور موضوع ہے لہٰذا اِسے سرخی بدل بدل کر نہ پھیلایا جائے۔ واللہ ولی التوفیق ۔و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین