-
لباس ایک عظیم نعمت سب سے پہلے حمد وثنا صرف اس ذات کے لیے جس کا کوئی شریک نہیں ،جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ، جس کے علاوہ کوئی دوسرا کائنات کو تھامنے والا نہیں، جس کے علاوہ کوئی دوسرا خالق و رازق نہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ،چنانچہ انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت لباس بھی ہے، ارشاد ربانی ہے:
{يَـٰبَنِيٓ ء َادَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَٰرِي سَوْئٰ تكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَيٰ ذٰلِكَ خَيْرٌ ذٰلِكَ مِنْ ايٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ}
’’اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ جو تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے والا نیز تمہارے لیے زینت کا ذریعہ بھی ہے اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے (لباس) اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں‘‘
[الاعراف:۲۶]
اس آیت کریمہ کے آخر میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے لباس کو اس کی اہمیت کی وجہ سے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، اسی طرح سے لباس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ}
’’اپنے کپڑے پاک اور صاف رکھو‘‘
[المدثر:۲۰]
انسان کی امتیازی اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پابندِ لباس بنایا ہے اسی وجہ سے وہ پیدائش کے دن سے ہی کسی نہ کسی لباس میں لپیٹ دیا جاتا ہے پھر یہ سلسلہ اس کی وفات پر بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ اسے قبر میں اتارتے وقت سفید لباس میں ملبوس کرکے ہی اتارا جاتا ہے، گویا لباس انسان کا جزو لا ینفک ہے اور یہی چیز انسان کو دوسرے حیوان سے ممتاز کرتی ہے ۔
لباس کا معنی و مفہوم: لباس عربی زبان کا لفظ ہے، لباس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
’’هو ما يستر البدن و يدفع الحر والبرد و لباس كل شئي غشاء‘‘
’’لباس وہ چیز ہے جو بدن کو چھپاتی ہے اور اسے گرمی اور سردی سے محفوظ رکھتی ہے ہر چیز کا لباس وہ ہوتا ہے جو اسے ڈھانپے‘‘
[معجم اللغۃ العربیۃ]
لباس کے مقاصد: لباس کا اولین مقصد انسانی جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکنا ہے ۔
دوسرا مقصد انسان کو زینت عطا کرنا ہے ۔
لباس کا تیسرا مقصد انسان کو سردی اور گرمی سے محفوظ رکھنا ہے۔
لباس کا چوتھا مقصد انسان کی فطری شرم و حیا کی حفاظت کرنا ہے۔
خواتینِ اسلام کا لباس کیسا ہونا چاہیے ؟ عورت سراپا پردہ ہے اس لیے اس کے جسم کے جملہ اعضاء کا پوشیدہ رکھنا لازم اور ضروری ہے، عورت کا چہرہ ،ہتھیلی اور پاؤں کے علاوہ باقی سارا جسم ستر کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا عورت گھر کی چہار دیواری میں اپنے بھائی کی بہن اور دیگر محرم رشتہ داروں کے سامنے اپنے چہرے ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ سارا جسم چھپا کر رکھے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَقُل لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّامَا ظَهَرَ مِنْهَا}
’’اے اللہ کے نبی( ﷺ) مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے‘‘
[النور:۳۱]
لہٰذا عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں کے اندر موٹے کپڑے سے اپنا سر ،سینہ اور کمر ڈھانپ کر رکھیں کیونکہ مردوں اور عورتوں کو عریاں کرنا شیطان کا سب سے بڑا ہدف ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ان عورتوں پر جنہوں نے سب سے پہلے ہجرت کی، جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی : {وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوبِهِنَّ }
’’عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دامن پر اپنی چادر لپیٹ کر رکھیں‘‘
[النور:۳۱]
لہٰذا انہوں نے موٹے کپڑوں کے پردے پھاڑ کر اوڑھنیاں بنائیں اور حکم پر عمل کیا۔ (اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے)
آج ہمارے معاشرے میں عورتوں کے کپڑے کا کیا عالم ہے؟ اتنے باریک کپڑے پہنتی ہیں جس کے جھروکوں سے جسم جھانکتے ہیں ، اور اوڑھنی تو گلے کا ہار بن گئی ہے، کسی شاعر نے سچ کہا ہے :
عورت نے اپنے آپ کو اتنا گرا دیا برقع تو کیا گلے سے دوپٹا ہٹا دیا
نبی ﷺکی وہ پیشین گوئی سچ ہو گئی کہ ایک دفعہ آپ نے کہا تھا ’’نساء کاسیات عاریات‘‘
یعنی بظاہر خواتین کپڑے تو پہنی ہوئی ہوں گی لیکن درحقیقت وہ ننگی ہوں گی۔
اور یہ معاشرے کی سب سے بد ترین اور بد نصیب خواتین ہیں جو جنت تو دور جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گی۔
معزز قارئین کرام! اسلام نے مسلمانوں کے لئے کوئی خاص قسم کا لباس متعین نہیں کیا ہے بلکہ کچھ قیود بیان کی ہیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو لباس پہنا جائے گا وہ شرعی ہوگا۔ مرد کے لیے ریشم کا لباس کفار وفساق اور متکبرین کے مشابہ لباس، ٹخنوں سے نیچے اور عورتوں سے مشابہ لباس پہننا ممنوع ہے۔
اسی طرح سے آپ ﷺنے فرمایا : ’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘
’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اسی میں سے ہے‘‘
[ابوداؤد:۴۰۳۱،حسن صحیح]
’’مَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ مِنَ الإِزَارِ فَفِي النَّارِ‘‘
’’تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہو گا‘‘
[صحیح البخاری:۵۷۸۷]
’’لَعَنَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّساءِ‘‘
’’رسول اللہ ﷺنے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں‘‘
[صحیح البخاری: ۵۸۸۵]
البتہ جو لباس سنت سے ثابت ہے یا صلحا ء نے جس لباس کو اختیار فرمایا اس لباس کا اختیار کرنا یقینا زیادہ مناسب اور افضل ہے۔
اسی طرح سے کرتا اور پائجامہ کے شرعی لباس ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کرتے کو حضورﷺ اور آپ کے اصحاب نے پہنا ہے، بلکہ کرتا آپ ﷺ کا سب سے محبوب لباس تھا۔ حدیث میں ہے:
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: ’’كَانَ أَحَبُّ الثِّيَابِ إِلَي رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَمِيصَ‘‘
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :’’کپڑوں میں رسول اللہﷺ کو سب سے زیادہ قمیص پسند تھی‘‘
[ابوداؤد: ۴۰۲۵،صحیح]
مسلمان عورت کے لیے مردوں کی مشابہت والا لباس پہننا منع ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ لَعَنَ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاء ِ بِالرِّجَالِ، وَالْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَائِ‘‘
’’کہ نبی اکرم ﷺ نے مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں پر اور عورتوں سے مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے‘‘‘‘
[ابوداؤد:۴۰۹۷،صحیح]
آج معاشرے میں لوگ لباس کے جن فتنوں میں مبتلا ہیں وہ بے شمار ہیں شیطان کے دوست ایسے خوش نما طریقوں سے ہمارے دین اور اسلام کی جڑیں کاٹتے ہیں کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا، اس احساس کے فقدان کی وجہ سے ہی آج عورتوں نے مرد وںکی مشابہت والا لباس اپنانا شروع کر دیا ہے۔
مسلم خواتین ایسا لباس نہ پہنیں جس سے غیر مسلم اقوام کی مشابہت ہو، ایک مسلمان خاتون کے لیے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ عقائد، عبادات ،لباس اورعادات یہاں تک کہ سلام کرنے میں بھی غیر مسلم اقوام سے مشابہت کا انجام بہت بھیانک ہے۔اللہ کا فرمان ہے:
{وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الْـهُدٰي وَيَتَّبِــعْ غَيْـرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُـوَلِّـهٖ مَا تَوَلّـٰي وَنُصْلِـهٖ جَهَنَّـمَ وَسَآء َتْ مَصِيْـرًا}
’’اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے‘‘
[النساء:۱۱۵]
تصاویر والے لباس : کپڑوں پر بے جان اشیاء مثلاً میز یا کرسی ، عمارت یا درخت وغیرہ کی تصاویر اگرچہ شرعاً ممنوع نہیں ہے لیکن لباس پر ایسی چیزوں کی تصویریں بھی انسان کے عزت و شرف اور سنجیدگی کے سراسر منافی ہیں۔ اور بے جان اشیاء میں سے وہ اشیاء کی تصاویر والے لباس پہننا قطعاً حرام ہے،جوعیسائیوں کے نشان صلیب زدہ یا ہندوؤں کے نشان ترشول زدہ ہو۔
جہاں تک جاندار اشیاء کی تصاویر کا تعلق ہے وہ خواہ لباس پر ہو یا بستر پر ہو یا پردوں پر یا کسی بھی چیز پر ہو اس کی حرمت میں قطعاً کوئی شک نہیں ہے ایسے لباس کا پہننے والا گنہگار اور اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔
والدین کی خدمت میں ایک چھوٹی سی گزارش:کسی دانا کا قول ہے ’’العلم فى الصغر كالنقش فى الحجر‘‘’’یعنی بچپن میں سیکھا ہوا علم ایسے ہی ہے جیسے کسی پتھر پر نقش و نگار بنانا ‘‘ اسی لیے والدین کو بچوں کے بچپن سے ہی مکمل اور ساتر لباس پہنانا چاہیے۔ بلوغت سے قبل بچوں کو خصوصاً لڑکیوں کو ساتر لباس پہنانے کا اہتمام والدین کو ہر صورت میں کرنا چاہیے ۔ بعض والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بلوغت سے قبل لڑکیوں کو عریاں لباس پہنانا گناہ نہیں ہے اور ان کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ ابھی تو وہ بچی ہے لیکن یہ تصور بالکل غلط ہے، ایسا کرکے نہ صرف والدین خود گناہ گار ہوتے ہیں بلکہ اولاد کو ان کی فطری شرم و حیا سے محروم کرنے کا وبال بھی ان کے سر ہے۔
لہٰذا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان قرآن و حدیث نبویﷺ کی روشنی میں اپنی زندگی گزاریں، اور شیطان کے مکر وفریب سے اجتناب کریں ۔ اللہ ہم تمام کو شرعی لباس پہننے کی توفیق بخشے آمین۔