Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تین طلاق اور صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ (چوتھی قسط )

     پہلا جواب: (مرفوع اور موقوف کا فرق)
    صحیح مسلم کی زیر بحث حدیث مرفوع روایت ہے جس میں عہد رسالت میں تین طلاق کو ایک قرار دینے کی بات منقول ہے ، جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے دیگر شاگردوں کی روایات میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ ذکر ہے نہ کی مرفوع روایت۔
    ابو الفیض الغُمَارِی (المتوفی ۱۳۸۰)لکھتے ہیں:
    ’’هؤلاء الذين ذكرهم ابن رشد لم يرووا عن ابن عباس حديثًا مرفوعًا يخالف ما رواه عنه طاؤس، إنما رووا فتواه بذلك، ولا مُعارضة بين رواية الراوي ورأيه كما هو معلوم ‘‘
    ’’ابن رشد نے جن شاگردوں کا تذکرہ کیا ہے ان لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کوئی مرفوع حدیث روایت نہیں کی ہے ، جو طاؤس کی روایت کے خلاف ہو ، بلکہ ان لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ نقل کیا ہے اور راوی کی روایت اور اس کے فتویٰ میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے جیساکہ معلوم ہے‘‘
    [الہدایۃ فی تخریج أحادیث البدایۃ:۷؍۱۴]
    بطور مثال عرض ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے شاگرد سالم کی یہ ایک روایت دیکھیے ، امام عبد الرزاق  (المتوفی ۲۱۱) نے کہا:
    ’’عن معمر عن الزهري عن سالم عن بن عمر :’’قال من طلق امرأته ثلاثا طلقت وعصي ربه ‘‘
    ’’ابن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:’’جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیا اس کی طلاق ہوجائے گی اور اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی‘‘
    [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمی:۶؍۳۹۵،وإسنادہ صحیح]
    اس روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً ان کے شاگرد سالم نے یہ فتویٰ نقل کیا کہ جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تو تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی ۔
    لیکن دوسری طرف ابن عمر رضی اللہ عنہما کے دسیوں شاگردوں نے ان سے مرفوعاً یہ روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حالتِ حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے دیا تھا تو اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں بیوی واپس لینے کاحکم دیا پھر انہیں طلاق دینے کا صحیح طریقہ بتایا ۔بلکہ خود سالم نے بھی ان سے یہ مرفوع روایت بیان کررکھی ہے ، یہ مرفوع روایت بشمول سالم ابن عمر کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کی ہے:
    1 نافع مولیٰ ابن عمر(صحیح البخاری:۷؍۴۱رقم (۵۲۵۱)
    2 سالم بن عبد اللہ(صحیح البخاری:۶؍۱۵۵رقم(۴۹۰۸)
    3 یونس بن جبیر (صحیح البخاری:۷؍۵۹ رقم(۵۳۳۳)
    4انس بن سیرین (صحیح مسلم:۲؍۱۰۹۷رقم(۱۴۷۱)
    5 عبداللہ بن دینار(صحیح مسلم:۲؍۱۰۹۵رقم(۱۴۷۱)
    6 طاؤس بن کیسان (صحیح مسلم :۲؍۱۰۹۷رقم(۱۴۷۱)
    7 مغیرۃ بن یونس(شرح معانی الآثار:۳؍۵۳رقم۴۴۶۴واسنادہ حسن)
    8 میمون بن مھران (السنن الکبریٰ للبیہقی، ط الہند:۷؍۳۲۶واسنادہ صحیح)
    9 شقیق بن سلمۃأبو وائل (مصنف ابن أبی شیبۃ۔سلفیۃ:۵؍۳واسنادہ صحیح )
    0 محمد بن مسلم ابو الزبیر (مصنف عبد الرزاق :۶؍۳۰۹رقم:۱۰۹۶۰واسنادہ صحیح)
    (۱۱) سعید بن جبیر (صحیح ابن حبان :۱۰؍۸۱رقم:۴۲۶۴وإسنادہ صحیح علیٰ شرط مسلم)
    اب فریق مخالف کے اصول سے یہاں سالم کی اس روایت کو شاذ کہنا چاہیے جس میں انہوں نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے تین طلاق کو ایک قرار دینے کا فتویٰ نقل کیا ہے کیونکہ ابن عمررضی اللہ عنہما کے دیگر دسیوں شاگردوں نے ان سے واقعہ طلاق حیض والی مرفوعاً روایت بیان کی ہے ، بلکہ خود سالم نے بھی یہ مرفوع روایت بیان کررکھی ہے اس لیے اس معاملہ میں تو بدرجۂ اولیٰ سالم کی اس روایت کو شاذ کہنا چاہیے جس میں انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً تین طلاق کے تین ہونے کا فتویٰ نقل کیا ہے۔
    لیکن فریق مخالف یہاں ایسا نہیں کرتے بلکہ سالم کی نقل کردہ موقوف روایت کو الگ مانتے ہیں اور دیگر شاگردوں کی نقل کردہ مرفوع روایت کو الگ مانتے ہیں ۔
    ہم بھی یہاں پر یہی بات کہتے ہی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے طاؤس کی نقل کردہ مرفوع روایت الگ ہے ، اور دیگر شاگردوں کی نقل کردہ موقوف روایت الگ ہے۔اس لیے ایک کو لے کر دوسرے پر شذوذ کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔
     دوسرا جواب : (الگ الگ دور کا فرق)
    صحیح مسلم کی زیر بحث روایت میں عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال سے پہلے کا معاملہ ذکر ہے ، جبکہ اس کے برخلاف ابن عباس رضی اللہ عنہما کے جو دیگر فتاویٰ پیش کیے جاتے ہیں اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ یہ فتاویٰ اس دور سے پہلے کے ہیں بلکہ یہ سارے فتاویٰ عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال کے بعد کے ہیں جب عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے ایسا قانون بنادیا تھا ، جیسا کہ اس کی وضاحت خود ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کردی ہے ۔
    لہٰذا دوسری روایات دوسرے دورسے متعلق ہیں لہٰذا ان کا معارضہ پہلے دور سے متعلق روایت کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔
     تیسرا جواب : (الگ الگ واقعات کا فرق)
    ابن عباس رضی اللہ عنہما کے دیگر شاگردوں کی روایات میں سے ہر روایت میں الگ الگ واقعہ سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ منقول ہے ، پھر انصاف سے بتلائے کہ ان دیگر شاگردوں کے نقل کردہ الگ الگ واقعہ کا صحیح مسلم کی مذکورہ روایت سے کیا تعلق ہے کہ اس پر شذوذ کا اعتراض کیا جائے ؟
    اگر ابن عباسرضی اللہ عنہما سے طاؤس کی روایت ، اور دیگر شاگردوں کی روایت میں ایک ہی واقعہ کا ذکر ہوتا، اور دونوں کا مجموعی متن ایک ہی بات سے تعلق رکھتا ، تو پھر تمام شاگردوں کی روایات کا موازنہ کرکے شذوذ کی بات کہنے کی گنجائش تھی۔
    لیکن یہاں ایسا قطعاً نہیں ہے بلکہ امام طاؤس کی روایت میں عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال سے پہلے اور عہد صدیقی میں اور اس سے پہلے عہد رسالت میں یعنی مرفوعاً تین طلاق کو ایک ماننے کا ذکر ہے ، جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے دیگر شاگردوں نے ان سے جو روایت بیان کی ہے اس میں اس دور کے بعد یعنی عہدفاروقی کے ابتدائی دو سال کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف سے موقوفاً تین طلاق کو ایک قراردینے کا فتویٰ منقول ہے وہ بھی ان کے سامنے پیش کیے گئے الگ الگ واقعات سے متعلق ۔یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہیں ، اور الگ الگ زمانے سے متعلق ہیں لہٰذا جب یہ دو الگ مستقل روایات ہیں تو ایک کو لے کر دوسرے پر شذوذ کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔
     چوتھا جواب : (امام طاؤس کی متابعات)
    علاوہ بریں اس روایت کو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرنے میں امام طاؤس منفرد بھی نہیں ہیں بلکہ ان کی ابن عباس رضی للہ عنہ کے دیگر شاگردوں سے ان کی متابعت بھی ہوتی ہے۔ مثلاً:
    پہلی متابعت:از عکرمہ
    امام احمد بن حنبل رحمه الله (المتوفی۲۴۱)نے کہا:
    حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داؤد بن الحصين ، عن عكرمة ، مولي ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال :’’طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال :فسأله رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم: كيف طلقتها ؟ قال: طلقتها ثلاثا ، قال :فقال :في مجلس واحد ؟ قال:نعم قال: فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت قال :فرجعها فكان ابن عباس : يري أنما الطلاق عند كل طهر ‘‘
    عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں :’’کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، پھر اس پر انہیں شدید رنج لاحق ہوا، تو اللہ کے نبی ﷺ نے ان سے پوچھا:تم نے کیسے طلاق دی ؟ انہوں نے کہا: میں نے تین طلاق دے دی ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے پوچھا:کیا ایک ہی مجلس میں ؟ انہوں نے جواب دیا:جی ہاں!تو آپ ﷺ نے فرمایا:پھر یہ ایک ہی طلاق ہے تم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے لو ، چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا ۔ اس حدیث کی بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہما فتویٰ دیتے تھے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی ‘‘
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ: ۱؍ ۲۶۵ رقم: ۲۳۸۷وإسنادہ صحیح]
    اس حدیث کی استنادی حالت پر تفصیلی بحث آگے آرہی ہے ۔
    دوسری متابعت :از ابن ابی ملیکہ:
    امام دارقطنی رحمه الله (المتوفی۳۸۵)نے کہا:
    نا أبو بكر النيسابوري ،نا يزيد بن سنان ،نا أبو عاصم ،عن عبد اللّٰه بن المؤمل ،عن ابن أبي مليكة، قال أبو الجوزاء لابن عباس:’’ أتعلم أن الثلاث علي عهد رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم كن يرددن إلي الواحدة ،وصدرا من إمارة عمر؟،قال:نعم‘‘
    ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ابوالجوزاء ابن عباس رضی للہ عنہ کے پاس آئے اور کہا:’’کیا آپ کو علم ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے دور میں تین طلاق ایک ہی طلاق کی طرف پلٹا دی جاتی تھی ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:ہاں!‘‘
    [سنن الدارقطنی، ت الارنؤوط:۵؍۱۰۴، وأخرجه أیضا الحاکم فی المستدرک :۲؍۱۹۶من طریق أبی عاصم به وقال : هذا حدیث صحیح الإسناد]
    امام حاکم نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا:’’هذا حدیث صحیح الإسناد‘‘’’ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے‘‘ [المستدرک للحاکم، ط الہند:۲؍۱۹۶]
    عبد اللہ بن المؤمل مختلف فیہ راوی ہے ۔ کئی ائمہ نے اس پر جرح کی ہے لیکن بعض نے اس کی توثیق بھی کی ہے مثلاً:
    امام ابن سعد  (المتوفی۲۳۰)نے کہا:
    ’’کان ثقة قلیل الحدیث ‘‘، ’’یہ ثقہ اور قلیل الحدیث تھے‘‘[الطبقات الکبریٰ ط دار صادر:۵؍۴۹۴]
    امام ابن معین رحمه الله (المتوفی۲۳۳)نے کہا:
    ’’صالح الحدیث ‘‘،’’ یہ صالح الحدیث ہے‘‘[تاریخ ابن معین، روایۃ الدوری:۳؍۷۳]
    ض امام محمد بن عبد اللہ بن نمیر(المتوفی۲۳۴)سے منقول ہے :
    ’’عبد اللّٰہ بن المؤمل ثقة ‘‘، ’’عبداللہ بن مؤمل ثقہ ہے‘‘ [تہذیب التہذیب لابن حجر، ط الہند:۶؍۴۶]
    امام بخاری رحمه الله (المتوفی۲۵۶)نے کہا:
    ’’مقارب الحدیث ‘‘، ’’یہ مقارب الحدیث ہے‘‘[العلل الکبیر للترمذی:ص:۳۹۱]
    امام ابن شاہین رحمه الله (المتوفی۳۸۵)نے کہا:
    ’’عبد اللّٰہ بن المؤمل المخزومی صالح ‘‘، ’’عبد اللہ بن المؤمل المخزومی صالح ہے ‘‘[الثقات لابن شاہین :ص:۱۳۱]
    امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفی۴۶۳)نے کہا:
    ’’وما علمنا له خربة تسقط عدالته‘‘ ،’’ ہمیں اس کی ایسی کوئی بات نہیں ملی جو اس کی عدالت کو ساقط کردے‘‘ [التمہید لابن عبد البر:۲؍۱۰۲]
    ان ائمہ کے اقوال سے پتہ چلا کہ یہ راوی عادل اور سچا ہے صرف حافظہ کے لحاظ سے اس پر جرح ہے ، یہی خلاصہ امام ابن عبد البر رحمه الله نے بھی کیاہے ۔چنانچہ کہا:
    ’وعبد اللّٰہ بن المؤمل لم یطعن علیه أحد إلا من سوء حفظه ‘‘
    ’’عبداللہ بن مؤمل پر سوئِ حفظ کے علاوہ کسی نے بھی کوئی اور جرح نہیں کی ہے‘‘[الاستذکار لابن عبدالبر :۴؍۲۲۳]
    لہٰذا یہ راوی جب عادل و سچا ہے اور اس کی روایت ساقط نہیں ہے تو اس کی اپنے استاذ ابن ملیکہ کے واسطہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ امام طاؤس نے بھی یہ روایت ایسے ہی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کی ہے البتہ امام طاؤس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کرنے والے کا نام ابوالصھباء ذکر کیا ہے جبکہ عبداللہ بن مؤمل نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے سائل کا نام ابوالجوزاء بتایا ہے تو عبداللہ بن مؤمل کی غلطی ہے جو ان کے سوء حفظ کا نتیجہ ہے اس کے علاوہ باقی ان کی پوری روایت صحیح ہے ۔
    ابو الفیض الغُمَارِی (المتوفی۱۳۸۰)لکھتے ہیں:
    ’’فغايته أن يكون وهم في قوله:أبو الجوزاء هو السائل لابن عباس، وإِنما هو الصهباء كما سبق في حديث طاؤس، ويبقي أصل الحديث ثابتًا من رواية ابن أبي مليكة عن ابن عباس أيضًا ‘‘
    ’’توزیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عبداللہ بن المؤمل کو یہ بیان کرنے میں وہم ہوا کہ ابو الجوزاء نے یہ سوال کیا تھا ، جبکہ سائل ابوالصھباء تھے جیساکہ طاؤس کی روایت میں ہے ، اس بات کو چھوڑ کر باقی اصل حدیث ، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابن ابی ملیکہ کے واسطے سے بھی ثابت ہے ‘‘
    [الہدایۃ فی تخریج أحادیث البدایۃ:۷؍۱۳]
    نوٹ:
    آگے ہم ایسی متابعات پیش کررہے ہیں جن میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اپنا فتویٰ ہے مرفوع روایت نہیں ہے ، لیکن انہیں ہم الزاماً پیش کررہے ہیں کیونکہ فریق مخالف نے طاؤس پر تفرد کا اعتراض اسی بنیاد پر کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے دیگر شاگردوں نے ان سے تین طلاق کے وقوع کا فتویٰ نقل کیا ہے، لہٰذا اس کے جواب میں یہ کہنا بجا ہے کہ ابن عباس کے ان شاگردوں کے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتویٰ نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
    تیسری متابعت :از مجاھد
    اوپر ابن عباس کے شاگرد مجاہد کی جو روایت ہے ، اس میں معنوی طور پر یہ بھی موجود ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما تین طلاق کے ایک ہونے کا فتویٰ بھی دیتے تھے کیونکہ اس میں امام مجاہد نے جو یہ کہا کہ:
    ’’فسكت حتي ظننت أنه رادها إليه ‘‘
    ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما خاموش رہے یہاں تک مجھے ایسا لگا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کی بیوی کو اس کی طرف لوٹا دیں گے ‘‘
    [سنن أبی داؤد :۲؍۲۶۰، رقم : ۲۱۹۷وإسنادہ صحیح ]
    یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا تین طلاق کے بارے میں یہ فتویٰ بھی تھا کہ وہ اسے ایک شمار کرتے تھے اور ایسی طلاق دینے والے پر اس کی بیوی واپس کرتے تھے ۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا توامام مجاہد رحمه الله ان کی خاموشی پر ایسا گمان نہیں کرسکتے تھے۔
    علامہ معلی رحمه الله کی کتاب ’’الحکم المشروع‘‘ کے محقق لکھتے ہیں:
    ’’إنما ظن مجاهد أن يرد ابن عباس الثلاث إلي واحدة لما يعلمه من مذهب ابن عباس‘‘
