Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • علماء کرام سے تنفیر کا فتنہ اسباب و علاج (قسط ثانی)

    ان حالات کے اسباب:
    ان حالات کے اسباب بہت سے ہو سکتے ہیں، ان میں سے چند اہم اسباب کو میں قلمبند کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
    (۱) علماء سو کی بدکرداریاں: علماء سوء کی وجہ سے عوام نے علماء سے دوری بنانا شروع کر دیا اور یہ سمجھ لیا کہ علماء تمام کے تمام بدکردار اور برے ہی ہوتے ہیں۔ یہی سوچ علماء سے تنفر کے پیچھے کار فرما ہے۔
    (۲) علماء اور عوام کے درمیان دوری: اعدائے اسلام کی سازشوں اور کچھ نام نہاد مسلمانوں کی بنا پر عوام نے علماء سے دوری اختیار کرلی اور علماء نے بھی عوام سے ربط و تعلق کی کوشش نہیں کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علماء عوام سے قربت کے ذرائع اختیار کرتے، لیکن بجز کچھ علماء کے اکثریت نے کوئی مناسب ذریعہ اور وسیلہ اختیار نہیں کیا اور آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ فیس بک اور واٹس ایپ کے دلدادہ علماء کے پاس عوام کے لیے وقت ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ نوجوانانِ ملتِ اسلامیہ کی ذہن سازی علمائے حق کی بجائے اہل مغرب اور مغربی تہذیب کے مقلد افراد کر رہے ہیں۔
    (۳) سوشل میڈیا: ستم ظریفی یہ ہے کے عوام کے پاس ایک تو علمِ دین کی کمی ہے، دوسرے جو کچھ ہے وہ بھی سوشل میڈیا کی دین ہے جو بدعات و خرافات، سازشوں اور غلط فہمیوں کی ملاوٹ کا شکار ہے۔ اس کی وجہ اور سبب کافی حد تک خود علماء کا رویہ ہے۔ انہوں نے عوام کی تربیت اور ذہن سازی پر دھیان دینا ترک کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے سوشل میڈیا ہی کو حصولِ علمِ دین کا ذریعہ بنا لیا اور مساجد و مدارس سے تعلق ختم کرلیا اور سوشل میڈیا سے رطب و یابس ہر چیز علمِ دین کے نام پر حاصل کرنا شروع کر دیا۔
    (۴) حصول علم میں احتیاط نہ کرنا: اگر بچوں کا کسی اسکول میں داخلہ کرانا ہو تو اس کی خوب جانچ پڑتال کی جاتی ہے تاکہ بچوں کا مستقبل تابناک ہو سکے۔ اسی طرح علاج کرانے کے لیے اچھے سے اچھے ڈاکٹر کا انتخاب کیا جاتا ہے اور نیم حکیم خطرہ جان کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے جھولا چھاپ ڈاکٹروں سے اجتناب کیا جاتا ہے تاکہ علاج صحیح ڈھنگ سے ہوسکے اور نقصان کے بجائے فائدہ ہو۔ لیکن بیچارہ دین اتنا ارزاں اور حقیر ہو گیا ہے کہ لوگ دین کا علم کسی سے بھی حاصل کر لیتے ہیں اور آج یہی ہو رہا ہے، لہٰذا امتِ مسلمہ حصولِ علمِ دین کے سلسلے میں احتیاط کو پرے رکھتے ہوئے ہر کس و ناکس سے دین کا علم حاصل کر رہی ہے۔ اور جب ہر کس و ناکس سے علم دین کا حصول ہوگا تو ظاہر سی بات ہے فساد و بگاڑ اس امت کا مقدر بن جائے گا۔ چنانچہ علم دین کسی سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اور حق جہاں سے ملے لے لینا چاہیے اسی طرح جو حق ہو اسے لے لو باقی کو چھوڑ دو جیسے پر فریب نعرے آج امت مسلمہ خصوصاً نوجوانان ملت کے خاصے بن چکے ہیں۔ حالانکہ ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ نہیں رہا ہے۔ چنانچہ ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ، فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ‘‘
    ترجمہ: ’’یہ علم، دین ہے، لہٰذا دیکھ لو کہ تم کن لوگوں سے اپنا دین اخذ کرتے ہو‘‘
    [مقدمہ صحیح مسلم]
    اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ هُوَ لَحْمُكَ وَدَمُكَ، وَعَنْهُ تُسْأَلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَانْظُرْ عَنْ مَنْ تَأْخُذُهُ‘‘
    ترجمہ :’’یہ علم تمہارا گوشت اور خون ہے، اس کے بارے میں قیامت کے دن تم سے سوال کیا جائے گا، لہٰذا دیکھ لیا کرو کہ اسے کس سے حاصل کر رہے ہو‘‘؟
    [مؤطا امام مالک بتحقیق الاعظمی:۱؍۲۵، المحدث الفاصل لرامہرمزی: ۴۱۶]
    بلکہ ہمارے اسلاف حصول علم دین میں احتیاط نہ کرنے کی بنا پر ہاتھ تک اٹھا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
    ’’رَأَي ابْنَهُ عِنْدَ قَاصٍّ، فَلَمَّا رَجَعَ اتَّزَرَ وَأَخَذَ السَّوْطَ وَقَالَ:أَمَعَ الْعَمَالِقَةِ! هَذَا قَرْنٌ قَدْ طَلَعَ‘‘
    ترجمہ: ’’انہوں نے اپنے بیٹے کو ایک قصہ گو کے پاس دیکھا۔ جب وہ گھر لوٹے تو ازار باندھا اور کوڑا لے کر اپنے بیٹے کو یہ کہ کر پیٹنے لگے کہ کیا عمالقہ کے ساتھ بیٹھتے ہو، یہ ایجاد کردہ بدعت ہے‘‘
    [مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳؍۳۶۲، ح: ۲۶۷۲۱]
    ذرا سوچیں اور غور و فکر کرنے کے بعد اپنے دل سے پوچھیں کہ کیا یہ زمانہ خیرالقرون سے بہتر ہے؟ یا من جملہ اس زمانے کے لوگ خیرالقرون کے لوگوں سے بہتر ہیں؟ اگر اس کا جواب آپ کو نفی میں ملے اور حقیقت ایسی ہی ہے تو اللہ کے واسطے اسلاف کے طریقہ اور منہج پر چلیں اور ہر کس و ناکس سے علم دین کے حصول سے بچتے ہوئے صرف ان لوگوں سے علم دین حاصل کریں جن کے علم کی گواہی اور جن کا تزکیہ علماء حق نے کیا ہو۔ یہی تعلیم عبد الرحمن بن یزید بن جابر رحمہ اللہ نے دی ہے۔ فرماتے ہیں:
    ’’لا يؤخذ العلم إلا عمن شهد له بالطلب‘‘
    ترجمہ:’’علم اس شخص سے حاصل کیا جائے جس کے متعلم ہونے کی اہل علم نے گواہی دی ہو‘‘
    [الکفایۃ للخطیب: ۱؍۳۷۵]
    یاد رکھیں! اس امت میں خیر علماء حق سے ہی علم حاصل کرنے میں ہے۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
    ’’لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ أُمَنَائِهِمْ وَعُلَمَائِهِمْ فَإِذَا أَخَذُوهُ مِنْ صِغَارِهِمْ وَشِرَارِهِمْ هَلَكُوا‘‘
    ترجمہ: ’’لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک وہ اپنے بڑوں، امین لوگوں اور علماء سے علم حاصل کریں گے۔ اور جب وہ اپنے چھوٹوں اور برے لوگوں سے علم حاصل کریں گے تو ہلاک ہو جائیں گے‘‘
    [الفقیہ والمتفقہ علیہ:۲؍۱۵۵، جامع بیان العلم وفضلہ:۱؍۶۱۶، ح:۱۰۵۷، نصیحۃ اہل الحدیث للخطیب:۲۹، ح:۸]
    اسی ضمن میں یہ فتنہ بھی آتا ہے کہ علمِ دین کے حصول میں علماء کو چھوڑ کر صرف اور صرف انٹرنیٹ اور کتابوں پر تکیہ کر لیا گیا ہے۔ اس بیماری میں خاص طور سے امت کے نوجوان مبتلا ہیں۔ جو لوگ صرف کتابوں سے علم حاصل کرتے تھے اسلاف اسے صحفی کہا کرتے تھے اور ان سے علم دین حاصل کرنے سے منع کرتے تھے۔ چنانچہ سلیمان بن موسیٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    ’’لَا تَأْخُذُوا الْعِلْمَ مِنَ الصَّحَفِيِّينَ‘‘
    ’’صحفی لوگوں سے علم حاصل مت کرو‘‘
    [الفقیہ والمتفقہ علیہ:۲؍۱۹۳]
    امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ لَقَدْ أَدْرَكْتُ سَبْعِينَ مِمَّنْ يَقُولُ:قَالَ فُلَانٌ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْأَسَاطِينِ، وَأَشَارَ إِلَي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا أَخَذْتُ عَنْهُمْ شَيْئًا، وَإِنَّ أَحَدَهُمْ لَوْ أُؤْتُمِنَ عَلَي مَالٍ لَكَانَ بِهِ أَمِينًا لِأَنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا مِنْ أَهْلِ هَذَا الشَّأْنِ، وَيَقْدِمُ عَلَيْنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللّٰهِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ شِهَابٍ فَيُزْدَحَمُ عَلَي بَابِهِ‘‘
    ترجمہ: ’’یہ علم، دین ہے لہٰذا دیکھ لیا کرو کہ تم کس سے اپنا دین لے رہے ہو، میں نے ستّر لوگوں کو اللہ کے نبی ﷺ کی مسجد میں ستون کے پاس یہ کہتے ہوئے پایا کہ فلاں نے کہا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا لیکن میں نے ان سے کچھ نہ لیا، جبکہ وہ سب سب اس قدر امین تھے کہ اگر انہیں مال پر نگراں مقرر کر دیا جاتا تو وہ امانت دار نکلتے لیکن وہ اس فن کے اہل نہ تھے۔ (ان کے بالمقابل) محمد بن شہاب الزہری رحمہ اللہ جب ہمارے پاس تشریف لاتے تو ان کے دروازے پر ہجوم لگ جایا کرتا‘‘
    [الفقیہ والمتفقہ علیہ:۲؍۱۹۴]
    شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے اصول ثلاثہ کی شرح میں کتنی خوبصورت بات کہی ہے:
    قوله: ثلاث مسائل:التعلم هنا معناه:التلقي عن العلماء والحفظ والفهم والإدراك، هذا هو التعلم، ليس المراد مجرد قراء ة أو مطالعة حرة كما يسمونها هذا ليس تعلما إنما التعلم هو: التلقي عن أهل العلم مع حفظ ذلك وفهمه وإدراكه تمامًا، هذا هو التعلم الصحيح، أما مجرد القراء ة والمطالعة فإنها لا تكفي في التعلم وإن كانت مطلوبة، وفيها فائدة لكنها لا تكفي، ولا يكفي الاقتصار عليها۔ولا يجوز التتلمذ علي الكتب كما هو الواقع في هذا الوقت، لأن التتلمذ علي الكتب خطير جدا يحصل منه مفاسد وتعالم أضر من الجهل، لأن الجاهل يعرف أنه جاهل ويقف عند حده، لكن المتعالم يري أنه عالم فيحل ما حرم اللّٰه، ويحرم ما أحل اللّٰه، ويتكلم ويقول علي اللّٰه بلا علم فالمسألة خطيرة جدا۔فالعلم لا يؤخذ من الكتب مباشرة إنما الكتب وسائل، أما حقيقة العلم فإنها تؤخذ عن العلماء جيلًا بعد جيل والكتب إنما هي وسائل لطلب العلم۔
    ترجمہ: شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کا قول: تین مسائل (یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت، رسول اللہ ﷺکی معرفت اور دین اسلام کی معرفت) یہاں تعلم (علم حاصل کرنے) سے مراد علماء کرام سے علم حاصل کرنا، اسے حفظ کرنا، اس کا فہم و ادراک حاصل کرنا ہے۔یہی تعلیم ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ محض پڑھائی یا جس طرح نام دیا جاتا ہے آزادانہ مطالعہ( Self-studies) کیا جائے، یہ تعلم نہیں بلکہ تعلم تو یہ ہے کہ علماء کرام سے (علم) حاصل کیا جائے اس کے حفظ، فہم اور مکمل ادراک کے ساتھ، یہ ہے صحیح معنوں میں علم حاصل کرنا، جبکہ صرف خود کتاب پڑھنا اور مطالعہ کرنا اگرچہ مطلوب تو ہے مگر تعلم کے لیے کافی نہیں، اس میں فائدہ بھی ہے مگر یہ کفایت نہیں کرتا اور اس پر اقتصار کرنا کافی نہیں۔ کتابوں کا تلمذ اور شاگردی اختیار کرنا جائز نہیں جیسا کہ لوگوں کی موجودہ حالت ہے، کیونکہ کتابوں کا تلمذ اختیار کرنا بہت خطرناک ہے جس سے بہت مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور یہ تعالم تو جہل سے زیادہ نقصان دہ ہے، کیونکہ جاہل جانتا ہے کہ وہ جاہل ہے لہٰذا وہ اپنی حد پر رک جاتا ہے، لیکن المتعالم (علم کا دعویدار)سمجھتا ہے کہ وہ عالم ہے لہٰذا وہ اللہ کے حلال کردہ کو حرام اور حرام کردہ کو حلال قرار دیتا ہے اور اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بولتا اور کلام کرتا ہے لہٰذا یہ مسئلہ بہت خطرناک ہے۔ چنانچہ علم کتابوں سے براہ راست حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ کتابیں تو وسیلہ ہیں، جبکہ حقیقی معنوں میں علم تو علماء کرام سے حاصل ہوتا ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہتا ہے، اور کتابیں تو علم حاصل کرنے کے وسائل میں سے ہیں۔
    [شرح الاصول الثلاثۃ:۳۱-۳۲]
    (۵) غیر عالم دعاۃ کا تسلط اور غلبہ: نبی ﷺنے فرمایا تھا:
    ’’إِنَّ اللّٰهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ، حَتَّي إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُ وسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا‘‘
    ترجمہ: ’’اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ علم علماء کو موت دے کر اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، پھر ان سے سوالات کیے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔ لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘
    [صحیح بخاری:ح:۱۰۰]
    آج کل رسول اللہ ﷺکی پیشن گوئی حرف بہ حرف صادق آرہی ہے۔ لوگ چند کتابوں کا مطالعہ کر کے علماء کا لبادہ پہن کر سادہ لوح مسلمانوں کو غلط سلط باتیں بتا کر راہ حق اور صراط مستقیم سے برگشتہ کرتے ہوئے وقت کا علامہ بننے کے پرزور کوشش کر رہے ہیں۔ عوام بھی ان کا خوب ساتھ دے رہی ہے اور ان کو سراہتے ہوئے علماء سے زیادہ اہمیت دینے لگی ہے۔ انہی عوام کی بدولت یہ منبر و محراب اور کانفرنسوں وغیرہ میں اپنا تسلط قائم کرنے لگے ہیں۔ ان کی شہرت اور چمک دمک کو دیکھتے ہوئے نوجوانان ملت بھی اسی راہ پر چل نکلے ہیں، لہٰذا آپ کو سوشل میڈیا پر خاص طور سے نام نہاد مبلغین و دعاۃ اور محققین و مفتیان کے القاب کے مصداق افراد مل جائیں گے جو بزعمِ خویش دین کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ جس نے بھی ایک دو کتابیں پڑھ لیں یا ایک دو لکچر سن لیے وہ گروپس، پیجز، بلاگس، ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز بناتا ہے اور قرآن و حدیث کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے دین اسلام کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کرتا ہے، لہٰذا کوئی محققِ دوراں بنتے ہوئے احادیث کی صحت و ضعف پر کلام کرتا ہے تو کوئی منسوخ جیسی احادیث کو بیان کر کے ان سے مسائل کا استنباط کرتا نظر آتا ہے۔ یہ دقیق مسائل ہوں یا غیر دقیق سب میں اپنی رائے دینے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور جب تک دن میں دو چار فتوے نہ دے لیں اور مناظرے نہ کر لیں ان کو سکون نہیں ملتا۔ اتنا ہی نہیں مناظرہ کے نام پر گالی گلوچ کرنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے نام پر نوجوان لڑکیوں سے ہنسی و دل لگی کو کار ثواب سمجھتے ہیں۔ ان کے قدم یہیں نہیں رکتے بلکہ وہ دوسروں کے مقالات و مضامین اور تحقیقات کو چرا کر اپنے بلاگس، ویب سائٹس اور گروپس میں اپنے نام سے شیئر کرتے ہیں اور لوگوں کی واہ واہی بٹورتے ہیں۔ یہ علماء کی ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کو شیئر کرنے میں اپنی کسر شان سمجھتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اگر کسی عالم کا لیکچر بھی شیئر کرتے ہیں تو خود کا یوٹیوب چینل بنا کر اس میں اپلوڈ کر کے شیئر کرتے ہیں۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے قصّاص کی جو صفات بیان کی تھیں وہ ان کے اندر موجود نظر آتی ہیں۔
    علامہ رحمہ اللہ نے فرمایا تھا:
    ’’وأكبر أَسبَابه أَنه قد يعاني هَذِه الصِّنَاعَة جهال بِالنَّقْلِ يَقُولُونَ مَا وجدوه مَكْتُوبًا وَلَا يعلمُونَ الصدْق من الْكَذِب فهم يبيعون علي سوق الْوَقْت وَاتفقَ أَنهم يخاطبون الْجُهَّال من الْعَوام الَّذين هم فِي عداد الْبَهَائِم فَلَا يُنكرُونَ مَا يَقُولُونَ وَيخرجُونَ فَيَقُولُونَ قَالَ الْعَالم فالعالم عِنْد الْعَوام من صعد الْمِنْبَر‘‘
    ترجمہ: ’’اور اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس فن میں ان لوگوں نے دخل اندازی کی جو نقلی دلائل سے عاری و جاہل ہوتے ہیں۔ جو لکھا ہوا پاتے ہیں اسی کو یہ کہتے ہیں۔ صدق و کذب کی معرفت کی کسوٹی ان کے پاس نہیں ہوتی۔ یہ سوق وقت میں دینی خدمت کا کاروبار کرتے ہیں اور (لوگوں کا)اتفاق ہے کہ یہ عام طور پر عوام میں سے ایسے جاہلوں کو مخاطب کرتے ہیں، جو چوپایوں کے قائم مقام ہوتے ہیں لہٰذا وہ ان کی غلطیوں پر نکیر نہیں کرتے اور یہ کہتے ہوئے نکلتے ہیں کہ عالم نے کہا۔ پس عوام کے نزدیک وہی عالم ہے جو منبر (اسٹیج) پر چڑھ گیا‘‘
    [تحذیر الخواص للسیوطی:۲۷۷-۲۷۸]
    درحقیقت یہ وہی فتنہ ہے جسے ربیعہ بن ابو عبد الرحمان رحمہ اللہ نے امر عظیم قرار دیا تھا اور آنسو بہائے تھے:
    قَالَ مَالِكٌ: أَخْبَرَنِيْ رَجُلٌ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَي رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَوَجَدَهُ يَبْكِي، فَقَالَ لَهُ:مَا يُبْكِيكَ؟ وَارْتَاعَ لِبُكَائِهِ فَقَالَ لَهُ:أَمُصِيبَةٌ دَخَلَتْ عَلَيْكَ؟ فَقَالَ:لَا، وَلَكِنِ اسْتُفْتِيَ مَنْ لَا عِلْمَ لَهُ وَظَهَرَ فِي الْإِسْلَامِ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قَالَ رَبِيعَةُ:وَلَبَعْضُ مَنْ يُفْتِي هَا هُنَا أَحَقُّ بِالسَّجْنِ مِنَ السُّرَّاقٌِ۔
    ترجمہ: ’’مالک نے کہا کہ:مجھے ایک شخص نے خبر دی ہے، وہ ربیعہ بن ابی عبد الرحمن کے پاس آیا تو اس نے ان کو روتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ آپ کو کس چیز نے رلایا؟ اور وہ ان کے رونے کی وجہ سے گھبرا گیا، لہٰذا اس نے ربیعہ رحمہ اللہ سے کہا کہ کیا کوئی مصیبت آن پڑی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں!لیکن اس شخص سے فتویٰ پوچھا جارہا ہے جس کے پاس علم نہیں اور اسلام میں امر عظیم ظاہر ہو چکا ہے۔ ربیعہ رحمہ اللہ نے مزید فرمایا کہ یہاں بعض فتویٰ دینے والے ایسے ہیں جو چوروں کی بنسبت جیل کے زیادہ حقدار ہیں‘‘
    [الفقیہ والمتفقہ للخطیب:۲؍۳۲۴، المعرفۃ والتاریخ: ۱؍۰۶۷۰، جامع بیان العلم و فضلہ:۲؍۱۲۲۵، حدیث نمبر:۲۴۱۰، واللفظ لہ]
    (۶) دین بیزاری: سوشل میڈیا کے اس دور میں آزادی کا جو نعرہ بلند کیا گیا ہے لوگ اس سے اس قدر متاثر ہو گئے ہیں کہ دین پر عمل کو پابندی سمجھنے لگے ہیں، لہٰذا آئے دن سوشل میڈیا پر دین بیزاری کی نت نئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور اسی دین بیزاری کی ہی بنا پر علماء بیزاری وجود میں آئی ہے۔
    علاج: آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مہلک وبا کے علاج کا سامان کیا جائے۔ علماء کے مقام و مرتبہ اور ان پر طعن و تشنیع اور توہین کے گناہ کی سنگینی کو سمجھا جائے۔ معاشرہ پر مرتب ہونے والے برے اثرات کو زائل کرنے کی تدبیر کی جائے اور لوگوں کے دلوں میں علماء حق کے مقام اور ان کی عظمت کو راسخ کیا جائے۔ لوگوں کے مابین ان کی غلطیوں کو بیان کرنے سے احتراز کیا جائے اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ علماء بھی انسان ہی ہوتے ہیں بشری تقاضا کی بنا پر ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ غلطی کی صورت میں ان کے لیے ایک اجر کی توقع کی جائے اور ان پر اعتماد کو برقرار رکھا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے لیے عذر تلاش کیا جائے اور ان سے حسن ظن رکھا جائے۔ اسی طرح علماء کرام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا مقام سمجھیں اور دعوت حق کا کام کریں۔ جہاں غلطی ہو جائے اپنی اصلاح کریں اور عوام کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings