-
والدین کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں (چوتھی و آخری قسط) ۶۔صالح : صالح اسے کہتے ہیں جو اخلاص کے ساتھ اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرتا ہو، والدین کا صالح ہونا اولاد کے لیے خیر وبھلائی کا ذریعہ ہے، ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کا ذریعہ ہے کیونکہ والدین کی نیکی سے اولاد متاثر ہوتی ہے، کبھی فوری اثرات ظاہر ہوجاتے ہیں اور کبھی تاخیر سے ظاہر ہوتے ہیں، ایک صالح انسان کی زندگی تین بنیادوں پر قائم ہوتی ہے ایک وہ توحید خالص پر قائم ہو، شرک سے دور رہے، دوسرا سنتِ رسول کی اتباع کرے اور بدعت سے اپنے دامن کو پاک رکھے، تیسرا وہ بااخلاق ہو،بد اخلاقی سے اس کا کردار بے داغ ہو۔
بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے سماج میں والدین اپنے معصوم بچوں کو صالح ونیک بنانا چاہتے ہیں لیکن خود کو صالح بنانا نہیں چاہتے ہیں،ایسے لوگوں کو قرآن نے ناسمجھ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
{ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ}
’’کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو ؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو ، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں ؟‘‘
[البقرۃ:۴۴]
ایسی نادانی کم از کم والدین کو نہیں کرنی چاہیے کہ وہ خود نیک وصالح نہ بنیں اور اولاد کو صحابۂ کرام کی طرح صالح بنانے پر زور ڈالیں، بلکہ اصل یہ ہے والدین کا کردار وعمل بچوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے،اس لیے ہمیں اپنے کردار وعمل کوصالح بنانا ہوگا،تاکہ ہماری اولاد بھی نیک وصالح بنے، یہی اصلاح کا طریقہ ہے جیسا کہ نماز کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں اللہ نے واضح طور پر حکم دیتے ہوئے فرمایا:
{وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَيٰ}
’’اپنے گھرانے کے لوگوں پرنماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ، ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے ، بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، آخر میں بول بالاپرہیزگاری ہی کا ہے‘‘
[طہ:۱۳۲]
اور اللہ کے صالح بندے اپنی اصلاح پہلے کرتے تھے اور پھر اپنے اولاد کی اصلاح کی فکر کرتے تھے کیونکہ اصلاح کا موثر اور نفع بخش طریقہ یہی ہے جیسا کہ چالیس سال کی عمر کو پہنچنے والے نیک بندے کی اس دعا سے ہمیں معلوم ہوتا ہے۔اس میں پہلے اپنے شکرگزار اور صالح بننے کی دعا ہے، پھر اپنی اولاد کے صالح بنانے کی دعا ہے۔اور ساتھ ہی اپنے گناہوں سے توبہ اور اسلام کی تجدید ہے۔
{رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَي وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ}
’’اے میرے پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا ، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں‘‘
[الأحقاف :۱۵]
اس دعا کی روشنی میںوالدین کے کئی صفات واضح ہورہے ہیں، جیسے شکرگزار، دعا کرنے والے، اپنے والدین کے احسان مند، وفادار، اعمال صالحہ سے محبت کرنے والے، توبہ کرنے والے،اسلام سے محبت کرنے والے، بچوں کے خیر خواہ اور بچوں کی نیکی اور نجات کی فکر کرنے والے واقعی قابل احترام والدین ہیں۔
محترم والدین! آپ اگر نیک وصالح انسان بن کر زندگی گزارتے ہیں تو آپ کے بچوں کو دنیا وآخرت میں بہت ساری بھلائیاں ملتی ہیں،دنیا میں خیر وبھلائی ملنے کی ایک مثال سورہ کہف میں محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ نے دو یتیم بچوں کے خزانے کی حفاظت حضرت خضر علیہ السلام کے ذریعے کروائی اور حفاظت ونگرانی کا سبب والد کا صالح ہونا بتایا۔
{وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا}
’’ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا‘‘
[ الکہف :۸۲]
اس سے پتہ چلتا ہے کہ والدین کا صالح ہونا اولاد کے لیے خیر وبھلائی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
اور اسی طرح جو بچے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایمان کی زندگی پر قائم رہیں گے ان کو والدین کے ساتھ جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ارشاد ربانی ہے:
{وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْئٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ}
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے ، ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے‘‘
[الطور:۲۱]
رحمان کے بندوں کی دعا بھی یہی ہوتی ہے کہ بچے انہیں کی طرح متقی اور پرہیزگار بنیں، تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں،دل کو سکون ملے ،تمام والدین کو یہ دعا کثرت سے کرنا چاہیے۔
{رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}
’’اے ہمارے پروردگار ! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا‘‘
[الفرقان:۷۴]
۷۔ عدل وانصاف: ہر صاحب حق کو اس کا حق دینا عدل کہلاتا ہے،آسمان وزمین اسی عدل پر قائم ہیں،امن وامان کا بنیادی سبب عدل ہے، یہ اللہ ورسول کا حکم ہے،عدل کرنا فرض ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ}
’’اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘[الحجرات:۹]
یہ عدل زندگی کے تمام معاملات اور تمام افراد کو شامل ہے، اللہ تعالیٰ نے ظلم کو حرام قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’عِبَادِي: إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰي نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا‘‘
’’اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا اور تم پر بھی حرام کیا، تو تم مت ظلم کرو آپس میں ایک دوسرے پر‘‘
[صحیح مسلم :۶۵۷۲]
والدین کی ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے درمیان عدل وانصاف سے کام لیں،قلبی محبت کے علاوہ ہر قسم کے معاملات میں عدل کریں،ظلم اور بھید بھاؤ سے پرہیز کریں۔
نبی رحمتﷺ والدین کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
’’اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ، اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِكُمْ‘‘
[صحیح ؍سنن أبی داؤد :۳۵۴۴]
عدل کرنے والے والدین کے لیے دنیا میں عزت ہے ہی،آخرت میں بھی ان کے لیے بڑی عزت ہے، قابل رشک تکریم ہے ،پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
{إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللّٰهِ عَلٰي مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمٰنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا}
’’جو لوگ انصاف کرتے ہیں وہ اللہ عزوجل کے پاس منبروں پر ہوں گے پروردگار کے دا ہنی طرف اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں، اور یہ انصاف کرنے والے وہ لوگ ہیں جو حکم کرتے وقت انصاف کرتے ہیں اور اپنے بال بچوں اور عزیزوں میں انصاف کرتے ہیں اور جو کام ان کو دیا جائے اس میں انصاف کرتے ہیں‘‘
[صحیح مسلم : ۴۷۲۱]
عدل سے گھروں میں، اولاد میں امن وسکون پیدا ہوتا ہے،باہم الفت ومحبت پیدا ہوتی ہے، پرسکون اور الفت ومحبت سے معمور گھروں میں پلنے والے بچے بھی بہترین انسان بنتے ہیں۔
۸۔ دعاء خیر: سب سے بہترین تحفہ دعا ہے، پیارے نبی ﷺ اپنے صحابہ کو دعائیں دیا کرتے تھے، ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو خوب دعائیں دی ہیں، سعودی عرب میں آج بھی ہر بات میں دعائیں دینا عام سی بات ہے، دل سے نکلنے والی دعائیں واقعی بہت طاقتور ہوتی ہیں،لہٰذا والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو دعائیں دیا کریں،غصہ میں بھی بددعائیں نہ کریں، والدین کی دعاؤں کا خاص مقام ہے،اللہ والدین کی دعائیں بچوں کے حق میں قبول فرماتا ہے،پیارے نبی ﷺنے فرمایا:
’’ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيهِنّ:دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلٰي وَلَدِه‘‘
’’تین دعائیں مقبول ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔مظلوم کی دعا، اور مسافر کی دعا ، اور والدین کی بد دعابچوں پر‘‘
اس باب میں ابراہیم علیہ السلام کی سیرت ہمارے لیے مشعل راہ ہے کہ آپ نے اپنی اولاد کو خوب خوب دعائیں دی ہیں۔تمام والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے ہمہ وقت خیر وبھلائی کی دعائیں کرتے رہیں۔
خاتمہ: محترم قارئین! بچے،بچیاں آپ کے کندھوں پر اللہ کی امانت ہیں،آپ کا اٹوٹ حصہ ہیں، قیامت کے دن آپ ان کے جواب دہ ہیں،اللہ سے مدد طلب کریں،توفیق کا سوال کریں، تقویٰ اختیار کریں، آخرت کے دن سے ڈریں،علم وبصیرت اورصبر وخیر خواہی کے ساتھ بچوں کے حقوق ادا کریں، احسان کریں، باہم ایک دوسرے کا تعاون کریں، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کا اجر وثواب ضائع نہیں کرتا۔
{إِنَّهُ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ }
[یوسف:۹۰]
بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
٭٭٭