-
محمد ﷺسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نوسال کی عمر میں شادی پر اعتراض کے جوابات اسلام دشمن عناصر ہمیشہ سے ہمارے آخری نبی جناب محمدرسول اللہ ﷺ کی شان میں الگ الگ باتوں کو لے کر گستاخیاں کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے تقدس کو پامال کر نے کی لا حاصل کوشش کرتے آئے ہیں ، جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے احساسات و جذبات مجروح ہوئے ہیں،حال فی الحال میں بھی نوپورشرما نامی خاتون نے آپ ﷺ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے 9 سال کی عمر میں شادی کو لے کرنہ صرف اعتراض کیا بلکہ آپ کے ساتھ گستاخی بھی کی، ایسے وقت میں ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم نبی کی ذات پر آنے والی آنچ کو دور کریں ، آپ پر بے جا اتہامات و الزامات کا منہ توڑ جواب دیں، اسی مناسبت سے میرے ذریعہ ایک ہلکی سی کوشش اس تحریر میں اس طور سے کی گئی ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے 9 سال کی عمر میں جوشادی کی اس پر اٹھنے والے بے جا اعتراضات کا تشفی بخش جواب دیا جائے اور اِس کے ذریعہ سبھی کی غلط فہمیوں کو رفع کیا جا سکے۔
قارئین کرام ! معلوم ہو کہ اسلامی نقطۂ نظر سے نکاح کے لیے بلوغت اور عمر کی کوئی شرط و قید نہیں ہے ، نکاح کسی بھی عمر میں ممکن ہے یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺنے عائشہ رضی اللہ عنہا سے چھ سال کی عمر میں نکاح کیا ۔حدیث کے الفاظ ہیں: عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ’’تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ لِسِتِّ سِنِين‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’’نبی کریمﷺ سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی‘‘۔
یہ اور بات ہے کہ آ پ کی رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی۔’’وَبَنَي بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ‘‘’’اور میری رخصتی نو سال کی عمرمیں ہوئی ‘‘۔[صحیح بخاری: ۳۸۹۴،صحیح مسلم:۱۴۲۲]
مزید نکاح کے لیے بلوغت شرط نہیں، اس کی دلیل سورہ طلاق کی آیت4 واضح طور سے بنتی ہے جس میں اللہ نے فرمایا کہ: { وَاللَّائِی یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ مِنْ نِسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِی لَمْ یَحِضْنَ }’’وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں اور جن کو ابھی حیض آیا ہی نہیں ان کی عدت تین ماہ ہے ‘‘
اس آیت میں محل استشہاد یہ ہے کہ جن عورتوں کو حیض نہ آیا ہو اور اُن کے نکاح کے بعد ان کے شوہروں کی طرف سے انہیں طلاق دے دی گئی ہو تو ان کی عدت اللہ نے تین قروء کے بجائے تین مہینہ قرار دیا ہے۔
شہوت پرستی کے حوالے سے جواب: غیر مسلم معترضین عام طور سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے 9سال کی عمر میں نکاح کو لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ محمد نے ایک بچی سے نکاح کرلیا ، اس کے پیچھے ان کی شہوت کے سوا کچھ نہیں ۔ نعوذ باللہ !!!
٭ ایسے معترضین کو یہ پتہ ہوناچاہیے کہ محمدﷺا گر شہوت پرست ہوتے تواتنے حسین و جمیل ہوتے ہوئے ، سیرت و صورت کے لحاظ سے ہر عیب سے پاک ،عین جوانی کے پچیس سال کی عمر میں اپنا پہلا نکاح ایک بڑی بیوہ خاتون سے نہ کرتے ۔
کیوں ؟ کیونکہ عموماًلوگوں کی سوچ کے ساتھ پریکٹیکل یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ عمر کے کسی بھی مرحلے میں کنواری خاتون سے شادی کرتے ہیں ۔اگر نبی کو شہوت مطلوب ہوتی توآپ ایک بیوہ عورت سے اپنی پہلی شادی ہر گز نہ کرتے۔
٭ اورمعترضین نااہلوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اگر آپ کو شہوت مطلوب ہوتی تو آپ پہلی بیوی کے باحیات رہنے تک ، تقریباً عمر کے 50برس تک یعنی بھری جوانی کے 25سال صرف ایک بیوہ عورت کے ساتھ زندگی نہ گزارتے۔ اگر نبی کوشہوت ہی مطلوب ہوتی تو کیا نبی مکہ کی کسی کم عمر کنواری عورت سے نکاح نہ کرلیتے؟
٭ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نبوت کے دسویں سال جب فوت ہوئیں تو اس کے بعد آپ ﷺنے دس اور نکاح کیے،اُن دس میں ایک کو چھوڑ کر سب مطلقہ یا بیوہ خواتین ہی کیوں؟کیاآپ کو نعوذباللہ شہوت مطلوب تھی ؟یا کسی کو شوہر مل جائے، گھر بس جائے یہ مطلوب تھا۔نبی کے ایک دو نہیں پورے دس بیوہ مطلقہ عورتوں کے نکاح سے نظر پھیر کرصرف ایک کنواری عورت سے نکاح پر اتنا واویلا !!!یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے ؟
کچھ دوسرے اینگل سے جوابات : نبی ﷺکے 9سال کی عمر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح پر گستاخانِ رسول کے اعتراض کا کچھ دوسرے اینگل سے آیئے جائز ہ لیتے ہیں :
پہلی بات تو یہ ہے : کہ اگر نبی ﷺ کا نوسال کی عمر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح قابل اعتراض ہوتا تو سب سے پہلے کفار مکہ جنہوں نے آپ کو کیا کیا نہیں کہا ، کبھی مجنوں، کبھی پاگل ، کبھی ساحر، کبھی شاعر کہا، آپ کو یہاں تک طعنہ دیا کہ نعوذ باللہ محمد نے اپنے لے پالک بیٹے زید کی بیوی زینب سے اس کے طلاق کے بعد نکاح کرلیا ،وہ بھلا آپ کے اس 9سالہ نکاح پر چپ بیٹھتے؟ ان کا نبی کے اس 9 سالہ نکاح پراعتراض نہ کرنا ، بلکہ خاموش رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت عرب میں نوسال کی عمرمیں نکاح کوئی قبیح وبعید بات نہیں تھی بلکہ عام چلن کے حساب سے وہ صحیح اور درست تھا۔اس حوالے سے چند دلائل بطور تشفی پیشِ خدمت ہیں :
(1) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ہندہ کی شادی 9 سال کی عمر میں عبداللہ بن عامر سے کرائی۔ ’’زوج معاوية بن أبي سفيان ابنته هندا من عبد اللّٰه بن عامر بن كريز وبني له قصرا إلى جانب قصره وجعل بينهما بابا وأدخلت عليه وهى بنت تسع سنين ‘‘
[تاریخ دمشق لابن عساکر ج:۷۰،ص:۱۸۸]
(2) عبداللہ بن عمر و اپنے باپ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے صرف11 سال چھوٹے تھے ۔’’وأبوه أسن منه بأحد عشر عاما‘‘[ تذکرۃ الحفاظ :ج:۱،ص:۳۵]
(3) ابوعاصم النبیل کہتے ہیں کہ میری والدہ ایک سو دس) 110) ہجری میں پیدا ہوئیں اور میں ایک سو بائیس( 122) ہجری میں پیدا ہوا۔’’ولدت أمي سنة عشر ومائة، وولدت أنا فى سنة اثنتين وعشرين‘‘[سیر اعلاالنبلاء: ج:۹،رقم:۴۸۳] یعنی 12 سال کی عمر میں ان کا بیٹا پیدا ہوا تو ظاہر ہے کہ ان کی والدہ کی شادی 10 سے 11 سال کی عمر میں ہوئی ہوگی۔
(4) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ عباد بن عباد المہلبی فرماتے ہیں:’’ میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ 18 سال کی عمر میں نانی بن گئی، 9 سال کی عمر میں اس نے بیٹی کو جنم دیا اور اس کی بیٹی نے بھی 9 سال کی عمر میں بچہ جنم دیا ‘‘۔ ’’أدركت فينا يعني المهالبة امرأة صارت جدة وهى بنت ثمان عشرة سنة , ولدت لتسع سنين ابنة، فولدت ابنتها لتسع سنين، فصارت هي جدة وهى بنت ثمان عشرة سنة‘‘[سنن الدارقطنی: ج:۴ ،ح:۳۸۸۱]
ماضی قریب میں : (1) اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہواکہ 8سال کی بچی حاملہ ہوئی اور 9سال کی عمر میں بچہ جنا ۔ (روزنامہ DAWN 29 مارچ1966) (2) علاوہ ازیں روزنامہ جنگ کراچی میں 16اپریل 1986ء کوایک خبر مع تصویرکے شائع ہوئی تھی جس میں ایک نو سال کی بچی جس کا نام (ایلینس) تھا اور جو برازیل کی رہنے والی تھی بیس دن کی بچی کی ماں تھی۔ (3) اس طرح روزنامہ آغاز میں یکم اکتوبر 1997کوایک خبر چھپی کہ (ملتان کے قریب ایک گاؤں میں)ایک آٹھ سالہ لڑکی حاملہ ہوگئی ہے اور ڈاکٹروں نے اس خدشہ کا اعلان کیا ہے کہ وہ زچگی کے دوران ہلاک ہوجائے۔پھر 9دسمبر 1997کو اسی اخبار میں دوسری خبر چھپی کہ ملتان (آغاز نیوز) ایک آٹھ سالہ پاکستانی لڑکی نے ایک بچہ کو جنم دیا ہے۔انٹرنیٹ پر اس قسم کے بے شمار واقعات آپ دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں ۔
جب پاکستان جیسے معتدل اور متوسط ماحول وآب و ہوا والے ملک میں آٹھ برس کی لڑکی میں یہ قوت پیدا ہوسکتی ہے تو عرب کے گرم آب و ہوا والے ملک میں 9سال کی لڑکی میں اس صلاحیت کا پیدا ہونا کون سی تعجب کی بات ہے؟
ذرا آپ کسی ڈاکٹر سے پوچھیے کہ کوئی لڑکی 9 سال کی عمر میں جسمانی طور سے فٹ ہورہی ہے ،اس کو حیض آنا شروع ہوگیا ہے تو کوئی مسئلہ ؟ ڈاکٹر بولے گا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔کیونکہ اس عمر میں حیض آسکتا کیاآجاتا ہے ۔تو جب نکاح کے لیے عمر و بلوغت کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ جسمانی و ذہنی طور سے فٹ ہونا شرط ہے ،اور اس شرط پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکمل طور سے اتر رہی ہیں تو پھر اُس نکاح پر اعتراض کیسا؟
دوسری بات یہ کہ : آج کے جو نا اہل لوگ اعتراض کررہے ہیں وہ اپنے یہاں کے ماحول اور معاشرے کو دیکھ کراعتراض کررہے ہیں ،جبکہ ہر جگہ کا ماحول و معاشرہ ایک جیسا نہیں ہوتا ۔ اسلامی رول اور قانون نکاح کے حوالہ سے یہ نہیں ہے کہ نکاح عمر ،بلوغت اور ماحول دیکھ کرکیا جائے ،بلکہ اسلام کا سیدھا سادا اصول ہے کہ جولڑکے یا لڑکیاں جسمانی اور ذہنی طور سے فٹ ہوںوہ نکاح کر لیں ۔اور جسمانی و ذہنی طور سے فٹ ہونا کبھی بھی ہوسکتا ہے ،کیونکہ یہ منحصر کرتا ہے کہ وہ کس ملک اور علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں ؟اور کس زمانہ میں رہتے ہوئے کیسی غذا استعمال کررہے ہیں ؟ اس لیے عرب کی سالہا سال سخت گرم فضا کے ساتھ وہاں کے کھان پان یعنی کھجور، اونٹ و بکروں کے گوشت کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ گرم آب و ہوا کے ساتھ گرم چیزوں کا استعمال بھی انسان کے جسمانی اور ذہنی تبدیلی پر اچھا خاصا اثر ڈالتا ہے ،اسی اثر کے نتیجہ میں اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُس دور کی دیگر خواتین پر جسمانی و ذہنی تبدیلی رونما ہوئی جس کی وجہ سے ان کا نکاح ہوا توپھر اعتراض کس بات کا ؟
تیسری بات یہ کہ: جب ہم سائنس کو دیکھتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ جو ممالک اور علاقے اکویٹر( equator)سے قریب ہیں وہاں جو لڑکیاں ہیں وہ جلدی جسمانی طور سے فٹ ہوجاتی ہیں ،ان کو حیض جلدی آنے لگتاہے ،اور الحمد للہ سعودی عربیہ کا علاقہ اسی اکویٹر کے قریب ہی نہیں بلکہ پورا کا پورا اسی کے اوپر ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں جو لڑکیاں ہیں وہ آج بھی جسمانی اور ذہنی طور سے جلدی فٹ ہوجاتی ہیں ۔تو آج سے چودہ سو سال پہلے اُس زمانے میں اگر اسی عرب کی حضرت عائشہ ہی نہیں اُس دور کی بہت سی خواتین جسمانی اور ذہنی طور سے فٹ ہوئیں تو کیا حرج ہے ؟
چوتھی بات یہ کہ : آپ دنیا کے الگ الگ ملکوں کے قانون پر ذرا نظر رکھیں ، تو معلوم ہوگا کہ چائنا میں کم سے کم شادی کرنے کی جوعمر ہے وہ 21 سال، ہمارے ہندوستان میں بھی لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سے بڑھا کر 21سال ہوگئی ہے ،جبکہ امریکہ میں شادی کی عمر 16سال ہے ، امریکہ کے پچاس صوبو ںمیں سے ایک صوبہ ہے( Pakshek ) وہاں شادی کرنے کی کم سے کم عمر جو ہے وہ 14 سال ہے ، رومن ایمپائر میں چلے جائیں ،نبی ﷺ سے پہلے وہاں اوریج عمر 12 سال تھی!
مطلب یہ کہ ہر ہر ملک کانکاح کی عمر کو لے کر اپناالگ الگ قانون ہے ،اسلام کا قانون عمر کو لے کرنہیں بلکہ یہ ہے کہ لڑکی جسمانی اور ذہنی طور سے تیار ہونی چاہیے ، اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 9 سال کی عمر میں جسمانی اور ذہنی طور پرالحمد للہ اس لائق تھیں کہ ان کی رخصتی 9 سال کی عمر میں ہو۔تو پھر اس پر واویلا کیوں؟
پانچویں بات یہ کہ : بھلا بتائیے نبی ﷺنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب 6 سال کی عمر میں ہی نکاح کرلیا تھا تو رخصتی بھی 6 سال میں ہی کیوں نہیں کی؟تین سال آ پ نے انتظار کیوں کیا ؟ اسی لیے نا کہ ابھی حضرت عائشہ 6 سال میں جسمانی اور ذہنی طور سے اُس لائق نہیں تھیں کہ ان کی رخصتی بھی ممکن ہوتی، لیکن جب وہ 9 سال میں اس لائق ہوگئیں تو آپ نے رخصتی کی ۔تو جسمانی اور ذہنی طور سے اس لائق ہونے کے بعد رخصتی پر اعتراض کیوں؟
چھٹویں بات یہ ہے کہ : آ پ ﷺ نے بے شمار مطلقہ اور بیوہ عورتوں سے نکاح کے بعد ایک باکرہ عورت سے 9 سال کی عمر میں ہی نکاح اس لیے کیا کیونکہ آپ کو اپنے گھر میں ایک ایسی عورت کی ضرورت تھی جو باہر کے اثرات سے محفوظ ہو،تاکہ وہ آپ ﷺکی جو عملی زندگی ہے اسے جوں کا توں ریکارڈ کرلے اور امت تک وہ افعال و اعمال دیانتداری سے پہنچا دے ، اور الحمد للہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا، یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے بے شمار مسائل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے ملتے ہیں ، اور آپ ﷺکی گھریلو زندگی کا بہت سارا مسئلہ آپ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ ہی ملتا ہے ۔چنانچہ راویوں کے حساب سے عورتوں میں یہی حضرت عائشہ ہیں جن سے سب سے زیادہ 2210حدیثیں مروی ہیں۔
اور یہ بات پریکٹیکلی ہے کہ جس لڑکی کی شادی جتنی کم عمر میں ہوتی ہے وہ اپنے شوہر کے گھریلوحالات سے جلدی سیٹ ہوجاتی ہے ،اور بہت ساری پریشانیوں کو برداشت کرکے صبر کر لے جاتی ہے ، جبکہ اس کے بالمقابل ایسی لڑکیاں جن کی شادی زیادہ عمر میں ہو اور وہ باہر کے ماحول و اثرات اپنے اندر خوب کیچ کی ہوئی ہوں تووہ شوہر اور اس کے گھر والوں کے حالات سے جلدی سیٹ نہیں ہوپاتیں کیونکہ انہیں دنیا کے حالات و اثرات کا بخوبی علم ہوتاہے ،وہ باہر کی دنیاکا پورا اثر لے کر آتی ہیں،اور وہی ماحول و اثر یہاں آنے کے بعد تلاش کرتی ہیں جس کہ وجہ سے انہیں سیٹ ہونے میں دیر لگتی ہے یا پھر معاملہ بگڑتے ہی طلاق و خلع کی نوبت آجاتی ہے ۔
ساتویں بات یہ ہے کہ : جس کی شادی نو سال کی عمر میں ہو رہی ہے اس کو اس کے گھر والوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے تو انِ معترضین کے پیٹ میں کیوں مروڑ پیدا ہوتی ہے ؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نو سال کی عمر میں رخصتی خود ان کی والدہ ام رومان کراتی ہیں،حدیث کے الفاظ ہیں : ’’فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ ۔۔۔ فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ ‘‘’’پھر ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا آئیں۔ ۔۔۔ اور انہوں نے مجھے آپ ﷺکے سپرد کر دیا، میری عمر اس وقت نو سال تھی‘‘[بخاری:۳۸۹۴] بھلا بتائیے ما ں سے زیادہ بیٹی کی جسمانی اورذہنی صلاحیت کو اور کون جان سکتا ہے ؟ماں سے زیادہ بیٹی کا خیر خواہ اور کون ہو سکتا ہے ؟ کیا ایک ماں اپنی بچی کی جسمانی اور ذہنی صلاحیت کو بھانپے بنا ایسے ہی شوہر کے حوالے کردے گی؟
اب بتائیے کہ نہ تو ان کے والدین، بھائی اوربہنوں کو کبھی اعتراض ہوا ،نہ معاشرے نے اعتراض کیا اور نہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس پر کبھی کوئی نکیر کی ، بلکہ خوشی بہ خوشی اس نکاح کو قبول ہی نہیں کیا بلکہ محبت و الفت کی ایسی مثال قائم کی کہ دنیا دیکھ کر دنگ رہ جائے ، اور محبت و الفت کے پھول نچھاور کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے نبی آخرالزماں ﷺ کا آخری سانس تک ساتھ دیا ۔تو اِن کو کیا تکلیف ہے ؟
کم عمری میں شادی کی تاریخی حقیقت: یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یورپ، ایشیاء ، افریقہ اور امیریکہ میں 9 سال سے 14 سال کی لڑکیوں کی شادیاں کردی جاتی تھیں۔مثلاًپر سینٹ آگاسٹین (Saint Augustine-350 AD) نے جس لڑکی سے شادی کی اس کی عمر 10 سال تھی۔راجا ریچرڈ2(King Richard -II – 1400 AD) نے جس لڑکی سے شادی کی اس کی عمر 7 سال کی تھی۔ہینری 8 (Henry 8) نے ایک 6 سال کی لڑکی سے شادی کی تھی۔
ایک نظر ادھر بھی: جو لوگ ہمارے نبیﷺکی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی پر اعتراض کرتے ہیں انہیں کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے ذرا اپنے گھر کی بھی خبر لینا چاہیے ، کہ آیا کہیں ان کے یہاں اس سے بھی بھیانک معاملہ تو نہیں ہے ؟ اور بھیانک معاملہ ہے ہی ! ذرا بال میکی رامائن اٹھا کر دیکھیے ، آپ کو ملے گا کہ رام نے سیتا سے چھ سال کی عمر میں صرف شادی ہی نہیں کی بلکہ سیتا کہتی ہیں کہ:’’ شادی کے بعد بارہ سال تک ’’اکشواکونشی مہاراج دشرتھ‘‘ کے محل میں رہ کر میں نے اپنے پتی (شوہر)کے ساتھ سبھی سکھ بھوگے ہیں‘‘(بال میکی رامائن)
قابل غور بات یہ کہ رام اور لکشمن کی شادی ایک ساتھ ہوئی ، رام کی سیتا سے چھ سال میں تو لکشمن کی سیتا کی چھوٹی بہن اُرملا سے کب ممکن ہے ؟ظاہر سی بات ہے چار یا پانچ سال میں ،کیونکہ ارملا سیتا سے چھوٹی تھیں۔
اور تو اور 1860 تک ہندوستانی قانون میں شادی کے وقت لڑکی کی عمر 10 سال معتبر تھی۔اگر ’’ منوسمرتی‘‘ کی بات کی جائے جو کہ ہندوؤں کی مقدس کتاب ہے، اس کے اعتبار سے بچی کی عمر شادی کے وقت 12 سال ہونی چاہیے اگر اس کے ہونے والے پتی کی عمر 30 ہو، اور اگر ہونے والے شوہر کی عمر 24 ہو، تو لڑکی کی عمر 8 ہونا چاہیے۔
پھر تم اپنی بچیوں کی شادی کم عمر میں کیوں نہیں کرتے؟ بھئی وہ اس لئے کہ کم یا زیادہ عمر میں شادی کرنا یہ کوئی واجبی حکم نہیں ہے ، اس معاملہ میں شریعت کی طرف سے کوئی جبر نہیں ہے کہ ہر کسی کو 9 سال میں ہی کرنی ہے ،آپ دیکھئے خود نبی ﷺنے الگ الگ عورتوں سے الگ الگ عمر میں نکاح کیا ہے ، جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ جس کو جس عمر میں مناسب معلوم ہو نکاح کرے ، ہاں اولیٰ اور افضل ضروریہی ہے کہ بلوغت کے بعد فوراً نکاح کرلیا جائے ۔
اور اپنی بچیوں کی شادی اس عمر میں مسلمان کیوں نہیں کریں گے اگر نبی اور صحابہ جیساکوئی شخص انہیں ملے تو!!!