    ’’مجاہد رحمه الله نے جو یہ گمان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیں گے ، وہ اس لیے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فتویٰـ بھی ہے‘‘
    [الحکم المشروع فی الطلاق المجموع:ص :۴۳حاشیہ :۳]
    چوتھی متابعت :از عمروبن دینار
    امام اسحاق بن راھویہ رحمه الله (المتوفی ۲۳۸)نے بھی روایت کرتے ہوئے کہا:
    أخبرنا عبد الرزاق، حدثنا ابن جريج أخبرني الحسن بن مسلم، عن ابن شهاب، عن ابن عباس أنه قال:’’التي لم يدخل بها إذا جمع الثلاث عليها وقعن عليها۔قال الحسن: فذكرت ذلك لطاؤس فقال:أشهد أني سمعت ابن عباس يجعلها واحدة قال:وقال عمرو :واحدة وإن جمعهن ‘‘
    حسن بن مسلم کہتے ہیں ابن شہاب زہری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا :’’غیر مدخولہ کو جب ایک ہی جملے میں (اس کا شوہر)تین طلاق دے دے تو یہ تینوں طلاقیں اس پر واقع ہوجائیں گی ، حسن بن مسلم کہتے ہیں کہ:پھر میں نے اس بات کا تذکرہ طاؤس سے کیا تو انہوں نے کہا:میں گواہ ہوں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ایسی تین طلاق کو صرف ایک ہی مانتے تھے ، اور عمر و نے (ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہوئے)کہا :کہ گرچہ ایک جملے میں تین طلاق دے ، یہ ایک ہی شمار ہوگی‘‘
    [مسند إسحاق بن راہویہ ، ط دار التاصیل:ص:۴۷۴رقم:۲۴۷۸،وإسنادہ صحیح ، وعندہ قال عمر ، والصواب قال عمرو کما فی المطالب العالیۃ:۸؍۴۲۳]
    اس روایت کے اخیر بعد امام اسحاق نے کہا ہے:
    وقال عمرو:’’واحدۃ وإن جمعهن ‘‘
    اور عمر و نے کہا:’’یہ ایک ہی شمار ہوگی، گرچہ ایک جملے میں تین طلاق دے ‘‘
    یہاں عمرو سے مراد عمرو بن دینار ہیں جو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ہیں ، اور یہاں اس بات کو انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے نقل کیا ہے ، اسی لیے امام اسحاق بن راہویہ نے اسے مسند ابن عباس میں ذکر کیا ہے ، ورنہ یہ عمرو بن دینار کا محض خود کا قول ہوتا تو یہاں مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما میں اس کے ذکر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
    چونکہ امام اسحاق بن راہویہ نے اس سے پہلے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے طاؤس کے الفاظ نقل کئے ہیں ، تو اس کے بعد امام اسحاق بن راہویہ نے بطور فائدہ یہ بھی بتادیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے دوسرے شاگرد عمرو بن دینار نے بھی ابن عباس سے یہ بات اور واضح انداز میں نقل کررکھی ہے۔
    اب رہا سوال یہ کہ پھر امام اسحاق بن راہویہ کی عمرو بن دینار تک اپنی سند کہاں ہے ؟ تو عرض ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ نے عمرو بن دینار کا یہ قول ماقبل کی سند (أخبرنا عبد الرزاق، حدثنا ابن جریج أخبرنی )سے ہی نقل کیا ہے ۔کیونکہ ابن جریج یہ عمرو بن دینار کے شاگردہیں ۔
    اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے جہاں تین طلاق کو ایک کہنے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ساری روایات کا ذکر ہے۔
    ابو الفیض الغُمَارِی (المتوفی۱۳۸۰)لکھتے ہیں:
    ’’وقد نقل هذا أيضًا عن ابن عباس من رواية عمرو بن دينار‘‘
    ’’اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتویٰ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عمرو بن دینار نے بھی نقل کیا ہے ‘‘
    [الہدایۃ فی تخریج أحادیث البدایۃ :۷؍۱۵]
     پانچویں متابعت :از عکرمہ
    امام بیہقی رحمه الله (المتوفی:۴۵۸)نے کہا:
    قد روي يوسف بن يعقوب القاضي، عن سليمان بن حرب، عن حماد بن زيد، عن أيوب، عن عكرمة، أنه قال:’’شهدت ابن عباس جمع بين رجل وامرأته طلقها ثلاثا، أتي برجل قال لامرأته:أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق فجعلها واحدة، وأتي برجل قال: لامرأته أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق، ففرق بينهما ‘‘
    عکرمہ کہتے ہیں :’’کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا ، انہوں نے ایک آدمی اور اس کی بیوی کو ملا دیا اس آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی ، چنانچہ ایک ایسا شخص ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس لایا گیا جس نے اپنی بیوی کو کہا تھا: تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس طلاق کو ایک قراردیا ۔ اور ایک دوسرا شخص ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس لایا گیا جس نے اپنی بیوی کو کہاتھا :تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان دونوں کے درمیان جدائی کروادی‘‘
    [معرفۃ السنن والآثار : ۱۱؍۴۰،وإسنادہ صحیح یوسف بن یعقوب صاحب کتاب]
    چھٹی متابعت:از ابوعیاض
    امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفی۲۱۱)نے کہا:
    عن ابن جريج قال:أخبرني داؤد بن أبي هند، عن يزيد بن أبي مريم، عن أبي عياض، أن ابن عباس قال:’’الثلاث والواحدة في التي لم يدخل بها سواء ‘‘
    ابوعیاض العنسی کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:’’غیر مدخولہ کو تین طلاق اور ایک طلاق دینا ، دونوں برابر ہے‘‘
    [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمی: ۶؍۳۳۵، وإسنادہ صحیح ومن طریق عبدالرزاق أخرجه إسحاق بن راہویہ فی مسندہ رقم:۲۴۷۹، وانظر :المطالب العالیۃ:۲؍۱۰۵]
     ایک اور متابعت :
    امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفی۲۱۱)نے کہا:
    عن ابن جريج، عن عطاء قال:’’إذا طلقت امرأة ثلاثا، ولم تجمع فإنما هي واحدة، بلغني ذلك عن ابن عباس‘‘
    امام عطاء کہتے ہیں:’’ کہ اگر کسی نے بیوی کو تین طلاق دیا اور الگ الگ جملوں میں دیا تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی، ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی فتویٰ مجھ تک پہنچا ہے‘‘
    [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمی:۶؍۳۳۵]
    یہ روایت بلاغا ہے یعنی امام عطاء نے یہ صراحت نہیں کیا ہے کہ ابن عباس رضی للہ عنہ کے کس شاگرد نے ان سے یہ روایت بیان کی ہے۔
    معلوم ہوا کہ طاؤس کے علاوہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے دیگر شاگردوں نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تین طلاق کے ایک ہونے کی بات نقل کی ہے ، لہٰذا امام طاؤس پر تفرد کا الزام غلط و بے بنیاد ہے۔
     پانچواں جواب:(صحیح مسلم کی احادیث کا محفوظ ہونا)
    امام مسلم رحمه الله کا اس حدیث کو صحیح مسلم میں اصولی طور پر درج کرنا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ حدیث شذوذ سے پاک ہے ، کیونکہ امام مسلم کی یہ شرط ہے کہ وہ اپنی اس کتاب میں اصولی طور پرانہی احادیث کو درج کریں گے جو صحیح ہوں اور ان میں شذوذ اور علت نہ ہو ۔
    امام ابن الصلاح (المتوفی۶۴۳)رحمه الله فرماتے ہیں:
    ’’شرط مسلم في صحيحه أن يكون الحديث متصل الإسناد بنقل الثقة عن الثقة من أوله إلي منتهاه سالما من الشذوذ ومن العلة ‘‘
    ’’امام مسلم کی اپنی کتاب صحیح میں یہ شرط ہے کہ اس کی سند متصل ہو اور تمام راوی از اول تا اخیر ثقہ ہوں اور حدیث شذوذ اور علت سے پاک ہو‘‘
    [صیانۃ صحیح مسلم :ص:۷۲]
    لہٰذا اس شرط کے مطابق صحیح مسلم کی زیرِبحث حدیث شذوذ اور علت سے پاک ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings