Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • آصف حسین رافضی اپنی تحریروں کے آئینے میں بجواب کفایت اللہ سنابلی اپنے اصولوں کے آئینے میں (قسط اول )

    یہ سلسلہ شروع کرنے کی وجہ کچھ یوں ہے کہ آصف حسین نامی رافضی نے اپنے بلاگ پر ماہر فنِّ رجال شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کے تضادات اپنے زعم میں جمع کرنے کی سعی کی ہے ، ان نام نہاد تضادات کی اصل حیثیت کیا ہے وہ آپ کو اس تحریری سلسلہ میں دیکھنے کو ملے گا ،رافضی آصف حسین نے دراصل غیر شعوری طور پر اپنی جہالت اور کج فہمی کا ثبوت فراہم کیا ہے ، یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ رافضی خود اچھی طرح واقف تھا کہ یہ چیزیں تناقضات بنتی ہی نہیں ہیں ، لیکن دجل،کذب اور خیانت سے کام لے کر تضاد دکھلانے کی کوشش کی ہے، خیر معاملہ جو بھی ہو ہم ان نام نہاد تضادات کی حقیقت آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
    ٭ ( نام نہاد تضاد نمبر:۱) کی حقیقت: آصف حسین نے سب سے پہلا جو تضاد دکھانے کی کوشش کی ہے وہ یہ کی شیخ کی کتاب’’ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ اور۔۔۔‘‘ کے صفحہ نمبر۵۰سے آٹھویں سطر سے اگلے صفحے کی دو سطر نقل کی پھر اس کے مقابلے میں اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۶۳پر آٹھویں سطر سے بارہویں سطر تک نقل کیا، اب دونوں مقام کی عبارتیں پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
    (((اب بندہ کیا کہے گا اس کھلے تناقض پر۔۔جب روایت ان کے حق میں ہے تب ولید کی تدلیس تسویہ معمولی اور جب ان کے خلاف ہے تب غیر معمولی۔۔۔۔اللہ سے پناہ مانگتے ہیں اس علم الرجال سے )))
    جواباً عرض ہے کہ: آصف صاحب یہ تناقض نہیں بلکہ آپ اسے اپنی کج فہمی یا بددیانتی پر ہی محمول کریں کیونکہ پہلے والی عبارت میں صاف شیخ حفظہ اللہ نے لکھا تھا:
    چونکہ یہ مفہوم دیگر روایت کا بھی ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لہٰذا اس روایت کے الفاظ سے مفہوم طے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
    نیز شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے یہ بات بطور الزام نقل بھی کی تھی کہ:
    اس مسئلہ میں میری تحقیق یہی ہے کہ صرف صحیح اور حسن حدیث سے ہی استدلال کرنا چاہیے، یہ علیحدہ بات ہے کہ کسی صحیح محتمل الوجہین روایت کا مفہوم معمولی ضعیف(جس کا ضعیف شدید نہ ہو) سے متعین کیا جاسکتا ہے۔
    یہ تھی حقیقت کہ ایک طرف ثابت شدہ روایت پر احتمالی شبہ پیش کیا گیا تھا، اس پر صریح مفہوم طے کرنے کی غرض سے اس ضعیف طریق کو پیش کیا گیا تھا جبکہ دوسری عبارت کا معاملہ ایسا بالکل بھی نہیں، اس کے برعکس اس کا معاملہ تو یہ ہے کہ مختلف طرق سے ثابت شدہ روایات کے مفہوم کے خلاف مفہوم دینے والی روایت کی تغلیط کی گئی تھی ۔پھر یہ تناقض کیسے؟
    ٭ (نام نہاد تضاد نمبر :۲) کی حقیقت: آصف حسین نے اپنی اس تحریر میں تناقض کچھ اس طرح ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایک مقام پر شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ سے ہشام بن حسان کے عنعنے کی بنیاد پر ایک روایت کی تضعیف نقل کی ، پھر آصف حسین نے اس کے مقابلے میں اسی کتاب کے دوسرے مقام سے ایک روایت پر شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی تصحیح نقل کی جس کی سند میں بھی ہشام کا عنعنہ تھا ، یعنی وہ دکھلانا چاہتا تھا کی ایک طرف شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ ہشام کے عنعنے کے سبب روایت کی تضعیف کر رہے ہیں تو دوسری طرف ہشام کے عنعنے والی روایت کو صحیح بھی قرار دیا ہے ! اخیر میں آصف حسین تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ((( یہ تو صرف ایک مثال ہے اسی طرح مؤلف کی اس کتاب میں بہت تضاد ہے اور اس نے اصول الحدیث کا جنازہ نکالا ہے )))
    جواباً عرض ہے کہ: آصف صاحب یہ تضاد نہیں بلکہ آپ کی کم علمی و جہالت تھی ، آپ نے اپنی ہی جہالت کا جنازہ نکلوایا ہے کیونکہ اس دوسرے مقام والی روایت میں ہشام نے سماع کی تصریح کی ہے، مقام تصریح ملاحظہ کریں:
    حدثنا أسلم قال ثنا حسين بن عبد اللّٰه قال ثنا النضر بن شميل قال ثنا هشام بن حسان قال حدثتني حفصة بنت سيرين قالت حدثني أنس بن مالك قال كنت عند عبيد اللّٰه بن زياد، إذ جيء برأس الحسين بن على رضي اللّٰه عنه فوضعه بين يديه۔فجعل يقول بقضيبه فى أنفه ويقول ما رأيت مثل هذا حسنا۔فقلت أنه كان أشبههم برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم
    [تاریخ واسط ص: ۲۲۰]
    معلوم ہوا کہ: پہلے مقام والی روایت میں ہشام نے سماع کی تصریح نہیں کی تھی لہٰذا وہاں ضعیف کا حکم لگایا گیا جبکہ دوسرے مقام والی روایت میں ہشام نے سماع کی تصریح کی تھی اس لیے صحیح کا حکم لگایا گیا پھر یہ تضاد کیسا ؟؟؟ معلوم ہوا تضاد ثابت کرتے کرتے خود کی جہالت ثابت کر بیٹھے !
    (نام نہاد تضاد نمبر:۳)کی حقیقت: اس تحریر میں آصف حسین نے شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی کتاب سے چند سطری عبارت نقل کرنے سے قبل لکھا:
    (((یزید کے دفاع میں ایک روایت جس کو امام ذہبی نے امام علی ابن مدائنی سے نقل کیا ہے اس کے بارے میں یوں نقل کیا ہے )))
    پھر آگے شیخ کفایت اللہ کی کتاب سے عبارت نقل کی جس کا خلاصہ یہ ہے ناقل صاحب تصنیف محدث سے مع سند کوئی بات نقل کریں تو وہ نقل معتبر ہوا کرتی ہے ،اب اس کے مقابلے میں جو عبارت نقل کیا اور تبصرہ کیا آصف حسین نے وہ یہ ہے:
    (((اپنی دوسری کتاب میں امام علی ابن مدائنی کی ایک جرح جس کو ابن حجر نے نقل کیا ہے اس کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :امام مدائنی سے جو نقل کیا جاتا ہے کہ موت سے قبل آپ اختلاط کا شکار ہوگئے تھے۔[تہذیب التہذیب لابن: حجر: ۴؍۲۲۷]، یہ قول ابن مدائنی سے بسند صحیح یا بنقل ثابت نہیں ہے حوالہ:انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر-کفایت اللہ سنابلی ؍صفحہ ۷۱ ؍طبع ممبئی )))
    اب آصف حسین اس نام نہاد تضاد پر تبصرہ کرتے ہوئے اخیر میں لکھتا ہے:
    (((عرض یہ۔۔۔سنابلی صاحب کے اصول کیوں بدلتے رہتے ہیں دونوں جگہ صاحب تصنیف محدث ہے ۔ ۔ ۔ ایک جگہ سند کی ضرورت نہیں اور دوسری جگہ بے سند حوالہ مرداد )))
    ڈاکٹر آصف صاحب ! لگتا ہے آپ کو علاج کی سخت ضرورت ہے اسی لیے آپ کو اصول بدلتے ہوئے لگ رہے ہیں، آپ نے یہاں ایک اور مزید جہالت کا مظاہرہ کیا کہ ابن المدینی رحمہ اللہ اور امام مدائنی رحمہ اللہ دونوں کو ایک ہی سمجھ بیٹھے کیونکہ جس مقام پر شیخ امام مدائنی رحمہ اللہ کے متعلق بحث کررہے ہیں وہاں آپ نے امام علی ابن مدائنی لکھ رکھا ہے اور جہاں شیخ ابن المدینی رحمہ اللہ پر بحث کر رہے ہیں وہاں بھی آپ نے امام ابن مدائنی لکھ رکھا ہے، تف تو یہ ہے کہ اسی پر آپ کو اصول الگ الگ نظر آنے لگے جبکہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں۔
    ابن المدینی رحمہ اللہ (مشہور و معروف محدث) ہیں ان کا نام علی بن عبد اللہ بن جعفر کنیت ابوالحسن معروف ابن المدینی سے ہیں ، مدائنی رحمہ اللہ ان کا نام علی بن محمد بن عبد اللہ کنیت ابوالحسن معروف المدائنی سے ہیں۔
    اب چونکہ آپ نے ان دونوں شخصیات کو ایک ہی شخصیت سمجھ رکھا تھا اور اسی پر تضاد کی عمارت بھی قائم کر رکھی تھی اور ہم نے اوپر وضاحت کردی کہ دونوں شخصیات ہی مختلف ہیں لہٰذا آپ کی یہ نام نہاد تناقضات کی عمارت بھی زمیں بوس ہوگئی۔
    ٭( نام نہاد تضاد نمبر:۴) کی حقیقت: یہاں پر موصوف آصف حسین نے بہت ہی مضحکہ خیز حرکت کی ہے ، معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایک مقام پر کچھ بحث کی جس کا خلاصہ یہ ہے کی امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنے ایک مخالف کی تردید میں کچھ ایسی سندیں ذکر کیں جس میں کذاب راوی موجود تھا اس پر شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے ان کی ان پیش کردہ سند کو ٹوٹی پھوٹی سندیں کہا ۔
    اب اس آصف حسین کی نری جہالت ملاحظہ کریں ،اس نے اس اقتباس کے مقابلے میں شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی کتاب سے ایسی عبارت پیش کی جس میں امام احمد رحمہ اللہ کی ایک روایت کو امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی اپنی سند سے امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا تھا اور اس سند کی شیخ کفایت اللہ نے تصحیح بھی کی تھی ،اس پر بھی انہیں تضاد سوجھنے لگا، ان کا تبصرہ ملاحظہ کریں:
    (((یاد رہے کہ ابن الجوزی دونوں جگہ اپنی اسناد سے روایات بیان کر رہے ہیں۔لیکن ایک جگہ اس کی سند کو یہ کہہ کر رد کیا جا رہا ہے کہ اس نے اپنی طرف سے اس حدیث کی ٹوٹی پھوٹی سند لا کر ابن مغیث کو مطعون کرنے کی کوشش کی اور دوسری سند سے استدلال کرکے اس پر صحیح کا حکم لگایا جا رہا ہے، سنابلی صاحب !واہ! آپ کے اصول! )))
    واہ !آصف صاحب !واہ ! آپ کی حماقت کے کیا کہنے ! پہلی عبارت میں سند کے ٹوٹی پھوٹی ہونے کی وجہ خود امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نہیں بلکہ ان کی سند میں موجود کذاب راوی تھا نا کی وہ خود جبکہ دوسری سند کا ایسا کچھ معاملہ ہی نہیں بلکہ شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے اس سند کی تصحیح کی ہے پھر یہ کیسے تناقض و تضاد رہا؟؟؟
    کبھی کبھی تو ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آصف حسین واقعی اتنے بڑے احمق و کج فہم ہیں یا دجال کا تمغہ حاصل کرنے کی سعی میں مصروف ہیں؟
    ٭( نام نہاد تضاد نمبر :۵)کی حقیقت: اس تحریر میں بھی آصف حسین نے تناقض دکھانے کی کوشش کی ہے اور ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ یہ تناقض کیسے ہوگیا ؟؟ آصف حسین نے اپنی اس تحریر میں درج ذیل عبارت نقل کی:
    (((ایک کتاب کے مقدمے میں اپنا منہج بیان کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے :معتدل موقف :بعض حضرات کی نظر میں یزید کے متعلق معتدل موقف وہ ہوگا جس میں یزید پر لگائے گئے بعض الزامات کا اعتراف ہو اور بعض کی تردید ہو۔عرض ہے کہ یہ اصول ہی غلط ہے ۔حوالہ:یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ :کفایت اللہ سنابلی ؍صفحہ ۲۶ ؍طبع دار السنہ)))
    پھر آصف حسین اس کے مخالف عبارت یہ نقل کرتا ہے:
    (((اپنی دوسری کتاب میں یزید کو جنتی ثابت کرنے کی کوشش میں آخر میں یوں لکھتا ہے :اگر یزید کی سیرت میں بالفرض کچھ غیر مناسب باتیں مل بھی جائیں تو بھی ہم یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی سے اس کا علم تھا اس کے باوجود بھی اللہ نے اس گروہ کے لیے مغفرت کی بشارت دی۔حوالہ:قسطنطنیہ پر پہلا حملہ اور یزید بن معاویہ کے بارے میں بشارت نبوی ایک تحقیقی جائزہ کفایت اللہ سنابلی ؍صفحہ ۹۴ ؍طبع مکتبہ الفہیم)))
    پھر آصف حسین اس عبارت کو نقل کرنے بعد تبصرہ کرتا ہے:
    (((اب ایک باشعور انسان کیا کہے گا اس تناقص پر…ایک جگہ ایک اصول کا رد کیا جا رہا رہا ہے دوسری جگہ اس کو تسلیم بھی کیا جا رہا ہے، واہ! )))
    قارئین کرام ! ملاحظہ فرمائیں کہ یہاں دونوں عبارتوں میں کون سا تناقض نظر آرہا ہے؟؟؟
    آخر کس اصول کا رد کیا گیا تھا پھر اسی کو تسلیم کرلیا گیا ؟؟؟
    باشعور انسان کہتے وقت لگتا ہے آپ نے اپنا ہی شعور کھو بیٹھا تھا جہاں کچھ تضاد ہی نہیں تھا وہاں آپ کو تناقض نظر آرہا تھا!!!
    یہاں عبارت کا تضاد تو تب ہوتا جب دوسری طرف اسی بات کو قبول کرلیا جاتا جو پہلے غلط بتائی جاچکی ہے ،یعنی معتدل موقف کے نام پر بعض الزام کو تسلیم کرلیا جائے اور بعض الزام کی تردید کردی جائے ، جبکہ ثانی الذکر عبارت میں دور دور تک ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے ، پھر یہ کون سا تضاد تھا؟؟
    ٭(نام نہاد تضاد نمبر:۶) کی حقیقت: آصف حسین نے اس تحریر میں یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ ایک طرف شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ امام سیوطی رحمہ اللہ کو حاطب اللیل کہنے پر شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ پر تنقید کر رہے ہیں تو دوسری طرف شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے بھی اپنی ایک کتاب میں امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کو حاطب اللیل کہا ،پر شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے بجائے ان پر تنقید کرنے کے اپنی کتاب ’’انوار البدر‘‘ پر ان سے مقدمہ لکھوائے ہیں۔
    عرض ہے کیا یہ بھی کوئی تضاد ہے یہ تو اس وقت تناقض ہوتا جب شیخ کفایت شیخ زبیر پر اس وجہ سے رد کر رہے ہوتے کہ انہوں نے امام سیوطی رحمہ اللہ کو حاطب اللیل کہہ دیا جبکہ وہی بات شیخ ارشاد حفظہ اللہ کہتے ہیں تو قبول کرتے ہیں جبکہ معاملہ بالکل بھی ایسا نہیں ،پہلی عبارت میں شیخ حفظہ اللہ شیخ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کے اعتراض پر ان کے شیخ سے اسی طرز و اسلوب کی عبارت بطور الزامی پیش کی ہے نا کہ مجرد حاطب اللیل کہنے پر یہ معاملہ ہے۔
    اگر بالفرض مجرد اسی بنیاد پر اعتراض ہوتا بھی تو کیا ایک عالم سے مقدمہ لکھوانے کی بنا پر مؤلف سے مقدمہ نگار کی تمام تحقیقات و اقوال کی تائید ہوجاتی ہے؟؟عقل سلیم رکھنے والا شخص ایسی بات بالکل بھی نہیں کہہ سکتا ، اس لیے ان باتوں کو تضاد دکھلانا آصف صاحب کی حماقت ہے ،شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کا تناقض نہیں۔
    ٭( نام نہاد تضاد نمبر:۷)کی حقیقت: یہاں پر ڈاکٹر آصف صاحب کتاب سے دو عبارتیں الگ الگ مقام سے جمع کرکے تبصرہ کرتے ہیں :
    (((موصوف پہلے لکھ رہے ہیں کہ خیرالقرون کو شر القرون ثابت کرنے کی کوشش کتنی خطرناک ہے ، آگے خیر القرون کے صحابہ و تابعین پر طعن کرتا ہے کہ وہ عثمان کے قتل میں ملوث تھے)))
    ہر بار کی طرح ڈاکٹر صاحب نے یہاں بھی خیانت سے کام لیا، اصل میں پہلی عبارت میں شیخ حفظہ اللہ نے جو بات کہی ہے وہ مجموعی طور پر اس دور کی شخصیات پر الزامات و بہتانات کی بات تھی جو مختلف مقامات پر اسی کتاب میں زیر بحث ہے ، جبکہ دوسری عبارت میں چند اشخاص کا ایک جزئی معاملے میں سبائیوں کی سازش سے متاثر ہونے کی بات کی گئی تھی، دونوں عبارتوں میں کتنا فرق ہے کہ ایک مقام پر مجموعی طور پر اس دور کو ہی بالکل برا ثابت کرنے کی بات کی گئی تو دوسرے میں چند شخصیات کا ایک خاص واقعے میں سبائیوں کی سازش سے متاثر ہونا!!اب خیر القرون کہنے کا یہ مطلب بھی تو نہیں ہوا کہ بعض معیوب واقعات نا ملیں ،یہاں غالب پہلوؤں کے اعتبار سے خیر القرون کی بات کہی تھی شیخ حفظہ اللہ نے۔
    ٭(نام نہاد تضاد نمبر:۸)کی حقیقت : یہاں پر ڈاکٹر صاحب نے شیخ کی کتاب کے دو مقامات سے الگ الگ عبارت پیش کرکے یہ دکھلانے کی کوشش کی ہے کہ ایک طرف ضعیف تاریخی روایات سے بچنے اور عدم استدلال کی بات کی گئی ہے اور دوسری طرف بے سند تاریخی روایت سے استدلال بھی کیا گیا ہے۔
    عرض ہے کہ: لگتاہے ڈاکٹر صاحب تضاد دکھانے کی جی توڑ کوشش میں آنکھ پھوڑ بیٹھے ہیں، ان کی نظر نے ٹھیک طرح سے کام کرنا بند کردیا ہے، کیونکہ جس دوسری عبارت کا انہوں نے اسکین لگایا ہے وہاں حوالہ تاریخ الطبری کا لکھا ہے اور یہ کہہ رہے ہیں کہ البدایہ لابن کثیر رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے جبکہ صاف اسکین میں موجود ہے حوالہ تاریخ الطبری کا ہے۔ خیر یہاں جو دوسری عبارت تھی جس کاحوالہ ڈاکٹر صاحب دے رہے ہیں یہ اصل مستدل نہیں بلکہ بطور الزام پیش کی گئی روایت تھی ، وگرنہ شیخ نے ایسی مرویات کو شروع میں ہی غیر ثابت کہا تھا جیسا کہ شیخ حفظہ اللہ کے الفاظ ہیں۔
    واضح رہے کہ سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قاتلین حسین سے بدلہ لینے کے لیے قتال کیا تو یہ بات تاریخ طبری وغیرہ میں ابو مخنف سے مروی ہے اور یہ کذاب اور بہت بڑا جھوٹا شخص ہے۔ (یزید بن معاویہ۔۔۔۔۔ص:۴۱۰)
    ڈاکٹر صاحب کو کتاب کی عبارتیں تک سمجھ نہیں آتیں کہ مؤلف کا مقصود کیا ہے ؟ روایت کے ذکر کا مقصد کیا ہے ؟ ایسی کج فہمی کا مالک شخص چلا ہے تناقض دکھانے !سبحان اللہ!!
    ٭( نام نہاد تضاد نمبر:۹) کی حقیقت: اس مقام پر ڈاکٹر آصف نے کتاب سے دو الگ الگ عبارتیں نقل کی ہیں، جن میں پہلے والی عبارت میں شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے سر کی بے حرمتی میں ابن زیاد کا کوئی کردار نہیں تھا یہ بات کی گئی تھی، دوسری عبارت سے ڈاکٹر صاحب نے یہ باور کرایا کہ ان کا بھی اس میں کردار تھا ،ہمیشہ کی طرح فہمِ سقیم رکھنے والے ڈاکٹر نے اپنی بیمار سوچ ہی کا اظہار کیا، دوسری عبارت میں ابن زیاد کے حکم میں آنے جانے کی ایک عمومی ممانعت تھی جس کے تحت قافلۂ حسین رضی اللہ عنہ کو بھی روکا گیا ، کہاں ایک عام ممانعت اور کہاں شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ میں کردار ، زمین وآسمان کا فرق ہے! لیکن پھر بھی دجل و تدلیس مخالف کے سر پر ڈال رہے ہیں حالانکہ خود اس کارِ شر میں پوری طرح ملوث ہیں۔
    (نام نہاد تضاد نمبر:۱۰)کی حقیقت: اس مقام پر بھی موصوف نے کتاب سے دو عبارتیں نقل کیں جن میں سے ایک میں کتاب کے منہج کے ذکر میں تاریخی روایت سے عدم استدلال پر بات کی گئی تھی اور دوسری عبارت میں ضعف کی وضاحت کے ساتھ بعض ایسی ضعیف روایات پیش کی گئیں جن کے مفہوم کی تائید صحیح روایت سے بھی ہورہی تھی ، نیز اہلِ سنت و اہلِ تشیع کے یہاں ان کا متفق علیہ ہونا پیش کیا گیا تھا ، یہ بھی ڈاکٹر صاحب کو تناقض نظر آنے لگا جبکہ پہلی عبارت میں شیخ حفظہ اللہ نے واضح طور پر فرمایا تھا جس کو آصف صاحب نے خود نقل کیا تھا جو درج ذیل ہے:
    بعض ضعیف تاریخی روایات جن کے مفہوم کی تائید دیگر صحیح روایات سے ہوتی ہے انہیں بھی اس کتاب میں بطور استدلال ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان کی طرف اشارہ پر اکتفاء کیا گیا یاوضاحۃً ذکر کیا گیا تو اس کا درجہ بھی واضح کردیا گیا ہے ۔(یزید بن معاویہ۔۔۔۔۔ص:۲۸)
    یہاں دھیان سے پڑھیں کہ بطور استدلال ذکر کی نفی ہے اور کوئی روایت بطور استدلال نہیں بلکہ بطور وضاحت ذکر کی بھی گئی ہے تو اس کا درجہ واضح کردیا گیا ہے۔
    ڈاکٹر آصف صاحب نے اس کے مقابل جو عبارت پیش کی ہے وہاں واضح طور پر موجود تھا کہ اس مقام پر- یعنی حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل ، خود حسین رضی اللہ عنہ کی نظر میں- بعض ضعیف روایات کے ساتھ اس مفہوم کی تائید کرنے والی صحیح روایات بھی پیش کی گئی تھیں، پھر یہ ضعیف روایات سے استدلال کیسے ہوا!!!کیا واقعی آپ اتنے کج فہم ہیں کہ اتنی سی بات آپ کو نہیں سمجھ آتی اور تناقض نظر آنے لگتا ہے؟؟؟
    جاری ہے ………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings