-
Tags: اذان،مسئلہ،فقہ،تحقیق
اذان پر اجرت اور ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ کے ایک واقعہ کی تحقیق قارئین! ا ذان پر اجرت لینے کے نقصان کے تعلق سے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک واقعہ کی تحقیق پیش کی جارہی ہے،ملاحظہ فرمائیں:
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الشامی الطبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۶۰ھ) فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيْزِ، ثنا عَارِمٌ اَبُو النُّعْمَانِ، ثنا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَي الْبَكَّائِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عُمَرَ:إِنِّي لَاُحِبُّكَ فِي اللّٰهِ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَكِنِّي اَبْغَضُكَ فِي اللّٰهِ، قَالَ:وَلِمَ؟ فَقَالَ: إِنَّكَ تُنْقِي فِي اَذَانِكَ، وَتَاْخُذُ عَلَيْهِ اَجْرًا۔
یحییٰ البکّاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ایک آدمی نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں، تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لیکن میں تم سے اللہ کے لیے نفرت کرتا ہوں ۔ اُس آدمی نے پوچھا کہ آپ کے نفرت کی وجہ کیا ہے؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم اذان میں غلطی کرتے ہو اور اپنی اذان دینے پر اجرت لیتے ہو۔
(تخریج) [المعجم الکبیر للطبرانی بتحقیق حمدی السلفی :۱۲؍۲۶۴، ح:۱۳۰۵۹،و المصنف لعبد الرزاق بتحقیق حبیب الرحمن الاعظمی:۱؍۴۸۱، ح:۱۸۵۲،و شرح معانی الآثار للطحاوی بتحقیق محمد زہری النجار وغیرہ: ۴؍ ۱۲۸، ح:۲۰۲۰،والاوسط فی السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر النیسابوری بتحقیق صغیر احمد:۳؍۶۳، رقم: ۱۲۳۹]
(حکم ِحدیث) اِس کی سند ضعیف ہے۔
(سبب) اِس سند میں یحییٰ بن مسلم البکاء ہیں جو کہ ضعیف راوی ہیں، بعض ائمہ کرام نے آپ کو متروک قرار دیا ہے اور جمہور ائمہ کرام نے آپ کو ضعیف قرار دیا ہے۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
٭ امام یحییٰ بن سعید بن فروخ القطان رحمہ اللہ (المتوفی:۱۹۸ھ)
٭ امام عبید اللہ القواریری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لم يكن يحيي بن سعيد القطان يرضي يحيي البكاء ‘‘
’’امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ یحییٰ البکاء سے راضی نہیں تھے‘‘
[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۹؍۱۸۷، ت:۷۷۵وإسنادہ صحیح]
٭ امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل الشیبانی رحمہ اللہ(المتوفی:۲۴۱ھ)
’’لَیْس بثقۃ‘‘ ’’یہ ثقہ نہیں ہے‘‘[سوالات الآجری للإمام ابی داؤد بتحقیق الدکتور عبد العلیم :۱؍۴۳۸، رقم: ۹۲۷وإسنادہ صحیح]
٭ اما م ابوزرعہ عبید اللہ بن عبد الکریم الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:۲۶۴ھ)
’’لیس بقوی ‘‘’’یہ قوی نہیں ہے‘‘[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۹؍۱۸۷، ت:۷۷۵]
٭ امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث السجستانی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۷۵ھ)
’’ہوغیر ثقۃ ‘‘’’یہ ثقہ نہیں ہے‘‘[سوالات الآجری للإمام ابی داؤد بتحقیق الدکتور عبد العلیم :۱؍۴۳۸، رقم: ۹۲۷]
٭ امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۰۳ھ)
’’مَتْرُوک الحَدِیث، بَصرِی‘‘’’ متروک الحدیث ہیں، بصری ہیں‘‘[الضعفاء والمتروکون بتحقیق محمود إبراہیم زاید،ص:۱۰۹، ت:۶۳۶]
٭ امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی ،المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:۳۵۴ھ)
’’کَانَ مِمَّن یتفرد بِالْمَنَاکِیرِ عَن الْمَشَاہِیر ویروی المعضلات عَن الثِّقَات لَا یجوز الِاحْتِجَاج بِہِ‘‘
’’یہ مشہور رواۃ سے منکر روایتیں بیان کرنے میں منفرد تھا اور ثقات سے معضل روایتیں بیان کرتا تھا ۔ اِس سے احتجاج کرنا جائز نہیں ہے‘‘[المجروحین بتحقیق محمود إبراہیم:۳؍۱۱۰، ت:۱۱۹۲]
٭ امام ابو الفضل محمد بن طاہر الشیبانی ،المعروف بابن قیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۵۰۷ھ)
’’وَیحیی ہَذَا مَتْرُوک الحَدِیث‘‘’’ یہ یحییٰ بن مسلم البکاء متروک الحدیث ہے‘‘[ذخیرۃ الحفاظ بتحقیق الدکتور عبد الرحمٰن الفریوائی:۳؍۱۶۶۰، رقم:۳۷۱۶]
٭ امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)
(۱) ’’ضعیف‘‘’’ ضعیف ہے‘‘[تقریب التہذیب بتحقیق محمد عوامۃ ، ص:۵۹۷، ت:۷۶۴۵]
(۲) ’’مجمع علٰی ضعفہ‘‘’’ اِس کے ضعف پر اتفاق ہے‘‘[دیوان الضعفاء بتحقیق حمادالانصاری،ص: ۴۳۸، ت:۴۶۸۴]
٭ امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲ھ)
(۱) ’’ضعیف‘‘’’ ضعیف ہے‘‘[تقریب التہذیب بتحقیق محمد عوامۃ : ص:۵۹۷، ت:۷۶۴۵]
(۲) ’’مَتْرُوک الحَدِیث ‘‘’’متروک الحدیث ہیں‘‘[ہدی الساری :ص:۴۲۷، الناشر:دار المعرفۃ۔بیروت]
مزیداقوال کے لیے دیکھیں:[إکمال تہذیب الکمال فی اسماء الرجال بتحقیق عادل واسامۃ:۱۲؍۳۶۴، ت: ۵۱۹۶]
میرے علم کی حد تک صرف امام ابن سعد البغدادی رحمہ اللہ نے آپ کی توثیق کی ہے، آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وَکَانَ ثِقَۃً إِنْ شَاء َ اللّٰہُ ‘‘’’آپ ان شاء اللہ ثقہ تھے‘‘[الطبقات الکبریٰ بتحقیق محمد عبد القادر:۷؍۱۸۱، ت:۳۱۸۵]
زیر بحث اثرکی بابت علماء کرام کے اقوال:
(۱) امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی۳۶۵ھ)
آپ رحمہ اللہ نے یحییٰ البکّاء کے ترجمے میں زیر بحث اثر کو ذکر کرنے کے ساتھ اور دو روایتوں کو ذکر کیا ، پھر اخیر میں فرمایا:
’’ویحیی البکاء ہذا لیس بذاک المعروف ولیس لہ کثیر روایۃ‘‘
’’یہ یحییٰ البکاء معروف نہیں ہے اور نا ہی کثیر الروایہ ہے‘‘[الکامل فی ضعفاء الرجال بتحقیق عادل و علی:۹؍۱۳، ت:۲۰۹۷]
مزید حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کی درج ذیل کتاب بھی دیکھیں۔ [الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ بتحقیق السید عبد اللہ ہاشم:۲؍۱۸۹]
(۲) امام ابو الفضل محمد بن طاہر الشیبانی ،المعروف بابن قیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۵۰۷ھ)
آپ رحمہ اللہ زیر بحث اثر کے تحت فرماتے ہیں:’’وَیحیی ہَذَا مَتْرُوک الحَدِیث، وَالرجل غیر مَعْرُوف‘‘
’’ یہ یحییٰ بن مسلم البکاء متروک الحدیث ہے اور (ابن عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کی بات کہنے والا)آدمی غیر معروف ہے‘‘ [ذخیرۃ الحفاظ بتحقیق الدکتور عبد الرحمٰن الفریوائی:۳؍۱۶۶۰، رقم:۳۷۱۶]
(۳) علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ :
لکن فی ثبوت ہذا الاثر عن ابن عمر نظر لان مدارہ علی یحیی البکاء وہو ضعیف کما فی التقریب وقد ضعفہ غیر ما واحد من الائمۃ کالنسائی والدارقطنی وقال ابن حبان:یروی المعضلات عن الثقات لا یجوز الاحتجاج بہ، ذکرہ الذہبی فی المیزان، ثم ساق لہ ہذا الاثر عن ابن عمر۔
لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اِس اثر کے ثبوت میں نظر ہے کیونکہ اِس اثر کا دارومدار یحییٰ البکّاء پر ہے اور یہ ضعیف ہے جیساکہ تقریب میں ہے اور اِس کو کئی ائمہ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے جیسے امام نسائی اور امام دارقطنی رحمہما اللہ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اِس نے ثقات سے معضل روایتیں بیان کی ہیں اور اِس سے دلیل پکڑنا جائز نہیں ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے یحییٰ البکّاء کو’’ میزان الاعتدال‘‘ میں ذکر کیا ہے پھر اِس اثر کو اِس کے ترجمہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔[الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ والکتاب:۱؍۱۴۸، رقم:۱۰]
(۴) شیخ حسین سلیم اسد الدارانی حفظہ اللہ :
’’وہذا اثر إسنادہ ضعیف لضعف یحیی بن مسلم البکاء ‘‘
’’اِس اثر کی سند یحییٰ بن مسلم البکّاء کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے‘‘[فی تحقیق مجمع الزوائد للہیثمی :۴؍۲۴۵، تحت الحدیث:۱۹۳۵]
(۵) شیخ محمد صبحی حسن حلاق حفظہ اللہ :
امام شوکانی رحمہ اللہ نے اِس اثر کو اپنی کتاب’’ نیل الاوطار‘‘ میں ذکر کیا ، اُس پر تعلیق لگاتے ہوئے شیخ حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وَیحیی ہَذَا مَتْرُوک الحَدِیث قالہ النسائی وقال الدارقطنی :ضعیف وقال ابن حبان : یروی المعضلات عن الثقات ، لا یجوز الاحتجاج بہ‘‘
’’یہ یحییٰ بن مسلم البکّاء متروک الحدیث ہے جیساکہ امام نسائی نے کہا ہے اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اِسے ضعیف قرار دیا ہے اور امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اِس نے ثقات سے معضل روایتیں بیان کی ہیں اور اِس سے دلیل پکڑنا جائز نہیں ہے‘‘[فی تحقیق نیل الاوطار:۳؍۲۷۵، تحت الرقم:۵۱۱]
اب چند باتیں بطور فائدہ پیش خدمت ہیں:
(فائدہ نمبر:۱) زیر بحث اثر کی طرح ضحاک بن قیس رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے لیکن وہ بھی ثابت نہیں ہے۔
امام ابو عبد الله محمد بن اسحاق المكي الفاكهي رحمه الله فرماتے هيں:حَدَّثَنِي اَحْمَدُ بْنُ حُمَيْدٍ الْاَنْصَارِيُّ، عَنْ يَحْيَي بْنِ إِسْحَاقَ قَال:انا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُثْمَانَ الْقُرَشِيِّ، وَلَيْسَ بِابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ بِلَالِ بْنِ سَعْدٍ الدِّمَشْقِيِّ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: إِنَّ مُوَذِّنًا مِنْ مُوَذِّنِي الْكَعْبَةِ لَقِيَهُ فَقَال: إِنِّي اُحِبُّكَ فِي اللّٰهِ، فَقَالَ:لَكِنِّي اَبْغَضُكَ فِي اللّٰهِ ، قَالَ: لِمَ؟، فَقَالَ: لِاَنَّكَ تَبْغِي فِي اَذَانِكَ، وَتَاْخُذُ عَلَي اَذَانِكَ اَجْرًا۔
[اخبار مکۃ بتحقیق الدکتور عبد الملک:۲؍۱۳۴، ح:۱۳۲۰]
دکتور عبد الملک حفظہ اللہ مذکورہ اثر کی بابت فرماتے ہیں:
’’إسنادہ ضعیف، شیخ المصنف و شیخ شیخه لم اقف علیہما ‘‘
’’اِس اثر کی سند ضعیف ہے ۔ مصنف رحمہ اللہ کے شیخ اوراُس کے شیخ کے شیخ ، اِن دونوں کا ترجمہ نہیں مل سکا‘‘
(فائدہ نمبر:۲) الاوسط لابن المنذر میں ہے:
عَنْ یَحْیَی الْبَکَّائِ، اَنَّ ابْنَ اَبِی مَحْذُورَۃَ قَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ:یَا اَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنِّی اُحِبُّکَ فِی اللّٰہ…
[الاوسط فی السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر النیسابوری بتحقیق صغیر احمد:۳؍۶۳، رقم: ۱۲۳۹]
اِس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اظہار ِ محبت کرنے والے شخص ابن ابی محذورہ ہیں۔
لیکن سند کے دراسہ سے ابن ابی محذورہ کے نام کا ثبوت محل نظر معلوم ہوتا ہے۔ تفصیل پیش خدمت ہے:
یحییٰ البکّاء سے اِس روایت کو دولوگوں نے روایت کیا ہے:
(۱) جعفر بن سلیمان البصری الضبی رحمہ اللہ :
امام ابو بکرعبد الرزاق بن الہمام الصنعانی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۱۱ھ) فرماتے ہیں:
عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ قَال:سَمِعْتُ يَحْيَي الْبَكَّائَ يَقُولُ:رَاَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَسْعَي بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ ،وَمَعَهُ نَاسٌ، فَجَاء َهُ رَجُلٌ طَوِيلُ اللِّحْيَةِ ،فَقَالَ:يَا اَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنِّي لَاُحِبُّكَ فِي اللّٰهِ…
[المصنف بتحقیق حبیب الرحمٰن الاعظمی:۱؍۴۸۱، ح:۱۸۵۲]
(۲) حماد بن زید البصری رحمہ اللہ :
آپ رحمہ اللہ سے اِس روایت کو تین لوگوں نے روایت کیا ہے۔ جن میں سے دو شاگردوں نے رجل کہا ہے اور ایک شاگرد نے ابن ابی محذورہ کا نام لیا ہے۔تفصیل پیش خدمت ہے:
۱۔ محمد بن الفضل ابو النعمان البصری رحمہ اللہ (ثقۃ ثبت) :
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الشامی الطبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۶۰ھ) فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيْزِ، ثنا عَارِمٌ اَبُو النُّعْمَانِ، ثنا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَي الْبَكَّائِ، قَالَ:قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عُمَر: إِنِّي لَاُحِبُّكَ فِي اللّٰهِ…
[المعجم الکبیر بتحقیق حمدی السلفی:۱۲؍۲۶۴، ح: ۱۳۰۵۹ ،وإسنادہ صحیح إلی حماد]
۲۔ عبید اللہ بن محمد البصری رحمہ اللہ (ثقۃ ) :
امام ابو جعفر احمد بن محمد المصری ، المعروف بالطحاوی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۲۱ھ) فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ اَبِي عِمْرَانَ ،قَالَ:ثنا عُبَيْدُ اللّٰهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ حَفْصٍ التَّيْمِيُّ، قَالَ: اَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَي الْبَكَّائِ اَنَّ رَجُلًا قَالَ لِابْنِ عُمَرَ إِنِّي اُحِبُّكَ فِي اللّٰهِ…
[شرح معانی الآثار للطحاوی بتحقیق محمد زہری النجار وغیرہ:۴؍۱۲۸، ح:۶۰۲۰وإسنادہ صحیح إلی حماد]
آپ حماد سے کثرت سے روایت بیان کرنے والے ہیں ۔ آپ کے پاس حماد کی نو (۹) ہزار حدیثیں ہیںجیساکہ امام ابو حاتم نے کہا ہے۔دیکھیں:[الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۵؍۳۳۵، ت:۱۵۸۳]
۳۔ حجاج بن منہال البصری رحمہ اللہ (ثقۃ فاضل) :
اما م ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیساپوری رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۹ھ) فرماتے ہیں:
حَدَّثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَال:ثنا حَجَّاجٌ، قَالَ:ثنا حَمَّادٌ، عَنْ يَحْيَي الْبَكَّائِ، اَنَّ ابْنَ اَبِي مَحْذُورَةَ ،قَالَ لِعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ: يَا اَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ إِنِّي اُحِبُّكَ فِي اللّٰهِ…
[الاوسط فی السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر النیسابوری بتحقیق صغیر احمد:۳؍۶۳، رقم: ۱۲۳۹،وإسنادہ صحیح إلی حماد]
مذکورہ تفصیل کو دیکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حجاج بن منہال البصری ابن ابی محذورہ کا نام لینے میں منفرد ہیں ۔ واللہ اعلم۔
٭ اب چند باتیں بطور تنبیہ پیش خدمت ہیں:
(تنبیہ نمبر:۱) علامہ البانی رحمہ اللہ نے زیر بحث اثر کو ثابت قرار دیا ہے۔دیکھیں :[سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :۱؍۱۰۴، تحت الحدیث:۴۲]
شیخ زکریا بن غلام پاکستانی حفظہ اللہ نے زیر بحث اثر کو حسن قرار دیا ہے۔دیکھیں :[ما صح من آثار الصحابۃ فی الفقہ:۱؍۱۹۴]
راقم کہتا ہے کہ : علامہ البانی رحمہ اللہ نے اِس اثر کو ضعیف بھی قرار دیا ہے جیساکہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے ۔
٭ شیخ زکریا پاکستانی حفطہ اللہ نے یحییٰ البکّاء کی موجودگی میں اِس اثر کو حسن کیوں کہا؟ اِس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔
٭ زیر بحث اثر یحییٰ بن مسلم البکّاء کی وجہ سے ضعیف ہے اور یہی بات راجح ہے۔ واللہ اعلم۔
(تنبیہ نمبر:۲) امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں رقمطراز ہیں:
وَاَخْرَجَ ابْنُ حِبَّانَ عَنْ يَحْيَي الْبُكَالِيِّ، قَالَ:سَمِعْت رَجُلًا قَالَ لِابْنِ عُمَرَ…
امام ابن حبان نے یحییٰ البکالی کے طریق سے تخریج کی کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے ہوئے سنا۔۔۔
[نیل الاوطار بتحقیق صبحی حسن:۳؍۲۷۵، تحت الرقم:۵۱۱]
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقال الشوکانی:وقد اخرج ابن حبان عن یحیی البکاء (وفی الاصل:البکالی وہو تصحیف)
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:امام ابن حبان رحمہ اللہ نے یحییٰ البکّاء کے طریق سے تخریج کی(اصل میں البکالی ہے اور وہ تصحیف ہے)
پھر چند سطروں کے بعد فرماتے ہیں: الظاہر ان ابن حبان إنما اخرج اثرہ ہذا فی کتابہ (الضعفاء ) لا فی (صحیحہ) کما یوہم صنیع الشوکانی۔واللّٰہ اعلم
ظاہر یہ ہے کہ امام ابن حبان نے اِس اثر کی تخریج اپنی ’’کتاب الضعفاء‘‘ میں کی ہے نا کہ اپنی صحیح میں جیساکہ امام شوکانی کے عمل سے وہم ہوتا ہے۔[الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ والکتاب:۱؍۱۴۸، رقم:۱۰]
اور شیخ محمد صبحی بن حسن حلاق حفظہ اللہ امام شوکانی رحمہ اللہ کے قول پر حاشیہ لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَلم اجد الحدیث عند ابن حبان فی المجروحین :۳؍۱۰۹۔۱۱۰
میں امام ابن حبان رحمہ اللہ کی’’ کتاب المجروحین‘‘ میں اِس حدیث کو نہیں پا سکا۔
راقم کہتا ہے کہ مجھے بھی یہ اثر امام ابن حبان کی کتاب المجروحین میں نہیں مل سکا اور نا ہی اِس بات کا علم ہو سکا کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی کس کتاب میں اِس اثر کی تخریج کی ہے ۔واللہ اعلم۔
(تنبیہ نمبر:۳) امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۶۵ھ)یحییٰ بن مسلم البکّاء کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا ابن حماد، حَدَّثَنا عباس، عَن يَحْيي، قَال:كان وكيع يروي عن شيخ له ضعيف، يُقَال له: يَحْيي بن مسلم، وَهو كوفي۔
ہم سے بیان کیا ابن حماد نے ، وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا عباس الدوری نے، وہ روایت کرتے ہیں امام ابن معین رحمہ اللہ سے کہ آپ نے کہا:امام وکیع ایک ضعیف شیخ سے روایت کرتے ہیں جیسے یحییٰ بن مسلم کہا جاتا ہے اور یہ کوفی ہے۔[
الکامل فی ضعفاء الرجال بتحقیق عادل و علی:۹؍۱۳، ت:۲۰۹۷]
اِ س قول کا تعاقب کرتے ہوئے امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وهذا وهم منه، فإن يحيي البكاء مات سنة ثلاثين ومائة، وإنما طلب وكيع العلم بعد الاربعين ومائة، فشيخه ليس هو بالبكاء ‘‘
یہ آپ رحمہ اللہ کا وہم ہے کیونکہ یحییٰ البکّاء کی وفات ۱۳۰ھ میں ہوئی ہے اور امام وکیع رحمہ اللہ نے ۱۴۰ھ کے بعد علم حاصل کرنا شروع کیا ہے لہٰذا اُن کے شیخ یحییٰ بن مسلم ، یہ یحییٰ بن مسلم البکّاء نہیں ہیں۔
[میزان الاعتدال بتحقیق البجاوی:۴؍۴۰۹، ت:۹۶۳۱]
(خلاصۃ التحقیق)اذان پر اجرت لینے کے نقصان کے تعلق سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر ثابت نہیں ہے ۔ واللہ اعلم۔