Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • فرقہ’’سروریہ‘‘:تعارف افکار ونظریات (تیسری اور آخری قسط)

    روریہ کے دیگر افکار و نظریات:
    (۱ ) یہ لوگ (الحكم بغير ما انزل اللّٰه) اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے کے مسئلے کے تعلق سے حد درجہ غلو کرتے ہیں اور اس کا بے حد اہتمام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنا مطلقاً کفر اکبر ہے خواہ فیصلہ نہ کرنے والا اسے ناجائز اور حرام ہی کیوں نہ سمجھ رہا ہو۔ملاحظہ فرمائیں:
    سلیمان العلوان السروری https://youtu.be/O5ZYePErJPU
    احمد بن عمر الحازمی السروری https://youtu.be/jRVzlugkDL4
    (۲) کفار کے ساتھ موالات (دوستی) کے مسئلے میں انتہائی مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور ہر اس مسلمان کو علی الاطلاق کفر اکبر کا مرتکب کافر قرار دیتے ہیں جو کافروں سے دوستی کرتا ہے، نیز جو حکام غیر مسلم حکومتوں کے ساتھ تعامل، لین دین اور تجارتی مراسم جاری رکھتے ہیں انہیں بھی کافر قرار دیتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:عبد العزیز الطریفی https://youtu.be/B6BzleOLdHc
    (۳) مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج کے مسئلے کو معمولی اور سہل گردانتے ہیں، اور اس کو ایسا اختلافی مسئلہ باور کراتے ہیں کہ جس میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔(جیسا کہ دکتور محمد القحطانی السروری نے امام عبد اللہ بن احمد بن حنبل کی کتاب’’السنہ‘‘کی تحقیق کے اندر ایسا کیا ہے(۱؍۱۸۶) چنانچہ ان کے نزدیک مسلم حکام کے خلاف خروج وبغاوت اور احتجاج ومظاہرات محض جائز ہی نہیں بلکہ کار ثواب بھی ہے جیسا کہ ان کے تعامل سے ظاہر ہوتا ہے۔
    (۴) ان کا کہنا ہے کہ اسلامی ممالک کے حکام امامت کے منصب پر فائز نہیں ہیں کہ جن کی اطاعت شرعاً واجب اور مخالفت حرام ہو، چنانچہ ان لوگوں نے امامت کو فقط خلافت عظمیٰ کے ساتھ خاص کر دیا ہے اور یہ عقیدہ اختیار کیا ہے کہ ملکوں کے حکمرانوں کی اطاعت لازمی نہیں ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
    سروری شافی العجمی https://youtu.be/0kk2iyR8hp4،
    احمد بن عمر الحازمی https://youtu.be/_6VkTnjhuNo،
    محمد الحسن الددوhttps://youtu.be/zzJH49XKPb4
    (۵) اہلِ بدعت پر تبصرہ و تنقید کرتے وقت ’’الموازنات بین الحسنات والسیئات‘‘جیسے باطل وبدعی منہج پر عمل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی پر نقد کرتے وقت اس کی برائیوں کے ساتھ ساتھ لزوما ًاس کی اچھائیاں بھی ذکر کرنی چاہیے ورنہ یہ ظلم ہوگا، اس کا مقصد اہل بدعت و خرافات پر تنقید کو ہلکا اور بے جان بنا دینا ہے جس سے درپردہ ان کی ستائش اور حوصلہ افزائی ہوتی رہے اور انہیں اپنی اچھائیوں کی آڑ میں خرافات پھیلانے کے مواقع فراہم ہوتے رہیں جیسا کہ آج کل کچھ احباب آزاد ذہنیت اور سلفیت میں وسعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بردرس کی اچھائیاں گنوانے میں مصروف ہیں اور اسے ظلماً عدل وانصاف اور توازن ومیانہ روی کا لیبل چسپاں کر کے فروغ دے رہے ہیں۔ (ملاحظہ فرمائیں: سلمان العودہ’’من أخلاق الداعیۃ ص:۴۰،۴۷، احمد الصویان‘‘منہج أہل السنۃ والجماعۃ فی تقویم الرجال ومؤلفاتہم :ص:۳۷ )
    علامہ ربیع بن ہادی المدخلی نے اس منہج پر زبردست رد کرتے ہوئے’’منہج أہل السنۃ والجماعۃ فی نقد الرجال والکتب والطوائف‘‘کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی ہے جو اس موضوع پر نہایت مفید ہے۔
    (۶) حسن البنا ء کے اخوانی اصول’’المعذرۃ والتعاون‘‘پر سختی سے عمل کرتے ہیں، اخوانی حضرات کہتے ہیں کہ اتفاقی مسائل کی بنیاد پر ہم باہم متحد و متفق رہیں گے اور اختلافی مسائل میں ہم ایک دوسرے کو معذور سمجھیں گے (خواہ وہ اختلافی مسئلہ عقائد وایمانیات اور اسلام و کفر سے متعلق ہی کیوں نہ ہو) اور سروری نئے انداز میں وہی چیز دہراتے ہیں کہ’’ہم اتحاد صف کے متلاشی ہیں اتحاد رائے کے نہیں‘‘یعنی ہماری آراء کسی بھی ناحیے سے مختلف ہو سکتی ہیں لیکن ہمارا صف ایک ہی رہے گا، ہم ایک جماعت بن کر رہیں گے خواہ شیعہ ہوں، صوفی ہوں، تبلیغی ہوں، اخوانی ہوں کوئی بھی ہو سب اپنے اپنے عقائد وآراء کو جانب میں رکھ کر بس متحد رہیں گے۔
    (۷) انتہائی سریت، مکمل رازداری اور کامل تقیہ کا اہتمام کرتے ہیں حتیٰ کہ ان میں سے بعض افراد یہ تک کہتے ہیں کہ یہ دور مکی دور ہی کی طرح ہے جس میں سراً رازداری کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا کام کیا گیا تھا۔عبد اللہ العلوان سروری کہتے ہیں:’’جب اسلامی تحریک ایسی مصیبت سے دو چار ہو کہ اس پر کوئی ارہابی (دہشت گرد) لادینی، غاصب حکمران مسلط ہو جائے جو داعیان دین کو قید کر لیتا ہو تو پلان کچھ اس نوعیت کا ہوگا،سری طور پر دعوت دینے پر اکتفا کیا جائے گا۔۔۔(عقبات فی طریق الدعاۃ:۲؍۵۹۶)
    (۸) بنا کسی اصول وضوابط اور شرائط و قیود کے نوجوانوں کو جہاد کے لیے بھڑکاتے ہیں اور اس کی ترغیب دلاتے ہیں حتیٰ کہ اس دوران ولی الامر اور والدین کی اجازت کی شرط بھی غائب کر دیتے ہیں، اس کے بعد جہاد میں رغبت رکھنے والوں کو تکفیری جماعتوں کے حوالے کر دیتے ہیں جو انہیں خود کش حملوں اور مسلمانوں کے قتل کا عادی بنا دیتے ہیں۔( اس سلسلے میں خالد الراشد کی تقاریر بھری پڑی ہیں)
    (۹) اہل السنہ والجماعہ کے معتبر علمائے کرام بالخصوص ان کے اصولوں پر نقد کرنے والوں پر طعن و جرح کرتے ہیں، ان سے میل جول نہ رکھنے نیز ان سے قطعِ تعلق اور عدم ِارتباط پر ابھارتے ہیں ۔چنانچہ کہتے ہیں کہ:’’علما ء کی باتیں دعاۃ کے لیے ہیں اور دعاۃ کی باتیں عام عوام کے لیے‘‘نیز کہتے ہیں کہ:’’(عوام) آپ کے لیے علماء کی باتیں سمجھنا ممکن نہیں ہے یہاں تک کہ طلبۂ علم اور داعیانِ دین ان باتوں کی وضاحت نہ کر دیں‘‘خود اس فرقے کے مؤسس محمد سرور نے ائمہ حرمین شیخ ابن باز ابن عثیمین عبد اللہ بن حمید اور صالح الفوزان وغیرہم کے خلاف طعن و تشنیع کے نشتر چلائے ہیں، (ملاحظہ فرمائیں محمد سرور زین العابدین مجلہ السنہ عدد:۲۳ص:۲۹۔۳۰)
    عائض القرنی کہتے ہیں:’’(عرب میں جو کچھ فسادات ہو رہے ہیں اور عرب کی جو موجودہ صورت حال ہے اس کے تعلق سے) علماء کا کردار بڑا منفی کمزور اور بے وقعت ہے‘‘۔

    مزید کہتے ہیں کہ:’’علما نوجوانوں کی صحیح رہنمائی نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کا پورا وقت جزئیات میں صرف کر دیتے ہیں‘‘۔

    (۱۰) مسلم حکام پر صراحتاً واشارتاً طعن و تشنیع کرتے ہیں، ان کی امامت و ولایت کے تعلق سے نوجوانوں کے دلوں میں تشکیک پیدا کرتے ہیں، عوام کو ان کے خلاف بھڑکاتے ہیں اور انہیں احتجاج ومظاہرات اور انقلاب کی دعوت دیتے ہیں جیسا کہ عرب بہاریہ کے انقلابات ہمارے سامنے ہیں جن میں بہتوں کے پول کھل گئے اور حقائق واضح ہو گئے۔!فالحمد للہ علیٰ ذلک ۔ملاحظہ فرمائیں: محمد العریفی سروری
    9SuWDOk_WkP/be.youtu://https،
    عبد الرحمن عبد الخالق(فصول فی السیاسۃ:۳۱۔۳۲)
    ناصر العمر نے میڈیا کا سہارا لے کر بہت سارے لوگوں کو بھڑکایا ہے۔دیکھیں:
    https://youtu.be/WnPki9helmE ،
    اسی طرح نبیل العوضی نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ دیکھیں:

    (۱۱) اخوانی فکر کے رؤساء وقائدین حسن البنا اور سید قطب، عصام العطار، مصطفی السباعی وغیرہم جیسے مبتدعہ کی زوردار تعریفیں کرتے ہیں ان کو فضائل و مناقب کے اعلیٰ مقام پر فائز کرتے ہیں اور انہیں بلند و بالا القاب سے نوازتے ہیں جن سے عام عوام ان سے جڑنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔محمد سرور کہتے ہیں:’’دور حاضر میں میں کسی ایسے لکھاری کو نہیں جانتا جنہوں نے موجودہ دور کے چیلنجز کو ایسے اجاگر کیا ہو جیسے سید قطب نے کیا ہے، آپ رحمہ اللہ ان مشاکل کو سامنے لانے اور ان کے حل پیش فرمانے میں نہایت امانت دار واقع ہوئے تھے‘‘(دراسات فی السیرۃ النبویہ ص: ۳۲۳)نبیل العوضی اور محمد حسان کی زبانی سید قطب کی تعریف سننے کے لئے درج ذیل لنکس کا وزٹ کریں :


    (۱۲) کبیرہ گناہوں کے مرتکب مسلمانوں کے حکم میں غلو سے کام لیتے ہیں حتیٰ کہ ان میں سے بعض ان کی تکفیر کرتے ہیں یا تکفیر کرنے کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔سفر الحوالی نے شراب نوشی کرنے والے کی تکفیر کی ہے۔(دروس الطحاویۃ:۲؍۲۷۲)اسی طرح محمد سرور نے لواطت کرنے والوں کو کافر قرار دیا ہے۔( منہج الأنبیاء فی الدعوۃ إلی اللہ ص:۱۷۰)
    (۱۳) مسلم ممالک کے حکام کی اطاعت شرعاً واجب نہیں سمجھتے ہیں لیکن اپنی جماعت کے امیر کے اوامر کی اطاعت لازمی قرار دیتے ہیں، محمد سرور کہتے ہیں:’’اس امیر اور ان کے معاونین کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنے معاملات کو ایک دعوتی اسٹیبلشمنٹ اور مرکز کی طرح منظم کریں جو مرکز روئے زمین پر دینِ الٰہی کے غلبہ کے لیے بر سرِ عمل ہو اور یہ تنظیم اس بات کا متقاضی ہے کہ مرکز کا ایک رئیس اور ایک نائب رئیس ہو اور مختلف ڈیپارٹمنٹس اور برانچز کے ذمہ داران ہوں، احکام صادر ہوں جن کی اطاعت کی جائے، سوائے ان احکام کے جو کتاب وسنت کے مخالف ہوں‘‘ (مضمون’’الوحدۃ الإسلامیۃ‘‘ مجلۃ السنۃ العدد:۲۹ص:۸۹)
    سروری فکر کے انتشار کے اسباب و وسائل:
    جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ سروری تحریک دورِ حاضر میں عالم اسلام کی سب سے بڑی اسلامی تحریک ہے چنانچہ اس تیزی کے ساتھ اپنے افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے لیے اس تنظیم نے کئی اسالیب اختیار کیے اور مختلف میدانوں میں مختلف انداز سے اپنا کام کیا جن میں سب سے اہم تین طرح کے وسائل و ذرائع اور میادین ہیں:
    اول: علمی میدان: اس طور پر کہ یہ لوگ مختلف مدارس وجامعات، اسکولس، کالجز، سرکاری محکموں اور مساجد میں پھیل گئے ، متعدد کتابیں تصنیف کیں ،رسائل و جرائد لکھے، مجلات و اخبارات جاری کئے اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لیا، گویا علم و تعلیم کے تمام راستوں پر کنٹرول حاصل کر کے پوری تیاری اور تندہی کے ساتھ اپنے افکار کی نشر و اشاعت شروع کر دی،چنانچہ لوگ ان کی علمی صلاحیتوں، دروس و محاضرات اور تصنیفات وتالیفات کی تعداد سے مرعوب ہو کر ان کے باطل افکار کے اسیر ہوتے چلے گئے۔
    دوم: مالی وسائل و ذرائع: اس طور پر کہ ان لوگوں نے بہت سارے خیراتی ادارے اور رفاہی آرگنائزیشنز قائم کیے اور ان کے بڑے بہترین اسلامی نام رکھے، خوبصورت اور پر کشش لیبلز چسپاں کیے اور اہل ثروت اور تاجروں سے قربت بڑھا کر ان سے بہت سارا مال ودولت حاصل کیے پھر ان اموال کو اپنی اور اپنی جماعت کی مصلحتوں میں خرچ کئے جس سے بہت سارے غریب و نادار قسم کے لوگ متاثر ہو کر ان کی صفوں میں شامل ہو گئے۔جیسے جمعیۃ الحکمہ اور جمعیۃ الاحسان وغیرہ رفاہی ادارے۔
    سوم: میڈیائی وسائل: اس طرح کہ ان لوگوں نے کئی سارے نیوز چینلز، ثقافتی چینلز، کڈس پروگرام چینلز،پریس انٹرویوز، انٹرنیٹ ویب سائٹس، اور اپلیکیشنزوغیرہ بنائے، مزید سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے یوٹیوب، فیس بک پیجز، ٹویٹر اکاؤنٹس، انسٹاگرام اور ٹیلی گرام وغیرہ کے ذریعے چھوٹے چھوٹے کلپس اور اسٹیکرز کی صورت میں اپنی باتوں اور اپنے افکار و خیالات کو لوگوں تک پہنچایا اور ان پلیٹ فارمز پر ایک طرح سے اپنا قبضہ جما لیا کہ جب بھی کوئی ان چیزوں کو اوپن کرے تو تقریر و تحریر ہر دو صورت میں انہی کی باتیں اور انہی کی تحریریں نظر سے گزریں، نتیجتاً لوگ ان سے متاثر ہو کر ان کے ہم خیال بن جائیں ۔
    اخیر میں عرض یہ ہے کہ سروریہ ایک بدعتی فرقہ ہے جو الاخوان المسلمون ہی کی ترقی یافتہ اور نئی شکل ہے، بس ان لوگوں نے علم وفقہ کا لباس زیب تن کیا ہوا ہے ورنہ ان کے افکار و نظریات منہج و فکر سب اخوانیت سے ادھار لیے ہوئے ہیں ،اہل السنہ والجماعہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ،یہ سلفیت سے کوسوں دور ہیں، حسن البنا نے کہا تھا:’’ہم ایک سلفی دعوت، سنی طریقہ،صوفی حقیقت، سیاسی ادارہ،سرگرم تنظیم، علمی و ثقافتی روابط، اقتصادی کمپنی اور معاشرتی فکر ہیں‘‘۔چنانچہ انہوں نے ان تمام چیزوں کو ملا کر الاخوان المسلمون کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا تھا لیکن جب اس کی حقیقت لوگوں کے سامنے آشکارا ہو گئی اور مزید عوام کو اپنے دام فریب میں پھانسنے سے قاصر رہا تو اخوانیوں نے اپنا لیٹسٹ ورژن لانچ کیا ۔چنانچہ محمد سرور نے کہا کہ: ’’ہم سلفی منہج اور تحریکی فکر کا امتزاج چاہتے ہیں‘‘نتیجتاً سروریہ کا ظہور ہوا جس کی تفصیلات آپ کے سامنے ہیں، اور اب بر صغیر میں ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب اور کچھ احباب انہی کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر سلفیوں کا عقیدہ،فقہ اور علمی منہج لے لیا جائے اور جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی اور اخوان المسلمین کے تحریکی افکار لے لیے جائیں تو بڑا خوبصورت مکس اپ تیار ہوگا اور سارے لوگ سلفی بن جائیں گے، ان کے بقول یہی مسئلے کا صحیح حل ہے۔ما أشبہ اللیلۃ بالبارحۃ ۔چنانچہ فرماتے ہیں:آپ سلفی عقیدے کے ساتھ حسن البنا ،مولانا مودودی اور ڈاکٹر اسرار جیسے وژنری لیڈرز اور تحریکی کارکنان جیسی قربانیاں اور محنت پیدا کریں تو آپ کے لوگ ان کی طرف نہیں جائیں گے۔مزید لکھتے ہیں:’’تو مسئلے کا حل فتوے بازی اور مسلکی عصبیت کو ہوا دے کر اپنی مرغیوں کو اپنے دربے میں رکھنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ جس عقیدے اور فکر کو صحیح سمجھتے ہیں اس کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو پالش کریں، تحریکیوں جیسی محنت کریں قربانیاں دیں اور رجال کار پیدا کریں‘‘۔
    اسی طرح مخالف پر رد کرنے اور اہل بدعت کی تعریف کرنے کے تعلق سے بھی ڈاکٹر محمد زبیر صاحب کا موقف بعینہٖ سروریوں والا ہی ہے لہٰذا اگر آپ کو ڈاکٹر صاحب کی حقیقت جاننی ہو تو محمد سرور اور ڈاکٹر صاحب کے افکار کا موازنہ کریں توبہت سارے امور میں آپ کو دونوں ایک ہی نظر آئیں گے۔
    اب کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ جن افکار کی بنا پر علمائے کرام سروریہ کو اہل السنہ والجماعہ سے خارج قرار دیتے ہیں اور جن کا تذکرہ آپ نے کیا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق تو سیاست اور امراء وحکام المسلمین سے ہے، تو کیا ان چیزوں کی وجہ سے کسی کو بدعتی اور اہل السنہ والجماعہ سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے؟تو جواباً عرض ہے کہ وہ خوارج جنہوں نے حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے خلاف خروج کیا تھا ان کے اور دیگر اہل سنت وجماعت کے مابین سوائے ولی الامر کے خلاف خروج اور الحکم بغیر ما انزل اللہ کے مسئلے میں غلو اور اس طرح کے دو چار سیاسی مسائل میں اختلاف کے علاوہ کون سے عقدی ومنہجی اختلافات پائے جاتے تھے؟ کیا توحید الوہیت، توحید ربوبیت ،توحید اسماء وصفات اور دیگر عقائد و ایمانیات کے باب میں ان کا عقیدہ خالص اہل سنت وجماعت کا عقیدہ نہ تھا؟ کیا ان کے اندر شرک و کفر یا اس طرح کی کوئی اور بدعت پائی جاتی تھی (گرچہ بعد میں ان کے ہاں بہت ساری بدعات و خرافات اور فاسد عقائد پائے گئے لیکن یہاں مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کرنے والے خوارج ہیں)؟ پھر بھی کیوں اللہ کے رسول ﷺ نے اُنہیں(کلاب النار) جہنمی کتے قرار دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ قتال کیا۔؟ لہٰذا یہ کہنا کہ ولی الامر کے خلاف خروج صرف سیاسی مسئلہ ہے اور اس کے مرتکب کا اہل السنہ والجماعہ سے خارج اور بدعتی ہونا غیر معقول ہے یہ بے معنیٰ اور غیر عالمانہ بات ہے۔
    سروریہ کے انحرافات کے تعلق سے مزید تفصیلات موجود ہیں لیکن میں انہی باتوں پر اکتفا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح منہج وفکر پر گامزن رکھے آمین۔
    اخیر میں مراجع و مصادر اور تفصیل کے خواہاں قارئین کے لیے بطور احالہ ان کتابوں اور مراجع کا ذکر کر رہا ہوں جن سے استفادہ کر کے میں نے یہ مضمون قلم بند کیا ہے:
    (۱) القطبیۃ ہی الفتنۃ فاعرفوہا للشیخ أبو إبراہیم ابن سلطان العدنانی
    (۲) السروریۃ فتنہ طۃ إخوانیۃ تتدثر بالطریقۃ السنیۃ للشیخ أحمد بن مبارک المزروعی سروریہ کے افکار و نظریات سے متعلق بیشتر معلومات اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
    (۳) المقالات السلفیۃ للشیخ سلیم الہلالی
    (۴) الإرہاب وآثارہ علی الأفراد والأمم للعلامۃ زید المدخلی
    (۵) سلسلۃ’’مراجعات مع الشیخ محمد سرور زین العابدین‘‘یوٹیوب پر قسط وار ایک پروگرام ہے ، محمد سرور کا ذاتی انٹرویو ہے جس میں وہ بہت سارے حقائق کا اعتراف کرتے ہیں جن میں اس بات کا اعتراف بھی شامل ہے کہ سروریہ کے نام سے ایک تنظیم موجود ہے جس کے مؤسس وہ خود ہیں۔ ذاتی زندگی سے متعلق کچھ معلومات اس سے ماخوذ ہیں۔
    (۶) ’’التنظیم السروری‘‘خلیجیہ یوٹیوب چینل پر معروف نیوز اینکر عبد اللہ المدیفر کے ذریعے لیا گیا کالم نگار’’خالد العضاض‘‘کا مکالمہ ہے جس میں وہ سروری تنظیم کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں چونکہ جناب خالد العضاض شروع شروع میں خود ہی اس تنظیم سے جڑے ہوئے تھے اور انہوں نے اس تحریک کو نہایت قریب سے دیکھا تھا اسی لیے میں نے ان سے استفادہ کیا ہے چنانچہ محمد سرور اور سروریہ کی تاریخ سے متعلق بہت ساری معلومات اسی مکالمہ سے ماخوذ ہے۔
    (۷) الأجوبۃ المفیدۃ عن أسئلۃ المناہج الجدیدۃ للشیخ صالح الفوزان
    (۸) التیارات الدینیۃ فی المملکۃ العربیۃ السعودیۃ خالد المشوح
    (۹) عشرون مأخذا علی السروریۃ للشیخ محمد بن عبد الوہاب الوصابی العبدلی
    نیز دیگر ویب سائٹس اور رسائل و جرائد جن کی ورق گردانی کے بعد یہ تحقیقی معلومات یکجا ہو سکیں ہیں۔ اللہ راقم کو اور ان تمام اہل علم کو جن کی کتابوں اور تحریروں سے راقم نے استفادہ کیا ہے دنیا و آخرت کی کامیابی سے نوازے آمین یا رب العالمین۔
    واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings